زخمیوں کی مدد گار رکشے والی…
نئی دلی کی واحد خاتون رکشا ڈرائیور ہوں، سنیتا چوہدری
HYDERABAD:
سنیتا چوہدری 14 برس کی عمر میں اپنے سے دگنے عمر کے مرد کے ساتھ بیاہی گئیں۔۔۔ سسرال میں انہیں نہایت خطرناک تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ ''میرے سسرالیوں کو شکایت تھی کہ میں بہت کم جہیز لے کر آئی ہوں۔ وہ میرے والدین سے جہیز میں گاڑی کی توقع رکھتے تھے۔''
تشدد کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ ایک دن ان کے شوہر اپنے دوستوں کے ہمراہ آگرہ گئے اور ایک ویران راستے میں انہیں اتار کر ان پر چھڑیوں اور کانٹے دار شاخوں سے شدید تشدد کیا۔ سنیتا کے بقول، وہ انہیں زندہ دفن کر دینا چاہتے تھے، لیکن ان کی قسمت اچھی تھی کہ وہ زخمی حالت میں جان بچا کر نکلنے میں کام یاب ہو گئیں، لیکن ابھی ان کی دکھ کی گھڑیاں تمام نہ ہوئی تھیں۔ ان کے اپنے گھر والوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا، کیوں کہ ان کے ہاں یہ رِیت ہے کہ جب عورت اپنے سسرال چلی جاتی ہے، تو پھر اسے کندھوں پر ہی واپس آنا چاہیے۔ اس لیے اب ایک بہت کٹھن زندگی ان کی منتظر تھی۔۔۔
اسی دوران ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 15 برس تھی۔ نومولود بیٹا کافی بیمار رہا اور فقط آٹھ ماہ کی عمر میں ہی چل بسا۔ دنیا کی ستائی سنیتا پر ایک اور افتاد ٹوٹ پڑی، بقول ان کے کہ انہیں ایسا محسوس ہوا کہ بیٹے کے ساتھ ان کی زندگی بھی ختم ہو گئی ہے۔۔۔ لاچارگی کی اس گھڑی کے کسی لمحے ان کے ذہن میں انصاف کے حصول کی جدوجہد کا خیال آیا اور یوں تن تنہا ایک عدالتی جنگ کا آغاز کرتی ہیں۔۔۔ شوہر اور سسرالیوں کے خلاف عدالت میں ایک عرضی داخل کرا دی جاتی ہے، ان کا خاندان بدستور ان کی کسی بھی مدد سے گریزاں رہا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے والدین کی خبر گیری نہ چھوڑی۔ مقدمے کے دوران سسرالیوں کی جانب سے ان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی، اس لیے انہوں نے گائوں چھوڑ دیا اور دلی چلی آئیں۔
ایک طرف زندگی کی گاڑی آگے دھکیلنی ہے، تو دوسری طرف مقدمے کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہیں۔۔۔ کبھی گھروں میں کام کیا، تو کبھی فیکٹریوں کی مشقت جھیلی۔ عدالتی کارروائیوں کی وجہ سے ان کے کام کا حرج ہوتا، نتیجتاً تنگ دستی سے نبرد آزما ہونا پڑا۔۔۔ یوں انہیں خیال سوجھتا ہے کہ کیوں نہ رکشا چلا کر آمدنی کا ذریعہ پیدا کیا جائے۔ اس کے ذریعے وہ زیادہ سہولت اور آزادی سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے قابل ہوسکتی ہیں۔
یہ تقریباً دس برس پرانی بات ہے۔ جب کسی عورت کا یوں پبلک ٹرانسپورٹ چلانا اور بھی اچنبھے کی بات تھی۔ آج بھی ہندوستان میں خواتین ٹیکسیاں چلاتی تو نظر آجاتی ہیں، لیکن ایک رکشا چلاتی خاتون شاذ ونادر ہی دکھائی دیتی ہوگی۔ سنیتا چوہدری کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ آج بھی دلی شہر کے ہزاروں مرد ڈرائیوروں کے درمیان واحد خاتون رکشا ڈرائیور ہیں، مگر جب انہوں نے عام ڈگر کے برخلاف چلتے ہوئے اس کام کی ٹھانی، مگر انہیں تو کوئی کرائے پر گاڑی دینے کے لیے تیار تھا۔۔۔ نہ ہی کچھ ادھار دینے پر رضا مند کہ کسی طرح اپنے رکشے کا بندوبست کر سکیں۔
