جنوبی کوریا کا کروڑ پتی بحرین کے گلی کوچوں میں کچرا چُنتا ہے
پچھلے 11 برس سے یو، بحرین میں مقیم ہے، اور ہر روز سڑکوں پر جھاڑو لگانا اور کچرا اٹھانا اس کا معمول ہے۔
بحرین کی سڑکوں پر صبح سویرے عام سے گھریلو کپڑے پہنے ایک غیرملکی جھاڑو لگاتا اور کوڑا کرکٹ اٹھاتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس شخص کا نام یو ہے اور اس کا تعلق جنوبی کوریا سے ہے۔
پچھلے 11 برس سے یو، بحرین میں مقیم ہے، اور ہر روز سڑکوں پر جھاڑو لگانا اور کچرا اٹھانا اس کا معمول ہے۔ شائد آپ سمجھ رہے ہوں کہ وہ کوئی غریب آدمی ہے اور گزراوقات کے لیے خاکروب بنا ہوا ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ مسٹر یو جنوبی کوریا کا ایک کاروباری اور کروڑ پتی شخص ہے۔ بحرین کو بھی اس نے کاروباری مقاصد سے ہی اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا ہے۔
صفائی ستھرائی سے مسٹر یو کو جنون کی حد لگائو ہے بلکہ اسے خبط کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتا ہے، اور پو پھٹتے ہی سڑکوں پر ' مٹر گشت ' کرنا شروع کردیتا ہے۔ خلیج فارس کے کنارے واقع چھوٹے سے جزیرہ نما ملک میں معیار زندگی بہت بلند ہے۔
شہری زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح حکومت صفائی ستھرائی پر بھی بہت توجہ دیتی ہے۔ مگر اپنی عادت سے مجبور کوریائی شہری اس کام میں حکومت کا ہاتھ بٹانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے، اور جہاں کہیں اسے کوڑا کرکٹ نظر آئے اسے اٹھاکر ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھیلے میں ڈال لیتا ہے۔ یو سیلوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ کوڑا کرکٹ کیوں اٹھاتا ہے جب کہ اس کام کے لیے سرکاری عملہ موجود ہے، تو اس کا جواب ہوتا ہے،'' کیوں کہ میں یہ کرنا چاہتا ہوں!''
اس عادت کی وجہ سے یو کو اس کے پڑوسی اور ملنے جلنے والے ''باس آف کلیننگ'' کی عرفیت سے پکارنے لگے ہیں۔ یو کا کہنا ہے اسے لوگوں کی صحت کی فکر ہے۔ سرکاری اہل کار اپنا کام انجام دیتے ہیں، اس کے باوجود سڑکوں پر کافی مقدار میں کچرا پڑا رہ جاتا ہے، جو ہمیں بیمار کرسکتا ہے۔ یو کے مطابق لوگوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے وہ یہ کام کرتا ہے۔
یو کو صفائی ستھرائی میں مصروف دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسے کوڑا کرکٹ سے سخت نفرت ہے۔ یہاں تک کہ وہ سگریٹ کے ٹوٹے بھی سڑک پر پڑے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ اپنی اس عادت سے یو مالی فائدہ بھی اٹھارہا ہے۔ وہ کوڑا کرکٹ مخصوص تھیلوں میں جمع کرتا جاتا ہے، اور جب بڑی تعداد میں کچرا جمع ہوجاتا ہے تو اسے ری سائیکلنگ کے لیے اپنے آبائی وطن بھیج دیتا ہے۔ کچرے کے ڈھیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یو کہتا ہے کہ یہ کوڑا کرکٹ نہیں بلکہ دولت ہے۔
سڑکوں سے کچرا جمع کرتا ہوا یو اکثر راہ گیروں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ ایک بار وہ پولیس اہل کاروں کی نظروں میں بھی آگیا تھا۔ سڑک سے گزرتے ہوئے پولیس اہل کار یو کو کچرا چُنتے ہوئے دیکھ کر اس کے پاس چلے آئے۔ انھوں نے غیرملکی سے سوال کیا کہ وہ کیا کررہا ہے؟ یو کی جانب سے وضاحت ملنے پر انھوں نے پوچھا کہ اگر وہ صفائی ستھرائی کررہا ہے تو اس کا یونیفارم کہاں ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ اسے بلدیاتی محکمے کا خاکروب سمجھ بیٹھے تھے۔
