مونگ پھلی سے ہیرا بنالیا گیا
قدرتی طور پر ہیرے زمین کے سینے میں 800 کلومیٹر کی گہرائی میں تشکیل پاتے ہیں
WASHINGTON:
ہیرا دنیا کا سب سے قیمتی پتھر ہے اور اسے کاربن کی خالص ترین شکل بھی کہا جاتا ہے۔
قدرتی طور پر ہیرے زمین کے سینے میں 800 کلومیٹر کی گہرائی میں تشکیل پاتے ہیں جہاں درجۂ حرارت 2200 ڈگری سیلسیئس اور دباؤ، فضائی دباؤ سے 13لاکھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس بلند ترین درجۂ حرارت اور دبائو کے زیراثر کاربن قلمی شکل اختیار کرتے ہوئے شفاف اور چمک دار ساخت میں ڈھل جاتا ہے جسے ہم سب ہیرے کے نام سے جانتے ہیں۔ ہیرا اپنی خالص ترین شکل میں شفاف، چمک دار اور بے رنگ ہوتا ہے۔ سخت ترین ہونے کی وجہ سے اس میں ملاوٹ کا امکان انتہائی محدود ہوتا ہے۔ تاہم اگر اس میں معمولی سی ملاوٹ ہوجائے تو پھر یہ نیلا، پیلا، بھورا، سبز، جامنی، گلابی اور مالٹائی ہوجاتا ہے اور اپنی خالص ترین صورت سے زیادہ دل کش معلوم ہوتا ہے۔
آج ہیروں کا سب سے زیادہ استعمال بہ طور جواہرات کیا جاتا ہے۔ ان کی چمک دمک کی وجہ سے ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ماہرین کے نزدیک ہیرے کی چار بنیادی خصوصیات اس کی اہمیت یا اس کی قیمت کا تعین کرتی ہیں۔ یہ چار خصوصیات قیراط، کٹائی، رنگ اور شفافیت ہیں۔
قدرتی طور پر ہیرے کو تشکیل پانے میں ایک سے تین ارب سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے! مگر ہیرے مصنوعی طور پر بھی بنائے جاتے ہیں۔ مصنوعی طور پر ہیرے کی تخلیق کا عمل چند دنوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ مصنوعی طور پر ہیروں کی تیاری کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کاربن بھی مختلف مآخذ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ تاہم حال ہی میں ایک جرمن سائنس داں ڈین فراسٹ نے مونگ پھلی کے مکھن ( peanut butter ) سے ہیرا بنا کر سب کو حیران کردیا ( مونگ پھلی کا مکھن دراصل ان پھلیوں کو کچل کر یا بھون کر بنائی گئی لئی یا پیسٹ ہوتا ہے جسے عموماً ڈبل روٹی کے توس پر لگاکر کھایا جاتا ہے )
اس بات کا امکان نہیں کہ فراسٹ کے تیارکردہ ہیروں کو بہ طور جواہرات استعمال کیا جاسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ہیروں کا قطر محض تین ملی میٹر ہے جوکہ 0.10 قیراط سے بھی کم ہے۔ یعنی ہیروں کی جسامت اتنی کم ہے کہ انھیں زیورات میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ فراسٹ کی توجہ ان ہیروں کے صنعتی استعمال پر ہے۔ زیورات کے علاوہ ہیروں کا مختلف صنعتوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہیروں کے صنعتی استعمال میں ان کی ظاہری خوب صورتی کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔
فراسٹ نے ہیرے بنانے کے لیے اگرچہ مونگ پھلی کے مکھن کو ' خام مال ' یعنی کاربن کے ماخذ کے طور پر استعمال کیا، مگر اس کا دعویٰ ہے کہ ہیرا سازی کے لیے اس کے اختیار کردہ طریقے میں معمولی تبدیلیوں کے ذریعے حسب منشا خصوصیات کے حامل ہیرے تیار کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً غیردھاتی عنصر بورون کے ملاوٹ شدہ ہیروں کا نیم موصل( semiconductor ) میں استعمال ان میں درکار حرارت کی مقدار میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں فراسٹ کا کہنا ہے کہ ہیروں پر کاربن نینوٹیوب کی تہہ بچھا کر انھیں دنیا کے مضبوط ترین میٹیریل کی بھی شکل دی جاسکتی ہے۔
