یہ چراغ ہے تو جلا رہے
یہ حقیقت بھی ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں نے پاکستان کے مستقبل کو ایک نیا زاویہ دیا ہے۔
ISLAMABAD:
کسی نے کہا کہ 30 نومبر کو پھر دھرنا دیا جائے گا اور وہ دھرنا پاکستان کا تاریخی دھرنا ہوگا۔ ملک بھر سے لاکھوں لوگ خان صاحب کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اسلام آباد کی طرف دوڑ لگا دیں گے اور اب کے بیٹھے ہوئے نہ اٹھیں گے جب تک نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی نہیں ہوجاتے۔
ادھر قادری صاحب بھی لندن سے روانہ ہوچکے۔اب پنجاب میں جلسے کررہے ہیں، نجانے کیا پڑھتے اور کہتے ہوئے وہ تو میں نے نہیں سنا لیکن کمرے سے باہر نکلتے ٹی وی سے یہ آواز بہت صاف سنائی دی کہ علامہ طاہر القادری لندن سے پاکستان کے لیے نکل گئے اور تشریف لا رہے ہیں، لیکن بقول ان کے اس بار وہ اپنا راستہ جدا رکھیں گے۔
لگتا ہے پچھلی مرتبہ کی قید تنہائی نے انھیں بہت کچھ سکھادیا۔ شاید وہ کچھ بھی جو برسہابرس کا علم نہ دے سکا۔ عمل نے اس راز کا پردہ چاک کردیا۔ بہرحال خیر سے آئیں، جم جم آئیں۔ ہم انھیں پویلین میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ بھئی ان کا منشور جو میں نے سنا وہ کچھ بھی غلط نہیں۔ سارے کا سارا جائز اور انصاف پر مبنی ہے۔ ان کے مطالبات بھی اکا دکا کو چھوڑ کر آئین کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں اور وہ باتیں تو کانوں کو بہت بھلی لگیں جب انھوں نے اپنی گرجدار آواز میں اعلان کیا کہ اب آٹا، دالیں، سبزیاں، گوشت آدھی قیمتوں پر فروخت ہوں گی۔ ہر غریب کو مفت میں گھر ملے گا۔ انصاف کا بول بالا ہوگا۔ یہ باتیں وہ جب بھی اپنے کنٹینر پر کرتے تھے تو خواہ وہ کچھ ساعتوں کے لیے ہی سہی پوری قوم خوشی سے سرشار ہوجاتی تھی۔
اور یہ حقیقت بھی ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں نے پاکستان کے مستقبل کو ایک نیا زاویہ دیا ہے۔ ایک انتہائی مالدار اور بارسوخ طبقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ان دھرنوں کے بعد ہی قوم کو یہ امید ہوچلی ہے کہ کم ازکم آیندہ منعقد ہونے والے بلدیاتی اور عام انتخابات بہت حد تک شفاف ہوں گے اور امید ہے کہ وہی جیت پائیں گے جنھیں ووٹ ملے ہوں گے۔ اور وہ فتح پولنگ ختم ہونے سے پہلے یا بعد میں یکساں رہے گی۔ یہ شام کے جھٹپٹے، بیلٹ باکسز، خفیہ والے، مقید الیکشن اسٹاف مل کر اپنی مرضی کے نتائج نہیں بنا پائیں گے۔
ہم عمران خان کے طرز عمل سے شاکی تو ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان کی گفتگو شرفا کے مروجہ معیار پر پوری نہیں اترتی۔ لیکن کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ ان کی اسی ضد اور ہٹ دھرمی نے ملک کی کرپٹ مافیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بوسیدہ روایتوں میں لپٹے ہوئے نظام کو تہہ و بالا کردیا۔ یہ ثابت کردیا کہ یہ ملک خاندانی سیاست کے لیے آزاد نہیں ہوا تھا اور ہر فریق کو یہ احساس بھی دلادیا کہ الیکشن گزرے کتنی ہی مدت کیوں نہ ہوئی ہو۔ حلقے دوبارہ بھی کھلوائے جاسکتے ہیں۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ دھرنوں کی تحریک نے ملک پر منفی کم مثبت اثرات زیادہ مرتب کیے ہیں۔ ورنہ ، وہ تو میرے بھائی وزیر اعظم بننے کے بعد خود کو نصف النہار دنیا کا سربراہ سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ برسہا برس گزر جائیں ان کا شعور بیدار ہوکر نہیں دیتا اور وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ کسی جگہ وہ بھی غلط ہوسکتے ہیں۔ لیکن ان دھرنوں کے بعد دیکھیے۔ ماشا اللہ ملکوں ملک گھوم رہے ہیں۔ دوروں پر دورے ہیں۔ دختر مریم نواز سے بھی خود روزگار اسکیم کے مہتمم کی حیثیت سے استعفیٰ دلوا دیا۔ دنیا میں شعور کی لہر تیز سہی لیکن ہلکی سی پاکستان میں بھی ہے۔ آج ہر طبقے کا فرد خواہ وہ غربت کی لکیر سے نیچے جی رہا ہو، یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ملک کو بنے 67 سال گزر گئے، مسلسل بے ایمانی، ظلم و جبر، استبداد کیوں ہیں۔ ہر وسیلہ اور وسائل صرف محلوں اور کوٹھیوں کے لیے ہی کیوں مخصوص ہیں۔
غریب چوری کرے تو اس کی کھال کھینچ دی جائے اور امرا کی چوری کے لیے NRO بنا دیاجاتا ہے۔ چلیے میں آپ سے ایک اہم سوال کرتا ہوں۔ PTI کو کسی نے بھی بنایا، وہ عوام کی صفوں میں مقبول کیوں ہے؟ عمران خان کے جلسوں میں صرف 2 سے 3 دن کے نوٹس پر عوام کی ایک بڑی اور متاثر کن تعداد کیوں جمع ہوجاتی ہے؟ جب کہ انھیں جلسہ گاہ تک لانے کے لیے تھانہ یا پٹواری سسٹم بھی Help نہیں کرتا۔ اور پھر عوام کا جوش و ولولہ! کیسے مان لیا جائے کہ سب کچھ بناوٹی ہے، دکھاوا ہے۔ ممکن ہی نہیں ہزارہا ہاتھ گھنٹوں تک جھنڈے لہراتے رہیں بلند کرتے رہیں۔
اگرچہ کہ خان صاحب فرما چکے۔ لوگ انھیں مشورے بہت دیتے ہیں اور وہ تنگ ہیں ان سے۔ لہٰذا جو مشورہ دے وہ 1000 روپے مشورے کے ہمراہ جمع کروائے۔ لیکن میں باز نہیں آؤں گا، ہاں فیس جمع کروادوں گا۔ ساتھ ہی یہ Request ان کے سپرد کرتا ہوں کہ خان صاحب جب آپ دوران تقریر Status Quo ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، ملک میں ظلم پر مبنی نظام کے خاتمے کا ذکر کرتے ہیں تو خواہ 20 منٹ کے لیے ہی سہی لیکن اپنے ان ارب، کھرب پتی پارٹی لیڈرز کو نیچے چائے پینے کے لیے بھیج دیا کریں۔ جو اس وقت آپ کے بالکل ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
میں آپ سے بھی وہی گزارش کروں گا جو اسی تحریر میں حکمرانوں سے کرچکا ہوں کہ لوگ نہ تو اندھے ہیں نہ گونگے بہرے اور آپ یقین کیجیے کہ یہ قوم اب کسی کے جھانسے میں آنے والی نہیں۔ ہاں مگر جو عمل کر دکھائے۔ جو کہتا ہے اسے پورا بھی کرے۔
خان صاحب آپ سے بہرحال امید ہے کہ جب بھی آپ حکومت میں ہوں گے اور وہ وقت شاید زیادہ دور نہ ہو۔ تب پاکستان کے حالات بدلے ہوئے ہوں گے۔ حکومت اور طرز حکومت ان افراد پر مشتمل ہوگی جو ایماندار ہوں گے۔ لیکن ایسا جب بھی ہوا، یا ہو۔ وہ پچھلی حکومت کے 5 سال مکمل ہونے کے بعد ہو۔ ایسا کوئی بھی مطالبہ جس کے نتیجے میں مارشل لا نافذ ہوجائے، جزوقتی ہی سہی۔ ہمیں قبول نہیں۔ اور ہمیں دکھ ہوگا کہ ہمارا لیڈر بھی ویسا ہی داغ دار ہوگیا جیسے باقی سب رہے۔ ہم بحیثیت قوم یہ چاہتے ہیں کہ System کو چلنا چاہیے۔ جس سے فرد کی سیاسی بلوغت میں اضافہ ہوگا۔ عصبیت کے بت ٹوٹ جائیں گے۔
مسلسل الیکشن قوم کے مزاج کو کس قدر جمہوری بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ لہٰذا ہم ملتمس ہیں کہ آپ باقی تمام مطالبات کو اسی شدت کے ساتھ منوائیں جو آپ کی شخصیت کا خاصا ہیں۔ لیکن حکومت کے خاتمے کا مطالبہ تو دراصل دوبارہ اسی حکومت کے قیام کا مطالبہ ہوگا۔ کیوں کہ جانے والے یہ واویلا ضرور کریں گے کہ ہم تو پاکستان کو جنت ارضی بنا رہے تھے۔ ہمیں بیچ میں ہی رخصت کردیا گیا۔ چنانچہ تحمل، صبر، بردباری۔
