جماعت اسلامی۔ ایک قومی ضرورت

سقوط ڈھاکا کے بعد ہماری اشرافیہ تو یہاں حکومت پر حکومت بناتی آ رہی ہے لیکن کسی کو پاکستان کے ٹوٹنے کا کوئی دکھ نہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

لاہور کے مینار پاکستان نے ان دنوں جی بھر کر سیاسی تماشے اور جلسے دیکھے اور ابھی دیکھتا جا رہا ہے لیکن ان پرہجوم جلسوں میں ایک جلسہ ایسا بھی تھا جو پرہجوم بھی تھا اور اعلیٰ مقصد کا علمبردار بھی۔ یہ وہ جلسہ تھا جسے دیکھ کر مینار پاکستان حیرت زدہ رہ گیا کہ یہ کون لوگ ہیں کہ جب نعرہ لگاتے ہیں تو فضا تھرا جاتی ہے اور جب قدم اٹھاتے ہیں تو زمین کانپ جاتی ہے۔ ان کے سہ روزہ جلسے کے دوران نماز جمعہ کا موقعہ آیا تو وہ اپنے قریب ہی شاہ عالمگیر کی مسجد میں جمع ہو گئے۔

اس مسجد کا وسیع و عریض صحن جو دنیا کی دو تین دوسری مسجدوں کے برابر ہے حیرت انگیز طور پر بھر گیا۔ اس صحن مسجد کے قریب ہی آرام کرتے ہوئے علامہ اقبال کی آنکھیں جو ایسے کسی منظر کی آرزو میں عمر بھر ترستی رہیں یہ سب دیکھ کر امنڈ آئیں، شاہی مسجد کے مینار اور ان کے قرب میں ان کا نیا ساتھی مینار پاکستان منہ میں انگلیاں دبا کر خدا کے حضور میں سجدہ ریز اس گروہ عظیم کودیکھتے رہے ایسا منظر مسجد کے میناروں نے بہت ہی کم اور مینار پاکستان نے تو پہلی بار دیکھا تھا۔ لاکھوں نمازیوں کو مسجد کے دالانوں، محرابوں اور صحن میں سجدہ ریز دیکھ کر شدت نظارہ سے کانپنے لگے۔

یہ جماعت اسلامی پاکستان کے سہ روزہ اجتماع کے شرکاء تھے جو مسلمان بادشاہوں کی یاد گاروں کے سائے میں پاکستان کے لیے نئی منزلوں کی نشاندہی کر رہے تھے۔ یہ لوگ اپنی چودہ سو سال کی میراث کی یاد تازہ کر رہے تھے اور یہ اعلان کہ ہم اس میراث کے وارث ہیں اور یہی میراث ہماری رہنما اور نجات ہے۔ ہم اس کی حفاظت کے لیے زندہ ہیں۔

جماعت اسلامی اپنے اس اجتماع سے اب پاکستان کی تازہ سیاسی دنیا کے میدان میں اتر آئی ہے۔ اس نے یہ غیرمعمولی تاخیر کیوں کی ہے اسے کوئی تھکان تو نہیں تھی جو وہ اتارتی رہی ہے سستی تھی یا اپنے عظیم مقصد سے لگن میں کچھ کوتاہی تھی جو دوسری سیاسی جماعتیں پہل کر گئیں اور جماعت نے طویل خاموشی کے بعد قوم کو اپنی یاد دلائی ہے۔ قوم کو اس کی یاد تو وہ شہید بھی دلاتے رہے جو پاکستان کی محبت میں بنگلہ دیش میں نئی ابدی زندگی پا گئے۔

پاکستان کے لیے غیر فوجی شہداء میں صرف جماعت کا نام درج کیا گیا ہے جو پاکستان کو توڑنے والوں کے خلاف جان سے گزر گئے۔ یہ ایک دوسری بات ہے کہ منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے لیکن اس منزل کا تعین اگر دنیا داری کے پیمانوں سے کیا جائے تو بات درست ہے لیکن نظریات کے لیے جان دینا شاذونادر لوگوں کے حصے میں آتا ہے اور ایسے لوگ اعلیٰ نظریے کی تخلیق ہوا کرتے ہیں، بہر کیف جماعت اسلامی جو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ کی علمبردار ہے۔


ہماری قومی سیاست کا کوئی فصلی بٹیرا نہیں ہے یہ اس ملک کی ہمیشہ سے زندہ و پایندہ رہنے والی جماعت ہے اور اس جماعت کو اگر اس کے مطابق اعلیٰ درجہ کی قیادت نصیب رہتی تو کتنے ہی فصلی بٹیرے اس کے پاؤں تلے کچلے جاتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ میں اسے قوم کی بدقسمتی سمجھتا ہوں اور ان جعلی قومی رہنماؤں کا ذکر نہیں کرتا جن کے لیے جماعت اسلامی ان کے راستے سے ہٹ کر انھیں آگے بڑھنے دیتی۔

