قیمتی گھڑی کو قطر کے شہزادے کی موت کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا
قطری شیخ کی موت کی وجہ ان کی قیمتی گھڑی سے جُڑی نحوست کو قرار دیا جارہا ہے
دو ہفتے قبل قطر کے شہزادے شیخ سعود بن محمد التہانی لندن میں واقع اپنی رہائش گاہ میں اچانک حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے وہ وزیر برائے فن و ثقافت اور تاریخی ورثہ بھی تھے۔
شیخ کی عمر اڑتالیس سال تھی اور وہ پوری طرح صحت مند تھے, ان کی اچانک موت کو دنیا کی سب سے خوب صورت، سب سے پیچیدہ اور مہنگی ترین گھڑی سے منسوب کیا جارہا ہے۔ قطری شہزادے نے یہ گھڑی 15 سال قبل ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر میں خریدی تھی۔ شیخ سعود نے حال ہی میں یہ گھڑی سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ایک نیلام گھر کے ذریعے فروخت کے لیے پیش کی تھی جہاں اسے تقریباً ڈھائی کروڑ ڈالر میں کسی نامعلوم فرد نے خریدا، تاہم نیلامی سے صرف 2 روز قبل شیخ سعود دارفانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی موت کی وجہ اس گھڑی سے جُڑی نحوست قرار دی جارہی ہے۔ اس نادر گھڑی کا اولین مالک ہنری گریوز تھا۔
ہنری گریوز جونیئر کا شمار امریکا کے دولت مند ترین افراد میں ہوتا تھا۔ وہ ایک بینکار گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے بینکوں اور ریلوے میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کیا تھا۔ بیشتر مال داروں کی طرح اس کے بھی کئی شوق تھے۔ عام آدمی مہریں، سکّے، ڈاک ٹکٹ اور مختلف ممالک کی کرنسی وغیرہ جمع کرتے ہیں مگر اسے نت نئے گھر بنوانے، مصوری کے شاہ کار کے علاوہ موٹربوٹس خریدنے کا بھی شوق تھا۔ ان کے علاوہ وہ منہگی گھڑیاں بھی جمع کرنے کا شوقین تھا۔
گریوز1903ء سے مشہورزمانہ '' پتک فلپ اینڈ کو'' (Patek Philippe & Co ) سے گھڑیاں خرید رہا تھا۔ پھر اس نے مذکورہ کمپنی سے فرمائشی گھڑیاں بنوانی شروع کردیں جن پر اس کے اہل خانہ اور خاندان کے دوسرے لوگوں کے نام کندہ ہوتے تھے۔ نادر گھڑیاں جمع کرنے کا شوق کار سازی کی صنعت سے وابستہ جیمز وارڈ پیکارڈ کو بھی تھا۔ ہنری اور جیمزکے درمیان، ایک طرح سے منہگی ترین گھڑیاں جمع کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا تھا۔
اس مقابلے میں اپنے حریف پر سبقت لے جانے کی خاطر ہنری نے 1925ء میں خفیہ طور پر '' پتک فلپ'' کو دنیا کی پیچیدہ ترین گھڑی( ٹائم پیس) تخلیق کرنے کا آرڈر دیا۔ آٹھ سال کی محنت شاقہ کے بعد کمپنی کے ماہرین، سائنس دانوں اور انجنیئروں نے ہنری کی خواہش پوری کردی۔ اُس زمانے میں اس گھڑی کی قیمت پندرہ ہزار ڈالر ادا کی گئی تھی۔
بلاشبہ یہ گھڑی دنیا کی سب سے پیچیدہ اور خوب صورت ترین گھڑی ہے۔ مجموعی طور پر اس میں کیلینڈر، مہینے کے دنوں میں چاند کی اشکال، ستاروں کے حوالے سے وقت کا تعین، طلوع و غروب آفتاب کے وقت کی نشان دہی سمیت 24 پیچیدہ نظام ہیں۔