ادھر مقدمے کی کارروائی نے نیا رخ لیا، مقدمہ دلی سے ہریانہ منتقل کر دیا گیا۔۔۔ چاروناچار سنیتا بھی ہریانہ چلی آئیں۔۔۔ ساتھ ہی بھارتی صدر اور وزیراعظم کو اپنی مددکے لیے خط لکھا۔۔۔ دلی کی وزیراعلیٰ شیلا ڈکشٹ کے نام لکھی گئی عرضی کام آئی اور انہیں نرم شرائط پر قرض مل جاتا ہے، یوں سنیتا رکشا چلا کر زندگی کی کٹھنائیوں سے لڑتی ہیں اور دھیرے دھیرے قرض ادا کر کے بالآخر وہ اپنے رکشے کی مالک بن جاتی ہیں۔
دوسری طرف 12 برس کی صبر آزما جدوجہد کے بعد سنیتا چوہدری، شوہر اور سسرالیوں کے خلاف دائر مقدمے میں بھی کام یابی حاصل کرتی ہیں۔ عدالتی حکم کے مطابق ان کے شوہر کو زندان بھیج دیا جاتا ہے، ساتھ ان کے اخراجات پورے کرنے کی ذمہ داری بھی اس پر عائد کی جاتی ہے۔ مقدمے کے دوران سسرالیوں کی جانب سے رشوت کے ذریعے مقدمے کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں۔
35 سالہ سنیتا چوہدری اب محض ایک رکشا ڈرائیور نہیں، بلکہ دلی میں حقوق نسواں کی بھی ایک بڑی کارکن بھی بن چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''زندگی بہت کٹھن ہی کیوں نہ ہو، یہ جینے کے ڈھنگ سکھا ہی دیتی ہے۔''
انہیں اس دلی شہر میں رکشا چلاتے ہوئے 10 برس ہو چکے ہیں، جسے خواتین کے سفر کے حوالے سے دنیا کا چوتھا خطرناک ترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ سنیتا کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے یہ نچلی سطح کی ملازمت تصور کی جاتی ہے اور یقیناً خواتین کے لیے یہ کوئی سود مند اور مناسب کام نہیں، کیوں کہ دیگر سواریوں کی بہ نسبت زیادہ غیر محفوظ ہے۔۔۔ اس میں دروازے بھی نہیں۔ یہ ایک پُر خطر کام ہے۔
یہاں اچھے برے ہر قسم کے لوگ آتے ہیں اور ہمیں انہیں سوار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود اب رکشا چلانا گویا سنیتا کا عشق بن چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ''اگر کوئی مجھے بھاری رقم کے عوض بھی یہ کام چھوڑنے کے لیے کہے، تب بھی میں یہ نہیں چھوڑوں گی، کیوں کہ میرے اس رکشے کے پیچھے میری ایک جدوجہد کار فرما ہے اور مجھے اپنے رکشے سے بہت محبت ہے۔''
سنیتا چوہدری اپنا اکثر وقت اور وسائل دوسروں کی ہر ممکن حد تک مدد کرنے میں صرف کرتی ہیں۔ وہ دلی پولیس کی تربیت یافتہ شہری دفاع کی فورس کا حصہ ہیں، جو آتش زدگی اور گاڑیوں کے مختلف حادثات کے موقع پر متاثرین کی مدد کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے رکشے کے پچھلی طرف لکھوا رکھا ہے:
''زندگی ایک جدوجہد ہے۔۔۔ یہ حادثے میں زخمی ہونے والوں کے لیے بلا معاوضہ سواری ہے۔''
سنیتا چوہدری سیاسی عزائم بھی رکھتی ہیں۔ بقول ان کے کہ اگر آپ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں، تو آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کام آسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دو بار لوک سبھا (ایوان زیریں) کے انتخابی دنگل میں اترنے کا تجربہ بھی کر چکی ہیں۔ اگرچہ 2014ء کے انتخابات میں انہیں محض 600 رائے دہندگان کا اعتماد حاصل ہو سکا، جب کہ 2009ء کے چنائو میں انہوں نے ڈیڑھ ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔
دوبارہ شادی کرنے کا خیال سنیتا کو ان کے تلخ ماضی کے کچوکے لگاتا ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں ''میں صرف اسی شخص سے شادی کروں گی جو میرے کام سے محبت کرتا ہوگا۔''
