مردم شماری اور منصوبہ بندی
مردم شماری نہ ہونے کی بناء پر حکومت مفروضوں کی بنیاد پر منصوبہ بندی کرتی ہے۔
ملک میں ساتویں مردم شماری کے انعقاد کی فوری ضرورت ہے۔ آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی، ہر 10 سال بعد مردم شماری کا ہونا آئینی طور پر ضروری ہے مگر 2008میں مردم شماری نہ ہو سکی۔ پیپلز پارٹی 2008میں وفاق میں برسر اقتدار آئی تھی، دہشت گردی کی صورتحال اور انتظامی اقدامات نہ ہونے کی بناء پر یہ معاملہ التواء کا شکار ہوا۔ 6 سال گزر گئے مردم شماری نہ ہو سکی۔ مردم شماری ملک کی اقتصادی اور انتظامی منصوبہ بندی اور شفاف انتخابات کے لیے لازمی ہے۔
مردم شماری نہ ہونے کی بناء پر حکومت مفروضوں کی بنیاد پر منصوبہ بندی کرتی ہے، مختلف شہروں اور صوبوں کی آبادی کا تخمینہ مفروضات کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے، یوں وسائل کی تقسیم حقیقی بنیادوں پر نہیں ہوتی۔ اس بناء پر غربت و افلاس اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی منصوبہ بندی ناقص ثابت ہوتی ہے۔ مردم شماری کا شفاف انتخابات سے گہرا تعلق ہے، عمومی طور پر 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی حلقوں کی حدود کا تعین کیا جاتا ہے اور ووٹرلسٹیں مرتب کی جاتی ہیں۔
نادرا کے قیام کے بعد شناختی کارڈ اور ''ب'' فارم کی تیاری کا کام کمپیوٹر سے ہوتا ہے اور 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے نوجوانوں سے لے کر بوڑھوں اور ب فارم کے ذریعے بچوں کے اعداد و شمار نادرا کے ڈیٹا بیس میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور اس ڈیٹا بیس میں موجود افراد کے ناموں کا اندراج ووٹر لسٹوں میں کیا جا تا ہے۔ ناموں کے ساتھ تصاویر بھی ووٹر لسٹوں میں چسپاں کر دی جاتی ہیں، ووٹر لسٹوں کی تعداد کے مطابق بلدیاتی اداروں کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کا تعین بھی کیا جاتا ہے، ان ہی اعداد و شمار کی بنیاد پر شہروں اور گاؤں کی آبادی کا تعین ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ووٹر لسٹوں کے اندراج میں دھاندلیاں کراتی ہیں۔2013 کے انتخابات کے لیے تیار کی جانے والی ووٹر لسٹوں کے معاملے پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے Suomoto کارروائی کی تھی اور کراچی کی ووٹر لسٹوں کی تصدیق کی ہدایات دی جب سپریم کورٹ نے صوبوں کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا تو صوبوں نے اعتراض کیا تھا کہ نئی مردم شماری کے بغیر حلقہ بندی کا کام نہیں ہو سکتا، یوں حلقہ بندیاں نہ ہونے کی بناء پر بلدیاتی انتخابات ممکن نہیں ہونگے۔
مگر سپریم کورٹ نے صوبوں کے اس اعتراض کو مسترد کر دیا تھا۔ مردم شماری کا معیار اور معروضی اعداد و شمار جمع کرنا ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے، جب جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں 1981 میں مردم شماری ہوئی تھی تو کراچی کی آبادی 52 لاکھ ظاہر کی گئی تھی۔
جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی اس وقت کراچی کے میئر تھے۔ عبدالستار افغانی نے مردم شماری کے نتائج پر سخت اعتراض کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ منصوبہ بندی کے تحت کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ جنرل ضیا ء الحق نے افغانی صاحب کے اعتراض کو دور کرنے کے لیے محدود سطح کا سروے کرایا تھا، حکومت نے اس سروے کے نتائج کی بنیاد پر مردم شماری کے نتائج کو درست قرار دے دیا تھا ۔ 1998 میں ہونے والی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 98 لاکھ بتائی گئی تھی۔ ایم کیو ایم سمیت کئی جماعتوں نے سخت اعتراض کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پختونخوا اور پنجاب سے لوگوں کے روزگار کے لیے کراچی منتقل ہونے کے باوجود کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کا یہ مؤقف تھا کہ مردم شماری کے نتائج کو تبدیل کر کے سندھ میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کو کم کیا گیا ہے تا کہ سندھ کو قومی مالیاتی ایوارڈ میں اس کی حقیقی آبادی کی بنیاد پر حصہ نہ مل سکے، یوں سندھ کی ترقی کو بلواسطہ طور پر روکنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
