عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافہ

عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان کے لیے بھی باعث تشویش ہے

اگست میں گندم‘ چاول اور سویا کی قیمتوں میں جولائی کے مقابلے میں کچھ کمی دیکھی گئی مگر مکئی کی قیمتوں میں معمولی اضافے کی رپورٹ ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کو بعض تجزیہ نگار عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے سے منسلک کرتے ہیں۔

ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ رواں برس ساتویں مہینے میں عالمی سطح پر اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں 10 فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔عالمی بینک نے اس کی وجہ امریکا اور مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک میں بلند درجہ حرارت اور خشک سالی بتائی ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر رواں برس جولائی میں جون کے مقابلے میں مکئی اور گندم کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا جس کی شرح 25 فیصد سے متجاوز تھی جب کہ سویا بین کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ 17 فیصد سے زائد تھا تاہم اس دوران چاول کی عالمی سطح پر قیمتوں میں قدرے کمی دیکھی گئی جس کی شرح 4 فیصد تک تھی۔ اگست میں ایک سمندری طوفان کی وجہ سے صورت حال میں بہتری ہوئی جس کے نتیجے میں بارشیں ہوئیں جن کی امریکا میں مکئی اور سویا بین کی فصلوں کے لیے شدید ضرورت تھی۔ اگست میں گندم' چاول اور سویا کی قیمتوں میں جولائی کے مقابلے میں کچھ کمی دیکھی گئی مگر مکئی کی قیمتوں میں معمولی اضافے کی رپورٹ ہے۔

عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔ کیونکہ پاکستان بھی کئی اجناس درآمد کرتا ہے۔ ویسے تو پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اس حیثیت سے اجناس درآمد تو نہیں کرنی چاہئیں لیکن غلط پالیسیوں کے باعث ہم زراعت میں بھی پسماندہ ہیں۔ بہرحال یہ خبر خوش آیند ہے کہ پاکستان میں فصلوں کی بروقت کاشت کے لیے زرعی ترقیاتی بینک نے قرضوں کی فراہمی شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ زرعی قرضوں کے اجراء کا یہ سلسلہ جنوری 2013 کے پہلے ہفتے کے اختتام تک جاری رہے گا۔


جہاں تک عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق ہے' جس کا اعلان کہ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے اور اس کی وجہ بلند درجہ حرارت اور خشک سالی کو قرار دیا ہے، وہاں بینک نے گلوبل وارمنگ اور خشک سالی کی بنیادی وجہ پر روشنی ڈالنے سے گریز کیا ہے حالانکہ یہ حقیقت تمام ماہرین ماحولیات پر واضح ہے کہ موسموں کا یہ تغیر صنعتی ممالک کی مضرت رساں سرگرمیوں کا نتیجہ ہے جو کرۂ ارض کے گرد پھیلی اوزون کی سطح میں شگاف پیدا کر رہی ہیں۔

ان کی وجہ گرین ہاؤس گیسز کو قرار دیا جاتا ہے حالانکہ اصل وجہ امریکا اور اس کے اتحادی دیگر مغربی ممالک کی اسلحہ ساز فیکٹریاں ہیں جن کو 24 گھنٹے چلتا رکھنے کے لیے متذکرہ ممالک دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلسل جنگ وجدل کے حالات برقرار رکھنا چاہتے ہیں، خواہ اس کے لیے انھیں سازشوں سے ہی کام کیوں نہ لینا پڑے۔ ناخواندگی کی اکثریت والے معاشروں میں نسلی' لسانی' گروہی' مذہبی اور فقہی اختلافات کو سازش کے ذریعے ہوا دینا چنداں مشکل کام نہیں ہوتا جس کے خون آشام نمونے ہم اپنی مملکت خداداد کے مختلف علاقوں میں بھی تسلسل سے دیکھتے رہتے ہیں۔

اگر کسی ملک میں برسراقتدار حکومت کے خلاف کسی مسلح تحریک کا کوئی امکان پیدا ہوتا رہے تو وہی اسلحہ ساز ملک، جنہوں نے اس ملک کی حکومت کو اسلحہ سپلائی کیا ہوتا ہے، باغیوں کو بھی خفیہ طور پر اسلحہ فراہم کرنے لگتے ہیں کہ یہ حکمت عملی ان کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کو بلا تعطل پیداوار جاری رکھنے اور ان کے اپنے شہریوں کو روزگار فراہم کرنے کی ضمانت دیتی ہے۔ جہاں ایک طرف وہ ملک اپنی اس روش سے دولت اکٹھی کرتے ہیں وہاں غذا کی قحط سالی کا باعث بھی بنتے ہیں۔

اجناس خوردنی کی کمی کی دوسری بڑی وجہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داریاں بھی ہیں جو عالمی خوراک کو بھی اپنی مکمل گرفت میں لینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اجناس خوردنی پیدا کرنے والے مختلف ملکوں کو ایسی کھادیں فراہم کی جاتی ہیں جن کے نتیجے میں ان کی اپنی زرخیز زمینیں بنجر ہو جائیں تا کہ وہ خوراک کے لیے متذکرہ کمپنیوں کے محتاج بن جائیں۔ اس صورت حال کا پاکستان کو بھی جائزہ لینا چاہیے اور عالمی حالات کو مدنظر رکھ کر زرعی پالیسی تشکیل دینی چاہیے تاکہ پاکستان اجناس کی قلت کا شکار نہ ہو۔
Load Next Story