سنیتا چوہدری 14 برس کی عمر میں اپنے سے دگنے عمر کے مرد کے ساتھ بیاہی گئیں۔۔۔ سسرال میں انہیں نہایت خطرناک تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ ''میرے سسرالیوں کو شکایت تھی کہ میں بہت کم جہیز لے کر آئی ہوں۔ وہ میرے والدین سے جہیز میں گاڑی کی توقع رکھتے تھے۔''
تشدد کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ ایک دن ان کے شوہر اپنے دوستوں کے ہمراہ آگرہ گئے اور ایک ویران راستے میں انہیں اتار کر ان پر چھڑیوں اور کانٹے دار شاخوں سے شدید تشدد کیا۔ سنیتا کے بقول، وہ انہیں زندہ دفن کر دینا چاہتے تھے، لیکن ان کی قسمت اچھی تھی کہ وہ زخمی حالت میں جان بچا کر نکلنے میں کام یاب ہو گئیں، لیکن ابھی ان کی دکھ کی گھڑیاں تمام نہ ہوئی تھیں۔ ان کے اپنے گھر والوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا، کیوں کہ ان کے ہاں یہ رِیت ہے کہ جب عورت اپنے سسرال چلی جاتی ہے، تو پھر اسے کندھوں پر ہی واپس آنا چاہیے۔ اس لیے اب ایک بہت کٹھن زندگی ان کی منتظر تھی۔۔۔
اسی دوران ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 15 برس تھی۔ نومولود بیٹا کافی بیمار رہا اور فقط آٹھ ماہ کی عمر میں ہی چل بسا۔ دنیا کی ستائی سنیتا پر ایک اور افتاد ٹوٹ پڑی، بقول ان کے کہ انہیں ایسا محسوس ہوا کہ بیٹے کے ساتھ ان کی زندگی بھی ختم ہو گئی ہے۔۔۔ لاچارگی کی اس گھڑی کے کسی لمحے ان کے ذہن میں انصاف کے حصول کی جدوجہد کا خیال آیا اور یوں تن تنہا ایک عدالتی جنگ کا آغاز کرتی ہیں۔۔۔ شوہر اور سسرالیوں کے خلاف عدالت میں ایک عرضی داخل کرا دی جاتی ہے، ان کا خاندان بدستور ان کی کسی بھی مدد سے گریزاں رہا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے والدین کی خبر گیری نہ چھوڑی۔ مقدمے کے دوران سسرالیوں کی جانب سے ان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی، اس لیے انہوں نے گائوں چھوڑ دیا اور دلی چلی آئیں۔
ایک طرف زندگی کی گاڑی آگے دھکیلنی ہے، تو دوسری طرف مقدمے کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہیں۔۔۔ کبھی گھروں میں کام کیا، تو کبھی فیکٹریوں کی مشقت جھیلی۔ عدالتی کارروائیوں کی وجہ سے ان کے کام کا حرج ہوتا، نتیجتاً تنگ دستی سے نبرد آزما ہونا پڑا۔۔۔ یوں انہیں خیال سوجھتا ہے کہ کیوں نہ رکشا چلا کر آمدنی کا ذریعہ پیدا کیا جائے۔ اس کے ذریعے وہ زیادہ سہولت اور آزادی سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے قابل ہوسکتی ہیں۔
یہ تقریباً دس برس پرانی بات ہے۔ جب کسی عورت کا یوں پبلک ٹرانسپورٹ چلانا اور بھی اچنبھے کی بات تھی۔ آج بھی ہندوستان میں خواتین ٹیکسیاں چلاتی تو نظر آجاتی ہیں، لیکن ایک رکشا چلاتی خاتون شاذ ونادر ہی دکھائی دیتی ہوگی۔ سنیتا چوہدری کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ آج بھی دلی شہر کے ہزاروں مرد ڈرائیوروں کے درمیان واحد خاتون رکشا ڈرائیور ہیں، مگر جب انہوں نے عام ڈگر کے برخلاف چلتے ہوئے اس کام کی ٹھانی، مگر انہیں تو کوئی کرائے پر گاڑی دینے کے لیے تیار تھا۔۔۔ نہ ہی کچھ ادھار دینے پر رضا مند کہ کسی طرح اپنے رکشے کا بندوبست کر سکیں۔
