پراسرار چادر
ل تک کچرا کنڈی سے کھانا چنے والے بے گھر افراد مجھ پر وحشت طاری کر دیتے تھے۔
اگر آپ سگنل پر ہاتھ پھیلائے کھڑی بوڑھی عورت کو دیکھ کر افسردہ ہو جاتے ہیں، تو یہ تحریر آپ کے لیے ہے۔
اگر قلم کی جگہ اوزار تھامے ننھے محنت کش آپ کو یاسیت میں دھکیل دیتے ہیں، بیوہ کا گریہ دل گرفتہ رکھتا ہے، یتیم کا چہرہ نیند حرام کر دیتا ہے، بیٹے کو کھونے والے ضعیف باپ کی پکار تڑپا دیتی ہے، ادویہ سے محروم مریض کے آنسو روح میں اتر جاتے ہیں، بھوک سے جوجھتے چہرے کرب میں مبتلا کر دیتے ہیں، سلنڈر دھماکوں کے بعد اسکول وین سے ملنے والی سوختہ لاشیں دیوانہ بنا دیتی ہیں، عدم مساوات پر جی کڑھتا ہے، زمانے کا غم آپ کو چاٹ رہا ہے، تو جان لیجیے کہ اس تحریر کے مخاطب آپ ہیں۔
جو مناظر آپ کو کچوکے لگاتے ہیں، پہلے وہ مجھے بھی کرب میں مبتلا رکھتے تھے۔ جو خبر آپ کی نیند چھین لیتی ہے، وہ کبھی مجھے بھی جگائے رکھتی تھی۔ جو الفاظ آپ کے دل کی فصل پر درانتی چلاتے ہیں، وہ میرے کھیتوں کو بھی روند ڈالتے تھے، پر اب۔۔۔ حالات بدل گئے ہیں۔
ہاں، کل تک کچرا کنڈی سے کھانا چنے والے بے گھر افراد مجھ پر وحشت طاری کر دیتے تھے، سڑکوں پر زندگی گزارتے میلے کچیلے بچے، شوہر کا تشدد سہتی مظلوم عورتیں، بے سہارا والدین، بے روزگار نوجوان میری آنکھوں میں آنسو بن کر تیرا کرتے، مگر اب میں ایک بدلا ہوا انسان ہوں۔ ماہیت قلب کے مرحلے سے گزرا ہوں۔
اور یہ تبدیلی ایک بزرگ کی دین ہے، جو ایک بکھرتی شام مجھے ایک خاموش پارک میں ملے۔ مجھے ان کا نورانی سراپا بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ سیکڑوں قلم کار یہ فریضہ ایک سے زاید بار انجام دے چکے ہیں۔ دراصل تصوف کی جانب مائل یہ پراسرار بزرگ قلم قبیلے کا تعاقب کرتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں اپنی دانائی انڈیلتے ہیں۔ لکھنے پر اکساتے ہیں۔ کچھ کو تو ایسا گرویدہ بنا لیتے ہیں کہ جب تک صوفی سر نہ اٹھائے، قلم کار قلم نہیں اٹھا پاتا۔
سچ کہوں، تو پہلے میں ایسے بزرگوں کا قائل نہ تھا۔ ان کی نصیحت، پیش گوئیوں کو وقت کا ضیاع خیال کرتا۔ ان دوستوں سے نالاں، جو پراسرار ہستیوں کو تحریر کا موضوع بناتے ہیں، پر اب میں ایسا نہیں سوچتا۔ نگاہ مرد مومن کا قائل ہو گیا ہوں۔
ہوا یوں کہ میں بینچ پر اداس بیٹھا تھا۔ پہلو میں کھٹ پٹ ہوئی۔ سر اٹھایا، تو دیکھا کہ ایک نورانی چہرہ بزرگ بیٹھے مزے سے مسکرا رہے ہیں۔ حالات کی تو آپ کو خبر ہے۔ میں محتاط ہو گیا۔ جیب میں پڑے موبائل فون پر گرفت مضبوط کی۔ انھوں نے باتیں کرنے کی کوشش کی، تو کچھ سمٹ گیا۔ جب زیادہ بے تکلف ہوئے، تو جھٹ سے کہہ دیا؛ حضور، بٹوا گھر بھول آیا ہوں۔
ان کے چہرے پر بوڑھا تاسف پھیل گیا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں تو ڈر ہی گیا کہ ابھی پستول برآمد ہو گی، مگر جب اندھیرے میں چمکنے والی تسبیح نکلی، تو سکون کا سانس لیا۔
