ایران کے خلاف کارروائیوں کے مضمرات

اسرائیلی حکومت ایران کے ایٹمی پروگرام سے سخت خوف زدہ ہے

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

یورپی یونین کے تین وزرائے خارجہ نے یونین میں شامل دوسرے ملکوں سے کہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیوں کے نفاذ کو یقینی بنانے کے حوالے سے تیزی کے ساتھ اقدامات کریں۔

برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے تین وزرائے خارجہ نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں کو سخت کرنے کے حوالے سے امریکا، روس اور چین کو بھی ہمنوا بنانے کی کوشش کی جائے۔ ایرانی صدر احمدی نژاد نے جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے امریکا آئے ہوئے ہیں، اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مغربی طاقتیں اس خطے میں اسرائیلی اجارہ داری کو مستحکم رکھنے کے لیے یک طرفہ اور امتیازی طور پر ایران پر دبائو ڈال رہی ہیں کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام غیر مشروط طور پر روک دے۔

اسرائیل امریکا پر زور دے رہا ہے کہ وہ ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے ایران کو ایک ڈیڈ لائن دے، اگر ایران اس ڈیڈ لائن تک اپنا ایٹمی پروگرام ختم نہ کرے تو اسرائیل کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی آزادی ہو۔ احمدی نژاد نے اسرائیلی دھمکیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اسرائیلی دھمکیوں کو اہمیت نہیں دیتے، لیکن اگر ہم یہ محسوس کر لیں کہ ایران کو واقعی اسرائیلی حملے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے تو ہم نے اس قسم کے ممکنہ حملوں کو روکنے کی مکمل تیاری کر لی ہے۔ احمدی نژاد نے کہا کہ چونکہ اسرائیل کی جڑیں مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں موجود نہیں، اس لیے اسے ختم ہو جانا چاہیے۔

ایران کی انقلابی گارڈ کے بریگیڈیئر امیر علی حاجی زادہ نے کہا ہے کہ اگر ہم کو یقین ہو جائے کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے میں سنجیدہ ہو رہا ہے تو ہم اس کے حملے سے پہلے ہی اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے اس پر حملہ کر دیں گے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر بارک اوباما پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ اوباما ایران کو بات چیت کی میز پر لانے کے نام پر جو وقت دے رہے ہیں، اس کا نتیجہ ایٹمی پروگرام میں خطرناک پیش قدمی کی شکل میں نکلے گا۔

احمدی نژاد کا کہنا ہے کہ ایٹمی پروگرام ایران اور امریکا کے درمیان بنیادی مسئلہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ ایران کے حوالے سے امریکی اپروچ ہے۔ ہم امریکا سے اسی مسئلے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن یہ بات چیت منصفانہ برابری اور ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ہو۔ امریکا اور اس کے مغربی حلیف ایران پر جو اقتصادی پابندیاں لگا رہے ہیں، اس کا ایران کی صحت پر اب تک کوئی اثر نہیں پڑ سکا۔ اسرائیل اب بات چیت میں وقت ضایع کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی حکومت ایران کے ایٹمی پروگرام سے سخت خوف زدہ ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اگر ایران ایٹمی طاقت بن گیا تو اسرائیل کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس ساری صورت حال پر نظر ڈالیں تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اگر بات چیت سے یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو مشرق وسطیٰ ایک خطرناک جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ اس قسم کی خطرناک صورت حال کیوں پیدا ہو گی؟ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ امریکا اور اس کے مغربی حلیف مشرق وسطیٰ کے تیل پر اپنی اجارہ داری اس وقت تک برقرار رکھنا چاہتے ہیں جب تک اس خطے میں تیل کی ایک بوند بھی باقی ہے۔ اسی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے مغربی ملکوں نے اس خطے میں اسرائیل کو منی سپرپاور بنا رکھا ہے اور اسے کھلی آزادی دے گئی ہے کہ عربوں پر اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کے لیے وہ جو چاہے ظلم روا رکھے۔


یہ پالیسی پچھلے 60 برسوں سے بے روک ٹوک جاری ہے لیکن ایران نے جب سے ایٹمی پروگرام میں پیش رفت شروع کی ہے۔ اسرائیل کو یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ ایران جیسے ہی ایٹمی طاقت بن جائے گا۔ اس کا پہلا نشانہ اسرائیل ہو گا۔ اسرائیل کے ان خدشات کی وجہ یہ ہے کہ ایرانی قیادت کھلے عام یہ کہتی آ رہی ہے کہ وہ اس خطے میں اسرائیل کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس قسم کے سنگین مسئلوں کو حل کرنے کے لیے تمام فریقوں کو اپنی کم ظرفانہ اور تنگ نظرانہ مفاد پرستیوں کے حصار سے باہر آ کر معروضی طریقوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

