سانحہ کوٹ رادھا کشن کے مجرم

پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا لیکن افسوس آج اپنے قیام کے 67 برس بعد بھی اسلام اس ملک میں ڈھونڈھے نظر نہیں آتا۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

یہ دو نہیں تین افراد کا قتل ہے، شہزاد مسیح کی زوجہ شمع بی بی چار ماہ کی حاملہ تھی، کوٹ رادھا کشن جیسے قابل گرفت و قابل مذمت، شرمناک انسانیت سوز واقعات پاکستان کا طرہ امتیاز بنتے جا رہے ہیں، اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرنے اور سچی تصویر کو دھندلانے نیز بانی اسلامؐ رحمۃ اللعالمینؐ کی امن و سلامتی اور پرامن بقائے باہمی پر مبنی عظیم ترین تعلیمات کو دنیا بھر میں مشکوک بنانے اور بدنام کرنے والے گھناؤنی سازش پر مبنی یہ مذموم واقعات آج ہمارے معاشرے میں عام ہوتے اور روز مرہ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

ہم نے پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا لیکن افسوس آج اپنے قیام کے 67 برس بعد بھی اسلام اس ملک میں ڈھونڈھے نظر نہیں آتا، بس اسلام کے نام پر ہر چہار سو جنونیت، انتہا پسندی، تنگ نظری، شدت پسندی، عدم برداشت اور قتل و غارت گری عام ہے جس کے ہاتھوں کوئی مسجد محفوظ نہیں نہ امام بارگاہ، کلیسا نہ مندر اور نہ ہی ان میں خدا کو تلاش کرنے والے عبادت گزار۔ ہمارا نام نہاد اسلامی معاشرہ اپنے عالم نزع سے گزر رہا ہے جس کے روبہ صحت ہونے کے امکانات دن بہ دن معدوم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

بہاولپور میں چرچ پر حملہ، ٹیکسلا میں کرسچن کو نشانہ بنانا، 2002ء میں سیالکوٹ میں گرجا گھر پر حملہ، 2005ء میں شیخوپورہ میں چرچ پر حملہ، 8 نومبر 2010ء میں عیسائی خاتون آسیہ نورین کو توہین مذہب پر موت کی سزا اور 2011ء میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا آسیہ سے ملاقات کے بعد گارڈ کے ہاتھوں قتل، 2012ء میں رمشا مسیح پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام، 2013ء میں لاہور کے بادامی باغ کی ملحقہ آبادی جوزف کالونی پر حملہ اور درجنوں مکانات کا نذرآتش کیا جانا، کئی برس قبل گوجرانوالہ میں ایک حافظ قرآن کو ایک جادو ٹونہ کرنے والی عورت کے کہنے پر پتھر مار مار کر قتل کر دینا، ملتان میں مخالف مذہبی جماعت کا پوسٹر اتارنے کے الزام میں ایک شخص کو زندہ جلا دینا، سندھ میں ایک ذہنی معذور کو مبینہ توہین قرآن پر زندہ جلا دینا، حال ہی میں گوجرانوالہ میں انٹرنیٹ پر اسلام مخالف ریمارکس پر ایک غیر مسلم کے غیر متعلق گھر والوں کو بچوں سمیت زندہ جلانا اور مکان کو مسمار کر دینا، یہ تمام وہ بدنام زمانہ واقعات ہیں جو اسلام، پاکستان اور انسانیت کے چمکتے دمکتے روشن چہرے پر سیاہ داغ لگانے کے مترادف ہیں۔

اس پاک سرزمین پر کوئی بھی محفوظ نہیں، کوئی بھی تو نہیں۔ غیر مسلم اقلیتیں تو کیا خود مسلمانوں کی جانیں انتہائی سستی ہو چکی ہیں، قاتل بھی مسلمان (نام نہاد) تو مقتول بھی مسلمان۔ حالانکہ رحمۃ اللعالمینؐ نے انسانی جان کی حرمت کعبہ کی حرمت سے زیادہ قرار دی اور مسلمان پر مسلمان کا جان، مال اور آبرو حرام قرار دیا نیز غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں خبردار کیا کہ ''اگر کسی شخص نے غیر مذہب رعیت پر ظلم کیا، یا اس کی تنقیص کی یا اس کو تکلیف پہنچائی یا (اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات کی تو میں بروز قیامت اس غیر مسلم کی طرف سے مدعی ہوں گا۔''

معاہدہ نجران کو ذرا دیکھے آپؐ نے فرمایا ''تمام لوگ جو موجود ہیں یا غیر حاضر، ان کے خاندان، ان کی رسوم و رواج، ان کے مال و متاع اور متبرک مقامات تک یہ معاہدہ محیط ہے، کسی بھی پادری کو اس کے منصب سے معزول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی راہب کو اس کی خانقاہ سے نکالا جائے گا، ان کی سرزمین پر کوئی فوجی دستہ در اندازی نہیں کرے گا۔