جب 2007میں مردم شماری سے پہلے خانہ شماری ہوئی تھی تو اس خانہ شماری میں غلط اعداد و شمار کا انکشاف ہوا تھا، خانہ شماری کی ذمے دار اعداد و شمار ڈویژن کے ماہرین کا کہنا تھا کہ جب خانہ شماری کے اعداد و شمار کو کمپیوٹر کے ذریعے اسکین کیا گیا تھا تو کئی عجیب و غریب قسم کے اعداد و شمار سامنے آئے تھے، کمپیوٹر نے کراچی کے ایسے متعد د مکانات کی نشاندہی کی تھی جو 80 اور 120 گز پر بنے ہوئے تھے، ان مکانوں میں سیکڑوں کی تعداد میں افراد کو آباد ظاہر کیا گیا تھا، یوں ایک چھوٹے سے مکان میں سیکڑوں افراد کا زندگی گزارنا حیرت انگیز بات تھی خانہ شماری کی ان غلطیوں کے بعد مردم شماری کا معاملہ التواء میں ڈال دیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم نے گزشتہ دنوں جب سندھ میں صوبے بنانے کا مطالبہ کیا تھا تو یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ شہری علاقوں کی آبادی دیہی علاقوں کے مقابلے میں 60 فیصد ہو گئی ہے۔ کراچی میں اردو بولنے والے مہاجروں کی آبادی کراچی میں آباد سندھیوں، بلوچوں، پنجابیوں اور پٹھانوں سے بہت زیادہ ہو گئی ہے یوں اردو بولنے والے افراد کی اکثریت کی بناء پر مہاجر صوبہ بنانا ضروری ہو گیا ہے۔ سندھی اور پٹھانوں کے نمایندوں نے ایم کیو ایم کے اس مؤقف کو مسترد کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اردو بولنے والے متوسط طبقے کی شرح پیدائش کم ہوئی ہے اور پھر اردو بولنے والے نوجوانوں کی اکثریت ملک چھوڑ رہی ہے۔
اس صورتحال میں اردو بولنے والے آبادی کی کراچی میں اکثریت نہیں ہے۔ یوں آبادی کے بڑھنے کے موضوع پر بحث مباحثوں نے سیاسی صورتحال کو خاصا گرم کر دیا تھا۔ شماریات اور سماجی علوم کے ماہرین کا کہنا تھا کہ مفروضوں کی بنیاد پر تیار ہونے والے اعداد و شمار سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تدارک کے لیے شفاف مردم شماری ضروری ہے۔ شفاف مردم شماری کے لیے گھر پر جا کر اعداد و شمار جمع کرنے والے افراد کی تربیت کے ساتھ ان کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔ ماضی کی طرح اسکولوں کے اساتذہ سے یہ کام لینا زیادتی ہو گی۔ حکومت کو تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔
اعداد و شمار جمع کرنے سے لے کر اعداد و شمار کے تجزیے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ عمومی طور پر یہ شکایت ہوتی ہے کہ بااثر افراد، جاگیردار اور سردار مردم شماری کے عملے کو گھر گھر جانے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے ڈیروں پر جعلی فارم بھرواتے ہیں، یوں ملک کے مختلف علاقوں میں مردم شماری کے اعداد و شمار پر اعتراضات ہوتے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے لیے 15دن اور اعداد و شمار جمع کر کے نتائج حاصل کرنے میں 6 ماہ لگتے ہیں۔
اگر آئی ٹی ٹیکنالوجی کے ماہرین کی مدد سے ایسا سوفٹ ویئر تیار کیا جائے جو ہر گھر کے افراد کے اندراج کو یقینی بنائے اور جہاں رکاوٹ پیدا ہو وہ ریکارڈ پر لے آئے تو پھر جعلی اندراج کا معاملہ کسی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ مگر مشکلات کی بناء پر کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے نتائج سے کوئی سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اس بناء پر برسرِ اقتدار حکومتیں اس بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں مگر جدید دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ معروضی اعداد و شمار سے بحران ختم ہوتے ہیں۔ حقیقی منصوبہ بندی سے ترقی کا عمل تیز ہوتا ہے۔ حکومت نے مردم شماری کا معاملہ مشترکہ مفاد کونسل کے سپرد کیا ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ صوبوں کو مردم شماری پر کچھ اعتراضات ہیں، اسی بناء پر فیصلہ مشترکہ مفاد کونسل کو کرنا ہے۔ یہ کونسل صوبوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ صوبوں کے حقوق کا تحفظ مردم شماری کے حقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ مشترکہ مفاد کونسل کو شفاف انتخابات کے لیے فوری طور پر مردم شماری کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے۔