بزرگ نے میرا اعتماد بحال کرنے کے لیے چھوٹی موٹی کرامات دکھائیں۔ میرا نام بتایا۔ پیشے کی نشان دہی کی۔ ہمیں ہمارا ہی پتہ سمجھایا۔ رجھانے کے لیے کچھ پیش گوئیاں بھی کیں۔ پُراسرار بندے، آخری معرکہ، ہماری فتح، عظیم ریاست وغیرو وغیرہ۔
جب میں کچھ سنبھلا، تو صوفی نے کاندھے پر ہاتھ رکھا: ''زمانے کا الم تجھے چاٹ رہا ہے۔''
میں، جو پہلے ہی ان کا قائل ہو گیا تھا، اس نئے انکشاف کی تجلی سہہ نہیں سکا۔ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ ان کے گھٹنے پر سر رکھ دیا۔ اُن ہی کے رومال سے ناک صاف کی۔ عقیدت نے کچھ اور زور مارا، تو پیر پکڑ لیے۔
''حضور، اس درد سے نکالیں۔ اب اور نہیں سہا جاتا۔ سوچتا ہوں، اندھا ہوجاؤں۔ نہ تو کچھ دیکھوں، نہ ہی گریہ کروں۔''
وہ کسی دانا کے مانند، جو کہ وہ تھے، مسکرائے۔ ''بچے، مایوسی کفر۔ کوئی مرض لاعلاج نہیں۔ سمجھ، تیرے غم کا مداوا ہو گیا۔''
انھوں نے ایک پوٹلی سے، جو آغاز سے ان کے پاس تھی، بوسیدہ سی چادر نکال کر میرے کاندھے پر ڈال دی۔ گناہ گار انسان ہو، شک میں پڑ گیا کہ بڑے میاں مجھے اینٹھنے کے چکر میں ہیں۔ بزرگی کا ڈھونگ کر کے چادریں بیچتے ہیں۔ مگر اگلے ہی پل ایک نیا احساس اجاگر ہوا۔ آنکھوں کے سامنے مناظر تو وہی تھے، مگر زاویہ بدلنے لگا۔ پارک کے دروازے پر بیٹھے ضعیف گداگر کی صدا میرے دل تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ کونے میں کھڑے جوتے پالش کرنے والا بچہ غیرمتعلقہ ہو گیا۔ کوٹ کی جیب میں موجود اخبار کی کرب ناک خبریں مٹنے لگیں۔ تھر اجنبی لگا، کوٹ رادھا کشن غیرمانوس۔ کچرے سے کھانے چنتے شخص کو دیکھ کر کراہت ہوئی۔ مزدور کے بدن سے اٹھتی بو ناگوار گزری۔ سڑک پر ایک حادثہ ہوا۔ زخمی نوجوان کئی ساعتوں تک تڑپتا رہا، مگر مدد کا جذبہ کافور ہو چکا تھا۔ ہاں، ایک انقلاب مجھ پر بیت رہا تھا۔ یہ نیا پاکستان تھا۔
میں نے آنکھوں میں نمی لیے بزرگ کی طرف دیکھا۔ ان کا جھریوں زدہ ہاتھ چوما۔ شکریہ ادا کیا۔ جھجکتے ہوئے پوچھا؛ اس چادر کی قیمت؟
میری اس معصوم حماقت پر ان کی، ایک کان سے دوسرے کان تک پھیلی مسکراہٹ، کچھ اور پھیل گئی۔ ''اسے ایک تحفہ جانو۔''
میں اٹھنے لگا، مگر تجسس کے بوجھ تلے پھر بیٹھ گیا۔ درخواست کی وہ اس پراسرار چادر کا راز بتائیں۔ پہلے تو ٹالتے رہے، مگر جب میں ضدی بچوں کی ایڑیاں رگڑنے لگا، تو میرے سر پر چپت لگاتے ہوئے فرمایا: ''بیٹا، یہ بے حسی کی چادر ہے۔ ایک بار اوڑھ لو، زمانے کے غموں سے جان چھوٹ جائے گی۔''
''بے حسی کی چادر۔ ارے واہ۔'' میں نے تالی بجائی۔ پھر کچھ سوچ کر پوچھا؛ وہ آج سے قبل کتنے خوش نصیبوں کو بے حسی کی یہ چادر عطا کر چکے ہیں؟
اُنھوں نے پان منہ میں ڈالا۔ ایک اور چپت رسید کی۔ بتانے لگے: ''یوں تو بہتوں کو دی۔ تمھارے قبیلے کا تو تذکرہ ہی کیا، مگر ادیب شاعر بھی کئی ہیں۔ کچھ فن کار، کچھ سماجی کارکن، کچھ مڈل کلاسیے وغیرہ۔''