یہ لوگ جنھیں ہم اشرافیہ کہتے ہیں انھوں نے سب سے پہلے تو پاکستان کے مقاصد سے بے وفائی کی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جس پاکستان کے لیے اپنی ہمت سے بڑھ کر قربانیاں دیں اور جن نظریات کی کامیابی کے لیے اپنے دلوں میں امید کے چراغ روشن کیے ہمارے پاکستان کے لیڈروں نے ان سے مکمل بے وفائی یا غداری کی کیونکہ ان نظریات پر مبنی ریاست ان کے کسی کام کی نہیں تھی۔

اس کی سزا ہمیں اب تک مل رہی ہے اور ہماری ہرحکومت پہلے سے بدتر ہوتی ہے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد ہماری اشرافیہ تو یہاں حکومت پر حکومت بناتی آ رہی ہے لیکن کسی کو پاکستان کے ٹوٹنے کا کوئی دکھ نہیں یہ جماعت اسلامی ہے جو اس دکھ میں اور متحدہ پاکستان کی محبت میں زندگیاں قربان کر رہی ہے مگر فقیرانہ زندگی بسر کرنا کوئی کمال نہیں ہے اور کتابوں پر کتابیں لکھتے جانا کوئی خدمت نہیں ہے کسی سیاسی جماعت کا اصل مقصد اقتدار قائم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے نظریات کو نافذ کرسکے اور عام آدمی کو اس کا پھل مل سکے۔ میں نے اجتماع میں کی گئی تقریریں بھی پڑھی ہیں خود نقل و حرکت میں مشکل کیوجہ سے حاضر نہ ہو سکا ورنہ پہلے کبھی دریاں بچھاتا تھا تو اب کرسیاں رکھتا اور اس تحریک میں اپنا حقیر حصہ ادا کرتا جو اس کے گئے گزرے زمانے میں بھی میری جماعت ہے اور دوسری جماعتوں میں سب سے بہتر ہے۔

جماعت کو زمانہ سازی سے بھی کام لینا چاہیے' اس کی اجتماعی طاقت جس کا ایک مظاہرہ قوم نے مینار پاکستان کے اس جلسے میں دیکھا اس کا مقابلہ ممکن نہیں لیکن ضروری ہے کہ کوئی صفیں تو آراستہ کرے اور تلواروں کی چمک تو دکھائے۔ معافی چاہتا ہوں اگر اکثر سیاستدانوں کو چور اچکا کہوں، اب تو لطیفہ یہ ہے کہ وہ خود ایک دوسرے پر جو الزامات لگاتے ہیں وہ سب سچ ہیں۔ ہم ان لوگوں کی قیادت یا حکمرانی میں زندگی بسر کر رہے ہیں جو خود اپنی زبان میں ہر بدی کے عادی ہیں اور ہر دوسرے کو برے سے برا الزام دیتے ہیں۔

ہماری اس قومی محرومی کی ذمے دار جماعت اسلامی ہے جس کو قدرت نے ایک بڑی سیاسی طاقت دی ہے قربانی کا فراواں جذبہ عطا کیا ہے لیکن وہ عوام کے پاس نہیں جاتی شاید اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو عوام سے برتر سمجھتی ہے اور باوضو رہتی ہے۔ جماعت کا مینار پاکستان پر ہونے والا اجتماع ان دنوں ہر جگہ ہونے والے کسی بھی سیاسی اجتماع سے زیادہ کامیاب تھا تعداد کے لحاظ سے اور نظم و ضبط تو خیر اس جماعت کا ایک روشن پہلو ہے ہی۔

اس اجتماع سے جو ایسے دوسرے کئی سیاسی تماشوں کے درمیان میں ہوا جو مسلسل جاری ہیں کچھ دنوں بعد بھلا دیا جائے گا جو جماعت والے صرف اس پر فخر کرکے آرام کریں گے اور اس کی یاد میں مست رہیں گے۔ اس جماعت کو ایک ایسا لیڈر ملا ہے جو عوام کے جذبات کو بیان کرتا ہے۔ سراج الحق صاحب عام لوگوں کے قریب ہیں ممکن ہے وہ جماعت کے خاموش ارکان اور ساتھیوں کو دوبارہ زندہ کر دیں بہر کیف جماعت ہماری ضرورت ہے ایک قومی اور ملی ضرورت۔ وہ اپنے فرض کو قضا نہ کریں۔
Load Next Story