حرکت میں ہے برکت گھر و دفتر کے کام جب ورزش بن جائیں
سستی و آلکسی سے نجات دلا کر تندرستی عطا کرنے والے مفید مشورے
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ حرکت میں برکت ہے۔ اور بات ہے بھی سولہ آنے سچ! یہی دیکھیے' حرکت ہی سے نہ صرف انسان کو پیٹ بھر روٹی ملتی ہے بلکہ وہ صحت وتندرستی بھی پاتا ہے۔ دوسری طرف سست و کاہل انسان زندگی میں کچھ نہیں کر پاتا اور بے حرکتی کے باعث بیماریوں میں مبتلا رہتا ہے۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ تندرست اور امراض سے دور رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسان باقاعدگی سے ورزش کرے۔ اس سلسلے میں وہ تجویز دیتے ہیں کہ ہفتے میں کم ازکم 150 منٹ کی مناسب یا 75 منٹ کی سخت ورزش کیجیے۔ تبھی انسان دور جدید کی بیماریوں مثلاً ذیابیطس، بلڈ پریشر، موٹاپے، کینسر وغیرہ سے بچ پاتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ خصوصاً شہروں میں زندگی بہت مصروف ہو چکی۔ اسی لیے بیشتر شہری مرد و زن ورزش کے واسطے وقت نہیں نکال پاتے۔ جو لوگ جسمانی سرگرمی والے پیشوں سے منسلک ہیں مثلاً کھیتی باڑی، راج گیری، معماری وغیرہ ان کی تو دوران کام کاج خوب ورزش ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا گھر اور دفتر میں ہونے والی سرگرمیاں بھی ورزش کا مترادف بن سکتی ہیں؟ یعنی ان سے بھی انسان کو وہی طبی فوائد ملتے ہیں جو ور زش سے حاصل ہوں؟
ایک اور مسئلہ نت نئی ایجادات کا سامنے آنا ہے۔ انہوں نے بے شک انسان کی زندگی آسان بنا دی۔ مگر ایجادوں کا منفی پہلو یہ ہے کہ بیشتر انسان ان کے عادی ہو چکے۔ اب کسی شخص کو قریبی دکان بھی جانا ہو تو وہ کار،موٹرسائیکل یا سائیکل پر جاتا ہے اور پیدل چلنا گوارا نہیں کرتا۔ کسی دوست سے ملنا ہے تو اسے فون کیا یا ای میل بھجوا دی۔ غرض ایجادات کی بدولت ہماری روزمرہ جسمانی سرگرمی خاصی گھٹ چکی۔
چند ماہ قبل برطانیہ کے محقق، ڈاکٹر مائیکل موسلے نے انوکھا تجربہ کیا۔ اس نے اس مرد وخواتین کے بدن پر ایسے حساس مانیٹر نصب کیے جو جسمانی سرگرمی نوٹ کرتے ہیں۔ انہیں پھر کہا گیا کہ وہ معمول کے کام انجام دیں۔
دس مرد و خواتین ایک ہفتے تک روزمرہ کے کام نمٹاتے رہے۔ روزانہ شام کو ڈاکٹر ساتھیوں کے ساتھ مانیٹر سے اعداد و شمار حاصل کر لیتا۔ جب یہ تجریہ انجام کو پہنچا تو دس رضاکاروں کی سرگرمی کو ایک پیمانے، ایم ای ٹی یعنی Metabolic Equivalent of Task سے جانچا گیا۔ ایم ای ٹی پیمانے کی مدد سے جانا جاتا ہے کہ کون سی سرگرمی میں انسان کی کتنی توانائی خرچ ہوئی۔ اس سلسلے میں پیمانہ 1 تا 10 نمبر رکھتا ہے اور پیمانے کے تحت سرگرمیوں کو تین درجوں... ہلکی(Light intensity activities)' معتدل(Moderate intensity activities)' اور شدید(Vigorous intensity activities) میں تقسیم کیا گیا ہے۔
چنانچہ جب ہم محوخواب ہوں تو ایم ای ٹی پیمانے کی رو سے یہ 0.9 نمبر کی سرگرمی ہے۔ جب ہم بیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھیں تو اسے 1 نمبر ملتا ہے۔ میز پر بیٹھ کر لکھت پڑھت کریں تو یہ عمل 1.8 نمبر پاتا ہے۔ اڑھائی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کو 2.9 نمبر ملتا ہے۔ یہ سبھی ہلکی جسمانی سرگرمیاں ہیں۔
گھر کی صفائی کرنا اور کپڑے دھونا 3 تا 3.5 نمبر کی سرگرمی ہے۔ 10 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سائیکل چلانا 4 نمبر ہے جبکہ بیڈمنٹن یا ٹینس کھیلنا 4.5 تا 5 نمبر والی معتدل جسمانی سرگرمیاں ہیں۔