مردم شماری نہ ہونے کی بناء پر حکومت مفروضوں کی بنیاد پر منصوبہ بندی کرتی ہے، مختلف شہروں اور صوبوں کی آبادی کا تخمینہ مفروضات کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے، یوں وسائل کی تقسیم حقیقی بنیادوں پر نہیں ہوتی۔ اس بناء پر غربت و افلاس اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی منصوبہ بندی ناقص ثابت ہوتی ہے۔ مردم شماری کا شفاف انتخابات سے گہرا تعلق ہے، عمومی طور پر 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی حلقوں کی حدود کا تعین کیا جاتا ہے اور ووٹرلسٹیں مرتب کی جاتی ہیں۔
نادرا کے قیام کے بعد شناختی کارڈ اور ''ب'' فارم کی تیاری کا کام کمپیوٹر سے ہوتا ہے اور 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے نوجوانوں سے لے کر بوڑھوں اور ب فارم کے ذریعے بچوں کے اعداد و شمار نادرا کے ڈیٹا بیس میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور اس ڈیٹا بیس میں موجود افراد کے ناموں کا اندراج ووٹر لسٹوں میں کیا جا تا ہے۔ ناموں کے ساتھ تصاویر بھی ووٹر لسٹوں میں چسپاں کر دی جاتی ہیں، ووٹر لسٹوں کی تعداد کے مطابق بلدیاتی اداروں کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کا تعین بھی کیا جاتا ہے، ان ہی اعداد و شمار کی بنیاد پر شہروں اور گاؤں کی آبادی کا تعین ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ووٹر لسٹوں کے اندراج میں دھاندلیاں کراتی ہیں۔2013 کے انتخابات کے لیے تیار کی جانے والی ووٹر لسٹوں کے معاملے پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے Suomoto کارروائی کی تھی اور کراچی کی ووٹر لسٹوں کی تصدیق کی ہدایات دی جب سپریم کورٹ نے صوبوں کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا تو صوبوں نے اعتراض کیا تھا کہ نئی مردم شماری کے بغیر حلقہ بندی کا کام نہیں ہو سکتا، یوں حلقہ بندیاں نہ ہونے کی بناء پر بلدیاتی انتخابات ممکن نہیں ہونگے۔
مگر سپریم کورٹ نے صوبوں کے اس اعتراض کو مسترد کر دیا تھا۔ مردم شماری کا معیار اور معروضی اعداد و شمار جمع کرنا ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے، جب جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں 1981 میں مردم شماری ہوئی تھی تو کراچی کی آبادی 52 لاکھ ظاہر کی گئی تھی۔
جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی اس وقت کراچی کے میئر تھے۔ عبدالستار افغانی نے مردم شماری کے نتائج پر سخت اعتراض کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ منصوبہ بندی کے تحت کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ جنرل ضیا ء الحق نے افغانی صاحب کے اعتراض کو دور کرنے کے لیے محدود سطح کا سروے کرایا تھا، حکومت نے اس سروے کے نتائج کی بنیاد پر مردم شماری کے نتائج کو درست قرار دے دیا تھا ۔ 1998 میں ہونے والی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 98 لاکھ بتائی گئی تھی۔ ایم کیو ایم سمیت کئی جماعتوں نے سخت اعتراض کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پختونخوا اور پنجاب سے لوگوں کے روزگار کے لیے کراچی منتقل ہونے کے باوجود کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کا یہ مؤقف تھا کہ مردم شماری کے نتائج کو تبدیل کر کے سندھ میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کو کم کیا گیا ہے تا کہ سندھ کو قومی مالیاتی ایوارڈ میں اس کی حقیقی آبادی کی بنیاد پر حصہ نہ مل سکے، یوں سندھ کی ترقی کو بلواسطہ طور پر روکنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
