پولیووائرس کے خاتمہ کے لیے انتباہ لمحہ فکریہ
پاکستان میں پولیو وائرس کی موجودگی اور پھیلاؤ کا سبب دہشت گردی اور سیاسی بے چینی ہے ۔
عالمی ادارہ صحت نے حکومت پاکستان کودسمبر 2015ء تک پولیووائرس کے خاتمے کا ہدف دیدیا اورکہا ہے کہ کراچی میں پولیو وائرس نے تباہی پھیلا رکھی ہے لہذا کراچی میں خصوصی مہم جاری رکھی جائے اورمطلوبہ ہدف کوہرحال میں مکمل کیا بصورت دیگربیرون ممالک جانے والے پاکستانیوں کی مشین کے ذریعے مکمل اسکریننگ کی جائے گی ۔
اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ عالمی ادارہ صحت نے پولیو کے خاتمہ کے لیے پاکستان کو متعدد بار انتباہی مراسلات اور ہدایات جاری کیں اور زور دیا کہ ریاستی ذمے داریاں پوری کی جائیں ، اس ضمن میں ملک بھر کے ایئرپورٹس پر پولیو ویکسین کی لازمی شرط اور اس کی تصدیق کے لیے سخت انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان پر زور ڈالا جاتا رہا تاہم اس سلسلہ میں ان بنیادی وجوہ کے حوالے سے عالمی ادارہ کو قائل نہیں کیا جاسکا جو پولیو مہم کی ناکامی یا تعطل کا سبب بنیں۔ امریکی جریدہ''ٹائم''نے جولائی 2014 ء کی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں پولیو وائرس کی موجودگی اور پھیلاؤ کا سبب دہشت گردی اور سیاسی بے چینی ہے ۔
جب کہ طالبان کی طرف سے پولیوکرز پر حملوں ، ان کی ہلاکتوں اور ویکسینیشن کے خلاف پروپیگنڈہ سے صورتحال خراب ہوئی ۔ اس وقت دنیا میں نائجیریا،افغانستان اور پاکستان پولیوفری ملکوں کی فہرست سے باہر ہیں ۔ روٹری انٹرنیشنل ، جس نے 122 ممالک میں دو ارب بچوں کو پولیو ویکسین استعمال کرائی ،کا کہنا ہے کہ پاکستان پولیو سے آزاد ملک ہونے کے قریب تھا کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور بدامنی سے پاکستان اپنے ہدف سے محروم ہوگیا جب کہ 2012 ء میں صرف 58 کیسز سامنے آئے جو پولیو ورکرز کی ہلاکتوں اور ویکسینیشن مہم کی معطلی کے باعث کئی گنا بڑھ گئے ۔ جمعرات کو ملک میں پولیو کے مزید 4نئے کیس سامنے ا ٓگئے۔رواں سال پولیوکے مجموعی کیسزکی تعداد257ہوگئی۔پولیوسے متاثرہ بچوں کاتعلق پشاوراورایک کا جنوبی وزیرستان سے ہے ۔
رواں سال اب تک فاٹا میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 162 اورخیبر پختونخوامیں 54 ہوگئی ہے۔ سندھ میں پولیو وائرس نے 26، پنجاب میں3اور بلوچستان میں 12بچوں کونشانہ بنایا۔ حکومت سندھ نے کراچی میں پولیووائرس کی تباہی کودیکھتے ہوئے 16دسمبر سے 21دسمبرچلائی جانے والی خصوصی پولیومہم کے دوران پولیو انجکشن لگانے کا فیصلہ کیاہے۔ دوسری جانب حکومت سندھ نے جیل میں ایک بچے کو پولیووائرس لاحق ہونے کے بعد صوبے کی خواتین جیلوں میں بھی ویکسینیشن کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اصولاً ملک کو پولیو فری بنانے کے لیے اب جنگی بنیادوں پر کام شروع کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ۔
اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ عالمی ادارہ صحت نے پولیو کے خاتمہ کے لیے پاکستان کو متعدد بار انتباہی مراسلات اور ہدایات جاری کیں اور زور دیا کہ ریاستی ذمے داریاں پوری کی جائیں ، اس ضمن میں ملک بھر کے ایئرپورٹس پر پولیو ویکسین کی لازمی شرط اور اس کی تصدیق کے لیے سخت انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان پر زور ڈالا جاتا رہا تاہم اس سلسلہ میں ان بنیادی وجوہ کے حوالے سے عالمی ادارہ کو قائل نہیں کیا جاسکا جو پولیو مہم کی ناکامی یا تعطل کا سبب بنیں۔ امریکی جریدہ''ٹائم''نے جولائی 2014 ء کی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں پولیو وائرس کی موجودگی اور پھیلاؤ کا سبب دہشت گردی اور سیاسی بے چینی ہے ۔
جب کہ طالبان کی طرف سے پولیوکرز پر حملوں ، ان کی ہلاکتوں اور ویکسینیشن کے خلاف پروپیگنڈہ سے صورتحال خراب ہوئی ۔ اس وقت دنیا میں نائجیریا،افغانستان اور پاکستان پولیوفری ملکوں کی فہرست سے باہر ہیں ۔ روٹری انٹرنیشنل ، جس نے 122 ممالک میں دو ارب بچوں کو پولیو ویکسین استعمال کرائی ،کا کہنا ہے کہ پاکستان پولیو سے آزاد ملک ہونے کے قریب تھا کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور بدامنی سے پاکستان اپنے ہدف سے محروم ہوگیا جب کہ 2012 ء میں صرف 58 کیسز سامنے آئے جو پولیو ورکرز کی ہلاکتوں اور ویکسینیشن مہم کی معطلی کے باعث کئی گنا بڑھ گئے ۔ جمعرات کو ملک میں پولیو کے مزید 4نئے کیس سامنے ا ٓگئے۔رواں سال پولیوکے مجموعی کیسزکی تعداد257ہوگئی۔پولیوسے متاثرہ بچوں کاتعلق پشاوراورایک کا جنوبی وزیرستان سے ہے ۔
رواں سال اب تک فاٹا میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 162 اورخیبر پختونخوامیں 54 ہوگئی ہے۔ سندھ میں پولیو وائرس نے 26، پنجاب میں3اور بلوچستان میں 12بچوں کونشانہ بنایا۔ حکومت سندھ نے کراچی میں پولیووائرس کی تباہی کودیکھتے ہوئے 16دسمبر سے 21دسمبرچلائی جانے والی خصوصی پولیومہم کے دوران پولیو انجکشن لگانے کا فیصلہ کیاہے۔ دوسری جانب حکومت سندھ نے جیل میں ایک بچے کو پولیووائرس لاحق ہونے کے بعد صوبے کی خواتین جیلوں میں بھی ویکسینیشن کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اصولاً ملک کو پولیو فری بنانے کے لیے اب جنگی بنیادوں پر کام شروع کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ۔