کراچیتشویشناک صورتحال
ہر گروہ سیاسی سرپرستی میں دھڑلے کے ساتھ پورے شہر میں بھتے بھی وصول کر رہا ہے
کراچی ایک بار پھر خون میں لت پت ہے اور روزانہ اوسطاً درجن بھر افراد پراسرار دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اب تک یہ تصور تھا کہ مختلف لسانی گروہوں کے علاوہ سیاسی قوت رکھنے والے فرقے اور مسالک ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں لیکن گزشتہ دنوں ملک کی سب سے پر امن بوہرہ کمیونٹی کے رہائشی علاقے میں دو بم دھماکوں نے سوچ کے اس انداز کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ سیاسی طور پر غیر فعال کمیونٹیز بھی کالعدم تنظیموں کے نشانہ پر ہیں۔
شدت پسند عناصر کی دیدہ دلیری کا اندازہ دو ہفتے قبل کراچی کی ایک متمول بستی گلشن اقبال میں اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے، جب چند نوجوانوں نے ایک مقامی صحافی کو ٹیلی ویژن پر قوالی سننے کی پاداش میں اس کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے قتل کی دھمکیاں دیں۔ ان عناصر کا موقف تھا کہ ٹیلی ویژن دیکھنا غیر شرعی، جب کہ قوالی بدعت ہے، اس لیے ایسی غیر اسلامی سرگرمیوں کو طاقت کے ذریعہ روکنا ان کا دینی فریضہ ہے۔ پولیس نے ان عناصر کی شناخت ہو جانے کے باوجود ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
لہٰذا جو لوگ کراچی میں ہونے والی خونریزی کو آج بھی سیاسی جماعتوں کی کشمکش اور لسانی آویزش سمجھ رہے ہیں، انھیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ کراچی کی صورتحال اب ماضی کے مقابلے میں خاصی مختلف ہو چکی ہے اور پراسرار خونریزی کے پس پشت دیگر کئی عوامل بھی شامل ہو چکے ہیں۔ جن میں مختلف مافیائوں کے مجرمانہ مفادات کے علاوہ بعض کالعدم تنظیموں کی کراچی پر خاموش یلغار بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ جس کا ثبوت 21 ستمبر کو ہونے والی دہشت گردی بھی ہے، جس میں سی سی پی فوٹیج کے مطابق تقریباً سبھی افراد کا تعلق کراچی سے باہر کے لوگوں سے تھا۔ اس لیے کراچی کی صورتحال کو ان تینوں مفادات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
فیوڈل Mindest کی سیاسی جماعتیں، کراچی کے اربن مزاج اور سیاسی و سماجی Fabric کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ ہر جماعت کراچی میں اپنے اثر و نفوذ قائم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال تو کرتی ہے، مگر ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، جن کا تعلق خالصتاً اربن معاملات سے ہے۔ نتیجتاً ان چار برسوں کے دوران سیاسی معاملات کے ساتھ دیگر کئی عوامل بھی اس مسئلے کے ساتھ نتھی ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر شہر میں بہت سی مافیائیں اور کالعدم تنظیمیں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہیں اور یہ اپنے اپنے مخصوص مفادات کے لیے سرگرم ہیں۔ ان تنظیموں اور مافیائوں کو انتظامیہ اور پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔
اس وقت تین مافیائیں بہت زیادہ طاقتور ہوئیں، یعنی لینڈ، اسلحہ اور منشیات۔ لینڈ مافیا شہر کے اطراف میں موجود لاکھوں ایکڑ سرکاری زمین پر قبضہ کر کے فروخت کرتی ہے، جس میں پولیس اور صوبائی انتظامیہ برابر کی شریک ہوتی ہے۔ اس عمل میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی اپنی ذاتی حیثیت میں حصے دار ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر مفادات کا یہ ٹکرائو سیاسی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے۔ اب وزراء کے اس کھیل میں شریک ہو جانے سے یہ مسئلہ مزید سنگین ہو گیا ہے۔