یو اپنے عربی پڑوسیوں اور دوست احباب میں بہت مقبول ہے۔ وہ سب یو کے اس ملک کو صاف ستھرا رکھنے کے جذبے کو سراہتے ہیں جو اس کا اپنا وطن نہیں ہے۔ وہ اسے سادگی، عجزوانکساری اور خوش خلقی کا پیکر اور بحرین کے نواجونوں کے لیے مثالی نمونہ قرار دیتے ہیں۔
پچھلے 11 برس سے یو، بحرین میں مقیم ہے، اور ہر روز سڑکوں پر جھاڑو لگانا اور کچرا اٹھانا اس کا معمول ہے۔ شائد آپ سمجھ رہے ہوں کہ وہ کوئی غریب آدمی ہے اور گزراوقات کے لیے خاکروب بنا ہوا ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ مسٹر یو جنوبی کوریا کا ایک کاروباری اور کروڑ پتی شخص ہے۔ بحرین کو بھی اس نے کاروباری مقاصد سے ہی اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا ہے۔
صفائی ستھرائی سے مسٹر یو کو جنون کی حد لگائو ہے بلکہ اسے خبط کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتا ہے، اور پو پھٹتے ہی سڑکوں پر ' مٹر گشت ' کرنا شروع کردیتا ہے۔ خلیج فارس کے کنارے واقع چھوٹے سے جزیرہ نما ملک میں معیار زندگی بہت بلند ہے۔
شہری زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح حکومت صفائی ستھرائی پر بھی بہت توجہ دیتی ہے۔ مگر اپنی عادت سے مجبور کوریائی شہری اس کام میں حکومت کا ہاتھ بٹانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے، اور جہاں کہیں اسے کوڑا کرکٹ نظر آئے اسے اٹھاکر ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھیلے میں ڈال لیتا ہے۔ یو سیلوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ کوڑا کرکٹ کیوں اٹھاتا ہے جب کہ اس کام کے لیے سرکاری عملہ موجود ہے، تو اس کا جواب ہوتا ہے،'' کیوں کہ میں یہ کرنا چاہتا ہوں!''
اس عادت کی وجہ سے یو کو اس کے پڑوسی اور ملنے جلنے والے ''باس آف کلیننگ'' کی عرفیت سے پکارنے لگے ہیں۔ یو کا کہنا ہے اسے لوگوں کی صحت کی فکر ہے۔ سرکاری اہل کار اپنا کام انجام دیتے ہیں، اس کے باوجود سڑکوں پر کافی مقدار میں کچرا پڑا رہ جاتا ہے، جو ہمیں بیمار کرسکتا ہے۔ یو کے مطابق لوگوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے وہ یہ کام کرتا ہے۔
یو کو صفائی ستھرائی میں مصروف دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسے کوڑا کرکٹ سے سخت نفرت ہے۔ یہاں تک کہ وہ سگریٹ کے ٹوٹے بھی سڑک پر پڑے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ اپنی اس عادت سے یو مالی فائدہ بھی اٹھارہا ہے۔ وہ کوڑا کرکٹ مخصوص تھیلوں میں جمع کرتا جاتا ہے، اور جب بڑی تعداد میں کچرا جمع ہوجاتا ہے تو اسے ری سائیکلنگ کے لیے اپنے آبائی وطن بھیج دیتا ہے۔ کچرے کے ڈھیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یو کہتا ہے کہ یہ کوڑا کرکٹ نہیں بلکہ دولت ہے۔
سڑکوں سے کچرا جمع کرتا ہوا یو اکثر راہ گیروں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ ایک بار وہ پولیس اہل کاروں کی نظروں میں بھی آگیا تھا۔ سڑک سے گزرتے ہوئے پولیس اہل کار یو کو کچرا چُنتے ہوئے دیکھ کر اس کے پاس چلے آئے۔ انھوں نے غیرملکی سے سوال کیا کہ وہ کیا کررہا ہے؟ یو کی جانب سے وضاحت ملنے پر انھوں نے پوچھا کہ اگر وہ صفائی ستھرائی کررہا ہے تو اس کا یونیفارم کہاں ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ اسے بلدیاتی محکمے کا خاکروب سمجھ بیٹھے تھے۔
یو اپنے عربی پڑوسیوں اور دوست احباب میں بہت مقبول ہے۔ وہ سب یو کے اس ملک کو صاف ستھرا رکھنے کے جذبے کو سراہتے ہیں جو اس کا اپنا وطن نہیں ہے۔ وہ اسے سادگی، عجزوانکساری اور خوش خلقی کا پیکر اور بحرین کے نواجونوں کے لیے مثالی نمونہ قرار دیتے ہیں۔