مارے تجسس کے میرا برا حال۔ ''حضور، کیا جاگیرداروں، وڈیروں کو بھی یہ چادر دی؟ سیاست دانوں کو بھی نوازا؟ فہرست طویل ہو گی۔''
بابا جی جھینپ گئے۔ ''نہیں، ایسی کوئی طویل بھی نہیں۔ ایک دو کو دی ہو گی۔ سچ پوچھو تو اکثریت کو اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔''
''ظاہر سی بات ہے، وہ بے حسی کو اپنی کھال جو بنا لیتے ہیں۔ آخر حکمراں ٹھہرے۔'' میں نے معصومیت میں ایک تاریخی جملہ کہہ دیا۔
بابا جی نے قہقہہ لگایا۔ پھر یک دم سنجیدہ ہو گئے۔ ''چلو، غیبت اچھی بات نہیں۔ اور سنو، اگر اپنے اردگرد کسی کو غم زمانہ میں مبتلا پاؤ، تو فقیر کا پتہ دو۔ آپ کا راز، راز رہے گا۔''
تو صاحبو، میں نے بزرگ کے ہاتھ چومے، اور پارک سے باہر آ گیا۔ اور اب ان کا انوکھا پیغام آپ کے خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ اگر بوڑھی ضعیف عورت، ننھا محنت کش، بیوہ کا گریہ اور فاقے زدہ چہرے آپ کو کرب میں مبتلا کر دیتے ہیں، تو فی الفور بے حسی کی چادر حاصل کیجیے۔ اسے اوڑھیں، اور ہمارے سیاست دانوں، وڈیروں، سرمایہ داروں، قلم کاروں کی طرح ایک مطمئن اور مسرور زندگی گزاریں۔ بھئی جس کا غم، وہ خود ہی اٹھاتا پھرے۔ ہمیں کیا!
نوٹ: اگر قارئین کا خیال ہے کہ وہ کوئی بزرگ نہیں، بلکہ بڑے میاں کے روپ میں خود شیطان تھا، جس نے راقم الحروف کو بھٹکا دیا، تو درخواست ہے کہ اس موضوع کو پھر کبھی کے لیے اٹھا رکھیں۔ ابھی راقم الحروف کو بے حسی سے محظوظ ہونے دیجیے۔ شکریہ!
اگر قلم کی جگہ اوزار تھامے ننھے محنت کش آپ کو یاسیت میں دھکیل دیتے ہیں، بیوہ کا گریہ دل گرفتہ رکھتا ہے، یتیم کا چہرہ نیند حرام کر دیتا ہے، بیٹے کو کھونے والے ضعیف باپ کی پکار تڑپا دیتی ہے، ادویہ سے محروم مریض کے آنسو روح میں اتر جاتے ہیں، بھوک سے جوجھتے چہرے کرب میں مبتلا کر دیتے ہیں، سلنڈر دھماکوں کے بعد اسکول وین سے ملنے والی سوختہ لاشیں دیوانہ بنا دیتی ہیں، عدم مساوات پر جی کڑھتا ہے، زمانے کا غم آپ کو چاٹ رہا ہے، تو جان لیجیے کہ اس تحریر کے مخاطب آپ ہیں۔
جو مناظر آپ کو کچوکے لگاتے ہیں، پہلے وہ مجھے بھی کرب میں مبتلا رکھتے تھے۔ جو خبر آپ کی نیند چھین لیتی ہے، وہ کبھی مجھے بھی جگائے رکھتی تھی۔ جو الفاظ آپ کے دل کی فصل پر درانتی چلاتے ہیں، وہ میرے کھیتوں کو بھی روند ڈالتے تھے، پر اب۔۔۔ حالات بدل گئے ہیں۔
ہاں، کل تک کچرا کنڈی سے کھانا چنے والے بے گھر افراد مجھ پر وحشت طاری کر دیتے تھے، سڑکوں پر زندگی گزارتے میلے کچیلے بچے، شوہر کا تشدد سہتی مظلوم عورتیں، بے سہارا والدین، بے روزگار نوجوان میری آنکھوں میں آنسو بن کر تیرا کرتے، مگر اب میں ایک بدلا ہوا انسان ہوں۔ ماہیت قلب کے مرحلے سے گزرا ہوں۔