دوسری طرف لیاری میں منشیات فروشوں کے دو گروہ کئی دہائیوں سے ایک دوسرے سے نبرد آزماء تھے۔ مگر یہ لیاری کے پرامن عوام اور اہل دانش کو تنگ نہیں کرتے تھے۔ ذوالفقار مرزا کی سرپرستی اور اس کے ردعمل میں دیگر سیاسی جماعتوں کے اس کھیل میں شریک ہو جانے سے ان گروہوں کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔ اس کے علاوہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہر گروہ سیاسی سرپرستی میں دھڑلے کے ساتھ پورے شہر میں بھتے بھی وصول کر رہا ہے اور انتظامیہ ان کے سامنے بے بس ہو چکی ہے۔
یہ گروہ صرف لیاری ہی نہیں پورے شہر کے لیے ناسور بن گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں سینئر صحافی نادر شاہ عادل کے بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی لیاری کے آتش فشان بن جانے کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔ جس کے نتیجے میں اس علاقے کے قدیمی شہری علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ تیسری اہم مافیاء اسلحہ مافیا ہے، جس نے نا اہل اور کرپٹ سرکاری انتظامیہ کی سرپرستی میں شہر کو جدید اور حساس آتشیں اسلحہ سے بھر دیا ہے۔
کراچی میں سیاسی بے چینی، لسانی آویزش اور مافیائوں کی کھلے عام سرگرمیوں کا فائدہ شہر میں خاموشی سے اپنی جگہ بنانے والی کالعدم تنظیموں نے اٹھایا۔ انھوں نے انتہائی منظم انداز میں ایک طرف شہر کے اہم علاقوں پر قبضہ کیا اور دوسری طرف وہ بینک ڈکیتیوں، دولتمند افراد کے اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کے ذریعہ بھاری رقم جمع کر رہے ہیں۔ چند ماہ قبل اورکزئی کے قبائلی علاقے سے رکن قومی اسمبلی نے ایک ٹیلی ویژن چینل پر کھل کر اعتراف کیا تھا کہ کراچی میں ہونے والی70 فیصد بینک ڈکیتیوں میں ان کے علاقے کے لوگ ملوث ہوتے ہیں، جو لوٹی ہوئی رقم قبائلی علاقوں میں سرگرم متشدد تنظیموں تک پہنچاتے ہیں۔ یہی عناصر شہر میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ میں بھی یہی عناصر ملوث پائے گئے ہیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں نہ جانے کن مصلحتوں کا شکار ہیں کہ وہ ان کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی سے مسلسل گریز کر رہی ہیں۔
اب اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں ہے کہ کراچی کے بعض علاقوں خاص طور پر نچلے متوسط طبقے کی بستیوں پر مذہبی شدت پسند عناصر کا قبضہ ہو چکا ہے۔ ان علاقوں میں پولیس اور انتظامیہ کے علاوہ شہر کی بااثر سیاسی جماعتیں داخل ہوتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔ عملی طور پر کراچی جو کبھی میٹروپولیٹن شہر ہوا کرتا تھا، آج مختلف لسانی اور فرقہ ورانہ کمیونٹیز میں تقسیم ہو چکا ہے۔ شہر میں سندھی، پختون، بلوچ اور اردو بولنے والوں کا اپنی مخصوص آبادیوں کی طرف منتقل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ عقیدے کے نام پر بھی Polarization میں تیزی آ رہی ہے اور شہر میں شیعہ اور سنی اپنی الگ بستیوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ اسی لیے ہر بستی کے مکین اپنا حفاظتی نظام خود چلانے پر مجبور ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ تمام حفاظتی تدابیر اسوقت بیکار ثابت ہوتی ہیں، جب انتہائی منظم اور جدید جنگی ہتھیاروں سے لیس کالعدم تنظیمیں جہاں چاہتی ہیں کارروائی کر کے اپنا ہدف پورا کر لیتی ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کراچی سے خیبر اور کوئٹہ سے گلگت تک کوئی بھی شہر، قصبہ اور گائوں محفوظ نہیں ہے۔ پورا ملک کرپشن، بدعنوانی اور بدامنی کے علاوہ مختلف گروہوں کی چومکھی لڑائی کی گرداب میں بری طرح پھنس چکا ہے، جس سے نکلنے کے امکانات وقت گذرنے کے ساتھ محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں میں سیاسی عزم، اسٹبلشمنٹ میں اہلیت اور اہل دانش میں واضح فکر کا فقدان ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے ڈھائی درجن کے قریب تھنک ٹینک پاکستان میں بڑھتے ہوئے اندرونی خلفشار کے خطے اور عالمی منظر نامہ پر مرتب ہونے والے اثرات اور خود پاکستان کے مستقبل کے بارے میں مطالعہ اور مشاہدہ کرنے میں مصروف ہیں۔
