تیل کی قیمتوں میں کمی کا عندیہ
پٹرولیم کی عالمی قیمت میں30تا 33فیصدکمی واقع ہوئی ہےاورحکومت پاکستان کوبھی تیل کی قیمت میں اسی تناسب سےکمی لاناچاہیے۔
اس وقت تیل کی قیمتیں عالمی معیشت میں بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔ جون 2014 سے اگرچہ عالمی منڈی میں کموڈٹیز کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ عالمی منڈی میں کئی اجناس کی قیمتوں میں کمی واقع ہو رہی تھی کہ جولائی سے تیل کی قیمتوں میں کمی نے عالمی معیشت میں ہلچل مچا دی۔
تیل پیدا کرنیوالے ملکوں نے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کا حساب لگانا شروع کردیا اور تیل درآمد کرنیوالے ملکوں نے اپنے درآمدی بل کی مالیت کے بارے میں حساب جوڑنا شروع کردیا کہ مالیاتی دباؤ سے کس حد تک ریلیف مل پائے گا لیکن کئی ممالک ایسے ہیں جہاں حکومتیں اندرون ملک سے بھی قرض گیری میں اضافہ کر رہی ہیں اور بین الاقوامی اداروں سے بھی قرض کے حصول کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں۔
تو ایسے ممالک کے لیے جہاں ایک طرف درآمدی بل میں کمی کے خوشگوار اثرات ہونگے اس کے ساتھ ہی بڑھتے ہوئے قرض کے منفی اثرات معیشت کی افزائش میں زیادہ بڑھوتری نہیں پیدا کر پائینگے۔ ماہ جولائی سے ہی عالمی سیاست و معیشت میں ایک اور نئے کھیل کا آغاز ہوچکا ہے جسے ایک اور سرد جنگ کے آغاز سے بھی تعبیر کیا جارہا ہے۔ ان دنوں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت گزشتہ 50 ماہ کی کم ترین سطح پر ہے۔
کروڈ آئل کی قیمت 74.55 ڈالر فی بیرل تک گر چکی ہے اس کے ساتھ ہی سونے کی قیمت بھی گراوٹ کا شکار رہی ہے۔ جولائی 2014 میں تیل کی قیمت میں4.21 ڈالر فی بیرل کی کمی کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے حالانکہ الجزائر میں ''اوپیک'' کے اجلاس کے موقع پر یہ طے کرلیا گیا تھا کہ تیل کی پیداوار میں مزید کمی لائی جائے گی لیکن تیل کی طلب میں کمی کے علاوہ تیل کی قیمت میں کمی سے جہاں روس اور ایران شدید متاثر ہونگے وہاں یورو زون کے ممالک کو اپنے مالیاتی مسائل حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
روس کی مالی مشکلات میں اضافے کے باعث امریکا یوکرائن سے متعلق روس پر عائد پابندیوں کو زیادہ موثر کرپائے گا جب کہ ایران کی مالی مشکلات کے سبب ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں مغربی طاقتوں سے ہونے والے مذاکروں میں ایرانی مذاکرات کار بھی مشکلات کا شکار ہو جائینگے۔ اس عالمی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں میں کمی کا فائدہ پاکستان کی حکومت عوام کو کس حد تک پہنچا سکتی ہے۔ 31 اکتوبر کو تیل کی قیمتوں میں جس کمی کا اعلان کیا گیا تھا جسے بہت سے حلقوں نے بہت ہی کم ترین کمی سے تعبیر کیا تھا جلد ہی حکومت کو بھی احساس ہوگیا کہ قیمت میں کمی بہت کم کی گئی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ حکومت اگلے ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کریگی جس سے مہنگائی کم اور عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ ٹیوب ویلوں کے بل کم ہونے سے کاشتکاروں کو جب کہ ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی سے عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا۔ ان دنوں کروڈ آئل کی جو قیمت ہے اتنی ہی قیمت ستمبر 2010 میں بھی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹرولیم کی عالمی قیمت میں 30 تا 33 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور حکومت پاکستان کو بھی تیل کی قیمت میں اسی تناسب سے کمی لانا چاہیے۔ تیل کی قیمت میں یکم نومبر سے 9 فیصد کمی لائی گئی تھی جس کے تحت کراچی کے ٹرانسپورٹر نے کرایوں میں محض ایک روپے کمی کی تھی اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ ڈیزل کی قیمت 2011 کی سطح پر لائی جائے پھر کسی حد تک کرایوں میں کمی ممکن ہوگی۔ اب جب کہ پٹرولیم کی قیمت ستمبر 2010 کی سطح پر آچکی ہے تو حکومت آیندہ ماہ سے قیمتوں میں کمی کا اعلان بھی کر رہی ہے تو اب یہ کمی واضح اور نمایاں ہونا چاہیے تاکہ معیشت پر اس کے دیرپا اثرات بھی مرتب ہوسکیں۔
اگر مجموعی طور پر کمی 25 فیصد بھی ہوجاتی ہے تو ہر شے کی قیمت اور کرایوں میں کمی کی توقع کی جاسکے گی۔ تیل کے درآمدی بل میں کمی کے باعث بہت سے ترقی پذیر ممالک اس بات کا جشن منا رہے ہیں کہ تیل کے درآمدی بل میں نمایاں کمی کے باعث ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ مالیاتی دباؤ سے جلد نکل آئینگے اور ان کا تجارتی خسارہ اب ان کے کنٹرول میں ہوگا لیکن پاکستان میں گزشتہ 4 ماہ سے ہی تجارتی خسارہ اس لیے بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہو رہی ہیں۔ کئی مدات ایسی ہیں جن کا درآمدی بل مزید بڑھ چکا ہے۔ ایسی صورت میں تیل کا درآمدی بل کم ہونے کے باوجود تجارتی خسارہ کا بڑھتے رہنا اور اس کے ساتھ ہی حکومتی قرض گیری چاہے مرکزی بینک سے ہو یا آئی ایم ایف سے ہو ان دونوں صورتوں میں معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔
تجارتی اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا اکتوبر تک درپیش تجارتی خسارہ 5 ارب 83 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 7 ارب 46 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا ہے جب کہ مرکزی بینک کے توازن ادائیگی کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا اکتوبر 2014 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ کو ایک ارب 75 کروڑ 90 لاکھ ڈالر خسارہ کے مقابلے میں 2012-13 مالی سال کے اسی عرصے کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک ارب 36 کروڑ80 لاکھ ڈالر تھا البتہ ترسیلات زر میں اضافہ معیشت کے لیے ڈھارس کا سبب بنی ہوئی ہے۔بہرحال عالمی سیاسی معیشت میں جس گیم کا آغاز ہوچکا ہے۔
اس سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں پہلے کی طرح جلد اضافے کے امکانات کم ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی حکومت تیل کی قیمت میں مزید نمایاں کمی لاکر اسے کچھ عرصے کے لیے مستحکم کرے اور حکومت اپنی رٹ کچھ اس طرح قائم کرے کہ وہ نظر بھی آئے۔ پہلے کی طرح کرایوں میں محض ایک روپے کی کمی قطعاً نہ ہو۔ مختلف اشیا مصنوعات میں کمی لائی جائے۔ خصوصاً آٹے کی قیمت کو بھی کم کیا جائے تاکہ روٹی کی قیمت میں کمی لائی جاسکے۔
اس وقت روٹی 8 روپے سے 10 روپے میں دستیاب ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی میں اس حد تک کمی لائی جائے جوکہ عوام واقعی محسوس کرسکیں کہ قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت بیرونی قرضوں اور ملکی قرضوں میں بھی کمی لے کر آئے۔ ساتھ ہی تجارتی خسارے کو بھی کم کرنے کے لیے برآمدات میں اضافے کو یقینی بنائے تاکہ روپے کی قدر میں اضافہ ہو۔ کرنسی کمزور ہونے کے باعث مہنگائی کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ افراط زر کی شرح میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں نمایاں کمی کے ساتھ روپے کی قدر میں اضافہ بھی ضروری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اعلان کو کب عملی جامہ پہنایا جاتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے مہنگائی کم اور عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔
تیل پیدا کرنیوالے ملکوں نے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کا حساب لگانا شروع کردیا اور تیل درآمد کرنیوالے ملکوں نے اپنے درآمدی بل کی مالیت کے بارے میں حساب جوڑنا شروع کردیا کہ مالیاتی دباؤ سے کس حد تک ریلیف مل پائے گا لیکن کئی ممالک ایسے ہیں جہاں حکومتیں اندرون ملک سے بھی قرض گیری میں اضافہ کر رہی ہیں اور بین الاقوامی اداروں سے بھی قرض کے حصول کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں۔
تو ایسے ممالک کے لیے جہاں ایک طرف درآمدی بل میں کمی کے خوشگوار اثرات ہونگے اس کے ساتھ ہی بڑھتے ہوئے قرض کے منفی اثرات معیشت کی افزائش میں زیادہ بڑھوتری نہیں پیدا کر پائینگے۔ ماہ جولائی سے ہی عالمی سیاست و معیشت میں ایک اور نئے کھیل کا آغاز ہوچکا ہے جسے ایک اور سرد جنگ کے آغاز سے بھی تعبیر کیا جارہا ہے۔ ان دنوں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت گزشتہ 50 ماہ کی کم ترین سطح پر ہے۔
کروڈ آئل کی قیمت 74.55 ڈالر فی بیرل تک گر چکی ہے اس کے ساتھ ہی سونے کی قیمت بھی گراوٹ کا شکار رہی ہے۔ جولائی 2014 میں تیل کی قیمت میں4.21 ڈالر فی بیرل کی کمی کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے حالانکہ الجزائر میں ''اوپیک'' کے اجلاس کے موقع پر یہ طے کرلیا گیا تھا کہ تیل کی پیداوار میں مزید کمی لائی جائے گی لیکن تیل کی طلب میں کمی کے علاوہ تیل کی قیمت میں کمی سے جہاں روس اور ایران شدید متاثر ہونگے وہاں یورو زون کے ممالک کو اپنے مالیاتی مسائل حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
روس کی مالی مشکلات میں اضافے کے باعث امریکا یوکرائن سے متعلق روس پر عائد پابندیوں کو زیادہ موثر کرپائے گا جب کہ ایران کی مالی مشکلات کے سبب ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں مغربی طاقتوں سے ہونے والے مذاکروں میں ایرانی مذاکرات کار بھی مشکلات کا شکار ہو جائینگے۔ اس عالمی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں میں کمی کا فائدہ پاکستان کی حکومت عوام کو کس حد تک پہنچا سکتی ہے۔ 31 اکتوبر کو تیل کی قیمتوں میں جس کمی کا اعلان کیا گیا تھا جسے بہت سے حلقوں نے بہت ہی کم ترین کمی سے تعبیر کیا تھا جلد ہی حکومت کو بھی احساس ہوگیا کہ قیمت میں کمی بہت کم کی گئی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ حکومت اگلے ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کریگی جس سے مہنگائی کم اور عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ ٹیوب ویلوں کے بل کم ہونے سے کاشتکاروں کو جب کہ ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی سے عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا۔ ان دنوں کروڈ آئل کی جو قیمت ہے اتنی ہی قیمت ستمبر 2010 میں بھی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹرولیم کی عالمی قیمت میں 30 تا 33 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور حکومت پاکستان کو بھی تیل کی قیمت میں اسی تناسب سے کمی لانا چاہیے۔ تیل کی قیمت میں یکم نومبر سے 9 فیصد کمی لائی گئی تھی جس کے تحت کراچی کے ٹرانسپورٹر نے کرایوں میں محض ایک روپے کمی کی تھی اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ ڈیزل کی قیمت 2011 کی سطح پر لائی جائے پھر کسی حد تک کرایوں میں کمی ممکن ہوگی۔ اب جب کہ پٹرولیم کی قیمت ستمبر 2010 کی سطح پر آچکی ہے تو حکومت آیندہ ماہ سے قیمتوں میں کمی کا اعلان بھی کر رہی ہے تو اب یہ کمی واضح اور نمایاں ہونا چاہیے تاکہ معیشت پر اس کے دیرپا اثرات بھی مرتب ہوسکیں۔