معروضی اپروچ کا پہلا حصّہ یہ ہے کہ اسرائیل امریکا اور مغربی ملکوں کے مفادات کی نگہبانی کے بجائے اپنی سلامتی اور بقا کو اوّلیت دے۔ اس سمت میں آگے بڑھنے کے لیے اسے فلسطینیوں کے لیے فلسطینی ریاست کے حق کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ جب وہ اس حقیقت کو تسلیم کر لے گا تو وہ ان خطروں سے باہر آ جائے گا، جن کا اسے سامنا ہے۔ اگر اسرائیل اس حوالے سے کوئی ایمان دارانہ قدم اٹھاتا ہے تو ایران سمیت تمام عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیل کی حقیقت کو نہ صرف تسلیم کر لینا چاہیے بلکہ اس کی سالمیت کی ذمے داری بھی قبول کرنی چاہیے۔ اس خطے کی مذہبی وراثت بیت المقدس ابھی تک متنازع ہے۔ عبادت گاہیں ہر قوم کے لیے قابلِ احترام ہوتی ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بابری مسجد بھی ایک تنازع بن گئی تھی اور ہندوستان میں رہنے والے مسلمان بھی اس مسئلے پر بہت جذباتی ہو رہے تھے لیکن اس حوالے سے صورتِ حال ایسی سنگین نہیں ہے جیسی بابری مسجد کے انہدام کے وقت تھی لیکن بہرحال یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ مذہب، مذہبی عبادت گاہیں اور مذہبی اکابرین ہر مذہب کے ماننے والوں کا ایک انتہائی جذباتی مسئلہ ہیں اور یہ صورت حال اس وقت تک باقی رہے گی، جب تک دنیا کے تمام مذاہب کے درمیان بھائی چارے، رواداری، برداشت کا کلچر فروغ نہیں پاتا۔

اگرچہ مذاہب کے درمیان برداشت اور رواداری پیدا کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کئی کانفرنسیں ہو چکی ہیں لیکن چونکہ اس قسم کی کانفرنسیں منعقد کرنے والے اس مقصد میں سنجیدہ یا مخلص نہیں تھے لہٰذا یہ کانفرنسیں بے نتیجہ رہیں۔ اگر واقعی مذاہب کے درمیان یکجہتی، بھائی چارے، محبت اور برداشت کا کلچر متعارف کرانا ہے تو اس کام کو حکمرانوں، مذہبی رہنمائوں، سیاست دانوں سے لے کر دنیا کے غیر متعصب دانشوروں، فلسفیوں، ادیبوں، شاعروں کے حوالے کرنا پڑے گا اور اس حوالے سے کوئی فورم تشکیل پاتا ہے تو اسے تمام مذاہب تمام قوموں کی طرف سے قبول کیا جانا چاہیے اور اس کے فیصلوں کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک کٹھن کام ہے، اس حوالے سے پیش رفت کے لیے ایک مختصر مدتی اور طویل مدتی، منظم اور منصوبہ بند کوششوں کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے مسلم ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی کا جو طوفان اٹھایا گیا ہے وہ اپنے پرائے گنہگار بے گناہ کے امتیاز کے بغیر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل سمیت دنیا کے وہ تمام ملک جو مذہبی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ انھیں اس طوفان کی تباہ کاریوں کا احساس کرنا چاہیے، انھیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے مذہبی تنازعات اس طوفان کی شدّت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ اسرائیل اور ایران کے مسئلے کو نہ اقتصادی پابندیوں سے حل کیا جا سکتا ہے، نہ کسی مشروط یا جانبدارانہ بات چیت سے نہ جنگ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔

امریکا دنیا کی ایک بڑی طاقت ہے، اسے قومی مفادات، عالمی حکمرانی کے خبط اور امتیازی سیاست کے کم ظرفانہ دائروں سے باہر نکل کر زمینی حقائق کی روشنی میں متنازع مسائل کو حل کرنے کی طرف آنا چاہیے اگر وہ ایرانی ایٹمی پروگرام کی مانیٹرنگ اقتصادی پابندیوں کے کولہو پر ہی گھومتا رہا تو مسائل حل ہونا تو دور کی بات مشرق وسطیٰ ایک ایسی بھیانک جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا، جس میں ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔
Load Next Story