اور یہ تبدیلی ایک بزرگ کی دین ہے، جو ایک بکھرتی شام مجھے ایک خاموش پارک میں ملے۔ مجھے ان کا نورانی سراپا بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ سیکڑوں قلم کار یہ فریضہ ایک سے زاید بار انجام دے چکے ہیں۔ دراصل تصوف کی جانب مائل یہ پراسرار بزرگ قلم قبیلے کا تعاقب کرتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں اپنی دانائی انڈیلتے ہیں۔ لکھنے پر اکساتے ہیں۔ کچھ کو تو ایسا گرویدہ بنا لیتے ہیں کہ جب تک صوفی سر نہ اٹھائے، قلم کار قلم نہیں اٹھا پاتا۔
سچ کہوں، تو پہلے میں ایسے بزرگوں کا قائل نہ تھا۔ ان کی نصیحت، پیش گوئیوں کو وقت کا ضیاع خیال کرتا۔ ان دوستوں سے نالاں، جو پراسرار ہستیوں کو تحریر کا موضوع بناتے ہیں، پر اب میں ایسا نہیں سوچتا۔ نگاہ مرد مومن کا قائل ہو گیا ہوں۔
ہوا یوں کہ میں بینچ پر اداس بیٹھا تھا۔ پہلو میں کھٹ پٹ ہوئی۔ سر اٹھایا، تو دیکھا کہ ایک نورانی چہرہ بزرگ بیٹھے مزے سے مسکرا رہے ہیں۔ حالات کی تو آپ کو خبر ہے۔ میں محتاط ہو گیا۔ جیب میں پڑے موبائل فون پر گرفت مضبوط کی۔ انھوں نے باتیں کرنے کی کوشش کی، تو کچھ سمٹ گیا۔ جب زیادہ بے تکلف ہوئے، تو جھٹ سے کہہ دیا؛ حضور، بٹوا گھر بھول آیا ہوں۔
ان کے چہرے پر بوڑھا تاسف پھیل گیا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں تو ڈر ہی گیا کہ ابھی پستول برآمد ہو گی، مگر جب اندھیرے میں چمکنے والی تسبیح نکلی، تو سکون کا سانس لیا۔
بزرگ نے میرا اعتماد بحال کرنے کے لیے چھوٹی موٹی کرامات دکھائیں۔ میرا نام بتایا۔ پیشے کی نشان دہی کی۔ ہمیں ہمارا ہی پتہ سمجھایا۔ رجھانے کے لیے کچھ پیش گوئیاں بھی کیں۔ پُراسرار بندے، آخری معرکہ، ہماری فتح، عظیم ریاست وغیرو وغیرہ۔
جب میں کچھ سنبھلا، تو صوفی نے کاندھے پر ہاتھ رکھا: ''زمانے کا الم تجھے چاٹ رہا ہے۔''
میں، جو پہلے ہی ان کا قائل ہو گیا تھا، اس نئے انکشاف کی تجلی سہہ نہیں سکا۔ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ ان کے گھٹنے پر سر رکھ دیا۔ اُن ہی کے رومال سے ناک صاف کی۔ عقیدت نے کچھ اور زور مارا، تو پیر پکڑ لیے۔
''حضور، اس درد سے نکالیں۔ اب اور نہیں سہا جاتا۔ سوچتا ہوں، اندھا ہوجاؤں۔ نہ تو کچھ دیکھوں، نہ ہی گریہ کروں۔''
وہ کسی دانا کے مانند، جو کہ وہ تھے، مسکرائے۔ ''بچے، مایوسی کفر۔ کوئی مرض لاعلاج نہیں۔ سمجھ، تیرے غم کا مداوا ہو گیا۔''
انھوں نے ایک پوٹلی سے، جو آغاز سے ان کے پاس تھی، بوسیدہ سی چادر نکال کر میرے کاندھے پر ڈال دی۔ گناہ گار انسان ہو، شک میں پڑ گیا کہ بڑے میاں مجھے اینٹھنے کے چکر میں ہیں۔ بزرگی کا ڈھونگ کر کے چادریں بیچتے ہیں۔ مگر اگلے ہی پل ایک نیا احساس اجاگر ہوا۔ آنکھوں کے سامنے مناظر تو وہی تھے، مگر زاویہ بدلنے لگا۔ پارک کے دروازے پر بیٹھے ضعیف گداگر کی صدا میرے دل تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ کونے میں کھڑے جوتے پالش کرنے والا بچہ غیرمتعلقہ ہو گیا۔ کوٹ کی جیب میں موجود اخبار کی کرب ناک خبریں مٹنے لگیں۔ تھر اجنبی لگا، کوٹ رادھا کشن غیرمانوس۔ کچرے سے کھانے چنتے شخص کو دیکھ کر کراہت ہوئی۔ مزدور کے بدن سے اٹھتی بو ناگوار گزری۔ سڑک پر ایک حادثہ ہوا۔ زخمی نوجوان کئی ساعتوں تک تڑپتا رہا، مگر مدد کا جذبہ کافور ہو چکا تھا۔ ہاں، ایک انقلاب مجھ پر بیت رہا تھا۔ یہ نیا پاکستان تھا۔
