سیاسی بحران اور سیاسی قیادت کی ذمے داری

سیاست میں اختلاف رائے ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن یہ اختلافات گھیراؤ جلاؤ یا تصادم تک نہیں پہنچنے چاہئیں۔

ہرسیاسی جماعت اور تنظیم کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے منشور اور مقاصد کو واضح کرنے کے لیے پرامن انداز میں جلسے منعقد کرے، جلوس نکالے یا دھرنے دے، فائل فوٹو

پاکستان کے سیاسی ماحول میں گرمی ابھی تک موجود ہے' پہلے اسلام آباد میں دھرنے جاری تھے' اس وقت ماحول ایسا بن گیا تھا جیسے حکومت جانے والی ہے لیکن پھر ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا دھرنا ختم کر دیا جس کے بعد سیاسی صورتحال میں ٹھہراؤ کی کیفیت نظر آنے لگی اور ایسا محسوس ہوا کہ شاید سیاسی بحران اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن اسلام آباد میں عمران خان نے اپنا دھرنا جاری رکھا۔

انھوں نے دیگر شہروں میں جلسے شروع کر دیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری بھی اس راہ پر چل نکلے تاہم وہ کچھ دنوں کے بعد بیرون ملک چلے گئے' بعض حلقوں کا خیال تھا کہ شاید وہ جلد وطن واپس نہیں آئیں گے لیکن اب وہ وطن واپس آ گئے ہیں اور وہ بھی جلسے کر رہے ہیں۔ اب ملک بھر میں جلسوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں الیکشن کا ماحول ہو۔ اگلے روز گوجرانوالہ میں تحریک انصاف نے جلسہ کیا جب کہ بھکر میں پاکستان عوامی تحریک نے جلسہ کیا۔ اور جماعت اسلامی کا لاہور میں تین روزہ اجتماع اختتام پذیر ہوا۔ اس سے ایک روز قبل مسلم لیگ ق نے بہاولپور میں جلسہ عام منعقد کیا۔ جلسے' جلوس اور دھرنے جمہوریت کا حصہ ہوتے ہیں۔

ہرسیاسی جماعت اور تنظیم کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے منشور اور مقاصد کو واضح کرنے کے لیے پرامن انداز میں جلسے منعقد کرے' جلوس نکالے یا دھرنے دے۔ حکومت تک عوام کی بات پہنچانا اور اسے سیدھی راہ پر رکھنا' اپوزیشن کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن پاکستان میں جو سیاسی سرگرمیاں ہو رہی ہیں' اس میں تلخی کا عنصر نمایاں ہو رہا ہے اور خدشہ ہے کہ معاملات کہیں ٹکراؤ کی طرف نہ چلے جائیں۔ گوجرانوالہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ میرا صبر ختم ہو گیا ہے' اب مقابلہ ہو گا' 30 نومبر کو ساری قوم اور تمام سیاسی جماعتیں اسلام آباد پہنچیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف' وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری پر شدید تنقید کی اور کہا کہ انھیں مئی 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کے ثبوت مل گئے ہیں۔


ادھر حکومت نے 30 نومبر کو غیر یقینی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت ہے۔ دھاوا بولنے کی نہیں۔ ریاستی طاقت کو کمزور نہ سمجھا جائے' حکومت تشدد کا جواب قانون کی طاقت سے دے گی۔ ادھر بھکر میں عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی سخت لہجے میں تقریر کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک گیر تحریک کا آغاز ضلع بھکر سے کر رہا ہوں۔ کمزوروں اور طاقتوروں میں جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس جلسے سے مجلس وحدت المسلمین کے مرکزی راہنما راجہ ناصر عباس' سابق گورنر پنجاب غلام مصطفے کھر اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا نے بھی خطاب کیا ہے۔

اس سیاسی ماحول پر غور کیا جائے تو معاملات زیادہ خوش گوار نظر نہیں آتے۔ حکومت اور پارلیمنٹ میں موجود اس کی حامی جماعتیں ایک طرف ہیں جب کہ تحریک انصاف' عوامی تحریک اور مسلم لیگ ق دوسری طرف ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو سیاست میں ایک واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ مسلسل انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ اب خاصا بڑھ گیا اور دونوں طرف سے تلخ بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ صورت حال کو ایک خاص حد سے زیادہ تلخ نہ ہونے دیا جائے۔ سیاست میں اختلاف رائے ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن یہ اختلافات گھیراؤ جلاؤ یا تصادم تک نہیں پہنچنے چاہئیں۔

حکومت کو چاہیے یہ تھا کہ وہ تحریک انصاف کے انتخابی دھاندلی کے مطالبے پر غور کرتی۔ تحریک انصاف پہلے چار حلقوں کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی تھی' اگر اس وقت معاملات کو سدھار لیا جاتا تو موجودہ سیاسی بحران جنم نہ لیتا۔ پھر ادارہ منہاج القرآن کے باہر جو کچھ ہوا اس سے بھی تلخیاں بڑھی ہیں۔ ملک کی سیاسی قیادت کو صورت حال کی نزاکت کا احساس ہونا چاہیے۔ پاکستان کو اس وقت شمال مغربی سرحد پر دہشت گردی کے معاملات درپیش ہیں تو دوسری طرف مشرقی سرحد پر بھارتی اشتعال انگیزی ہے۔ گزشتہ تین چار ماہ سے جو سیاسی بحران شروع ہوا ہے اس نے ملکی معیشت پر بھی مضر اثرات مرتب کیے ہیں۔

ملک میں مہنگائی' بے روز گاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ شہروں اور دیہات میں جرائم کی شرح بھی بڑھی ہے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد بھی ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ ان معاملات سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ سیاسی بحران کے باعث حکومت کی توجہ بھی منتشر ہے اور عوام میں بھی مایوسی اور غیر یقینی بڑھ رہی ہے۔ سیاسی قیادت کو اپنے سیاسی اختلافات کو مذاکرات اور افہام و تفہیم کے جذبے کے تحت حل کرنا چاہیے۔ موجودہ جمہوری نظام کو بچانا ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ ماضی میں بھی ملک میں جمہوریت اس لیے ناکام ہوئی کہ سیاستدان اپنے اختلافات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اب بھی سیاستدانوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ موجودہ سیاسی بحران کو زیادہ پیچیدہ ہونے سے پہلے خوش اسلوبی سے طے کر لیں اسی میں جمہوریت کی بقاء اور سلامتی کا راز مضمر ہے۔
Load Next Story