امریکا اور اعتماد سازی
پاکستان امریکا تعلقات اور بالخصوص افغانستان کے حالات اور پاکستان کے کردار کے تناظر میں خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔
فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف پہلی بار امریکا کے دورہ پر ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں کسی بھی فوجی سربراہ کا یہ پہلا دورہ امریکا ہے۔ اس دورہ کو پاکستان امریکا تعلقات اور بالخصوص افغانستان کے حالات اور پاکستان کے کردار کے تناظر میں خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ کچھ دن قبل امریکی وزارت دفاع نے اپنی ایک رپورٹ میں الزامات لگائے کہ پاکستان بدستور افغانستان اور بھارت میں دخل اندازی کر کے وہاں دہشت گردی کو تقویت دیتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ان الزامات کی تردید کی ہے، لیکن یہ کوئی نیا الزام نہیں، امریکی حکومت، میڈیا اور وہاں کے پالیسی ساز ادارے اسی طرح کی رپورٹس دیتے رہتے ہیں۔
امریکی پالیسی ساز ادارے اس بنیادی نقطہ پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں کہ پاکستان داخلی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے پر تو اب بہت توجہ دے رہا ہے، لیکن خارجی محاذ پر اس کی توجہ وہ نہیں جو اس وقت افغانستان سمیت بین الاقوامی دنیا کی ضرورت ہے۔ اس وقت امریکا کی اہم توجہ کا مرکز افغانستان ہے۔ اگرچہ اس برس کے آخر میں امریکا ایک بڑی تعداد میں وہاں سے اپنی فوجوں کے انخلا کی جانب بڑھے گا، لیکن دس ہزار کے قریب امریکی فوجی بدستور افغانستان میں ہی موجود رہیں گے۔ اس لیے یہ رائے کہ اب امریکا افغانستان سے مکمل طور پر دست بردار ہو رہا ہے، مکمل سچ نہیں۔ ان زمینی حقایق کے پیش نظر امریکا کا اب بھی بڑا انحصار پاکستان پر ہے۔ کیونکہ امریکا کو اندازہ ہے کہ اگر ہم نے افغانستان میں امن قائم کرنا ہے تو یہ امن پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔
جنرل راحیل شریف اپنے اس دورہ میں امریکا میں اس بنیادی نقطہ پر زور دیں گے کہ پاکستان اس وقت داخلی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے پوری صلاحیت اور توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ وہ اس تاثر کی بھی نفی کریں گے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کسی مخصوص گروپ کے خلاف اور کسی مخصوص گروپ کو بچانے کے لیے نہیں کیا جا رہا، بلکہ یہ بلاتفریق آپریشن ہے جس کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ فوجی سربراہ امریکی قیادت کو آگاہ کریں گے کہ پچھلے پانچ ماہ میں ہم نے آپریشن کے دوران 11 نجی جیلوں، 191 خفیہ خندقوں، 39 آئی ای ڈی فیکٹریاں، 24991 آئی ای ڈی، 2370 سب مشین گنیں، 292 مشین گنیں اور 111 بھاری اسلحہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح اب تک 1250سے زیادہ شدت پسند ہلاک، 200 سے زائد ٹھکانوں اور 356 افراد کو دہشت گردی کے تناظر میں حراست میں لیا گیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپریشن بلاتفریق ہو رہا ہے اور اس میں حقانی گروپ بھی شامل ہے۔ ماضی میں امریکا کا ایک بڑا دباؤ ہم پر حقانی گروپ کے حوالے سے بھی ہوتا تھا، خود امریکا میں بھی یہ اعتراف کافی حد تک موجود ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ میں زیادہ پرعزم نظر آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکا میں بہت سے پالیسی ساز ادارے اس آپریشن پر اپنے خدشات رکھتے ہیں۔ فوجی سربراہ امریکا کو یہ باور کروائیں گے کہ وہ ان پر بداعتمادی کی پالیسی کو اختیار کرنے کے بجائے مکمل اعتماد کرے ۔ کیونکہ اگر واقعی دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو یہ عمل اعتماد کی فضا اور دو طرفہ تعاون کے ساتھ ہی ممکن ہو گا۔
