ماربل برآمد50لاکھ ڈالربڑھنے کے باوجودہدف پورانہ ہوا

گزشتہ مالی سال ایکسپورٹ 10کروڑڈالرکے ہدف کے مقابلے میں5.5کروڑڈالر رہیں

گزشتہ مالی سال ایکسپورٹ 10کروڑڈالرکے ہدف کے مقابلے میں5.5کروڑڈالر رہیں. فائل فوٹو

ماربل کی برآمدات کا 10کروڑ ڈالر کا ہدف گزشتہ سال بھی حاصل نہیں ہوسکا، مالی سال 2011-12کے دوران ماربل کی برآمدات 5.5کروڑ ڈالر رہیں جو مالی سال 2010-11 کی برآمدات سے50لاکھ ڈالر زائد ہیں تاہم 10کروڑ ڈالر کا ہدف مسلسل دوسرے سال بھی حاصل نہ ہوسکا۔

آل پاکستان ماربل مائننگ پراسیسنگ اینڈ ایکسپورٹ انڈسٹریز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ثنا اﷲ خان کے مطابق توانائی کے بحران بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ اور امن و امان کے مسائل کے سبب اس سال بھی برآمدات کا ہدف حاصل نہ ہوسکا سرتوڑ کوششوں کے بعد مالی سال 2011-12میں ماربل کی ایکسپورٹ 55ملین ڈالر رہی، زیادہ تر ماربل چین، مڈل ایسٹ، یورپ اور امریکا کو برآمدکیا گیا،


ملک میں بجلی کے بحران کے ساتھ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث ماربل انڈسٹری کی اوسط پیداوار بھی 50فیصد کم رہی، ماربل انڈسٹری میں نئی سرمایہ کاری آنا بند ہو گئی ہے اور ٹیکنالوجی کے فقدان، بجلی کے بحران اور امن و امان کے مسائل کے سبب فنش ماربل کے بجائے اسکوائر بلاکس کی شکل میں خام ماربل کی ایکسپورٹ کا رجحان زور پکڑرہا ہے بالخصوص چینی درآمد کنندگان پاکستان سے اسکوائر بلاکس کی شکل میں خام ماربل درآمد کررہے ہیں، مجموعی برآمدات میں خام ماربل کا تناسب بڑھ کر 30فیصد تک پہنچ گیا ہے

جس کی وجہ سے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع کم ہورہے ہیں، ماربل انڈسٹری کیلیے 6 سال قبل منظور ہونے والا ماربل سٹی منصوبہ اب بھی فائلوں تک محدود ہے، سندھ حکومت نے 6سال بعد منصوبے میں دلچسپی لیتے ہوئے اسے فائلوں سے نکال کر کمیٹیوں کے اجلاس کی میز پر رکھ دیا، اس سلسلے میں سندھ اسٹون ڈیولپمنٹ کمپنی قائم کی گئی جس نے ماسٹر پلان کی تیاری شروع کردی تاہم سندھ سرمایہ کاری بورڈ میں تبدیلی کے بعد اس منصوبے سے متعلق بیوروکریسی کا جوش و خروش کم ہوگیا ہے، اس منصوبے کی تکمیل پاکستان کی ماربل انڈسٹری کی بقا کا مسئلہ ہے،

منصوبے میں ماربل انڈسٹری کیلیے جدید سہولتوں سے آراستہ کامن فیسلیٹی سینٹر، پاور پلانٹ، ڈسپلے سینٹر اور تربیتی مراکز کے علاوہ چھوٹی بڑی 250سے زائد فیکٹریوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری التوا کا شکار ہے، منصوبے کو بروقت مکمل کرکے پاکستان سے ماربل کی ایکسپورٹ چند سال میں ایک ارب ڈالر تک بڑھائی جاسکتی ہے۔
Load Next Story