تھرپارکر سانحہ مجرمانہ غفلت
تھرپارکر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے وہاں مور ناچتے تھے اور اب موت رقص کرتی ہے ۔
تھرپارکر میں صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے تمام حکومتی دعوے اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے جب پیر کو بھی 11 معصوم بچے موت کی نیند سو گئے ۔ علاوہ ازیں این آئی سی ایچ کے ماہرامراض اطفال کا کہنا ہے کہ صحت کے نظام کو فعال کرنے کی ضرورت ہے ۔
تھر کا بے رحم قحط صرف 48 روز میں 81 بچوں سمیت 88 افراد کی زندگیاں ختم کرچکا ہے، رواں ماہ 40 بچے جاں بحق ہوگئے جب کہ رواں سال مرنے والوں کی تعداد 459 ہوگئی۔ بلاشبہ تھر کی مخدوش صورتحال الم ناک بد انتظامی کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ ابھی تک سندھ حکومت کو اس سانحے کی اندوہ ناکی کا صحیح ادراک نہیں ہوا ۔ جب کہ درجنوں معصوم تھری بچوں کی درد انگیز اموات سے جہاں حکومتی مشینری کو فعالیت اور مستعدی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے ہلاکتوں کی فوری روک تھام کرنی چاہیے تھی وہاں بلیم گیم کا سلسلہ جاری ہے، اور وزیراعلیٰ سمیت سیاسی رہنما ،وزرا اور تھر کی ضلعی انتظامیہ کے کرتا دھرتا تھر کی پر آشوب حالات کی ذمے داری تسلیم کرنے سے گریز کا افسوس ناک رویہ اپنائے ہوئے ہیں ، دوسری طرف ابھی تک ٹھوس اقدامات کے بجائے وعدوں پر کاروبار حکومت چلانے کی باتیں ہورہی ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ تھر دنیا کا واحد لق ودق صحرا نہیں ،عالمی سروے کے مطابق یورپ ،امریکا، مشرق وسطیٰ،ایشیا اور افریقہ کے صحرا میں پھول کھلنے کے جدید منصوبے روبہ عمل لائے گئے ۔ دبئی، شارجہ ، چین، روس ، بھارت سمیت متعدد ممالک نے ڈیزرٹیفکیشن سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے کنونش اور پروگراموں کے تحت ماسٹر پلان بنائے، عالمی تربیتی کورسز کرائے، شارجہ نے کرکٹ سیریز کے لیے صحرا میں نخلستان بنوائے۔ افریقہ میں اوآئی سی انٹرنیشنل کے تحت فوڈ سیکیورٹی ،غذائی ضروریات، پینے کے صاف پانی کی فراہمی ، سینی ٹیشن،اور زرعی صنعتوں کے جال پھیلانے کی منظم کوششیں کی گئی ہیں، بھارت میں راجستھان کی صورتحال تھر سے قطعی مختلف ہے بلکہ جتنی بھوک، بے بسی اور غربت و ناخواندگی تھر کا مقدر بنادی گئی ہے وہ بھارتی راجستھان کی نہیں ہے۔
وہ بھارت میں سیاحت کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر ہے، جب کہ دونوں کی سرحدیں ملتی ہیں، بھارتی حکام ڈیزرٹ کے کئی ترقیاتی پروگرام مکمل کرچکے ہیں، اس کی انتظامیہ نے فطرت کے حسن کو برقرار رکھا ہے ، جودھ پور ،جے پور، بیکانیر،جیسلمیر کی جھیلیں ، صحرائی قلعے اور محلات ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا دل موہ لیتے ہیں ۔ چینی حکومت نے ایرڈ زون کا نقشہ بدلنے کے لاتعداد حیران کن منصوبے بنائے ۔ لیکن تھر کے عوام صرف بیانات کا شور سنتے آئے ہیں ۔
تاہم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کی چیئرپرسن ماروی میمن نے خوشخبری دی ہے کہ وزیراعظم جلد تھرپار کے عوام کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان کرینگے ۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ خشک سالی ایک صوبائی معاملہ ہے تاہم وفاقی حکومت اس پر کوئی سیاست نہیں کرے گی بلکہ علاقہ میں امدادی سرگرمیوں پر توجہ دے گی ۔ حکومت سندھ نے پیر کو سندھ اسمبلی میں یقین دہانی کرائی کہ تھر کے مسئلے کی تحقیقات کے لیے ارکان اسمبلی کی کمیٹی جلد تشکیل دی جائے گی ۔ یہ یقین دہانی فنکشنل لیگ کے رکن امتیازشیخ کی تھرسے متعلق تحریک التوا پرکرائی گئی۔ وزیرصحت جام مہتاب حسین ڈاہر نے کہا کہ ہم نے ایک آزاد اور اچھی ساکھ کے حامل ادارے '' آغا خان اسپتال '' کوخط لکھ کر درخواست کی ہے کہ وہ اپنے ماہرین کی ٹیم کو تھر بھیجیں وہ بتائیں کہ اموات کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں ۔