امریکا اس دورے میں فوجی سربراہ کی جہاں بہت سے اقدامات کی تعریف کرے گا، وہیں اس کی پالیسی ہو گی کہ پاکستان کو بہت زیادہ خوش فہمی میں رکھنے کے بجائے دباؤ کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔اس پالیسی کا ایک ہی بنیادی نقطہ ہو گا کہ وہ ہمیں ڈو مور کا کہے۔ امریکا بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری پر بھی زور دے گا ۔ خود بھارت کی قیادت وہاں کے پالیسی ساز ادارے بھی عالمی دنیا میںپراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں بہتر تعلقات کی راہ میں اصل رکاوٹ فوج ہے۔
اس صورتحال میں فوجی قیادت کا امتحان ہو گا کہ وہ کیسے امریکا کو باور کرواتی ہے کہ اصل رکاوٹ ہم نہیں بلکہ خود بھارت کی اپنی بد مزاجی اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست ہے۔ خود آرمی چیف کے پاس بھی ایک ایسی فہرست ہو گی جو وہ امریکی قیادت کو پیش کر سکتے ہیں کہ بھارت کا اپنا لب و لہجہ اور طرز عمل کیا ہے۔ یقینی طور پر فوج کے سربراہ امریکی قیادت کو یہ پیغام دیں گے کہ کچھ دباؤ ان کو بھارت پر بھی دینا ہو گا کہ وہ واقعی اگر تعلقات کی بہتری چاہتا ہے تووہ اپنے موجودہ طرز عمل کو تبدیل کرے۔ کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے کچھ عرصہ میں ہم نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں زیادہ مثبت اقدامات ظاہر کیے ہیں، لیکن بھارت ہماری اس کوشش کو ہماری کمزوری سمجھ کر مزید ہم پر دباؤ بڑھانے یا سخت گیر موقف اختیار کرنے کی پالیسی پر بدستور قائم ہے، جو اصل رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
البتہ اس امکان کو کسی بھی طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ امریکا پاکستان پر اس بات پر دباؤ بڑھائے گا کہ وہ اپنے ملک کو ایسے عناصر سے بھی پاک کرے جو بھارت کے بارے میں سخت عزائم رکھتے ہیں۔ ان کی مراد یقینا حافظ سعید اور ان کے ساتھی ہو گی۔ اس دباؤ کی ایک وجہ امریکا کا بھارت کو بھی یہ پیغام ہو گا کہ وہ اس کے معاملے پر بھی پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے، تا کہ وہ اس ملاقات اور اس کے ایجنڈے سے بھارت کی قیادت کو بھی خوش کر سکے۔ اس لیے جب پاکستان کی فوجی قیادت افغانستان کے تناظر میں دہشت گردی سے فارغ ہو گی، تو امریکا کا نیا دباؤ بھارت سے متعلق تنظیموں پر بھی ہو گا کہ ان کو بھی کسی صورت کوئی معافی نہ دی جائے۔
آرمی چیف امریکا کو یہ بھی باور کروائیں گے کہ ہمیں اگر دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑنی ہے تو اس کے لیے ہمیں زیادہ فوجی امداد کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پاکستان کی عسکری قیادت میں ماضی کے تناظر میں یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ اگر انخلا کے بعد امریکا نے ہماری امداد کو کم کیا تو اس سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ متاثر ہو سکتی ہے۔ امریکا یقینا امداد دے گا، لیکن اس کی یہ امداد نتائج کے ساتھ مشروط ہوگی اور ہمیں امریکا کی حمایت اور اس کے ایجنڈے کے تناظر میں پہلے سے زیادہ بہت کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنے والے عرصہ میں پاکستان کا کردار علاقائی ممالک بالخصوص بھارت، افغانستان، ایران اور چین کے حوالے سے اہم ہو گا، اور ہم سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی جائیں گی۔
کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ ہے وہ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان اتفاق رائے اور ایک سوچ کے تحت ہی کامیابی سے آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔ اب بھی علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کو آگے بڑھانے اور پاکستان کے کردار کو زیادہ مستحکم بنانے کے لیے ہماری سیاسی و عسکری قیادت کا ایجنڈا ایک ہی ہونا چاہیے۔ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان دوری کسی بھی صورت میں ہمارے مفاد میں نہیں ہو گی۔
امریکی پالیسی ساز ادارے اس بنیادی نقطہ پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں کہ پاکستان داخلی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے پر تو اب بہت توجہ دے رہا ہے، لیکن خارجی محاذ پر اس کی توجہ وہ نہیں جو اس وقت افغانستان سمیت بین الاقوامی دنیا کی ضرورت ہے۔ اس وقت امریکا کی اہم توجہ کا مرکز افغانستان ہے۔ اگرچہ اس برس کے آخر میں امریکا ایک بڑی تعداد میں وہاں سے اپنی فوجوں کے انخلا کی جانب بڑھے گا، لیکن دس ہزار کے قریب امریکی فوجی بدستور افغانستان میں ہی موجود رہیں گے۔ اس لیے یہ رائے کہ اب امریکا افغانستان سے مکمل طور پر دست بردار ہو رہا ہے، مکمل سچ نہیں۔ ان زمینی حقایق کے پیش نظر امریکا کا اب بھی بڑا انحصار پاکستان پر ہے۔ کیونکہ امریکا کو اندازہ ہے کہ اگر ہم نے افغانستان میں امن قائم کرنا ہے تو یہ امن پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔
جنرل راحیل شریف اپنے اس دورہ میں امریکا میں اس بنیادی نقطہ پر زور دیں گے کہ پاکستان اس وقت داخلی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے پوری صلاحیت اور توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ وہ اس تاثر کی بھی نفی کریں گے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کسی مخصوص گروپ کے خلاف اور کسی مخصوص گروپ کو بچانے کے لیے نہیں کیا جا رہا، بلکہ یہ بلاتفریق آپریشن ہے جس کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ فوجی سربراہ امریکی قیادت کو آگاہ کریں گے کہ پچھلے پانچ ماہ میں ہم نے آپریشن کے دوران 11 نجی جیلوں، 191 خفیہ خندقوں، 39 آئی ای ڈی فیکٹریاں، 24991 آئی ای ڈی، 2370 سب مشین گنیں، 292 مشین گنیں اور 111 بھاری اسلحہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح اب تک 1250سے زیادہ شدت پسند ہلاک، 200 سے زائد ٹھکانوں اور 356 افراد کو دہشت گردی کے تناظر میں حراست میں لیا گیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپریشن بلاتفریق ہو رہا ہے اور اس میں حقانی گروپ بھی شامل ہے۔ ماضی میں امریکا کا ایک بڑا دباؤ ہم پر حقانی گروپ کے حوالے سے بھی ہوتا تھا، خود امریکا میں بھی یہ اعتراف کافی حد تک موجود ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ میں زیادہ پرعزم نظر آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکا میں بہت سے پالیسی ساز ادارے اس آپریشن پر اپنے خدشات رکھتے ہیں۔ فوجی سربراہ امریکا کو یہ باور کروائیں گے کہ وہ ان پر بداعتمادی کی پالیسی کو اختیار کرنے کے بجائے مکمل اعتماد کرے ۔ کیونکہ اگر واقعی دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو یہ عمل اعتماد کی فضا اور دو طرفہ تعاون کے ساتھ ہی ممکن ہو گا۔
امریکا اس دورے میں فوجی سربراہ کی جہاں بہت سے اقدامات کی تعریف کرے گا، وہیں اس کی پالیسی ہو گی کہ پاکستان کو بہت زیادہ خوش فہمی میں رکھنے کے بجائے دباؤ کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔اس پالیسی کا ایک ہی بنیادی نقطہ ہو گا کہ وہ ہمیں ڈو مور کا کہے۔ امریکا بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری پر بھی زور دے گا ۔ خود بھارت کی قیادت وہاں کے پالیسی ساز ادارے بھی عالمی دنیا میںپراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں بہتر تعلقات کی راہ میں اصل رکاوٹ فوج ہے۔
