ان ہی چلن پر ہم سے جدا بنگال ہوا
ہ سب سچ ہے بلکہ مکمل سچ پر مبنی سیکڑوں کتابیں موجود ہیں جن میں سب کچھ درج ہے کہ بنگالیوں کے ساتھ کیا کیا ظلم کیے گئے۔
آدھے سے زیادہ پاکستان ہم نے گنوا دیا، مگر ہمارے سیاستدانوں کے لچھن نہ بدلے۔ سب کو یاد ہو گا جب اصل پاکستان موجود تھا۔ ہمارے بنگالی ساتھی کہا کرتے تھے ''ادھر کا بچہ کون آئس کریم کھاتا ہے۔ آدھی کھاتا ہے آدھی پھینک دیتا ہے، ہمارا بچہ روکھا سوکھا کھا کر سو جاتا ہے، ہر سال سمندری طوفان میں ہزاروں بنگالی مر جاتے ہیں اور ادھر (مغربی پاکستان) میں محل پہ محل بنے جا رہے ہیں، ادھر کا سرکاری ملازم ادھر (مشرقی پاکستان) ٹرانسفر ہو کر آتا ہے۔ ہماری لڑکی سے شادی کرتا ہے۔ پانچ چھ سال میں چار پانچ بچے پیدا کرتا ہے، پھر واپس ٹرانسفر ہو کر ادھر آ جاتا ہے۔ بیوی بچوں کو بے یارومددگار چھوڑ آتا ہے۔''
یہ سب سچ ہے بلکہ مکمل سچ پر مبنی سیکڑوں کتابیں موجود ہیں جن میں سب کچھ درج ہے کہ بنگالیوں کے ساتھ کیا کیا ظلم کیے گئے، کیسے کیسے ستم کے پہاڑ ان پر توڑے گئے۔ مجھے یاد ہے میں اس جلسے میں موجود تھا جو کراچی کے نشتر پارک میں ہوا تھا، نشتر پارک کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، ارد گرد کی سڑکیں بھری ہوئی تھیں، گرومندر سے کیپری سینما تک لوگ موجود تھے، پورے شہر کراچی میں آباد بنگالی اس جلسے میں موجود تھے۔
بلاشبہ اس وقت وہ جلسہ شہر کا سب سے بڑا جلسہ تھا اور اس عظیم الشان جلسے سے شیخ مجیب الرحمن خطاب کر رہے تھے۔ آج بھی میرے کانوں میں شیخ مجیب الرحمن کے الفاظ کی گونج موجود ہے۔ وہ بغیر روسٹرم کے مائیکروفون کے سامنے کھڑے تھے۔ اور کہہ رہے تھے ''گنا ہمارے ہاں پیدا ہوتا ہے، کارخانوں میں چینی بنتی ہے، مہر آدم جی کی لگتی ہے اور میرے بنگال میں چینی چار آنہ مہنگی بیچی جاتی ہے، آخر کیوں؟ چائے کے باغات بنگال میں ہیں، مہر ادھر کی لگتی ہے، اور ہم کو مہنگی چائے ملتی ہے آخر کیوں؟ کاغذ ہماری پیداوار ہے، مہر ادھر کی لگتی ہے اور ہمارے بچے مہنگی کاپیاں خریدتے ہیں، آخر کیوں؟''
اور ہمارے پاس ان کے ''آخر کیوں'' کا کوئی جواب موجود نہیں تھا۔ آج بھی باقی ماندہ پاکستان میں وہی کالے کرتوت جاری ہیں۔
تھر میں غریبوں کے بچے بغیر علاج کے مر رہے ہیں۔ سندھ حکومت کے حکمران کروڑوں کی گاڑیوں میں سوار، تھر کے زخموں پر نمک چھڑکنے گئے تھے، صحرائے تھر کی ریت اڑاتی گاڑیاں قطار اندر قطار چلی آ رہی تھیں، حکمران اپنے محلوں کا سا ماحول لیے ٹھنڈی اور ہر طرح کی سہولتوں سے لدی پھندی گاڑیوں میں غربت کے ماروں کا نظارہ کرتے رہے تھے اور پھر کچھ دیر رک کر ''حالت'' کو جوں کا توں چھوڑ کر گزر گئے۔ ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمارے ''غم گسار'' لندن کی ہوش ربا فضاؤں میں بیٹھے ہیں، جو ''آنے'' کے لیے زور لگا رہے ہیں وہ بھی امریکا، کینیڈا اور لندن ہی میں فیصلے کرتے ہیں۔
