کرشن چندر کے بارے میں یہ سرد مہری کیوں

برصغیر میں صورت حال کچھ اس طرح کی ہے کہ کیا ہندو کیا مسلمان دونوں طرف کچھ بہت کٹر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔

rmvsyndlcate@gmail.com

اردو ادب کے اکابرین کو یاد کرنے کی تقریب سے جب کوئی سیمینار یا خصوصی ادبی نشست ہوتی ہے تو ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اس تقریب میں اپنی حاضری لکھوائیں اور موصوف کو خراج تحسین پیش کریں۔ لیکن جب ایف سی کالج کی طرف سے پیغام آیا کہ ہم کرشن چندر کی یاد منا رہے ہیں۔ اس میں آپ کی شرکت متوقع ہے تو ہمیں اس دعوت پر کچھ زیادہ ہی خوشی ہوئی اور خوشی خوشی وہاں پہنچے۔

اگر کچھ زیادہ خوشی ہوئی تو اس کی وجہ بھی سن لیجیے۔ یہ جو ہمارا پچھلا ادبی دور گزرا ہے جب پچھلی صدی کی تیسری چوتھی دہائیوں میں اردو ادب نے ایک نئی کروٹ لی تھی اور شاعری' افسانہ و ناول اور ادبی تنقید میں نئے رجحانات کا ظہور ہوا تھا تو پچھلے چند سالوں میں اس عہد کے چند اکابرین کی سو سالہ یاد گار بڑی گرمجوشی سے منائی گئی۔ ن' م راشد' فیض اور منٹو کے الگ الگ سال اس طرح منائے گئے کہ سال بھر ان کے اعزاز میں سیمینار اور کانفرنسیں ہوتی رہیں۔ ان پر نئے سرے سے تحقیق ہوئی' نئے سرے سے ان کے کام کا تنقیدی جائزہ لیا گیا اور اس ضمن میں کتنی کتابیں شائع ہوئیں۔

صرف پاکستان میں نہیں ہندوستان میں بھی۔ اور ہندوستان میں صرف اردو کی حد تک نہیں بلکہ وہاں کی دوسری زبانوں کے ادبی حلقوں نے بھی اس گرمجوشی کا مظاہرہ کیا' مخصوص طور پر فیض اور منٹو کے سلسلہ میں لیکن عجب ہوا کہ جب کرشن چندر کی باری آئی تو اس سلسلہ میں بہت سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا' صرف پاکستان میں نہیں بلکہ ہندوستان میں بھی۔ مگر آخر کیوں۔ ارے کرشن چندر تو اس عہد کے افسانہ نگاروں میں سب سے بڑھ کر مانے گئے تھے اور مقبولیت اتنی کہ پورے عہد پر چھائے ہوئے نظر آتے تھے۔

اس سرد مہری کے پیش نظر یہ جان کر ہمیں خوشی ہوئی کہ پاکستان کی ایک بڑی درسگاہ نے جو اب کالج کے مقام سے بڑھ کر یونیورسٹی کی حیثیت حاصل کر چکی ہے، کرشن چندر کو یاد کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ ہم وہاں پروگرام کے مطابق صبح ہی صبح پہنچے تو پتہ چلا کہ یہ تقریب دو نشستوں میں منقسم ہے۔ کرشن چندر پر بحث مباحثہ لنچ کے بعد کے سیشن میں ہو گا۔ ابتدائی نشست میں ترجمہ کے مسائل پر بحث مباحثہ ہو گا۔ ہم نے تعجب کیا اور پوچھا کہ آپ نے تو ہمیں کرشن چندر کے نام پر مدعو کیا تھا۔ جواب ملا کہ آپ بحیثیت صدر یوم کرشن چندر کا افتتاح کریں گے۔ اس نشست میں ایک مقالہ بھی کرشن چندر کے متعلق ہو گا جو نیلم احمد بشیر پیش کریں گی۔ تو ہم تو کرشن چندر کو خراج تحسین پیش کر کے چلے آئے۔ جس نشست میں کرشن چندر پر مقالے پڑھے گئے وہ سننے سے ہم محروم رہے۔

ہاں اس موقعہ پر کرشن چندر کے متعلق ایک کتاب کا بھی افتتاح ہوا۔ یہ تحقیقی کام تھا محمد اویس قرنی کا جو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ ہم نے اس کتاب کو بہت تجسس کے ساتھ کھول کر دیکھا۔ سرسری جائزہ لیا کہ اس عزیز نے کرشن چندر پر کیسا تحقیقی کام کیا ہے اور کس کس زاویے سے ان کے افسانوں کو جانچا پرکھا ہے۔

ہم یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ سب سے بڑھ کر اس محقق نے اس پر تحقیق کی ہے کہ آیا کرشن چندر مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ اور بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ وہ واقعی سچے دل سے مسلمان ہوئے تھے اور ان کا نیا نام وقار ملک ہے۔ اور اس نام کو ان کی نئی بیگم سلمیٰ صدیقی کی والدہ یعنی بیگم رشید احمد صدیقی نے پسند کیا تھا۔


