مسلم لیگ کا آخری دور

عمران خان تو اپنے نام نہاد بے اثر دھرنے میں اپنی شامیں گزار رہے ہیں اور گھرجانے کی بجائےکنٹینرمیں سوکروقت گزار رہےہیں۔

NEW DELHI:
حکمران مسلم لیگ (ن) میں سردار ذوالفقار کھوسہ شریف برادران کے خلاف ایک نیا گروپ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی یہ تیسری اور ایسی حکومت ہے جس کا ہنی مون پیریڈ ابھی ختم ہی ہوا تھا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری ملکر شریف برادران کے خلاف میدان میں آگئے اور دونوں کے اسلام آباد میں کیے جانے والے دھرنوں نے وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں کو ہلاکر رکھ دیا اور لگنے لگا تھا کہ وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں سرنڈر کردیا تھا اور دھرنے والے اسلام آباد میں دندناتے پھرتے رہے اور بڑھتے بڑھتے اقتدار کی چوکھٹ تک پہنچ گئے تھے جب کہ پی ٹی وی پر قبضے کے بعد چاہتے تو وزیر اعظم سیکریٹریٹ اور ہاؤس پر قبضہ کرسکتے تھے مگر انھوں نے اپنے فوجی بھائیوں کا احترام کیا اور پی ٹی وی کا قبضہ چھوڑ کر قومی اسمبلی کے احاطے میں خیمے نصب کرنے اور عدالت عظمیٰ کی دیواروں پر کپڑے ٹانگنے پر ہی اکتفا کیا اور وفاقی دارالحکومت کے ایک بڑے علاقے پر سوا دو ماہ تک اپنا کنٹرول اس قدر برقرار رکھا کہ وہاں موجود پولیس بھی نہ صرف بے بس رہی بلکہ پولیس اہلکار دھرنے والوں کو تلاشی دے کر آتے جاتے اور محکوم نظر آئے اور یہ سب کچھ بھاری مینڈیٹ رکھنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں ہوا۔

پارلیمنٹ میں اگر تمام پارلیمانی جماعتیں جمہوریت کے نام نہاد تحفظ کے نام پر (ن) لیگ حکومت کے ساتھ کھڑی نہ ہوتیں تو (ن) لیگ کی حکومت اگست کے آخر یا ستمبر کے شروع میں ہی معزول ہوکر تاریخ کا حصہ بن چکی ہوتی اور سب سے کم مدت اقتدار میں رہنے کا ریکارڈ بنالیتی جس کی ذمے دار بھی وہ خود ہی قرار پاتی۔

طاہر القادری کے 70 روزہ دھرنے کے خاتمے سے حکومت کو اس قدر سکون ملا کہ متعدد سنگین مقدمات میں مطلوب طاہر القادری کو ملک سے باہر جانے سے نہ روک سکی اور ان کے جانے ہی میں اپنی بہتری سمجھی کیونکہ اصل دھرنا بھی وہی تھا۔ اب عمران خان تو اپنے نام نہاد بے اثر دھرنے میں اپنی شامیں گزار رہے ہیں اور گھر جانے کی بجائے کنٹینر میں سو کر وقت گزار رہے ہیں اور نواز شریف کے لیے حقیقی خطرہ بھی نہیں رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جیسے تیسے 17 ماہ پورے تو کرلیے مگر ایک کامیاب حکومت ہونے کا ثبوت نہیںدیا ہے ۔ وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں پر ہی ان کے مخالفین اعتراض نہیں کر رہے بلکہ بڑا اور جائز اعتراض بھی کر رہے ہیں کہ ملک میں چار وزرائے اعلیٰ کے ہوتے ہوئے اپنے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب ہی کو غیر ملکی دورے میں ساتھ لے کر کیوں جاتے ہیں جب کہ وہ پنجاب کے نہیں پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی زیادہ نشستوں کے باعث وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی بڑی تعداد میں کامیابی پنجاب کے اس وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی جو دن رات کام اور بیماری کے باوجود محنت اور بھاگ دوڑ پر یقین رکھتا ہے اور اپنے بڑے بھائی کی طرح شام سات بجے دفتر سے گھر نہیں چلا جاتا۔

لگتا ہے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نے وزیر اعظم بنتے ہی سمجھ لیا تھا کہ یہ مسلم لیگ (ن) کی آخری حکومت ہے اور پیپلز پارٹی کی طرح (ن) لیگ نے بھی اپنی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے ۔ باری باری کا دونوں پارٹیوں نے عمل مکمل کرلیا ہے اور عمران خان کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا ہے۔ پنجاب (ن) لیگ کے ہاتھوں سے کافی نکل چکا ہے اور وہاں مسلم لیگ (ن) کے صرف دفاتر باقی رہ گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم منتخب ہوکر مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کو بھول جاتے ہیں اور اقتدار میں رہ کر لیگی عہدیداروں سے ہی نہیں بلکہ اپنے ارکان اسمبلی کو بھی وقت نہیں دیتے۔


پنجاب کے سابق سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر صفدر محمود نے 1989 میں لاہور میں مجھے بتایا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف ارکان پنجاب اسمبلی کو ایک ماہ میں ملاقات کے لیے بمشکل دو منٹ کا وقت دیتے ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد نواز شریف نے خود بھی دیکھ لیا تھا کہ وائیں کی پنجاب حکومت میں راتوں رات پنجاب اسمبلی کے ارکان کی اکثریت نے ان کے رویے کے باعث اپنی وفاداریاں تبدیل کرلی تھیں اور اگلے روز ہی نواز شریف کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی منظور وٹو کو نیا وزیر اعلیٰ منتخب کرلیا تھا اور بعد میں نواز شریف خود بھی مستعفی ہونے پر مجبور کردیے گئے تھے اور منظور وٹو محترمہ کے دور میں بھی وزیر اعلیٰ بن گئے تھے۔

نواز شریف کو اپنے دوسرے دور میں بھاری مینڈیٹ ملا تھا مگر فوج کے ہاتھوں معزول کیے گئے تھے اور اب فوج نے جمہوریت کو اپنے سیاسی معاملات سے نمٹنے کا خود موقعہ دیا اور خود دور رہی۔

مسلم لیگ (ن) سندھ کے عوام میں تو کہیں نظر نہیں آتی کیونکہ جب عوام نے دیکھا کہ مسلم لیگ کی وفاقی حکومت سندھ کے اپنے تین سابق وزرائے اعلیٰ غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی، ارباب رحیم کو پوچھ رہی ہے نہ اپنے حمایتی ممتاز بھٹو کو تو کون ایسی پارٹی میں رہنا پسند کرے گا۔

کے پی کے میں مسلم لیگ (ن) اب ہزارہ ڈویژن میں موثر تھی مگر اب تحریک انصاف اور عوامی تحریک وہاں مسلم لیگ (ن) کا متبادل بن گئی ہیں اور باقی صوبے میں (ن) لیگ گورنر ہاؤس میں ہے جہاں ناراض گروپ گورنر سے ملنے سے انکار کرچکا ہے۔

بلوچستان میں مسلم لیگ شخصیات کا نام ہے وہ بھی اپنی ہی حکومت سے ناراض ہیں اور وزیراعظم ہیں کہ انھیں بھی آصف علی زرداری کی طرح اپنی پارٹی کی فکر نہیں مگر اب یہ ان کی بھول ہوگی کہ (ن) لیگ آیندہ عام انتخابات تو کیا بلدیاتی انتخاب میں ہی کامیاب ہوسکے گی۔
Load Next Story