5 نمبر سے نیچے والی سرگرمیاں شدید یا سخت تصور ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر تیزی سے یعنی پانچ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنا جسے 7 نمبر ملتے ہیں۔ جبکہ چھے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کا نمبر 10 ہے۔ تیز سائیکل چلانا بھی 10 نمبر پاتا ہے۔ دیگر سخت سرگرمیاں یہ ہیں: وزن اٹھا کر چلنا (7.5 نمبر)' باسکٹ بال کھیلنا (8)' فٹ بال کھیلنا (9)' ورزش کرنا (8)' رسی اچھلنا (10)۔
ڈاکٹر مائیکل موسلے کے تجربے سے عیاں ہوا کہ جو مرد و زن روزمرہ کام کاج کرتے' چلیں پھریں یا گھر کی صفائی کریں تو ان کی جسمانی سرگرمی معتدل قرار پاتی ہے۔ گویا تب بیٹھنے کی نسبت وہ تین گنا زیادہ اپنی توانائی خرچ کرتے ہیں۔
ایک عام پاکستانی عورت کھانا پکاتے' بچوں کو سنبھالتے' جھاڑو پونچھ کرتے روزانہ تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے مصروف رہتی ہے۔ گویا وہ ہفتے میں ورزش کا مطلوبہ وقت... 150 منٹ عموماً پا لیتی ہے۔ اسی لیے متوسط طبقے و نچلے طبقے کی خواتین عموماً سمارٹ و چست ہوتی ہیں۔ تاہم جن گھرانوں میں ملازمین کی کثرت ہو، وہاں عموماً خواتین موٹاپے کا شکار رہتی ہیں۔
یہی کُلیہ مردوں پر بھی صادق آتا ہے۔ جو مرد چلتے پھرتے کام کاج کریں ،وہ سمارٹ و چاق وچوبند رہتے ہیں۔ ان کا پیٹ پھول کر انہیں بھدا نہیں بناتا۔ حتیٰ کہ میز پر بیٹھ کر کام کرنے والے مرد بھی فارغ وقت میں کوئی چلت پھرت والا مشغلہ اپنائیں مثلاً باغبانی یا کوئی کھیل کھیلنا تو انہیں تندرستی کی نعمت نصیب ہوجاتی ہے۔
ورزش کے متعلق ایک اور بات ذہن میں رکھیے۔ کئی لوگ یہ سوچ کر ہفتے میں ایک دو دن ایک ایک گھنٹے کی سخت ورزش کرتے ہیں کہ انہوں نے مطلوبہ وقت حاصل کر لیا۔ جدید تحقیق کی رو سے ہفتے میں ایک دو بار شدید ورزش کرنے سے کم فائدہ ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ روزانہ جتنی بھی ورزش کی جائے: ہلکی' معتدل یا سخت... اس کا اثر 12 تا 24 گھنٹے ہی رہتا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ روزانہ بیس پچیس منٹ ورزش کیجیے تاکہ آپ پورے ہفتے اس کے فوائد سے مستفید ہوسکیں۔
جسم کی خرچ شدہ توانائی کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ کس سرگرمی میں فی گھنٹہ کتنے حرارے یا کیلوریز جلتی ہیں۔ اس پیمانے میں بھی گھریلو کام کاج بخوبی پورے اترتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق خاتون خانہ صفائی کرتے اور چلتے پھرتے فی گھنٹہ 315 حرارے جلاتی ہیں۔ حرارے جلنے کی یہ مقدار بیٹھے رہنے سے تین گنا زیادہ ہے۔ چناںچہ اگر گھر کے کام کرنے والی خاتون ورزش نہیں کرتی یا جم نہیں جاتی تو وہ فکرمند نہ ہو، گھر کے کام کاج ہی اسے تندرست و سمارٹ رکھیں گے۔
اسی طرح آپ کے دفتر یا گھر میں سیڑھیاں ہیں تو ان پر چڑھنا اور اترنا بھی ایک قسم کی سخت ورزش ہے۔ ماہرین کی رو سے روزانہ صرف 30 منٹ سیڑھیاں استعمال کرنے سے 285 حرارے جل جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ بہترین ورزش تسلیم کی جاتی ہے۔
کھانا پکاتے ہوئے 39 میں 80 حرارے جلتے ہیں۔ یہ سرگرمی 9 منٹ تک ٹینس کھیلنے کے برابر ہے۔ اسی طرح درج بالا مدت ہی میں استری کرتے ہوئے 71 حرارے جلتے ہیں۔ جبکہ جھاڑ پونچھ 50 حرارے خرچ کرتی ہے۔
