پاکستان ایک نظر میں فوٹو سیشن کی شوقین قوم
یہ ہمارا قومی المیہ ہے ہم اپنے فرائض کو بھی لوگوں پر احسان سمجھ کر کرتے ہیں۔
ہم من حیث القوم اپنے مسئلے مسائل کا حل تلاش کرنے سے زیادہ فوٹو بنانے کے شوق میں سرگراں ہیں۔ یقیناًآپ کو میری بات پر یقین نہیں آئے گا، چلیں چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں انہیں پڑھنے کے بعد آپ بھی میرے حامی ہوجائیں گے۔ہم لاکھوں روپیہ خرچ کر کے فریضہ حج اداکرنے بیت اللہ جاتے ہیں،لیکن وہاں پہنچ کر احکام حج کی بجا آوری سے کہیں زیادہ ہمیں یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ خانہ کعبہ کے ساتھ کھڑے ہوکر احرام میں تصویر بنا پاؤں گا یا نہیں،خلق خدا طواف کعبہ اور دوسری عبادات میں مصروف ہوتی ہے، جبکہ ہم خانہ کعبہ کے دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بنانے لگ جاتے ہیں کہ کہیں پوز خراب نہ ہو اور لوگوں کو دکھاتے وقت تصویر اپنی ہونے کی دلیلیں پیش نہ کرنی پڑے۔
اب یہی دیکھ لیں کہ پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوتا ہے،کھانے پینے کی چیزوں کا قحط پڑ جاتا ہے، لوگ اپنے معصوم بچوں اور بزرگوں کو کاندھوں پہ اٹھائے محفوظ مقامات پر پہنچانے کیلئے سیلاب کے خونخوارموجوں میں ہاتھ پیر مارنے کی کوشش کرتے ہیں اس دوران یا تو اپنی زندگی ہار جاتے ہیں یا اپنے پیاروں کو محفوظ مقام پرپہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ عین اسی وقت ہمارے صدر مملکت ، وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ فوٹو بنانے کے شوق میں ہیلی کاپٹرکے ذریعے فوٹو گرافروں کی ایک ٹیم کے ہمراہ تشریف لاتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر ہوا میں معلق کر کہ دو منٹ کیلئے پانی میں اتر جاتے ہیں،شلوارگھٹنوں تک اوپر کرکے فوٹوسیشن شروع ہوجاتا ہے،جلدی جلدی دوچارپوز بنا تے ہیں پھر ہیلی کاپٹر میں بیٹھے سیدھا بلاول ہاوس یا پھررائیونڈ تشریف لے جا کر تصویروں کوچوراہوں پر آویزاں کرنے کا انتظام فرما کراپنے سارے قرض اتار دیتے ہیں۔
ہمارے سیاسی لیڈر کسی بھی عوامی تقریب سے خطاب کرتے وقت کیمرہ مین کے طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ اوپر کرلتے ہیں،لب کھول کر پر جوش انداز میں کسی انڈین ولن کی طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کراپنے آپ کو دھواں دار مقرر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، اور اسی کوشش میں ایسے ایسے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے بھی تصویریں بنواتے ہیں جنہیں درحقیقت کبھی اپنے گھر کے آس پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتے۔ لیڈر تو لیڈر یہاں تو پارٹی کے منتخب نمائندے اور حکومتی کارندے بھی اپنے نام کی موٹی اور جلی حروف میں لکھی ہوئی ،چمکیلی اور مہنگے ترین کپڑوں میں لپٹی ہوئی تختی کے پاس کھڑے ہوکر تیز دھار قینچی کے ذریعے سرخ فیتے کاٹ کر کسی ترقیاتی ،فلاحی اور خیراتی کام کا افتتاح کرتے ہوئے پروفیشنل فوٹوگرافروں کو بلا کر مختلف زاویوں اور مختلف انداز میں شاندار تصویریں بنانے کا شوق جی بھر کے پورا کرتے ہیں۔ پھر بھلے سے اس منصوبے پر سالوں سال کام رکا رہے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔نہ ہی وہ اس منصوبے کے بارے میں پوچھنے کی زحمت کرتے ہیں کہ کام کہاں تک پہنچا؟ رکا ہوا کیوں ہے؟ کیا وجہ تھی؟ اگر ہوا ہے تو کتنا ہوا ؟ معیاری ہوا یا غیر معیاری؟ ان کو ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، انہیں محض تصویریں بنانے اور اپنے کارناموں کی چارج شیٹ بھرنے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔
موسم بہار کے شروع ہوتے ہی ہمارے وزیر مشیر،ایم پی اے، ایم این اے،اور دیگر افسران بیلچہ اور پانی کا لوٹہ لئے ایک پودا لگا کر نایاب تصویریں بنانے کا کار خیر سر انجام دینے میں مصروف نظر آئینگے۔مگر دوسری جانب قومی شاہراہوں پر لگے درخت ، تفریحی پارکوں میں رنگ برنگ کے پودے پانی کی بوند بوند کو ترستے ہوئے سوکھ جاتے ہیں،گاہے بہ گاہے پائے جانے والے قدرتی جنگلات کی بے دریغ کٹائی اورا سمگلنگ عروج پرہوتی ہے ،لیکن یہ لوگ ان درختوں،پودوں اور جنگلات کے تحفظ اور بقاء کے انتظامات سے اپنے آپ کو بریء الذمہ سمجھتے ہیں۔
ہاں میونسپل ایڈمنسٹریشن کبھی کبھار شوق میں آکر ایک لمبی ڈندی والا جھاڑوہاتھ میں پکڑ کر صفائی مہم کا آغاز کرتے ہوئے ایسے کمال مہارت کے فوٹو بنواتے ہیں کہ دیکھنے والا پروفیشنل سویپر سمجھ کر داد دئے بغیر رہ نہ پاتا۔اس کے باوجود جگہ جگہ پڑی گندگی کی ڈھیرپورے شہر میں تعفن پھیلائے رکھتے ہیں،مین شاہراہیں کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتی ہیں،جگہ جگہ مرے ہوئے کتے اور گدھے پڑے ہوتے لیکن مجال ہے کہ میونسپل اداروں کے کان پر کوئی جو رینگی ہو۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے ہم اپنے فرائض کو بھی لوگوں پر احسان سمجھ کر کرتے ہیں، سیلاب زدگان کی مدد، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، توانائی کے منصوبے، عوام کو تفریح کے مواقع فراہم کرنا، صفائی ستھرائی کانظام بہتر بنانا، تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کرنا اسطرح کے دیگر عوامی فلاح وبہبود کے اقدامات حکومت کی ذمہ داری ہے ، لیکن ہمارے حکمران ہم پر یوں احسان جتاتے ہیں جیسے یہ سب اپنی جیب سے کر رہے ہوں ، حالانکہ پوری قوم جانتی ہے کہ ان کی جیب میں جو پیسا ہے وہ کہاں سے آرہا ہے، بیرون ملک جائیدادیں ، بینک اکاؤنٹس، ملک کے اندر ہزراوں ایکڑ اراضی پر پھیلے ان کے محلات اور بہت کچھ کس بات کی غمازی کرتے ہیں یہ بھی ہر پاکستانی بخوبی جانتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہماری حکومت کو خواب خرگوش کت مزے لیتے سے فرصت ہی نہیں، ہاں صرف ایک کام وہ شوق سے کرتے ہیں اور وہ ہے فوٹو سیشن۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب یہی دیکھ لیں کہ پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوتا ہے،کھانے پینے کی چیزوں کا قحط پڑ جاتا ہے، لوگ اپنے معصوم بچوں اور بزرگوں کو کاندھوں پہ اٹھائے محفوظ مقامات پر پہنچانے کیلئے سیلاب کے خونخوارموجوں میں ہاتھ پیر مارنے کی کوشش کرتے ہیں اس دوران یا تو اپنی زندگی ہار جاتے ہیں یا اپنے پیاروں کو محفوظ مقام پرپہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ عین اسی وقت ہمارے صدر مملکت ، وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ فوٹو بنانے کے شوق میں ہیلی کاپٹرکے ذریعے فوٹو گرافروں کی ایک ٹیم کے ہمراہ تشریف لاتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر ہوا میں معلق کر کہ دو منٹ کیلئے پانی میں اتر جاتے ہیں،شلوارگھٹنوں تک اوپر کرکے فوٹوسیشن شروع ہوجاتا ہے،جلدی جلدی دوچارپوز بنا تے ہیں پھر ہیلی کاپٹر میں بیٹھے سیدھا بلاول ہاوس یا پھررائیونڈ تشریف لے جا کر تصویروں کوچوراہوں پر آویزاں کرنے کا انتظام فرما کراپنے سارے قرض اتار دیتے ہیں۔