عرصہ ہوا کراچی پاکستان کا ہب، مِنی پاکستان، معیشت کی ریڑھ کی ہڈی، گیٹ وے ٹو پاکستان جانے کیا کیا ''اس شہر خرابی'' کو کہا جاتا ہے، آج بھی اس شہر میں پانچ چھ بندے روز دہشت گردوں کا شکار ہو رہے ہیں، پولیس کی گاڑیوں پر بم مارے جا رہے ہیں، آپریشن کلین اپ جاری ہے، مگر ''یہ دل کی ویرانی تو جائے'' لو خود بخود صابر ظفر کا مصرعہ آ گیا۔
خیبر پختون خوا میں بارہ لاکھ پاکستانی اپنا گھر بار چھوڑے خیموں میں بیٹھے ہیں، ہماری فوج دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی ہے ''ضرب عضب'' کو جاری ہوئے مہینوں گزر گئے ہیں، خیموں میں مقیم پاکستانیوں کے گھر بار گولہ بارود کی نذر ہو چکے، اور ''ضرب عضب'' ابھی جاری ہے۔ ان خانما بربادوں پر صوبائی پولیس نے فائرنگ کر دی، لوگ مارے گئے یہ کیسا ستم ایجاد کیا گیا، مرے ہوؤں کو مارا جا رہا ہے۔ ادھر دور بلوچستان میں بھی دہشت گردی جاری ہے۔
غریب مزدوروں کو جو اپنے علاقوں سے چل کر رزق کی تلاش میں بلوچستان آئے تھے مار دیا گیا۔ پنجاب میں بھی ظلم کی داستانیں مسلسل لکھی جا رہی ہیں، حال ہی میں دو پاکستانی میاں بیوی شہزاد مسیح اور شمع مسیح جو غربت کے مارے تھے انھیں مزید مار مار کر ادھ موا کر کے اینٹوں کے بھٹے میں پھینک دیا گیا اور وہ نوجوان میاں بیوی جل کر کوئلہ بن گئے۔ آج ہی مولوی صاحب فجر کی نماز کے بعد ''ذکر'' میں کہہ رہے تھے کہ حضورؐ نے اپنے لیے دعا کی کہ ''اے اللہ! قیامت میں میرا غریبوں کے ساتھ معاملہ فرمانا۔'' گزشتہ کالم میں تفصیل کے ساتھ ذکر کرچکا ہوں۔
بنگال کو تو ہم نے کھو دیا، اب بقول جالب:
غاصبو' تم خدا سے کچھ تو ڈرو
باقی ماندہ وطن پہ رحم کرو
مگر پاکستان دیکھ رہا ہے۔ ہمارے سیاست دان جو کر رہے ہیں۔ 60 دن تک بنام دھرنا دو سیاست دانوں نے جو مظاہرہ کیا کیا باقی ماندہ پاکستان کے لیے یہ مناسب تھا؟ آج صورت حال یہ ہے کہ ہم اندرونی اور بیرونی خطرات میں بری طرح گھرے ہوئے ہیں۔ قاضی نذرالاسلام کی طرح حبیب جالب کو بھی مطلق پرواہ نہیں تھی کہ مستقبل انھیں یاد رکھے گا یا نہیں۔ یہ دوسری بات کہ قاضی نذرالاسلام آج زندہ ہیں اور حبیب جالب بھی 23 سال کے بعد آج اور بھی زیادہ مقبول ہے۔ جالب کے ہوتے ہوئے مختلف صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں، اس نے کہا تھا:
جو صدائیں سن رہا ہوں' مجھے بس ان ہی کا غم ہے
تمہیں شعر کی پڑی ہے' مجھے آدمی کا غم ہے
جسے اپنے خون سے پالا' وہ حسیں سجل اجالا
وہی قتل ہو رہا ہے میری جاں اسی کا غم ہے