اگر مجموعی طور پر کمی 25 فیصد بھی ہوجاتی ہے تو ہر شے کی قیمت اور کرایوں میں کمی کی توقع کی جاسکے گی۔ تیل کے درآمدی بل میں کمی کے باعث بہت سے ترقی پذیر ممالک اس بات کا جشن منا رہے ہیں کہ تیل کے درآمدی بل میں نمایاں کمی کے باعث ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ مالیاتی دباؤ سے جلد نکل آئینگے اور ان کا تجارتی خسارہ اب ان کے کنٹرول میں ہوگا لیکن پاکستان میں گزشتہ 4 ماہ سے ہی تجارتی خسارہ اس لیے بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہو رہی ہیں۔ کئی مدات ایسی ہیں جن کا درآمدی بل مزید بڑھ چکا ہے۔ ایسی صورت میں تیل کا درآمدی بل کم ہونے کے باوجود تجارتی خسارہ کا بڑھتے رہنا اور اس کے ساتھ ہی حکومتی قرض گیری چاہے مرکزی بینک سے ہو یا آئی ایم ایف سے ہو ان دونوں صورتوں میں معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔
تجارتی اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا اکتوبر تک درپیش تجارتی خسارہ 5 ارب 83 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 7 ارب 46 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا ہے جب کہ مرکزی بینک کے توازن ادائیگی کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا اکتوبر 2014 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ کو ایک ارب 75 کروڑ 90 لاکھ ڈالر خسارہ کے مقابلے میں 2012-13 مالی سال کے اسی عرصے کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک ارب 36 کروڑ80 لاکھ ڈالر تھا البتہ ترسیلات زر میں اضافہ معیشت کے لیے ڈھارس کا سبب بنی ہوئی ہے۔بہرحال عالمی سیاسی معیشت میں جس گیم کا آغاز ہوچکا ہے۔
اس سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں پہلے کی طرح جلد اضافے کے امکانات کم ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی حکومت تیل کی قیمت میں مزید نمایاں کمی لاکر اسے کچھ عرصے کے لیے مستحکم کرے اور حکومت اپنی رٹ کچھ اس طرح قائم کرے کہ وہ نظر بھی آئے۔ پہلے کی طرح کرایوں میں محض ایک روپے کی کمی قطعاً نہ ہو۔ مختلف اشیا مصنوعات میں کمی لائی جائے۔ خصوصاً آٹے کی قیمت کو بھی کم کیا جائے تاکہ روٹی کی قیمت میں کمی لائی جاسکے۔
اس وقت روٹی 8 روپے سے 10 روپے میں دستیاب ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی میں اس حد تک کمی لائی جائے جوکہ عوام واقعی محسوس کرسکیں کہ قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت بیرونی قرضوں اور ملکی قرضوں میں بھی کمی لے کر آئے۔ ساتھ ہی تجارتی خسارے کو بھی کم کرنے کے لیے برآمدات میں اضافے کو یقینی بنائے تاکہ روپے کی قدر میں اضافہ ہو۔ کرنسی کمزور ہونے کے باعث مہنگائی کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ افراط زر کی شرح میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں نمایاں کمی کے ساتھ روپے کی قدر میں اضافہ بھی ضروری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اعلان کو کب عملی جامہ پہنایا جاتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے مہنگائی کم اور عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