اس کے برعکس حکمران اشرافیہ، سیاسی رہنما اور اسٹبلشمنٹ ملک کی تیزی سے بگڑتی صورتحال کو سنبھالنے کے بجائے گو مگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ جب کہ بڑے سیاستدانوں، اسٹبلشمنٹ کے اعلیٰ اہلکاروں، بااثر تاجروں اور صنعتکاروں کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کے متمول گھرانے اپنی دولت اور اہل خانہ کو آہستہ آہستہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں متوحش شہریوں کے ایک بڑے حلقے کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور بیوروکریسی کے غیر سنجیدہ رویّہ کے سبب پاکستان تیزی کے ساتھ ناقابل حکمرانی (Ungovernable) ہوتا جا رہا ہے، جس میں اصلاح احوال کے امکانات اب بہت کم نظر آ رہے ہیں۔
مختلف لسانی، مسلکی اور فرقہ وارانہ گروپس جس انداز میں مسلح ہو رہے ہیں اور جس طرح نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں، وہ کسی بھی وقت خطرناک تصادم کا سبب بن سکتی ہیں۔ بلوچستان پہلے ہی خطرناک راستے پر گامزن ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں شدت پسندی عروج پر ہے۔ کراچی کے مسئلے کا حل روایتی سیاسی یا انتظامی اقدامات کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ کراچی کے مسئلہ کے حل کے لیے سیاسی مفادات سے بلند ہو کر اربن Mindset کے ساتھ اقدامات کی ضرورت ہے۔
جس کا مظاہرہ نہیں ہو رہا۔ خاص طور پر وہ سیاسی جماعتیں جو اربن معاشرت کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے عاری ہیں، اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے اس شہر کو قبائلی انداز میں چلانے پر اصرار کر رہی ہیں۔ اس لیے جب تک حکمران، سیاسی جماعتیں اور دیگر سماجی شراکت دار سنجیدگی سے ان مسائل کی سنگینی کو سمجھنے اور تمام مصلحتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کوئی جرأتمندانہ اقدام نہیں کریں گے، ملک کو درپیش خطرات اپنی جگہ برقرار رہیں گے۔
اب تک یہ تصور تھا کہ مختلف لسانی گروہوں کے علاوہ سیاسی قوت رکھنے والے فرقے اور مسالک ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں لیکن گزشتہ دنوں ملک کی سب سے پر امن بوہرہ کمیونٹی کے رہائشی علاقے میں دو بم دھماکوں نے سوچ کے اس انداز کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ سیاسی طور پر غیر فعال کمیونٹیز بھی کالعدم تنظیموں کے نشانہ پر ہیں۔
شدت پسند عناصر کی دیدہ دلیری کا اندازہ دو ہفتے قبل کراچی کی ایک متمول بستی گلشن اقبال میں اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے، جب چند نوجوانوں نے ایک مقامی صحافی کو ٹیلی ویژن پر قوالی سننے کی پاداش میں اس کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے قتل کی دھمکیاں دیں۔ ان عناصر کا موقف تھا کہ ٹیلی ویژن دیکھنا غیر شرعی، جب کہ قوالی بدعت ہے، اس لیے ایسی غیر اسلامی سرگرمیوں کو طاقت کے ذریعہ روکنا ان کا دینی فریضہ ہے۔ پولیس نے ان عناصر کی شناخت ہو جانے کے باوجود ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
لہٰذا جو لوگ کراچی میں ہونے والی خونریزی کو آج بھی سیاسی جماعتوں کی کشمکش اور لسانی آویزش سمجھ رہے ہیں، انھیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ کراچی کی صورتحال اب ماضی کے مقابلے میں خاصی مختلف ہو چکی ہے اور پراسرار خونریزی کے پس پشت دیگر کئی عوامل بھی شامل ہو چکے ہیں۔ جن میں مختلف مافیائوں کے مجرمانہ مفادات کے علاوہ بعض کالعدم تنظیموں کی کراچی پر خاموش یلغار بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ جس کا ثبوت 21 ستمبر کو ہونے والی دہشت گردی بھی ہے، جس میں سی سی پی فوٹیج کے مطابق تقریباً سبھی افراد کا تعلق کراچی سے باہر کے لوگوں سے تھا۔ اس لیے کراچی کی صورتحال کو ان تینوں مفادات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