سو قارئین! حرکت میں برکت ہے۔ آپ گھر میں ہوں یا دفتر میں' زیادہ عرصہ بیٹھ کر نہ گزاریئے۔ اور کچھ نہیں تو تازہ ہوا لینے ہی باہر چلے جایئے۔ معمولی سی جسمانی سرگرمی بھی ہمارے بدن کو تقویت پہنچاتی ہے۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ تندرست اور امراض سے دور رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسان باقاعدگی سے ورزش کرے۔ اس سلسلے میں وہ تجویز دیتے ہیں کہ ہفتے میں کم ازکم 150 منٹ کی مناسب یا 75 منٹ کی سخت ورزش کیجیے۔ تبھی انسان دور جدید کی بیماریوں مثلاً ذیابیطس، بلڈ پریشر، موٹاپے، کینسر وغیرہ سے بچ پاتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ خصوصاً شہروں میں زندگی بہت مصروف ہو چکی۔ اسی لیے بیشتر شہری مرد و زن ورزش کے واسطے وقت نہیں نکال پاتے۔ جو لوگ جسمانی سرگرمی والے پیشوں سے منسلک ہیں مثلاً کھیتی باڑی، راج گیری، معماری وغیرہ ان کی تو دوران کام کاج خوب ورزش ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا گھر اور دفتر میں ہونے والی سرگرمیاں بھی ورزش کا مترادف بن سکتی ہیں؟ یعنی ان سے بھی انسان کو وہی طبی فوائد ملتے ہیں جو ور زش سے حاصل ہوں؟
ایک اور مسئلہ نت نئی ایجادات کا سامنے آنا ہے۔ انہوں نے بے شک انسان کی زندگی آسان بنا دی۔ مگر ایجادوں کا منفی پہلو یہ ہے کہ بیشتر انسان ان کے عادی ہو چکے۔ اب کسی شخص کو قریبی دکان بھی جانا ہو تو وہ کار،موٹرسائیکل یا سائیکل پر جاتا ہے اور پیدل چلنا گوارا نہیں کرتا۔ کسی دوست سے ملنا ہے تو اسے فون کیا یا ای میل بھجوا دی۔ غرض ایجادات کی بدولت ہماری روزمرہ جسمانی سرگرمی خاصی گھٹ چکی۔
چند ماہ قبل برطانیہ کے محقق، ڈاکٹر مائیکل موسلے نے انوکھا تجربہ کیا۔ اس نے اس مرد وخواتین کے بدن پر ایسے حساس مانیٹر نصب کیے جو جسمانی سرگرمی نوٹ کرتے ہیں۔ انہیں پھر کہا گیا کہ وہ معمول کے کام انجام دیں۔
دس مرد و خواتین ایک ہفتے تک روزمرہ کے کام نمٹاتے رہے۔ روزانہ شام کو ڈاکٹر ساتھیوں کے ساتھ مانیٹر سے اعداد و شمار حاصل کر لیتا۔ جب یہ تجریہ انجام کو پہنچا تو دس رضاکاروں کی سرگرمی کو ایک پیمانے، ایم ای ٹی یعنی Metabolic Equivalent of Task سے جانچا گیا۔ ایم ای ٹی پیمانے کی مدد سے جانا جاتا ہے کہ کون سی سرگرمی میں انسان کی کتنی توانائی خرچ ہوئی۔ اس سلسلے میں پیمانہ 1 تا 10 نمبر رکھتا ہے اور پیمانے کے تحت سرگرمیوں کو تین درجوں... ہلکی(Light intensity activities)' معتدل(Moderate intensity activities)' اور شدید(Vigorous intensity activities) میں تقسیم کیا گیا ہے۔
چنانچہ جب ہم محوخواب ہوں تو ایم ای ٹی پیمانے کی رو سے یہ 0.9 نمبر کی سرگرمی ہے۔ جب ہم بیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھیں تو اسے 1 نمبر ملتا ہے۔ میز پر بیٹھ کر لکھت پڑھت کریں تو یہ عمل 1.8 نمبر پاتا ہے۔ اڑھائی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کو 2.9 نمبر ملتا ہے۔ یہ سبھی ہلکی جسمانی سرگرمیاں ہیں۔
گھر کی صفائی کرنا اور کپڑے دھونا 3 تا 3.5 نمبر کی سرگرمی ہے۔ 10 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سائیکل چلانا 4 نمبر ہے جبکہ بیڈمنٹن یا ٹینس کھیلنا 4.5 تا 5 نمبر والی معتدل جسمانی سرگرمیاں ہیں۔
