امریکی صدر نے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ملک میں رہنے کا حق دے دیا

بارک اوباما کی جانب سے جاری ایگزیکٹیوآرڈرکے بعدغیرقانونی طورپرمقیم تقریباً 50 لاکھ افراد کو فائدہ پہنچے گا۔

ہمارا امیگریشن سسٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لیکن اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بےدخل کرنا حقیقت پسندانہ نہیں، بارک اوباما. فوٹو؛ فائل

امریکی صدر بارک اوباما نے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے امیگریشن اصلاحات سے متعلق ایگزیکٹیو آرڈر جاری کردیا جس کے بعد ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تقریباً 50 لاکھ افراد کو فائدہ پہنچے گا۔


غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ نئی اصلاحات کی وجہ سے امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد ملک بدری سے بچ سکتے ہیں، امریکا ہمیشہ سے تارکین وطن کی سرزمین رہا ہے اور وہ چھپے رہنے کا عمل ترک کر کے سامنے آئیں اور قانون سے اپنا درست تعلق استوار کریں۔ صدر اوباما کی اصلاحات کے نتیجے میں جن افراد کو فائدہ پہنچے گا ان میں سے بیشتر وہ والدین ہیں جن کی اولاد امریکی شہری ہے یا پھر 5 برس سے غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم ہیں جب کہ نئی اصلاحات کے نتیجے میں متعدد پاکستانیوں کو بھی ایگزیکٹو آرڈر کا براہ راست فائدہ ہوگا۔



امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہمارا امیگریشن سسٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لیکن اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بےدخل کرنا حقیقت پسندانہ نہیں اس لئے محنت کش تارکینِ وطن کو ایک موقع دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ وہ عام معافی کا اعلان نہیں کر رہے بلکہ عام فہم معاملہ اور درمیانی راستہ ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد قانونی طور پر کام کرنے کے اہل ہو جائیں گے لیکن نہ تو انھیں شہریت اور نہ ہی دیگر امریکیوں کی طرح حکومتی امداد مل سکے گی۔


دوسری جانب اپوزیشن جماعت ری پبلکن پارٹی نے کہا ہے کہ کانگریس سے منظوری لیے بغیر یہ اقدام صدر کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کے مترادف ہے اور اس سے حکومت اور حزب اختلاف کے تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔ اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ نئی اصلاحات کا نفاذ صدر کے اختیار میں نہیں ہے اور وہ اس کی مخالفت کریں گے۔


واضح رہے کہ امریکا میں اس وقت ایک کروڑ دس لاکھ کے قریب غیر قانونی تارکینِ وطن مقیم ہیں جبکہ صدر براک اوباما گذشتہ کئی برسوں سے امریکہ کے امیگریشن قوانین میں بہتری لانے کے وعدے کر رہے ہیں لیکن کانگریس میں رپبلکن پارٹی کے اراکین کی مخالفت کی وجہ سے صدر کو اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی تھی۔

Load Next Story