فیوڈل Mindest کی سیاسی جماعتیں، کراچی کے اربن مزاج اور سیاسی و سماجی Fabric کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ ہر جماعت کراچی میں اپنے اثر و نفوذ قائم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال تو کرتی ہے، مگر ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، جن کا تعلق خالصتاً اربن معاملات سے ہے۔ نتیجتاً ان چار برسوں کے دوران سیاسی معاملات کے ساتھ دیگر کئی عوامل بھی اس مسئلے کے ساتھ نتھی ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر شہر میں بہت سی مافیائیں اور کالعدم تنظیمیں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہیں اور یہ اپنے اپنے مخصوص مفادات کے لیے سرگرم ہیں۔ ان تنظیموں اور مافیائوں کو انتظامیہ اور پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔
اس وقت تین مافیائیں بہت زیادہ طاقتور ہوئیں، یعنی لینڈ، اسلحہ اور منشیات۔ لینڈ مافیا شہر کے اطراف میں موجود لاکھوں ایکڑ سرکاری زمین پر قبضہ کر کے فروخت کرتی ہے، جس میں پولیس اور صوبائی انتظامیہ برابر کی شریک ہوتی ہے۔ اس عمل میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی اپنی ذاتی حیثیت میں حصے دار ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر مفادات کا یہ ٹکرائو سیاسی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے۔ اب وزراء کے اس کھیل میں شریک ہو جانے سے یہ مسئلہ مزید سنگین ہو گیا ہے۔
دوسری طرف لیاری میں منشیات فروشوں کے دو گروہ کئی دہائیوں سے ایک دوسرے سے نبرد آزماء تھے۔ مگر یہ لیاری کے پرامن عوام اور اہل دانش کو تنگ نہیں کرتے تھے۔ ذوالفقار مرزا کی سرپرستی اور اس کے ردعمل میں دیگر سیاسی جماعتوں کے اس کھیل میں شریک ہو جانے سے ان گروہوں کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔ اس کے علاوہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہر گروہ سیاسی سرپرستی میں دھڑلے کے ساتھ پورے شہر میں بھتے بھی وصول کر رہا ہے اور انتظامیہ ان کے سامنے بے بس ہو چکی ہے۔
یہ گروہ صرف لیاری ہی نہیں پورے شہر کے لیے ناسور بن گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں سینئر صحافی نادر شاہ عادل کے بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی لیاری کے آتش فشان بن جانے کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔ جس کے نتیجے میں اس علاقے کے قدیمی شہری علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ تیسری اہم مافیاء اسلحہ مافیا ہے، جس نے نا اہل اور کرپٹ سرکاری انتظامیہ کی سرپرستی میں شہر کو جدید اور حساس آتشیں اسلحہ سے بھر دیا ہے۔
کراچی میں سیاسی بے چینی، لسانی آویزش اور مافیائوں کی کھلے عام سرگرمیوں کا فائدہ شہر میں خاموشی سے اپنی جگہ بنانے والی کالعدم تنظیموں نے اٹھایا۔ انھوں نے انتہائی منظم انداز میں ایک طرف شہر کے اہم علاقوں پر قبضہ کیا اور دوسری طرف وہ بینک ڈکیتیوں، دولتمند افراد کے اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کے ذریعہ بھاری رقم جمع کر رہے ہیں۔ چند ماہ قبل اورکزئی کے قبائلی علاقے سے رکن قومی اسمبلی نے ایک ٹیلی ویژن چینل پر کھل کر اعتراف کیا تھا کہ کراچی میں ہونے والی70 فیصد بینک ڈکیتیوں میں ان کے علاقے کے لوگ ملوث ہوتے ہیں، جو لوٹی ہوئی رقم قبائلی علاقوں میں سرگرم متشدد تنظیموں تک پہنچاتے ہیں۔ یہی عناصر شہر میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ میں بھی یہی عناصر ملوث پائے گئے ہیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں نہ جانے کن مصلحتوں کا شکار ہیں کہ وہ ان کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی سے مسلسل گریز کر رہی ہیں۔