جب 2007میں مردم شماری سے پہلے خانہ شماری ہوئی تھی تو اس خانہ شماری میں غلط اعداد و شمار کا انکشاف ہوا تھا، خانہ شماری کی ذمے دار اعداد و شمار ڈویژن کے ماہرین کا کہنا تھا کہ جب خانہ شماری کے اعداد و شمار کو کمپیوٹر کے ذریعے اسکین کیا گیا تھا تو کئی عجیب و غریب قسم کے اعداد و شمار سامنے آئے تھے، کمپیوٹر نے کراچی کے ایسے متعد د مکانات کی نشاندہی کی تھی جو 80 اور 120 گز پر بنے ہوئے تھے، ان مکانوں میں سیکڑوں کی تعداد میں افراد کو آباد ظاہر کیا گیا تھا، یوں ایک چھوٹے سے مکان میں سیکڑوں افراد کا زندگی گزارنا حیرت انگیز بات تھی خانہ شماری کی ان غلطیوں کے بعد مردم شماری کا معاملہ التواء میں ڈال دیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم نے گزشتہ دنوں جب سندھ میں صوبے بنانے کا مطالبہ کیا تھا تو یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ شہری علاقوں کی آبادی دیہی علاقوں کے مقابلے میں 60 فیصد ہو گئی ہے۔ کراچی میں اردو بولنے والے مہاجروں کی آبادی کراچی میں آباد سندھیوں، بلوچوں، پنجابیوں اور پٹھانوں سے بہت زیادہ ہو گئی ہے یوں اردو بولنے والے افراد کی اکثریت کی بناء پر مہاجر صوبہ بنانا ضروری ہو گیا ہے۔ سندھی اور پٹھانوں کے نمایندوں نے ایم کیو ایم کے اس مؤقف کو مسترد کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اردو بولنے والے متوسط طبقے کی شرح پیدائش کم ہوئی ہے اور پھر اردو بولنے والے نوجوانوں کی اکثریت ملک چھوڑ رہی ہے۔
اس صورتحال میں اردو بولنے والے آبادی کی کراچی میں اکثریت نہیں ہے۔ یوں آبادی کے بڑھنے کے موضوع پر بحث مباحثوں نے سیاسی صورتحال کو خاصا گرم کر دیا تھا۔ شماریات اور سماجی علوم کے ماہرین کا کہنا تھا کہ مفروضوں کی بنیاد پر تیار ہونے والے اعداد و شمار سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تدارک کے لیے شفاف مردم شماری ضروری ہے۔ شفاف مردم شماری کے لیے گھر پر جا کر اعداد و شمار جمع کرنے والے افراد کی تربیت کے ساتھ ان کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔ ماضی کی طرح اسکولوں کے اساتذہ سے یہ کام لینا زیادتی ہو گی۔ حکومت کو تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔
اعداد و شمار جمع کرنے سے لے کر اعداد و شمار کے تجزیے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ عمومی طور پر یہ شکایت ہوتی ہے کہ بااثر افراد، جاگیردار اور سردار مردم شماری کے عملے کو گھر گھر جانے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے ڈیروں پر جعلی فارم بھرواتے ہیں، یوں ملک کے مختلف علاقوں میں مردم شماری کے اعداد و شمار پر اعتراضات ہوتے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے لیے 15دن اور اعداد و شمار جمع کر کے نتائج حاصل کرنے میں 6 ماہ لگتے ہیں۔
اگر آئی ٹی ٹیکنالوجی کے ماہرین کی مدد سے ایسا سوفٹ ویئر تیار کیا جائے جو ہر گھر کے افراد کے اندراج کو یقینی بنائے اور جہاں رکاوٹ پیدا ہو وہ ریکارڈ پر لے آئے تو پھر جعلی اندراج کا معاملہ کسی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ مگر مشکلات کی بناء پر کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے نتائج سے کوئی سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اس بناء پر برسرِ اقتدار حکومتیں اس بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں مگر جدید دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ معروضی اعداد و شمار سے بحران ختم ہوتے ہیں۔ حقیقی منصوبہ بندی سے ترقی کا عمل تیز ہوتا ہے۔ حکومت نے مردم شماری کا معاملہ مشترکہ مفاد کونسل کے سپرد کیا ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ صوبوں کو مردم شماری پر کچھ اعتراضات ہیں، اسی بناء پر فیصلہ مشترکہ مفاد کونسل کو کرنا ہے۔ یہ کونسل صوبوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ صوبوں کے حقوق کا تحفظ مردم شماری کے حقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ مشترکہ مفاد کونسل کو شفاف انتخابات کے لیے فوری طور پر مردم شماری کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے۔