آج وہ صدائیں شدت سے بلند ہو رہی ہیں دہشت کے پرچم سج رہے ہیں۔ اور عوام اپنے اپنے گھروں میں قید ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی ظلم بنگال میں مسلسل ہو رہا تھا اور پھر جن بنگالیوں نے پاکستان بنایا تھا انھوں نے ایک اور آزادی حاصل کی اور بنگلہ دیش بنا لیا۔ جالب کی نظم سے اقتباس:
ان ہی چلن پر ہم سے جدا بنگال ہوا
پوچھ نہ اس دکھ سے جو دل کا حال ہوا
روکو یہ سیلاب کہ پاکستان چلا
یہ سب سچ ہے بلکہ مکمل سچ پر مبنی سیکڑوں کتابیں موجود ہیں جن میں سب کچھ درج ہے کہ بنگالیوں کے ساتھ کیا کیا ظلم کیے گئے، کیسے کیسے ستم کے پہاڑ ان پر توڑے گئے۔ مجھے یاد ہے میں اس جلسے میں موجود تھا جو کراچی کے نشتر پارک میں ہوا تھا، نشتر پارک کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، ارد گرد کی سڑکیں بھری ہوئی تھیں، گرومندر سے کیپری سینما تک لوگ موجود تھے، پورے شہر کراچی میں آباد بنگالی اس جلسے میں موجود تھے۔
بلاشبہ اس وقت وہ جلسہ شہر کا سب سے بڑا جلسہ تھا اور اس عظیم الشان جلسے سے شیخ مجیب الرحمن خطاب کر رہے تھے۔ آج بھی میرے کانوں میں شیخ مجیب الرحمن کے الفاظ کی گونج موجود ہے۔ وہ بغیر روسٹرم کے مائیکروفون کے سامنے کھڑے تھے۔ اور کہہ رہے تھے ''گنا ہمارے ہاں پیدا ہوتا ہے، کارخانوں میں چینی بنتی ہے، مہر آدم جی کی لگتی ہے اور میرے بنگال میں چینی چار آنہ مہنگی بیچی جاتی ہے، آخر کیوں؟ چائے کے باغات بنگال میں ہیں، مہر ادھر کی لگتی ہے، اور ہم کو مہنگی چائے ملتی ہے آخر کیوں؟ کاغذ ہماری پیداوار ہے، مہر ادھر کی لگتی ہے اور ہمارے بچے مہنگی کاپیاں خریدتے ہیں، آخر کیوں؟''
اور ہمارے پاس ان کے ''آخر کیوں'' کا کوئی جواب موجود نہیں تھا۔ آج بھی باقی ماندہ پاکستان میں وہی کالے کرتوت جاری ہیں۔
تھر میں غریبوں کے بچے بغیر علاج کے مر رہے ہیں۔ سندھ حکومت کے حکمران کروڑوں کی گاڑیوں میں سوار، تھر کے زخموں پر نمک چھڑکنے گئے تھے، صحرائے تھر کی ریت اڑاتی گاڑیاں قطار اندر قطار چلی آ رہی تھیں، حکمران اپنے محلوں کا سا ماحول لیے ٹھنڈی اور ہر طرح کی سہولتوں سے لدی پھندی گاڑیوں میں غربت کے ماروں کا نظارہ کرتے رہے تھے اور پھر کچھ دیر رک کر ''حالت'' کو جوں کا توں چھوڑ کر گزر گئے۔ ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمارے ''غم گسار'' لندن کی ہوش ربا فضاؤں میں بیٹھے ہیں، جو ''آنے'' کے لیے زور لگا رہے ہیں وہ بھی امریکا، کینیڈا اور لندن ہی میں فیصلے کرتے ہیں۔
عرصہ ہوا کراچی پاکستان کا ہب، مِنی پاکستان، معیشت کی ریڑھ کی ہڈی، گیٹ وے ٹو پاکستان جانے کیا کیا ''اس شہر خرابی'' کو کہا جاتا ہے، آج بھی اس شہر میں پانچ چھ بندے روز دہشت گردوں کا شکار ہو رہے ہیں، پولیس کی گاڑیوں پر بم مارے جا رہے ہیں، آپریشن کلین اپ جاری ہے، مگر ''یہ دل کی ویرانی تو جائے'' لو خود بخود صابر ظفر کا مصرعہ آ گیا۔