اب اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں ہے کہ کراچی کے بعض علاقوں خاص طور پر نچلے متوسط طبقے کی بستیوں پر مذہبی شدت پسند عناصر کا قبضہ ہو چکا ہے۔ ان علاقوں میں پولیس اور انتظامیہ کے علاوہ شہر کی بااثر سیاسی جماعتیں داخل ہوتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔ عملی طور پر کراچی جو کبھی میٹروپولیٹن شہر ہوا کرتا تھا، آج مختلف لسانی اور فرقہ ورانہ کمیونٹیز میں تقسیم ہو چکا ہے۔ شہر میں سندھی، پختون، بلوچ اور اردو بولنے والوں کا اپنی مخصوص آبادیوں کی طرف منتقل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ عقیدے کے نام پر بھی Polarization میں تیزی آ رہی ہے اور شہر میں شیعہ اور سنی اپنی الگ بستیوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ اسی لیے ہر بستی کے مکین اپنا حفاظتی نظام خود چلانے پر مجبور ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ تمام حفاظتی تدابیر اسوقت بیکار ثابت ہوتی ہیں، جب انتہائی منظم اور جدید جنگی ہتھیاروں سے لیس کالعدم تنظیمیں جہاں چاہتی ہیں کارروائی کر کے اپنا ہدف پورا کر لیتی ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کراچی سے خیبر اور کوئٹہ سے گلگت تک کوئی بھی شہر، قصبہ اور گائوں محفوظ نہیں ہے۔ پورا ملک کرپشن، بدعنوانی اور بدامنی کے علاوہ مختلف گروہوں کی چومکھی لڑائی کی گرداب میں بری طرح پھنس چکا ہے، جس سے نکلنے کے امکانات وقت گذرنے کے ساتھ محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں میں سیاسی عزم، اسٹبلشمنٹ میں اہلیت اور اہل دانش میں واضح فکر کا فقدان ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے ڈھائی درجن کے قریب تھنک ٹینک پاکستان میں بڑھتے ہوئے اندرونی خلفشار کے خطے اور عالمی منظر نامہ پر مرتب ہونے والے اثرات اور خود پاکستان کے مستقبل کے بارے میں مطالعہ اور مشاہدہ کرنے میں مصروف ہیں۔
اس کے برعکس حکمران اشرافیہ، سیاسی رہنما اور اسٹبلشمنٹ ملک کی تیزی سے بگڑتی صورتحال کو سنبھالنے کے بجائے گو مگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ جب کہ بڑے سیاستدانوں، اسٹبلشمنٹ کے اعلیٰ اہلکاروں، بااثر تاجروں اور صنعتکاروں کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کے متمول گھرانے اپنی دولت اور اہل خانہ کو آہستہ آہستہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں متوحش شہریوں کے ایک بڑے حلقے کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور بیوروکریسی کے غیر سنجیدہ رویّہ کے سبب پاکستان تیزی کے ساتھ ناقابل حکمرانی (Ungovernable) ہوتا جا رہا ہے، جس میں اصلاح احوال کے امکانات اب بہت کم نظر آ رہے ہیں۔
مختلف لسانی، مسلکی اور فرقہ وارانہ گروپس جس انداز میں مسلح ہو رہے ہیں اور جس طرح نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں، وہ کسی بھی وقت خطرناک تصادم کا سبب بن سکتی ہیں۔ بلوچستان پہلے ہی خطرناک راستے پر گامزن ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں شدت پسندی عروج پر ہے۔ کراچی کے مسئلے کا حل روایتی سیاسی یا انتظامی اقدامات کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ کراچی کے مسئلہ کے حل کے لیے سیاسی مفادات سے بلند ہو کر اربن Mindset کے ساتھ اقدامات کی ضرورت ہے۔
جس کا مظاہرہ نہیں ہو رہا۔ خاص طور پر وہ سیاسی جماعتیں جو اربن معاشرت کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے عاری ہیں، اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے اس شہر کو قبائلی انداز میں چلانے پر اصرار کر رہی ہیں۔ اس لیے جب تک حکمران، سیاسی جماعتیں اور دیگر سماجی شراکت دار سنجیدگی سے ان مسائل کی سنگینی کو سمجھنے اور تمام مصلحتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کوئی جرأتمندانہ اقدام نہیں کریں گے، ملک کو درپیش خطرات اپنی جگہ برقرار رہیں گے۔