میں نے آنکھوں میں نمی لیے بزرگ کی طرف دیکھا۔ ان کا جھریوں زدہ ہاتھ چوما۔ شکریہ ادا کیا۔ جھجکتے ہوئے پوچھا؛ اس چادر کی قیمت؟
میری اس معصوم حماقت پر ان کی، ایک کان سے دوسرے کان تک پھیلی مسکراہٹ، کچھ اور پھیل گئی۔ ''اسے ایک تحفہ جانو۔''
میں اٹھنے لگا، مگر تجسس کے بوجھ تلے پھر بیٹھ گیا۔ درخواست کی وہ اس پراسرار چادر کا راز بتائیں۔ پہلے تو ٹالتے رہے، مگر جب میں ضدی بچوں کی ایڑیاں رگڑنے لگا، تو میرے سر پر چپت لگاتے ہوئے فرمایا: ''بیٹا، یہ بے حسی کی چادر ہے۔ ایک بار اوڑھ لو، زمانے کے غموں سے جان چھوٹ جائے گی۔''
''بے حسی کی چادر۔ ارے واہ۔'' میں نے تالی بجائی۔ پھر کچھ سوچ کر پوچھا؛ وہ آج سے قبل کتنے خوش نصیبوں کو بے حسی کی یہ چادر عطا کر چکے ہیں؟
اُنھوں نے پان منہ میں ڈالا۔ ایک اور چپت رسید کی۔ بتانے لگے: ''یوں تو بہتوں کو دی۔ تمھارے قبیلے کا تو تذکرہ ہی کیا، مگر ادیب شاعر بھی کئی ہیں۔ کچھ فن کار، کچھ سماجی کارکن، کچھ مڈل کلاسیے وغیرہ۔''
مارے تجسس کے میرا برا حال۔ ''حضور، کیا جاگیرداروں، وڈیروں کو بھی یہ چادر دی؟ سیاست دانوں کو بھی نوازا؟ فہرست طویل ہو گی۔''
بابا جی جھینپ گئے۔ ''نہیں، ایسی کوئی طویل بھی نہیں۔ ایک دو کو دی ہو گی۔ سچ پوچھو تو اکثریت کو اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔''
''ظاہر سی بات ہے، وہ بے حسی کو اپنی کھال جو بنا لیتے ہیں۔ آخر حکمراں ٹھہرے۔'' میں نے معصومیت میں ایک تاریخی جملہ کہہ دیا۔
بابا جی نے قہقہہ لگایا۔ پھر یک دم سنجیدہ ہو گئے۔ ''چلو، غیبت اچھی بات نہیں۔ اور سنو، اگر اپنے اردگرد کسی کو غم زمانہ میں مبتلا پاؤ، تو فقیر کا پتہ دو۔ آپ کا راز، راز رہے گا۔''
تو صاحبو، میں نے بزرگ کے ہاتھ چومے، اور پارک سے باہر آ گیا۔ اور اب ان کا انوکھا پیغام آپ کے خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ اگر بوڑھی ضعیف عورت، ننھا محنت کش، بیوہ کا گریہ اور فاقے زدہ چہرے آپ کو کرب میں مبتلا کر دیتے ہیں، تو فی الفور بے حسی کی چادر حاصل کیجیے۔ اسے اوڑھیں، اور ہمارے سیاست دانوں، وڈیروں، سرمایہ داروں، قلم کاروں کی طرح ایک مطمئن اور مسرور زندگی گزاریں۔ بھئی جس کا غم، وہ خود ہی اٹھاتا پھرے۔ ہمیں کیا!
نوٹ: اگر قارئین کا خیال ہے کہ وہ کوئی بزرگ نہیں، بلکہ بڑے میاں کے روپ میں خود شیطان تھا، جس نے راقم الحروف کو بھٹکا دیا، تو درخواست ہے کہ اس موضوع کو پھر کبھی کے لیے اٹھا رکھیں۔ ابھی راقم الحروف کو بے حسی سے محظوظ ہونے دیجیے۔ شکریہ!