خیبر پختون خوا میں بارہ لاکھ پاکستانی اپنا گھر بار چھوڑے خیموں میں بیٹھے ہیں، ہماری فوج دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی ہے ''ضرب عضب'' کو جاری ہوئے مہینوں گزر گئے ہیں، خیموں میں مقیم پاکستانیوں کے گھر بار گولہ بارود کی نذر ہو چکے، اور ''ضرب عضب'' ابھی جاری ہے۔ ان خانما بربادوں پر صوبائی پولیس نے فائرنگ کر دی، لوگ مارے گئے یہ کیسا ستم ایجاد کیا گیا، مرے ہوؤں کو مارا جا رہا ہے۔ ادھر دور بلوچستان میں بھی دہشت گردی جاری ہے۔
غریب مزدوروں کو جو اپنے علاقوں سے چل کر رزق کی تلاش میں بلوچستان آئے تھے مار دیا گیا۔ پنجاب میں بھی ظلم کی داستانیں مسلسل لکھی جا رہی ہیں، حال ہی میں دو پاکستانی میاں بیوی شہزاد مسیح اور شمع مسیح جو غربت کے مارے تھے انھیں مزید مار مار کر ادھ موا کر کے اینٹوں کے بھٹے میں پھینک دیا گیا اور وہ نوجوان میاں بیوی جل کر کوئلہ بن گئے۔ آج ہی مولوی صاحب فجر کی نماز کے بعد ''ذکر'' میں کہہ رہے تھے کہ حضورؐ نے اپنے لیے دعا کی کہ ''اے اللہ! قیامت میں میرا غریبوں کے ساتھ معاملہ فرمانا۔'' گزشتہ کالم میں تفصیل کے ساتھ ذکر کرچکا ہوں۔
بنگال کو تو ہم نے کھو دیا، اب بقول جالب:
غاصبو' تم خدا سے کچھ تو ڈرو
باقی ماندہ وطن پہ رحم کرو
مگر پاکستان دیکھ رہا ہے۔ ہمارے سیاست دان جو کر رہے ہیں۔ 60 دن تک بنام دھرنا دو سیاست دانوں نے جو مظاہرہ کیا کیا باقی ماندہ پاکستان کے لیے یہ مناسب تھا؟ آج صورت حال یہ ہے کہ ہم اندرونی اور بیرونی خطرات میں بری طرح گھرے ہوئے ہیں۔ قاضی نذرالاسلام کی طرح حبیب جالب کو بھی مطلق پرواہ نہیں تھی کہ مستقبل انھیں یاد رکھے گا یا نہیں۔ یہ دوسری بات کہ قاضی نذرالاسلام آج زندہ ہیں اور حبیب جالب بھی 23 سال کے بعد آج اور بھی زیادہ مقبول ہے۔ جالب کے ہوتے ہوئے مختلف صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں، اس نے کہا تھا:
جو صدائیں سن رہا ہوں' مجھے بس ان ہی کا غم ہے
تمہیں شعر کی پڑی ہے' مجھے آدمی کا غم ہے
جسے اپنے خون سے پالا' وہ حسیں سجل اجالا
وہی قتل ہو رہا ہے میری جاں اسی کا غم ہے
آج وہ صدائیں شدت سے بلند ہو رہی ہیں دہشت کے پرچم سج رہے ہیں۔ اور عوام اپنے اپنے گھروں میں قید ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی ظلم بنگال میں مسلسل ہو رہا تھا اور پھر جن بنگالیوں نے پاکستان بنایا تھا انھوں نے ایک اور آزادی حاصل کی اور بنگلہ دیش بنا لیا۔ جالب کی نظم سے اقتباس:
ان ہی چلن پر ہم سے جدا بنگال ہوا
پوچھ نہ اس دکھ سے جو دل کا حال ہوا
روکو یہ سیلاب کہ پاکستان چلا