ہمارے سیاسی لیڈر کسی بھی عوامی تقریب سے خطاب کرتے وقت کیمرہ مین کے طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ اوپر کرلتے ہیں،لب کھول کر پر جوش انداز میں کسی انڈین ولن کی طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کراپنے آپ کو دھواں دار مقرر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، اور اسی کوشش میں ایسے ایسے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے بھی تصویریں بنواتے ہیں جنہیں درحقیقت کبھی اپنے گھر کے آس پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتے۔ لیڈر تو لیڈر یہاں تو پارٹی کے منتخب نمائندے اور حکومتی کارندے بھی اپنے نام کی موٹی اور جلی حروف میں لکھی ہوئی ،چمکیلی اور مہنگے ترین کپڑوں میں لپٹی ہوئی تختی کے پاس کھڑے ہوکر تیز دھار قینچی کے ذریعے سرخ فیتے کاٹ کر کسی ترقیاتی ،فلاحی اور خیراتی کام کا افتتاح کرتے ہوئے پروفیشنل فوٹوگرافروں کو بلا کر مختلف زاویوں اور مختلف انداز میں شاندار تصویریں بنانے کا شوق جی بھر کے پورا کرتے ہیں۔ پھر بھلے سے اس منصوبے پر سالوں سال کام رکا رہے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔نہ ہی وہ اس منصوبے کے بارے میں پوچھنے کی زحمت کرتے ہیں کہ کام کہاں تک پہنچا؟ رکا ہوا کیوں ہے؟ کیا وجہ تھی؟ اگر ہوا ہے تو کتنا ہوا ؟ معیاری ہوا یا غیر معیاری؟ ان کو ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، انہیں محض تصویریں بنانے اور اپنے کارناموں کی چارج شیٹ بھرنے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔
موسم بہار کے شروع ہوتے ہی ہمارے وزیر مشیر،ایم پی اے، ایم این اے،اور دیگر افسران بیلچہ اور پانی کا لوٹہ لئے ایک پودا لگا کر نایاب تصویریں بنانے کا کار خیر سر انجام دینے میں مصروف نظر آئینگے۔مگر دوسری جانب قومی شاہراہوں پر لگے درخت ، تفریحی پارکوں میں رنگ برنگ کے پودے پانی کی بوند بوند کو ترستے ہوئے سوکھ جاتے ہیں،گاہے بہ گاہے پائے جانے والے قدرتی جنگلات کی بے دریغ کٹائی اورا سمگلنگ عروج پرہوتی ہے ،لیکن یہ لوگ ان درختوں،پودوں اور جنگلات کے تحفظ اور بقاء کے انتظامات سے اپنے آپ کو بریء الذمہ سمجھتے ہیں۔
ہاں میونسپل ایڈمنسٹریشن کبھی کبھار شوق میں آکر ایک لمبی ڈندی والا جھاڑوہاتھ میں پکڑ کر صفائی مہم کا آغاز کرتے ہوئے ایسے کمال مہارت کے فوٹو بنواتے ہیں کہ دیکھنے والا پروفیشنل سویپر سمجھ کر داد دئے بغیر رہ نہ پاتا۔اس کے باوجود جگہ جگہ پڑی گندگی کی ڈھیرپورے شہر میں تعفن پھیلائے رکھتے ہیں،مین شاہراہیں کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتی ہیں،جگہ جگہ مرے ہوئے کتے اور گدھے پڑے ہوتے لیکن مجال ہے کہ میونسپل اداروں کے کان پر کوئی جو رینگی ہو۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے ہم اپنے فرائض کو بھی لوگوں پر احسان سمجھ کر کرتے ہیں، سیلاب زدگان کی مدد، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، توانائی کے منصوبے، عوام کو تفریح کے مواقع فراہم کرنا، صفائی ستھرائی کانظام بہتر بنانا، تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کرنا اسطرح کے دیگر عوامی فلاح وبہبود کے اقدامات حکومت کی ذمہ داری ہے ، لیکن ہمارے حکمران ہم پر یوں احسان جتاتے ہیں جیسے یہ سب اپنی جیب سے کر رہے ہوں ، حالانکہ پوری قوم جانتی ہے کہ ان کی جیب میں جو پیسا ہے وہ کہاں سے آرہا ہے، بیرون ملک جائیدادیں ، بینک اکاؤنٹس، ملک کے اندر ہزراوں ایکڑ اراضی پر پھیلے ان کے محلات اور بہت کچھ کس بات کی غمازی کرتے ہیں یہ بھی ہر پاکستانی بخوبی جانتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہماری حکومت کو خواب خرگوش کت مزے لیتے سے فرصت ہی نہیں، ہاں صرف ایک کام وہ شوق سے کرتے ہیں اور وہ ہے فوٹو سیشن۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