1933ء میں یہ گھڑی ہنری گریوز کے حوالے کی گئی۔ اس کے ٹھیک سات ماہ کے بعد گریوز کا عزیزترین دوست موت کا شکار ہوگیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد گریوز کا چھوٹا بیٹا جارج بھی کار کے حادثے میں جان سے گزرگیا۔ ہنری گریوز نے اپنی بیٹی Gwendolen سے کہا تھا کہ یہ دونوں حادثے اس گھڑی کی نحوست کی وجہ سے ہوئے ہیں۔
اسی زمانے میں عالمی مالیاتی بحران بھی شروع ہوچکا تھا۔ بدحال اور فاقہ کش لوگوں کو جب خبر ہوئی کہ گریوز نے پندرہ ہزار ڈالر ( آج کے لحاظ سے قریباً دس لاکھ ڈالر ) محض ایک گھڑی خریدنے پر خرچ کیے ہیں تو اسے لعنت ملامت کرنے لگے کہ ہم بھوک سے مررہے ہیں اور وہ منہگی ترین گھڑیاں خرید رہا ہے۔ ان اطلاعات نے بھی گریوز کو آزردہ کردیا تھا۔
1936ء میں ایک روز وہ مایوسی کے عالم میں اس نادر گھڑی کو دریا کی نذر کرنے ہی لگا تھا کہ Gwendolen نے اسے روک دیا اور اس سے یہ گھڑی کے لی۔ 1960ء میں یہ گھڑی Gwendolen نے اپنے بیٹے کو دی جس نے اسے دو لاکھ ڈالر میں ایک صنعت کار کو فروخت کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ پیچیدہ ترین گھڑی حاصل کرنے کے بعد اس صنعت کار کو بھی کئی طرح کے نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ بالآخر اس نے عجائب گھر کو دے کر اس سے جان چھڑائی۔
1999ء تک یہ گھڑی عجائب گھر کی زینت بنی رہی۔ جہاں سے شیخ سعود نے اسے اپنی ملکیت بنایا۔ شیخ سعود نے کوئی قرض اتارنے کے لیے سوئزرلینڈ کے نیلام گھر کے ذریعے اسے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ گھڑی ڈھائی کروڑ ڈالر کی ریکارڈ قیمت پر فروخت تو ہوگئی مگر اس سے صرف دو روز قبل قطری شہزادہ موت کا شکار ہوگیا تھا۔
شیخ کی عمر اڑتالیس سال تھی اور وہ پوری طرح صحت مند تھے, ان کی اچانک موت کو دنیا کی سب سے خوب صورت، سب سے پیچیدہ اور مہنگی ترین گھڑی سے منسوب کیا جارہا ہے۔ قطری شہزادے نے یہ گھڑی 15 سال قبل ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر میں خریدی تھی۔ شیخ سعود نے حال ہی میں یہ گھڑی سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ایک نیلام گھر کے ذریعے فروخت کے لیے پیش کی تھی جہاں اسے تقریباً ڈھائی کروڑ ڈالر میں کسی نامعلوم فرد نے خریدا، تاہم نیلامی سے صرف 2 روز قبل شیخ سعود دارفانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی موت کی وجہ اس گھڑی سے جُڑی نحوست قرار دی جارہی ہے۔ اس نادر گھڑی کا اولین مالک ہنری گریوز تھا۔
ہنری گریوز جونیئر کا شمار امریکا کے دولت مند ترین افراد میں ہوتا تھا۔ وہ ایک بینکار گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے بینکوں اور ریلوے میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کیا تھا۔ بیشتر مال داروں کی طرح اس کے بھی کئی شوق تھے۔ عام آدمی مہریں، سکّے، ڈاک ٹکٹ اور مختلف ممالک کی کرنسی وغیرہ جمع کرتے ہیں مگر اسے نت نئے گھر بنوانے، مصوری کے شاہ کار کے علاوہ موٹربوٹس خریدنے کا بھی شوق تھا۔ ان کے علاوہ وہ منہگی گھڑیاں بھی جمع کرنے کا شوقین تھا۔