آغا خان اسپتال کی ٹیم تھر روانہ کردی ہے۔ ایک دو دن میں اس کی رپورٹ آجائے گی ۔ مطلب یہ ہے کہ جو کام تھر سانحہ کے حوالے سے فوری کرنے کا تھا اس پر ابھی تک تحقیقات کا ڈول ڈالا جارہا ہے ۔جب کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے تھر میں بچوں کی اموات پر وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی کابینہ سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سندھ عوام کو خوراک فراہم نہیں کرسکتی، تھرپارکر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے وہاں مور ناچتے تھے اور اب موت رقص کرتی ہے ، ادھر بلوچستان کے وزیر ریونیو ، آبکاری و ٹرانسپورٹ شیخ جعفر مندوخیل نے کہا ہے کہ وہ ژوب کو خشک سالی کے بدترین اثرات سے بچا کر تھر نہیں بننے دیں گے، جئے سندھ قومی محاذ کے چیئر مین نے کہا ہے کہ تھر کے لیے بڑے بڑے پیکیجز کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن سارا پیسہ کرپشن اور کمیشن کی نذر ہوجاتا ہے، متاثرین کو کسی بھی طرح کا ریلیف نہیں مل رہا ۔ ان سارے بیانات و الزامات کے اندر سے حقیقت اور سچ کی جستجو ضروری ہے ۔
سب سے بنیادی کام بچوں کی ہلاکتوں کو روکنا ہے ، بیماریوں سے تحفظ دینا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے اور اس باب میں مجرمانہ غفلت ہوئی ہے ۔ ایک بڑے ''شیک اپ'' کی ضرورت ہے، احتساب ہونا چاہیے کہ اتنی اموات کیوں ہوئیں؟ جب کہ سچ یہ ہے کہ تھر کے عوام اور معصوم بچے رحم اور توجہ کے مستحق ہیں ۔تھر کے عوام کی امیدیں جمہوری نظام اور حکومتی اقدامات سے وابستہ ہیں ۔ تھر میں انفرااسٹرکچر ، تعلیم ، خوراک ، اور صحت سمیت زرعی صنعتوں کے قیام، اس کے تاریخی اور ثقافتی مقامات کی نگہداشت اورسیاحتی اہمیت کو دوبالا کرنے کے لیے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھیں ۔عمل کا یہی وقت ہے۔
تھر کا بے رحم قحط صرف 48 روز میں 81 بچوں سمیت 88 افراد کی زندگیاں ختم کرچکا ہے، رواں ماہ 40 بچے جاں بحق ہوگئے جب کہ رواں سال مرنے والوں کی تعداد 459 ہوگئی۔ بلاشبہ تھر کی مخدوش صورتحال الم ناک بد انتظامی کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ ابھی تک سندھ حکومت کو اس سانحے کی اندوہ ناکی کا صحیح ادراک نہیں ہوا ۔ جب کہ درجنوں معصوم تھری بچوں کی درد انگیز اموات سے جہاں حکومتی مشینری کو فعالیت اور مستعدی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے ہلاکتوں کی فوری روک تھام کرنی چاہیے تھی وہاں بلیم گیم کا سلسلہ جاری ہے، اور وزیراعلیٰ سمیت سیاسی رہنما ،وزرا اور تھر کی ضلعی انتظامیہ کے کرتا دھرتا تھر کی پر آشوب حالات کی ذمے داری تسلیم کرنے سے گریز کا افسوس ناک رویہ اپنائے ہوئے ہیں ، دوسری طرف ابھی تک ٹھوس اقدامات کے بجائے وعدوں پر کاروبار حکومت چلانے کی باتیں ہورہی ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ تھر دنیا کا واحد لق ودق صحرا نہیں ،عالمی سروے کے مطابق یورپ ،امریکا، مشرق وسطیٰ،ایشیا اور افریقہ کے صحرا میں پھول کھلنے کے جدید منصوبے روبہ عمل لائے گئے ۔ دبئی، شارجہ ، چین، روس ، بھارت سمیت متعدد ممالک نے ڈیزرٹیفکیشن سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے کنونش اور پروگراموں کے تحت ماسٹر پلان بنائے، عالمی تربیتی کورسز کرائے، شارجہ نے کرکٹ سیریز کے لیے صحرا میں نخلستان بنوائے۔ افریقہ میں اوآئی سی انٹرنیشنل کے تحت فوڈ سیکیورٹی ،غذائی ضروریات، پینے کے صاف پانی کی فراہمی ، سینی ٹیشن،اور زرعی صنعتوں کے جال پھیلانے کی منظم کوششیں کی گئی ہیں، بھارت میں راجستھان کی صورتحال تھر سے قطعی مختلف ہے بلکہ جتنی بھوک، بے بسی اور غربت و ناخواندگی تھر کا مقدر بنادی گئی ہے وہ بھارتی راجستھان کی نہیں ہے۔