کسی نے کہا کہ 30 نومبر کو پھر دھرنا دیا جائے گا اور وہ دھرنا پاکستان کا تاریخی دھرنا ہوگا۔ ملک بھر سے لاکھوں لوگ خان صاحب کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اسلام آباد کی طرف دوڑ لگا دیں گے اور اب کے بیٹھے ہوئے نہ اٹھیں گے جب تک نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی نہیں ہوجاتے۔
ادھر قادری صاحب بھی لندن سے روانہ ہوچکے۔اب پنجاب میں جلسے کررہے ہیں، نجانے کیا پڑھتے اور کہتے ہوئے وہ تو میں نے نہیں سنا لیکن کمرے سے باہر نکلتے ٹی وی سے یہ آواز بہت صاف سنائی دی کہ علامہ طاہر القادری لندن سے پاکستان کے لیے نکل گئے اور تشریف لا رہے ہیں، لیکن بقول ان کے اس بار وہ اپنا راستہ جدا رکھیں گے۔
لگتا ہے پچھلی مرتبہ کی قید تنہائی نے انھیں بہت کچھ سکھادیا۔ شاید وہ کچھ بھی جو برسہابرس کا علم نہ دے سکا۔ عمل نے اس راز کا پردہ چاک کردیا۔ بہرحال خیر سے آئیں، جم جم آئیں۔ ہم انھیں پویلین میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ بھئی ان کا منشور جو میں نے سنا وہ کچھ بھی غلط نہیں۔ سارے کا سارا جائز اور انصاف پر مبنی ہے۔ ان کے مطالبات بھی اکا دکا کو چھوڑ کر آئین کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں اور وہ باتیں تو کانوں کو بہت بھلی لگیں جب انھوں نے اپنی گرجدار آواز میں اعلان کیا کہ اب آٹا، دالیں، سبزیاں، گوشت آدھی قیمتوں پر فروخت ہوں گی۔ ہر غریب کو مفت میں گھر ملے گا۔ انصاف کا بول بالا ہوگا۔ یہ باتیں وہ جب بھی اپنے کنٹینر پر کرتے تھے تو خواہ وہ کچھ ساعتوں کے لیے ہی سہی پوری قوم خوشی سے سرشار ہوجاتی تھی۔
اور یہ حقیقت بھی ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں نے پاکستان کے مستقبل کو ایک نیا زاویہ دیا ہے۔ ایک انتہائی مالدار اور بارسوخ طبقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ان دھرنوں کے بعد ہی قوم کو یہ امید ہوچلی ہے کہ کم ازکم آیندہ منعقد ہونے والے بلدیاتی اور عام انتخابات بہت حد تک شفاف ہوں گے اور امید ہے کہ وہی جیت پائیں گے جنھیں ووٹ ملے ہوں گے۔ اور وہ فتح پولنگ ختم ہونے سے پہلے یا بعد میں یکساں رہے گی۔ یہ شام کے جھٹپٹے، بیلٹ باکسز، خفیہ والے، مقید الیکشن اسٹاف مل کر اپنی مرضی کے نتائج نہیں بنا پائیں گے۔
ہم عمران خان کے طرز عمل سے شاکی تو ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان کی گفتگو شرفا کے مروجہ معیار پر پوری نہیں اترتی۔ لیکن کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ ان کی اسی ضد اور ہٹ دھرمی نے ملک کی کرپٹ مافیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بوسیدہ روایتوں میں لپٹے ہوئے نظام کو تہہ و بالا کردیا۔ یہ ثابت کردیا کہ یہ ملک خاندانی سیاست کے لیے آزاد نہیں ہوا تھا اور ہر فریق کو یہ احساس بھی دلادیا کہ الیکشن گزرے کتنی ہی مدت کیوں نہ ہوئی ہو۔ حلقے دوبارہ بھی کھلوائے جاسکتے ہیں۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ دھرنوں کی تحریک نے ملک پر منفی کم مثبت اثرات زیادہ مرتب کیے ہیں۔ ورنہ ، وہ تو میرے بھائی وزیر اعظم بننے کے بعد خود کو نصف النہار دنیا کا سربراہ سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ برسہا برس گزر جائیں ان کا شعور بیدار ہوکر نہیں دیتا اور وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ کسی جگہ وہ بھی غلط ہوسکتے ہیں۔ لیکن ان دھرنوں کے بعد دیکھیے۔ ماشا اللہ ملکوں ملک گھوم رہے ہیں۔ دوروں پر دورے ہیں۔ دختر مریم نواز سے بھی خود روزگار اسکیم کے مہتمم کی حیثیت سے استعفیٰ دلوا دیا۔ دنیا میں شعور کی لہر تیز سہی لیکن ہلکی سی پاکستان میں بھی ہے۔ آج ہر طبقے کا فرد خواہ وہ غربت کی لکیر سے نیچے جی رہا ہو، یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ملک کو بنے 67 سال گزر گئے، مسلسل بے ایمانی، ظلم و جبر، استبداد کیوں ہیں۔ ہر وسیلہ اور وسائل صرف محلوں اور کوٹھیوں کے لیے ہی کیوں مخصوص ہیں۔
غریب چوری کرے تو اس کی کھال کھینچ دی جائے اور امرا کی چوری کے لیے NRO بنا دیاجاتا ہے۔ چلیے میں آپ سے ایک اہم سوال کرتا ہوں۔ PTI کو کسی نے بھی بنایا، وہ عوام کی صفوں میں مقبول کیوں ہے؟ عمران خان کے جلسوں میں صرف 2 سے 3 دن کے نوٹس پر عوام کی ایک بڑی اور متاثر کن تعداد کیوں جمع ہوجاتی ہے؟ جب کہ انھیں جلسہ گاہ تک لانے کے لیے تھانہ یا پٹواری سسٹم بھی Help نہیں کرتا۔ اور پھر عوام کا جوش و ولولہ! کیسے مان لیا جائے کہ سب کچھ بناوٹی ہے، دکھاوا ہے۔ ممکن ہی نہیں ہزارہا ہاتھ گھنٹوں تک جھنڈے لہراتے رہیں بلند کرتے رہیں۔
اگرچہ کہ خان صاحب فرما چکے۔ لوگ انھیں مشورے بہت دیتے ہیں اور وہ تنگ ہیں ان سے۔ لہٰذا جو مشورہ دے وہ 1000 روپے مشورے کے ہمراہ جمع کروائے۔ لیکن میں باز نہیں آؤں گا، ہاں فیس جمع کروادوں گا۔ ساتھ ہی یہ Request ان کے سپرد کرتا ہوں کہ خان صاحب جب آپ دوران تقریر Status Quo ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، ملک میں ظلم پر مبنی نظام کے خاتمے کا ذکر کرتے ہیں تو خواہ 20 منٹ کے لیے ہی سہی لیکن اپنے ان ارب، کھرب پتی پارٹی لیڈرز کو نیچے چائے پینے کے لیے بھیج دیا کریں۔ جو اس وقت آپ کے بالکل ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
میں آپ سے بھی وہی گزارش کروں گا جو اسی تحریر میں حکمرانوں سے کرچکا ہوں کہ لوگ نہ تو اندھے ہیں نہ گونگے بہرے اور آپ یقین کیجیے کہ یہ قوم اب کسی کے جھانسے میں آنے والی نہیں۔ ہاں مگر جو عمل کر دکھائے۔ جو کہتا ہے اسے پورا بھی کرے۔
خان صاحب آپ سے بہرحال امید ہے کہ جب بھی آپ حکومت میں ہوں گے اور وہ وقت شاید زیادہ دور نہ ہو۔ تب پاکستان کے حالات بدلے ہوئے ہوں گے۔ حکومت اور طرز حکومت ان افراد پر مشتمل ہوگی جو ایماندار ہوں گے۔ لیکن ایسا جب بھی ہوا، یا ہو۔ وہ پچھلی حکومت کے 5 سال مکمل ہونے کے بعد ہو۔ ایسا کوئی بھی مطالبہ جس کے نتیجے میں مارشل لا نافذ ہوجائے، جزوقتی ہی سہی۔ ہمیں قبول نہیں۔ اور ہمیں دکھ ہوگا کہ ہمارا لیڈر بھی ویسا ہی داغ دار ہوگیا جیسے باقی سب رہے۔ ہم بحیثیت قوم یہ چاہتے ہیں کہ System کو چلنا چاہیے۔ جس سے فرد کی سیاسی بلوغت میں اضافہ ہوگا۔ عصبیت کے بت ٹوٹ جائیں گے۔
مسلسل الیکشن قوم کے مزاج کو کس قدر جمہوری بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ لہٰذا ہم ملتمس ہیں کہ آپ باقی تمام مطالبات کو اسی شدت کے ساتھ منوائیں جو آپ کی شخصیت کا خاصا ہیں۔ لیکن حکومت کے خاتمے کا مطالبہ تو دراصل دوبارہ اسی حکومت کے قیام کا مطالبہ ہوگا۔ کیوں کہ جانے والے یہ واویلا ضرور کریں گے کہ ہم تو پاکستان کو جنت ارضی بنا رہے تھے۔ ہمیں بیچ میں ہی رخصت کردیا گیا۔ چنانچہ تحمل، صبر، بردباری۔