گریوز1903ء سے مشہورزمانہ '' پتک فلپ اینڈ کو'' (Patek Philippe & Co ) سے گھڑیاں خرید رہا تھا۔ پھر اس نے مذکورہ کمپنی سے فرمائشی گھڑیاں بنوانی شروع کردیں جن پر اس کے اہل خانہ اور خاندان کے دوسرے لوگوں کے نام کندہ ہوتے تھے۔ نادر گھڑیاں جمع کرنے کا شوق کار سازی کی صنعت سے وابستہ جیمز وارڈ پیکارڈ کو بھی تھا۔ ہنری اور جیمزکے درمیان، ایک طرح سے منہگی ترین گھڑیاں جمع کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا تھا۔
اس مقابلے میں اپنے حریف پر سبقت لے جانے کی خاطر ہنری نے 1925ء میں خفیہ طور پر '' پتک فلپ'' کو دنیا کی پیچیدہ ترین گھڑی( ٹائم پیس) تخلیق کرنے کا آرڈر دیا۔ آٹھ سال کی محنت شاقہ کے بعد کمپنی کے ماہرین، سائنس دانوں اور انجنیئروں نے ہنری کی خواہش پوری کردی۔ اُس زمانے میں اس گھڑی کی قیمت پندرہ ہزار ڈالر ادا کی گئی تھی۔
بلاشبہ یہ گھڑی دنیا کی سب سے پیچیدہ اور خوب صورت ترین گھڑی ہے۔ مجموعی طور پر اس میں کیلینڈر، مہینے کے دنوں میں چاند کی اشکال، ستاروں کے حوالے سے وقت کا تعین، طلوع و غروب آفتاب کے وقت کی نشان دہی سمیت 24 پیچیدہ نظام ہیں۔
1933ء میں یہ گھڑی ہنری گریوز کے حوالے کی گئی۔ اس کے ٹھیک سات ماہ کے بعد گریوز کا عزیزترین دوست موت کا شکار ہوگیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد گریوز کا چھوٹا بیٹا جارج بھی کار کے حادثے میں جان سے گزرگیا۔ ہنری گریوز نے اپنی بیٹی Gwendolen سے کہا تھا کہ یہ دونوں حادثے اس گھڑی کی نحوست کی وجہ سے ہوئے ہیں۔
اسی زمانے میں عالمی مالیاتی بحران بھی شروع ہوچکا تھا۔ بدحال اور فاقہ کش لوگوں کو جب خبر ہوئی کہ گریوز نے پندرہ ہزار ڈالر ( آج کے لحاظ سے قریباً دس لاکھ ڈالر ) محض ایک گھڑی خریدنے پر خرچ کیے ہیں تو اسے لعنت ملامت کرنے لگے کہ ہم بھوک سے مررہے ہیں اور وہ منہگی ترین گھڑیاں خرید رہا ہے۔ ان اطلاعات نے بھی گریوز کو آزردہ کردیا تھا۔
1936ء میں ایک روز وہ مایوسی کے عالم میں اس نادر گھڑی کو دریا کی نذر کرنے ہی لگا تھا کہ Gwendolen نے اسے روک دیا اور اس سے یہ گھڑی کے لی۔ 1960ء میں یہ گھڑی Gwendolen نے اپنے بیٹے کو دی جس نے اسے دو لاکھ ڈالر میں ایک صنعت کار کو فروخت کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ پیچیدہ ترین گھڑی حاصل کرنے کے بعد اس صنعت کار کو بھی کئی طرح کے نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ بالآخر اس نے عجائب گھر کو دے کر اس سے جان چھڑائی۔
1999ء تک یہ گھڑی عجائب گھر کی زینت بنی رہی۔ جہاں سے شیخ سعود نے اسے اپنی ملکیت بنایا۔ شیخ سعود نے کوئی قرض اتارنے کے لیے سوئزرلینڈ کے نیلام گھر کے ذریعے اسے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ گھڑی ڈھائی کروڑ ڈالر کی ریکارڈ قیمت پر فروخت تو ہوگئی مگر اس سے صرف دو روز قبل قطری شہزادہ موت کا شکار ہوگیا تھا۔