وہ بھارت میں سیاحت کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر ہے، جب کہ دونوں کی سرحدیں ملتی ہیں، بھارتی حکام ڈیزرٹ کے کئی ترقیاتی پروگرام مکمل کرچکے ہیں، اس کی انتظامیہ نے فطرت کے حسن کو برقرار رکھا ہے ، جودھ پور ،جے پور، بیکانیر،جیسلمیر کی جھیلیں ، صحرائی قلعے اور محلات ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا دل موہ لیتے ہیں ۔ چینی حکومت نے ایرڈ زون کا نقشہ بدلنے کے لاتعداد حیران کن منصوبے بنائے ۔ لیکن تھر کے عوام صرف بیانات کا شور سنتے آئے ہیں ۔
تاہم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کی چیئرپرسن ماروی میمن نے خوشخبری دی ہے کہ وزیراعظم جلد تھرپار کے عوام کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان کرینگے ۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ خشک سالی ایک صوبائی معاملہ ہے تاہم وفاقی حکومت اس پر کوئی سیاست نہیں کرے گی بلکہ علاقہ میں امدادی سرگرمیوں پر توجہ دے گی ۔ حکومت سندھ نے پیر کو سندھ اسمبلی میں یقین دہانی کرائی کہ تھر کے مسئلے کی تحقیقات کے لیے ارکان اسمبلی کی کمیٹی جلد تشکیل دی جائے گی ۔ یہ یقین دہانی فنکشنل لیگ کے رکن امتیازشیخ کی تھرسے متعلق تحریک التوا پرکرائی گئی۔ وزیرصحت جام مہتاب حسین ڈاہر نے کہا کہ ہم نے ایک آزاد اور اچھی ساکھ کے حامل ادارے '' آغا خان اسپتال '' کوخط لکھ کر درخواست کی ہے کہ وہ اپنے ماہرین کی ٹیم کو تھر بھیجیں وہ بتائیں کہ اموات کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں ۔
آغا خان اسپتال کی ٹیم تھر روانہ کردی ہے۔ ایک دو دن میں اس کی رپورٹ آجائے گی ۔ مطلب یہ ہے کہ جو کام تھر سانحہ کے حوالے سے فوری کرنے کا تھا اس پر ابھی تک تحقیقات کا ڈول ڈالا جارہا ہے ۔جب کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے تھر میں بچوں کی اموات پر وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی کابینہ سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سندھ عوام کو خوراک فراہم نہیں کرسکتی، تھرپارکر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے وہاں مور ناچتے تھے اور اب موت رقص کرتی ہے ، ادھر بلوچستان کے وزیر ریونیو ، آبکاری و ٹرانسپورٹ شیخ جعفر مندوخیل نے کہا ہے کہ وہ ژوب کو خشک سالی کے بدترین اثرات سے بچا کر تھر نہیں بننے دیں گے، جئے سندھ قومی محاذ کے چیئر مین نے کہا ہے کہ تھر کے لیے بڑے بڑے پیکیجز کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن سارا پیسہ کرپشن اور کمیشن کی نذر ہوجاتا ہے، متاثرین کو کسی بھی طرح کا ریلیف نہیں مل رہا ۔ ان سارے بیانات و الزامات کے اندر سے حقیقت اور سچ کی جستجو ضروری ہے ۔
سب سے بنیادی کام بچوں کی ہلاکتوں کو روکنا ہے ، بیماریوں سے تحفظ دینا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے اور اس باب میں مجرمانہ غفلت ہوئی ہے ۔ ایک بڑے ''شیک اپ'' کی ضرورت ہے، احتساب ہونا چاہیے کہ اتنی اموات کیوں ہوئیں؟ جب کہ سچ یہ ہے کہ تھر کے عوام اور معصوم بچے رحم اور توجہ کے مستحق ہیں ۔تھر کے عوام کی امیدیں جمہوری نظام اور حکومتی اقدامات سے وابستہ ہیں ۔ تھر میں انفرااسٹرکچر ، تعلیم ، خوراک ، اور صحت سمیت زرعی صنعتوں کے قیام، اس کے تاریخی اور ثقافتی مقامات کی نگہداشت اورسیاحتی اہمیت کو دوبالا کرنے کے لیے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھیں ۔عمل کا یہی وقت ہے۔