وزیر اعظم کا کشمیریوں کی حمایت جاری رکھنے کا عزم
مقبوضہ کشمیر پر بھارتی مظالم انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، بیگناہ کشمیری عوام پر مظالم نظرانداز نہیں کرسکتے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعرات کو مظفرآباد میں آزادکشمیرکونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے، کشمیر کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، پاکستان کشمیریوں کی حمایت کرتا رہے گا۔
اس مسئلے کو ہر سطح پر اٹھائیں گے' مقبوضہ کشمیر پر بھارتی مظالم انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں' بیگناہ کشمیری عوام پر مظالم نظرانداز نہیں کرسکتے' طاقت سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، بھارتی افواج کی اشتعال انگیز کارروائیوں سے قیامِ امن کی کوششیں متاثر ہوئیں۔وزیراعظم نے بھارت پر کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت سے قبل کشمیری رہنماؤں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان حالات بہتر بنانے کے لیے مسئلہ کشمیر پر نتیجہ خیز بات چیت کرنا ہوگی' پاکستان کی جانب سے ہر فورم پر مسئلہ کشمیر اجاگر کیا جا رہا ہے' یہ ہماری مخلصانہ اور شعوری کوشش ہے کیونکہ بھارت کی طرف سے مثبت رویے کے بجائے ہٹ دھرمی کا رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ انھوں نے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات سے انکار پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ عالمی برادری کے اخلاقی دباؤ کے ذریعے بھارت کو بات چیت کی میز پر لایا جاسکتا ہے۔
جب سے نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت نے روایتی پالیسی سے ہٹ کر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ شروع کر دیا ہے' اس نے موقف اپنایا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے عمل میں کشمیریوں کو شامل کرنے کے لیے تیار نہیں، دوسری جانب اس نے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
اخبارات کے ذریعے یہ باتیں بھی منظرعام پر آئی ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو مستقل طور پر اپنا حصہ بنانے کا منصوبہ بنا رہا اور پاکستان سے بات چیت کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اس نے سیکریٹری خارجہ کے مذاکرات بھی بلاجواز معطل کر دیے اور یہ رٹ لگانا شروع کر دی کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں کشمیریوں کو شریک نہیں کیا جائے گا۔ اب میاں محمد نواز شریف نے بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ کشمیریوں کے بغیر بھارت سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
کشمیری مذاکرات کے اہم فریق ہیں کیونکہ مسئلہ کشمیر کا تعلق ان کے مستقبل اور آزادی سے منسلک ہے لہٰذا کشمیر کے مستقبل کا کوئی بھی فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے بغیر طے نہیں پانا چاہیے۔ ماضی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر کئی بار مذاکرات ہوئے مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا لیکن ہر بار یہ کہہ کر امید قائم کی جاتی رہی کہ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
بھارت نے ایک عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے اس کی چھ سے سات لاکھ فوج کشمیریوں کے آزادی کے جذبے کو دبانے کے لیے ظلم و بربریت کا ہر حربہ آزما چکی ہے مگر کشمیریوں کا جذبہ کم ہونے کے بجائے تیز سے تیز تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور وہ اپنی آزادی کے لیے آج بھی ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے پرعزم ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کے حوالے سے نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایک جانب جہاں چین کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی تعلقات فروغ پا رہے ہیں تو وہاں دوسری جانب افغانستان کے حوالے سے تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیںاور دونوں ممالک دفاعی اور تجارتی لحاظ سے ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ رہے ہیں۔ افغانستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کو اپنے تعاون کی یقین دہانی بھی کرا چکا ہے۔
اب پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے اور روس کے ساتھ پاکستان کا دفاعی معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت روس پاکستان کو جدید ایم آئی 35 گن شپ ہیلی کاپٹر دے گا اس کے علاوہ جدید ایم آئی 28 ہیلی کاپٹرز کے حصول کی بات چیت بھی جاری ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی معاہدہ تاریخی سنگ میل ہے۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے روسی وزیر دفاع سرگئی شوئی گو سے ملاقات میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور روس کے درمیان حالیہ برسوں میں تعلقات کا فروغ خوش آیند ہے، پاکستان روس کے ساتھ دفاع سمیت دیگر شعبوں میں اشتراک کار بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان 543 ملین ڈالر کی سالانہ تجارت کو فروغ دیا جائے کیونکہ یہ تجارتی حجم دونوں ملکوں کی تجارتی گنجائش سے میل نہیں کھاتا۔ ماضی میں پاکستان اور روس کے تعلقات ناخوشگوار رہے لیکن اب پاکستان خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بنانے کے لیے سرگرم ہے اور ان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے تجارتی اور دفاعی معاہدے کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان بھارت کو بھی بارہا مذاکرات کی دعوت دے چکا ہے لیکن بھارتی حکومت کا جارحانہ رویہ ان تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ امریکا اور دیگر عالمی قوتوں کو بھارت پر دباؤ بڑھانا ہو گا کہ وہ اپنا جارحانہ رویہ ترک کرکے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔
اس مسئلے کو ہر سطح پر اٹھائیں گے' مقبوضہ کشمیر پر بھارتی مظالم انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں' بیگناہ کشمیری عوام پر مظالم نظرانداز نہیں کرسکتے' طاقت سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، بھارتی افواج کی اشتعال انگیز کارروائیوں سے قیامِ امن کی کوششیں متاثر ہوئیں۔وزیراعظم نے بھارت پر کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت سے قبل کشمیری رہنماؤں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان حالات بہتر بنانے کے لیے مسئلہ کشمیر پر نتیجہ خیز بات چیت کرنا ہوگی' پاکستان کی جانب سے ہر فورم پر مسئلہ کشمیر اجاگر کیا جا رہا ہے' یہ ہماری مخلصانہ اور شعوری کوشش ہے کیونکہ بھارت کی طرف سے مثبت رویے کے بجائے ہٹ دھرمی کا رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ انھوں نے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات سے انکار پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ عالمی برادری کے اخلاقی دباؤ کے ذریعے بھارت کو بات چیت کی میز پر لایا جاسکتا ہے۔
جب سے نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت نے روایتی پالیسی سے ہٹ کر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ شروع کر دیا ہے' اس نے موقف اپنایا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے عمل میں کشمیریوں کو شامل کرنے کے لیے تیار نہیں، دوسری جانب اس نے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
اخبارات کے ذریعے یہ باتیں بھی منظرعام پر آئی ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو مستقل طور پر اپنا حصہ بنانے کا منصوبہ بنا رہا اور پاکستان سے بات چیت کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اس نے سیکریٹری خارجہ کے مذاکرات بھی بلاجواز معطل کر دیے اور یہ رٹ لگانا شروع کر دی کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں کشمیریوں کو شریک نہیں کیا جائے گا۔ اب میاں محمد نواز شریف نے بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ کشمیریوں کے بغیر بھارت سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
کشمیری مذاکرات کے اہم فریق ہیں کیونکہ مسئلہ کشمیر کا تعلق ان کے مستقبل اور آزادی سے منسلک ہے لہٰذا کشمیر کے مستقبل کا کوئی بھی فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے بغیر طے نہیں پانا چاہیے۔ ماضی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر کئی بار مذاکرات ہوئے مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا لیکن ہر بار یہ کہہ کر امید قائم کی جاتی رہی کہ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
بھارت نے ایک عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے اس کی چھ سے سات لاکھ فوج کشمیریوں کے آزادی کے جذبے کو دبانے کے لیے ظلم و بربریت کا ہر حربہ آزما چکی ہے مگر کشمیریوں کا جذبہ کم ہونے کے بجائے تیز سے تیز تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور وہ اپنی آزادی کے لیے آج بھی ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے پرعزم ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کے حوالے سے نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایک جانب جہاں چین کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی تعلقات فروغ پا رہے ہیں تو وہاں دوسری جانب افغانستان کے حوالے سے تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیںاور دونوں ممالک دفاعی اور تجارتی لحاظ سے ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ رہے ہیں۔ افغانستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کو اپنے تعاون کی یقین دہانی بھی کرا چکا ہے۔
اب پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے اور روس کے ساتھ پاکستان کا دفاعی معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت روس پاکستان کو جدید ایم آئی 35 گن شپ ہیلی کاپٹر دے گا اس کے علاوہ جدید ایم آئی 28 ہیلی کاپٹرز کے حصول کی بات چیت بھی جاری ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی معاہدہ تاریخی سنگ میل ہے۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے روسی وزیر دفاع سرگئی شوئی گو سے ملاقات میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور روس کے درمیان حالیہ برسوں میں تعلقات کا فروغ خوش آیند ہے، پاکستان روس کے ساتھ دفاع سمیت دیگر شعبوں میں اشتراک کار بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان 543 ملین ڈالر کی سالانہ تجارت کو فروغ دیا جائے کیونکہ یہ تجارتی حجم دونوں ملکوں کی تجارتی گنجائش سے میل نہیں کھاتا۔ ماضی میں پاکستان اور روس کے تعلقات ناخوشگوار رہے لیکن اب پاکستان خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بنانے کے لیے سرگرم ہے اور ان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے تجارتی اور دفاعی معاہدے کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان بھارت کو بھی بارہا مذاکرات کی دعوت دے چکا ہے لیکن بھارتی حکومت کا جارحانہ رویہ ان تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ امریکا اور دیگر عالمی قوتوں کو بھارت پر دباؤ بڑھانا ہو گا کہ وہ اپنا جارحانہ رویہ ترک کرکے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