اس تحقیق کی صداقت کے بارے میں اور تو ہم کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ مگر اپنے اس شک کے اظہار میں کیا مضائقہ ہے کہ اگر کرشن چندر واقعی مسلمان ہو گئے تھے تو انھوں نے اس بات کو چھپائے کیوں رکھا۔

ویسے اس تحقیق کو پڑھتے ہوئے ہمیں یوں لگا کہ محقق کو کرشن چندر کے افسانوں سے بڑھ کر اس میں دلچسپی ہے کہ کرشن چندر نے قبول اسلام کر لیا تھا۔ اس شوق میں انھوں نے کرشن چندر کے بچپن سے یہ کھوج لگانا شروع کیا ہے کہ اسلام سے ان کا لگائو ماں کی گود سے اترنے کے بعد ہی کس کس رنگ سے ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا۔ پھر انھوں نے افسانوں کے کرداروں کی چھان پھٹک شروع کر دی کہ ان میں کتنے ہندو ہیں اور کتنے مسلمان ہیں۔ پھر مسلمان کرداروں کا ہندو کرداروں سے موازنہ کرتے ہوئے وہ یہ دیکھ کر کتنے خوش ہوئے ہیں کہ مسلمان کردار ہندو کرداروں پر غالب ہیں۔ یوں اس ساری تحقیق میں افسانہ نگار پیچھے رہ جاتا ہے۔ کرشن چندر کی انفرادیت اور عظمت محقق کو اس میں نظر آتی ہے کہ وہ بحمد للہ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔

ویسے اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر غیر مذہب کا کوئی بھلا مانس اسلام سے شغف رکھتا ہے اور اس مذہب کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ لازم تو نہیں ہے کہ وہ مسلمان بھی ہو جائے۔ اسے اس کی روشن خیالی کے لیے یا انٹلکچوئل شغف کہ وہ اس مذہب کو جس کا وہ حلقہ بگوش نہیں ہے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس سے متاثر بھی ہے۔ ہم آخر اسے اسی حیثیت میں قبول کیوں نہیں کر لیتے ہیں کیوں ہمیں اصرار ہوتا ہے کہ وہ جب اسلام کے بارے میں اچھی رائے رکھتا ہے تو مسلمان ہو کیوں نہیں جاتا۔ ارے اگر وہ مسلمان ہو جائے تو وہی مثل ہو گی کہ ہرچہ درکان نمک رفت نمک شد۔ جیسے ہم مسلمان ہیں ویسا ہی مسلمان وہ بھی ہو جائے گا۔ یعنی بس ایک عدد کا افسانہ ہی ہو گا۔ اور کیا ہو گا۔

اصل میں اس برصغیر میں صورت حال کچھ اس طرح کی ہے کہ کیا ہندو کیا مسلمان دونوں طرف کچھ بہت کٹر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے اپنے تعصبات ہوتے ہیں لیکن انھیں کے بیچ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو پڑھے لکھے سمجھ دار ہونے کی بنا پر ان تعصبات سے بری ہوتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھیں اگر وہ ہندو ہوں تو مسلمانوں سے میل جول ہونے کی وجہ سے یا محض اپنی لبرل ازم کی بنا پر اسلام سے بھی اچھی خاصی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے کچھ لوگوں کو ہم بھی جانتے ہیں۔ شاید اس واسطے سے ہم نے اپنی کسی تحریر میں اننت مورتی کا ذکر کیا تھا۔ اننت مورتی بنگلور ہی کے شاید رہنے والے تھے۔

مشہور ناول نگار۔ ساھتیہ اکیڈمی کے چیئرمین بھی رہے۔ اسی وقت سے ہماری ان سے یاد اللہ چلی آ رہی تھی۔ ان کے یہاں اسلام کے بارے میں بہت تجسس تھا۔ کہنے لگے کہ میں قرآن پڑھنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ مجھے پتہ تو چلنا چاہیے کہ یہ مذہب کیا کہتا ہے۔ ایک سیمینار میں ان کے ہوتے ہوئے اصغر علی انجینئر بھی تھے۔ ہم نے انھیں بتایا کہ آپ کا جس قسم کا تجسس ہے اس سلسلہ میں اصغر علی انجینئر آپ کے سوالوںکا بہتر جواب دے سکتے ہیں اور ہم نے دیکھا کہ وہ وہاں جلد ہی انجینئر سے گھل مل گئے۔

لیکن ہمیں کبھی یہ گمان نہیں گزرا کہ وہ قرآن پڑھنے کے بعد مسلمان ہو جائیں گے۔ وہ ایک لبرل ہندو کا تجسس تھا۔ اور بس۔ ایسے لبرل لوگ اپنی اس حیثیت میں زیادہ قابل قبول ہونے چاہئیں۔ وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں پر اسی حیثیت میں زیادہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ کاں نمک میں آ کر تو وہ بس نمک بن جائیں گے۔
Load Next Story