طیب اردگان کا عالیشان صدارتی محل

ترکی کی سفارتی اور سیاسی اہمیت میں دنیا بھر میں اضافہ دیکھنے میں آیا جوکہ اردگان کی بہتر خارجہ پالیسیوں کا ثمر تھا۔

انٹرنیشنل نیوز ایجنسی اے ایف پی (AFP) کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر کے آخر میں ترکی کے صدر طیب اردگان (جو دس سال تک ترکی کے وزیراعظم رہے ہیں) نے انقرہ کے نواحی علاقے میں اپنے ایک شاندار اور عالیشان صدارتی محل کا افتتاح کیا۔

یہ محل جو دو لاکھ اسکوائر میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اپنے اندر 1000 کمرے رکھتا ہے، اس کی لاگت پر 350 ملین ڈالرز (یعنی 35 کروڑ ڈالرز) کا خرچہ آیا ہے اس کی افتتاحی تقریب اور استقبالیے پر 2500 فیملیز کو مدعو کیا گیا ہے لیکن ترکی میں ہونے والے ایک حادثے کی وجہ سے اس کو منسوخ کردیاگیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق ماحولیاتی ماہرین نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی تھی جب کہ اپوزیشن نے بھی اس پر شدید اعتراضات کرتے ہوئے کہاکہ اس لاگت سے ترکی اپنے 3سیارے مریخ میں بھیج سکتا تھا۔ کچھ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اردگان نے اس محل کو بنانے کے خلاف عدالتی احکامات کی بھی خلاف ورزی کی ۔

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اس محل کو وائٹ ہائوس کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے جب کہ محل وائٹ ہائوس برطانیہ کے برمنگھم، پیلس اور روس کے کریملن پیلس سے کہیں بڑا ہے۔ اردگان نے اپنے اوپر کی جانے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو وہ اس کو گرا دے۔ ترکی کی اپوزیشن جماعتیں اردگان پر ڈکٹیٹر بننے کا الزام لگا رہی ہیں۔ طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے 2002 میں ترکی کا اقتدار سنبھالا۔73 ملین مسلم آبادی والے اس ملک کی معیشت اردگان دور اقتدار میں (جو 10 سال سے زیادہ پر محیط ہے) تین گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ برآمدات جو 2002 میں 36 بلین ڈالرز تھیں اب بڑھ کر 120 بلین ڈالرز ہوگئیں۔

زر مبادلہ کے ذخائر نمایاں اضافے کے ساتھ 90 ارب ڈالرز ہوگئے۔ فی کس آمدنی تین گنا بڑھ گئی۔ معاشی شرح نمو (Economic growth) کی شرح 7.5 فی صد تک پہنچ گئی، جب کہ اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ 2023 تک ترکی دنیا کی دسویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ 2002 سے 2012 تک کے عرصے میں شرح نمو میں 64 فی صد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، فی کس آمدنی 43 فی صد بڑھی، جب کہ اردگان کو ورثے میں 23.5 ارب ڈالرز کا بیرونی قرضہ ملا تھا۔ جو اب کم ہوکر محض 0.9 ارب ڈالرز رہ گیا، مرکزی بینک کے پاس اس وقت (جب اردگان کو اقتدار ملا) 26.5 ارب ڈالرز تھے جب کہ یہ بڑھ کر اب 92.2ارب ڈالرز ہوگئے۔

مہنگائی (Inflation) کی شرح 32 فی صد سے کم ہوکر 9 فی صد ہوگئی۔ سرکاری قرضوں میں نمایاں کمی ہوئی اور وہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 74 فی صد سے کم ہوکر 39 فی صد تک آگئے۔ اور اب ترکی یورپی یونین (EU) کے 27 میں سے 21 ممالک کے مقابلے میں کم سرکاری قرضے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے جب کہ اس کا بجٹ خسارہ ان میں سے 23 ملکوں سے کم ہے، تعلیمی بجٹ کو 7.5 بلین لیرا (ترکی کرنسی) سے بڑھ کر 39 بلین لیرا ہوگیا۔ یونیورسٹیوں کی تعداد 2002 میں 98 تھیں اب 186 سے زائد ہیں۔