انسانیت کے محسن اعظمؐ کے عہد مبارک اور دور خلافت راشدہؓ میں غیر مسلموں کے ساتھ جتنے بھی پرامن بقائے باہمی پر مبنی معاہدات امن و صلح کیے گئے ان میں انسان دوستی کو مدنظر رکھتے ہوئے وسیع النظری و وسیع القلبی سے خصوصی طور پر کام لیتے ہوئے غیر مسلموں کو ان کی عزت و آبرو، جان و مال اور ان کی عبادت گاہوں کے مکمل تحفظ کو خصوصی طور پر اہمیت دی گئی، عہد خلافت راشدہؓ میں دیکھیے جب بعض علاقوں کو مسلمانوں نے چھوڑا تو جزیہ واپس کر دیا کہ ہم اب آپ کا تحفظ نہیں کر سکیں گے لہٰذا ہم آپ کی امانت آپ کو واپس لوٹاتے ہیں۔


کوٹ رادھا کشن اور اس جیسے مزید مذموم واقعات جہالت، کم علمی اور تعصب پر مبنی ہیں اور اکثر ذاتی دشمنی اور بغض و عناد کی آڑ میں مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے، اصل بات کچھ ہوتی اور اسے مذہبی رنگ دے کر کسی اور روپ میں پیش کر دیا جاتا ہے، ایسے تمام شرمناک اور تعصبانہ واقعات کی سیاہی اسی صورت میں دھوئی جا سکتی ہے کہ جب حکومتی سطح پر اس کی روک تھام کے لیے مربوط قانون سازی کی جائے اور اہل اسلام و اہل پاکستان خود بھی پوری ذمے داری کا مظاہرہ کریں اور کسی فاسق و فاجر کی جھوٹی خبر پر خود مشتعل ہو کر قانون اپنے ہاتھوں میں نہ لیں اور بلاتصدیق کسی کو ہر گز نقصان نہ پہنچائیں، اگر کوئی شخص واقعی توہین رسالت، توہین قرآن، توہین مذہب وغیرہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے جرم کی سزا دینا ہجوم کا نہیں عدالتوں کا کام ہے۔

ایسے تمام نام نہاد روشن خیال جو توہین رسالت کے قانون کو منسوخ کیے جانے کے خواہش مند ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے تمام واقعات کا اس قانون سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس قانون پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد نہ کیے جانے کے باعث ایسے شرمناک اور مذموم واقعات رونما ہوتے ہیں، اس قانون کا غلط استعمال کرنے والا بھی اسی طرح مجرم ہے جس طرح توہین کرنے والا، غلط الزام لگانے والا مدعی بھی اس قانون کی رو سے مجرم ہی تصور کیا جائے گا۔

اس قانون کی رو سے کارروائی کا اختیار ریاست کے پاس ہے نہ کہ عوام، یہی وجہ ہے کہ تمام غیر مسلم قائدین اس قانون توہین رسالت کو باقی رکھنے لیکن درست استعمال پر متفق ہیں، مجرم کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے جب کہ مظلوم سرخرو ہونا چاہیے اس قانون کا خاتمہ تو مجرموں کو فری ہینڈ دے دے گا پھر جس کا جہاں دل چاہے گا پکڑے گا، کافر قرار دے گا اور قتل کر ڈالے گا لیکن یہ قانون ایسے واقعات سے روکتا ہے اور ریاست کے ہر شہری کو اپنا پابند بنا کر خود قانون ہاتھ میں لینے سے قطعی روکتا ہے، یہی اس قانون کی بقا کی سب سے بڑی خصوصیت و خوبی ہے۔

کوٹ رادھا کشن اور اس جیسے تمام مذموم واقعات کے وہ تمام ذمے داران جنھوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا اور قانون توہین رسالت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے انھیں اسی قانون کی روشنی میں عبرت ناک سزا ملنی چاہیے تا کہ ایسے تمام واقعات جن سے اسلام دنیا بھر میں بدنام ہوتا ہے ان کا حتمی و دائمی خاتمہ ہوسکے اور اسلام کی سچی تصویر دنیا کے سامنے آسکے۔

لیکن افسوس اصل مجرموں کو کوئی سزا نہیں ملتی، ملتی ہے تو اسے جو بے اثر، بے مایہ اور بے قصور ہوتا ہے، اس جانب توجہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس ملک میں لیاقت علی خان، فاطمہ جناح، مرتضیٰ بھٹو، ضیا الحق اور بے نظیر جیسی عظیم شخصیات کے قاتلوں کو آج تک سزا نہ ہوئی وہاں ایک عام آدمی کے قاتلوں کا تعین، انھیں لگام دینا اور گرفت میں لانا اگرچہ امر محال معلوم ہوتا ہے تاہم اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں، لاقانونیت کے خاتمے کے لیے ریاست میں حکومتی رٹ کا قائم ہونا ناگزیر ہے، جلدی کیجیے کہیں بہت دیر نہ ہو جائے۔

مظلوم شمع بی بی اور شہزاد کے یتیم و یسیر خوفزدہ بچوں کو انسانی جان کے نقصان کے بدلے چند لاکھ تھما کر حکومت اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ اور اپنے فرض سے سبکدوش ہرگز نہیں ہو سکتی، ایسے موثر ترین اقدامات اٹھائے جائیں کہ آئندہ ایسے سانحات جنم ہی نہ لیں اور کوٹ رادھا کشن کا سانحہ اس نوعیت کا آخری حادثہ ثابت ہو سکے، یہ ملک اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا، اسلام کا نفاذ اشد ضروری ہے، بصورت دیگر اصلاح کی تمام امیدیں عبث معلوم ہوتی ہیں۔
Load Next Story