اس صورتحال میں فوجی قیادت کا امتحان ہو گا کہ وہ کیسے امریکا کو باور کرواتی ہے کہ اصل رکاوٹ ہم نہیں بلکہ خود بھارت کی اپنی بد مزاجی اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست ہے۔ خود آرمی چیف کے پاس بھی ایک ایسی فہرست ہو گی جو وہ امریکی قیادت کو پیش کر سکتے ہیں کہ بھارت کا اپنا لب و لہجہ اور طرز عمل کیا ہے۔ یقینی طور پر فوج کے سربراہ امریکی قیادت کو یہ پیغام دیں گے کہ کچھ دباؤ ان کو بھارت پر بھی دینا ہو گا کہ وہ واقعی اگر تعلقات کی بہتری چاہتا ہے تووہ اپنے موجودہ طرز عمل کو تبدیل کرے۔ کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے کچھ عرصہ میں ہم نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں زیادہ مثبت اقدامات ظاہر کیے ہیں، لیکن بھارت ہماری اس کوشش کو ہماری کمزوری سمجھ کر مزید ہم پر دباؤ بڑھانے یا سخت گیر موقف اختیار کرنے کی پالیسی پر بدستور قائم ہے، جو اصل رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
البتہ اس امکان کو کسی بھی طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ امریکا پاکستان پر اس بات پر دباؤ بڑھائے گا کہ وہ اپنے ملک کو ایسے عناصر سے بھی پاک کرے جو بھارت کے بارے میں سخت عزائم رکھتے ہیں۔ ان کی مراد یقینا حافظ سعید اور ان کے ساتھی ہو گی۔ اس دباؤ کی ایک وجہ امریکا کا بھارت کو بھی یہ پیغام ہو گا کہ وہ اس کے معاملے پر بھی پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے، تا کہ وہ اس ملاقات اور اس کے ایجنڈے سے بھارت کی قیادت کو بھی خوش کر سکے۔ اس لیے جب پاکستان کی فوجی قیادت افغانستان کے تناظر میں دہشت گردی سے فارغ ہو گی، تو امریکا کا نیا دباؤ بھارت سے متعلق تنظیموں پر بھی ہو گا کہ ان کو بھی کسی صورت کوئی معافی نہ دی جائے۔
آرمی چیف امریکا کو یہ بھی باور کروائیں گے کہ ہمیں اگر دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑنی ہے تو اس کے لیے ہمیں زیادہ فوجی امداد کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پاکستان کی عسکری قیادت میں ماضی کے تناظر میں یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ اگر انخلا کے بعد امریکا نے ہماری امداد کو کم کیا تو اس سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ متاثر ہو سکتی ہے۔ امریکا یقینا امداد دے گا، لیکن اس کی یہ امداد نتائج کے ساتھ مشروط ہوگی اور ہمیں امریکا کی حمایت اور اس کے ایجنڈے کے تناظر میں پہلے سے زیادہ بہت کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنے والے عرصہ میں پاکستان کا کردار علاقائی ممالک بالخصوص بھارت، افغانستان، ایران اور چین کے حوالے سے اہم ہو گا، اور ہم سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی جائیں گی۔
کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ ہے وہ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان اتفاق رائے اور ایک سوچ کے تحت ہی کامیابی سے آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔ اب بھی علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کو آگے بڑھانے اور پاکستان کے کردار کو زیادہ مستحکم بنانے کے لیے ہماری سیاسی و عسکری قیادت کا ایجنڈا ایک ہی ہونا چاہیے۔ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان دوری کسی بھی صورت میں ہمارے مفاد میں نہیں ہو گی۔