ادھر مقدمے کی کارروائی نے نیا رخ لیا، مقدمہ دلی سے ہریانہ منتقل کر دیا گیا۔۔۔ چاروناچار سنیتا بھی ہریانہ چلی آئیں۔۔۔ ساتھ ہی بھارتی صدر اور وزیراعظم کو اپنی مددکے لیے خط لکھا۔۔۔ دلی کی وزیراعلیٰ شیلا ڈکشٹ کے نام لکھی گئی عرضی کام آئی اور انہیں نرم شرائط پر قرض مل جاتا ہے، یوں سنیتا رکشا چلا کر زندگی کی کٹھنائیوں سے لڑتی ہیں اور دھیرے دھیرے قرض ادا کر کے بالآخر وہ اپنے رکشے کی مالک بن جاتی ہیں۔
دوسری طرف 12 برس کی صبر آزما جدوجہد کے بعد سنیتا چوہدری، شوہر اور سسرالیوں کے خلاف دائر مقدمے میں بھی کام یابی حاصل کرتی ہیں۔ عدالتی حکم کے مطابق ان کے شوہر کو زندان بھیج دیا جاتا ہے، ساتھ ان کے اخراجات پورے کرنے کی ذمہ داری بھی اس پر عائد کی جاتی ہے۔ مقدمے کے دوران سسرالیوں کی جانب سے رشوت کے ذریعے مقدمے کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں۔
35 سالہ سنیتا چوہدری اب محض ایک رکشا ڈرائیور نہیں، بلکہ دلی میں حقوق نسواں کی بھی ایک بڑی کارکن بھی بن چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''زندگی بہت کٹھن ہی کیوں نہ ہو، یہ جینے کے ڈھنگ سکھا ہی دیتی ہے۔''
انہیں اس دلی شہر میں رکشا چلاتے ہوئے 10 برس ہو چکے ہیں، جسے خواتین کے سفر کے حوالے سے دنیا کا چوتھا خطرناک ترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ سنیتا کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے یہ نچلی سطح کی ملازمت تصور کی جاتی ہے اور یقیناً خواتین کے لیے یہ کوئی سود مند اور مناسب کام نہیں، کیوں کہ دیگر سواریوں کی بہ نسبت زیادہ غیر محفوظ ہے۔۔۔ اس میں دروازے بھی نہیں۔ یہ ایک پُر خطر کام ہے۔
یہاں اچھے برے ہر قسم کے لوگ آتے ہیں اور ہمیں انہیں سوار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود اب رکشا چلانا گویا سنیتا کا عشق بن چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ''اگر کوئی مجھے بھاری رقم کے عوض بھی یہ کام چھوڑنے کے لیے کہے، تب بھی میں یہ نہیں چھوڑوں گی، کیوں کہ میرے اس رکشے کے پیچھے میری ایک جدوجہد کار فرما ہے اور مجھے اپنے رکشے سے بہت محبت ہے۔''
سنیتا چوہدری اپنا اکثر وقت اور وسائل دوسروں کی ہر ممکن حد تک مدد کرنے میں صرف کرتی ہیں۔ وہ دلی پولیس کی تربیت یافتہ شہری دفاع کی فورس کا حصہ ہیں، جو آتش زدگی اور گاڑیوں کے مختلف حادثات کے موقع پر متاثرین کی مدد کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے رکشے کے پچھلی طرف لکھوا رکھا ہے:
''زندگی ایک جدوجہد ہے۔۔۔ یہ حادثے میں زخمی ہونے والوں کے لیے بلا معاوضہ سواری ہے۔''
سنیتا چوہدری سیاسی عزائم بھی رکھتی ہیں۔ بقول ان کے کہ اگر آپ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں، تو آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کام آسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دو بار لوک سبھا (ایوان زیریں) کے انتخابی دنگل میں اترنے کا تجربہ بھی کر چکی ہیں۔ اگرچہ 2014ء کے انتخابات میں انہیں محض 600 رائے دہندگان کا اعتماد حاصل ہو سکا، جب کہ 2009ء کے چنائو میں انہوں نے ڈیڑھ ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔
دوبارہ شادی کرنے کا خیال سنیتا کو ان کے تلخ ماضی کے کچوکے لگاتا ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں ''میں صرف اسی شخص سے شادی کروں گی جو میرے کام سے محبت کرتا ہوگا۔''