ہیرا دنیا کا سب سے قیمتی پتھر ہے اور اسے کاربن کی خالص ترین شکل بھی کہا جاتا ہے۔
قدرتی طور پر ہیرے زمین کے سینے میں 800 کلومیٹر کی گہرائی میں تشکیل پاتے ہیں جہاں درجۂ حرارت 2200 ڈگری سیلسیئس اور دباؤ، فضائی دباؤ سے 13لاکھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس بلند ترین درجۂ حرارت اور دبائو کے زیراثر کاربن قلمی شکل اختیار کرتے ہوئے شفاف اور چمک دار ساخت میں ڈھل جاتا ہے جسے ہم سب ہیرے کے نام سے جانتے ہیں۔ ہیرا اپنی خالص ترین شکل میں شفاف، چمک دار اور بے رنگ ہوتا ہے۔ سخت ترین ہونے کی وجہ سے اس میں ملاوٹ کا امکان انتہائی محدود ہوتا ہے۔ تاہم اگر اس میں معمولی سی ملاوٹ ہوجائے تو پھر یہ نیلا، پیلا، بھورا، سبز، جامنی، گلابی اور مالٹائی ہوجاتا ہے اور اپنی خالص ترین صورت سے زیادہ دل کش معلوم ہوتا ہے۔
آج ہیروں کا سب سے زیادہ استعمال بہ طور جواہرات کیا جاتا ہے۔ ان کی چمک دمک کی وجہ سے ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ماہرین کے نزدیک ہیرے کی چار بنیادی خصوصیات اس کی اہمیت یا اس کی قیمت کا تعین کرتی ہیں۔ یہ چار خصوصیات قیراط، کٹائی، رنگ اور شفافیت ہیں۔
قدرتی طور پر ہیرے کو تشکیل پانے میں ایک سے تین ارب سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے! مگر ہیرے مصنوعی طور پر بھی بنائے جاتے ہیں۔ مصنوعی طور پر ہیرے کی تخلیق کا عمل چند دنوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ مصنوعی طور پر ہیروں کی تیاری کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کاربن بھی مختلف مآخذ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ تاہم حال ہی میں ایک جرمن سائنس داں ڈین فراسٹ نے مونگ پھلی کے مکھن ( peanut butter ) سے ہیرا بنا کر سب کو حیران کردیا ( مونگ پھلی کا مکھن دراصل ان پھلیوں کو کچل کر یا بھون کر بنائی گئی لئی یا پیسٹ ہوتا ہے جسے عموماً ڈبل روٹی کے توس پر لگاکر کھایا جاتا ہے )
اس بات کا امکان نہیں کہ فراسٹ کے تیارکردہ ہیروں کو بہ طور جواہرات استعمال کیا جاسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ہیروں کا قطر محض تین ملی میٹر ہے جوکہ 0.10 قیراط سے بھی کم ہے۔ یعنی ہیروں کی جسامت اتنی کم ہے کہ انھیں زیورات میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ فراسٹ کی توجہ ان ہیروں کے صنعتی استعمال پر ہے۔ زیورات کے علاوہ ہیروں کا مختلف صنعتوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہیروں کے صنعتی استعمال میں ان کی ظاہری خوب صورتی کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔
فراسٹ نے ہیرے بنانے کے لیے اگرچہ مونگ پھلی کے مکھن کو ' خام مال ' یعنی کاربن کے ماخذ کے طور پر استعمال کیا، مگر اس کا دعویٰ ہے کہ ہیرا سازی کے لیے اس کے اختیار کردہ طریقے میں معمولی تبدیلیوں کے ذریعے حسب منشا خصوصیات کے حامل ہیرے تیار کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً غیردھاتی عنصر بورون کے ملاوٹ شدہ ہیروں کا نیم موصل( semiconductor ) میں استعمال ان میں درکار حرارت کی مقدار میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں فراسٹ کا کہنا ہے کہ ہیروں پر کاربن نینوٹیوب کی تہہ بچھا کر انھیں دنیا کے مضبوط ترین میٹیریل کی بھی شکل دی جاسکتی ہے۔