ایئرپورٹس (Airports) کی تعداد 26 سے بڑھ کر 50 ہوگئے، شرح خواندگی (Literacy) میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور سب سے بڑھ کر ترکی کی سفارتی اور سیاسی اہمیت میں دنیا بھر میں اضافہ دیکھنے میں آیا جوکہ اردگان کی بہتر خارجہ پالیسیوں کا ثمر تھا۔ مضبوط ہوتی ہوئی معیشت نے اردگان کے قد میں مسلسل اضافہ کیا، اردگان نے مسلسل ترکی کے وقار میں اضافہ کیا اور مغربی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ اس کی واضح مثال امریکی نائب صدر جو بائیڈن کی طرف سے اردگان پر کی جانے والی تنقید کے بعد اپنا بیان واپس لینے اور معافی کی وضاحت جاری کی گئی۔

یہ وضاحت کچھ عرصے پہلے ہی میڈیا کی خبروں کی زینت بنی جس میں جوبائیڈن نے (اردگان کے ایک بیان جو شام اور عراق کے بارے میں دیا گیا تھا) ترکی پر شدید تنقید کی اور پھر اردگان حکومت کے اعتراض کے بعد اس تنقید کو واپس لیا۔ چوں کہ ترکی کے آئین میں تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کی گنجائش موجود نہیں لہٰذا اردگان نے اس دفعہ صدارتی الیکشن میں حصہ لے کر ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ یہ اردگان کی مثالی پرفارمنس پر وہاں کے عوام کا اعتماد ہی تھا کہ وہ صدارتی الیکشن جیت کر اقتدار کے ایوانوں تک ایک دفعہ پھر پہنچ گئے۔

اقتدار میں آنے کے بعد اردگان کو بھی شروع میں بے پناہ مسائل کا سامنا تھا لیکن مستقل محنت، مستقل مزاجی اور مربوط منصوبہ بندی نے اردگان کو فقید المثال کامیابی سے نوازا۔ جوکہ پوری امت مسلمہ کے لیے اور خاص کر حکمرانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ اگر آج اردگان اپنی تمام تر کامیابیوں اور فتوحات کے باوجود اپنے عالیشان محل کی تعمیر پر تنقید سہہ رہے ہیں تو یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

کیوں کہ شہرت اور مقبولیت کسی کی میراث نہیں ہوتی اس کو کمایا جاتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے لیے اس میں ایک بڑا سبق موجود ہے۔ اگر آج جو لوگ ہمارے حکمرانوں کی بیش قیمت گھڑیوں، عالیشان محل اور سیاست دانوں کے پروٹوکول، بینک اکائونٹس اور پرائیویٹ جیٹ طیاروں پر اعتراض کرتے ہیں تو ان کو اس کا برا نہیں منانا چاہیے۔ کیوں کہ ان کے پاس تو اتنی بڑی کامیابی کا کوئی ثبوت بھی موجود نہیں جس کو وہ قوم کے سامنے رکھ کر فخر کا اظہار کرسکیں۔اگر پوری قوم خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو اور ملک میں ہر طرف ترقی کی مسافتیں طے ہورہی ہوں تو پھر ان ذاتی اثاثوں پر تنقید بے جا معلوم ہوگی لیکن اس کے بغیر تو قوم یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ آپ کی زندگی میں تو خوشیاں ہی خوشیاں۔ لیکن قوم مفلسی اور مسائل کے چنگل میں پھنسی ہو۔

کیا ہمارے حکمران طیب اردگان کی پرفارمنس کو قابل تقلید بنائیںگے اور اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو مثبت انداز میں لے کر آگے بڑھنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر چلانے کے لیے جد وجہد کریںگے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کا انتظار ہر پاکستانی شہری کو ہے۔ کاش کہ ہمارے حکمران بھی اپنا طرز حکومت بھی طیب اردگان کی طرح تبدیل کرکے تاریخ میں اپنے آپ کو امر بنالیں اور ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائیں، پورا پاکستان اپنے لیے ایک طیب اردگان کی تلاش میں ہے۔
Load Next Story