5 نمبر سے نیچے والی سرگرمیاں شدید یا سخت تصور ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر تیزی سے یعنی پانچ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنا جسے 7 نمبر ملتے ہیں۔ جبکہ چھے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کا نمبر 10 ہے۔ تیز سائیکل چلانا بھی 10 نمبر پاتا ہے۔ دیگر سخت سرگرمیاں یہ ہیں: وزن اٹھا کر چلنا (7.5 نمبر)' باسکٹ بال کھیلنا (8)' فٹ بال کھیلنا (9)' ورزش کرنا (8)' رسی اچھلنا (10)۔
ڈاکٹر مائیکل موسلے کے تجربے سے عیاں ہوا کہ جو مرد و زن روزمرہ کام کاج کرتے' چلیں پھریں یا گھر کی صفائی کریں تو ان کی جسمانی سرگرمی معتدل قرار پاتی ہے۔ گویا تب بیٹھنے کی نسبت وہ تین گنا زیادہ اپنی توانائی خرچ کرتے ہیں۔
ایک عام پاکستانی عورت کھانا پکاتے' بچوں کو سنبھالتے' جھاڑو پونچھ کرتے روزانہ تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے مصروف رہتی ہے۔ گویا وہ ہفتے میں ورزش کا مطلوبہ وقت... 150 منٹ عموماً پا لیتی ہے۔ اسی لیے متوسط طبقے و نچلے طبقے کی خواتین عموماً سمارٹ و چست ہوتی ہیں۔ تاہم جن گھرانوں میں ملازمین کی کثرت ہو، وہاں عموماً خواتین موٹاپے کا شکار رہتی ہیں۔
یہی کُلیہ مردوں پر بھی صادق آتا ہے۔ جو مرد چلتے پھرتے کام کاج کریں ،وہ سمارٹ و چاق وچوبند رہتے ہیں۔ ان کا پیٹ پھول کر انہیں بھدا نہیں بناتا۔ حتیٰ کہ میز پر بیٹھ کر کام کرنے والے مرد بھی فارغ وقت میں کوئی چلت پھرت والا مشغلہ اپنائیں مثلاً باغبانی یا کوئی کھیل کھیلنا تو انہیں تندرستی کی نعمت نصیب ہوجاتی ہے۔
ورزش کے متعلق ایک اور بات ذہن میں رکھیے۔ کئی لوگ یہ سوچ کر ہفتے میں ایک دو دن ایک ایک گھنٹے کی سخت ورزش کرتے ہیں کہ انہوں نے مطلوبہ وقت حاصل کر لیا۔ جدید تحقیق کی رو سے ہفتے میں ایک دو بار شدید ورزش کرنے سے کم فائدہ ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ روزانہ جتنی بھی ورزش کی جائے: ہلکی' معتدل یا سخت... اس کا اثر 12 تا 24 گھنٹے ہی رہتا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ روزانہ بیس پچیس منٹ ورزش کیجیے تاکہ آپ پورے ہفتے اس کے فوائد سے مستفید ہوسکیں۔
جسم کی خرچ شدہ توانائی کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ کس سرگرمی میں فی گھنٹہ کتنے حرارے یا کیلوریز جلتی ہیں۔ اس پیمانے میں بھی گھریلو کام کاج بخوبی پورے اترتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق خاتون خانہ صفائی کرتے اور چلتے پھرتے فی گھنٹہ 315 حرارے جلاتی ہیں۔ حرارے جلنے کی یہ مقدار بیٹھے رہنے سے تین گنا زیادہ ہے۔ چناںچہ اگر گھر کے کام کرنے والی خاتون ورزش نہیں کرتی یا جم نہیں جاتی تو وہ فکرمند نہ ہو، گھر کے کام کاج ہی اسے تندرست و سمارٹ رکھیں گے۔
اسی طرح آپ کے دفتر یا گھر میں سیڑھیاں ہیں تو ان پر چڑھنا اور اترنا بھی ایک قسم کی سخت ورزش ہے۔ ماہرین کی رو سے روزانہ صرف 30 منٹ سیڑھیاں استعمال کرنے سے 285 حرارے جل جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ بہترین ورزش تسلیم کی جاتی ہے۔
کھانا پکاتے ہوئے 39 میں 80 حرارے جلتے ہیں۔ یہ سرگرمی 9 منٹ تک ٹینس کھیلنے کے برابر ہے۔ اسی طرح درج بالا مدت ہی میں استری کرتے ہوئے 71 حرارے جلتے ہیں۔ جبکہ جھاڑ پونچھ 50 حرارے خرچ کرتی ہے۔
سو قارئین! حرکت میں برکت ہے۔ آپ گھر میں ہوں یا دفتر میں' زیادہ عرصہ بیٹھ کر نہ گزاریئے۔ اور کچھ نہیں تو تازہ ہوا لینے ہی باہر چلے جایئے۔ معمولی سی جسمانی سرگرمی بھی ہمارے بدن کو تقویت پہنچاتی ہے۔