کھیل کود انوکھا لاڈلا
پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن جب کسی آنکھ میں ’موتیا‘ اتر آئے تو اس کو گلاب کیوں کر دکھائی دے گا۔
پاکستان میں انوکھے لاڈلوں کی کمی نہیں ہے ایک ڈھونڈو گے تو ہزار ملیں گے۔ اس کے لئے کسی ٹیلنٹ رنگ و نسل یا زبان وغیرہ کی قید نہیں ہے۔ آپ کو ایسے 'لاڈلے' ہر شعبے ہر جگہ نظر آئیں گے۔ ان انوکھے لاڈلو کی تفصیل میں گئے تو بات آخر 'ڈی چوک' تک جا پہنچے گی۔
بہرحال لاڈلوں پر اپنی ریسرچ کو فی الحال پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ لاڈلے فاسٹ بولر عامر تک ہی محدود رکھیں تو ہم سمیت کئی لوگوں کا بھلا ہوجائے گا۔
عامر ایک ایسا انوکھا لاڈلا ہے جوکہ حقیقت میں چاند سے یعنی سبز ہلالی پرچم پر موجود چاند اور اس میں موجود ستارے کے ساتھ کھیل چکا ہے اور یہ ایسا شرمناک کھیل تھا جس نے پاکستان کی ساکھ کو دنیا بھر میں خاک میں ملا دیا اور اپنی ٹیم پر 'چیٹر' کی چھاپ لگائی۔ اب یہی انوکھا لاڈلا ایک بار پھر کھیلنے کو وہی چاند ستارہ مانگ رہا ہے جوکہ ٹیسٹ میں گرین کیپ پر سجا ہوا ہے اور ون ڈے و ٹوئنٹی20 میں گرین شرٹ کی زینت ہے۔ آپ دنیا بھر میں کہیں بھی چلے جائیں اور کسی بھی کھلاڑی سے سوال کریں کہ بطور کرکٹر ان کے لئے سب سے بڑا اعزاز کیا ہے تقریباً سب کا جواب اپنے ملک کی نمائندگی ہوگا۔
وطن عزیز میں پرانی مردم شماری کی بنیاد پر 18 کروڑ عوام بستے ہیں اور ان میں ایک ٹیم کیلئے 18 نہیں بلکہ 15 یا پھر 16 کھلاڑیوں کا انتخاب ہوتا ہے اگر دیکھا جائے تو اسکواڈ کا حصہ بننا ہی سب سے بڑا اعزاز ہے اور اگر کسی کوگرین کیپ پہننے یا پھر پر گرین شرٹ اپنے تن پر سجانے کا موقع مل جائے تو پھر جیسے اس کو دنیا بھر کی دولت مل گئی۔ اس چیز کا احساس اسے ہوتا ہے جوکہ اپنے ملک کو خود پر مقدم رکھتا اور اس کے لئے جیتا اور مرتا ہے۔
یہ پاکستان ٹیم میں کھیلنے کا اعزاز ہی تھا جس نے اس انوکھے لاڈلے کو ایک پسماندہ دیہات سے اٹھا کر لاہور کے پوش ایریا کی کروڑوں روپے کی کوٹھی میں پہنچایا۔ یہ پاکستانی پرچم کے رنگ میں رنگی ہوئی کیپ کا کمال تھا جس کو سر پر اوڑھنے کی وجہ سے وہ اس معروف کولڈ ڈرنک کا برانڈ ایمبیسڈر بنا بچپن میں جس کو پینے کے لئے خود اس کی جیب میں پیسے نہیں ہوتے تھے۔ انوکھا لاڈلا سب بھول گیا اور اسی تھالی میں ہی چھید کردیا جس میں وہ کھانا کھا رہا تھا۔ اس نے وہی شاخ ہی کاٹ ڈالی جس پر بیٹھا تھا اور اسی ملک کو دنیا بھر میں بدنام کردیا جس نے اس کو نام دیا۔
بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے اور حقیقت میں ایسا ہی بھی لیکن جب کسی آنکھ میں 'موتیا' اتر آئے تو اس کو گلاب کیوں کر دکھائی دے گا۔ یہ انوکھا لاڈلا حقیقت میں پی سی بی حکام چاہے وہ سابق ہوں یا موجودہ ان سب کی آنکھ کا 'موتیا' بن چکا ہے۔ یہ ایک ایسا موتیا ہے جس کا علاج لیزر آپریشن سے بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اب صورتحال ایسی ہوتو کوئی انتہائی باصلاحیت بولر سونے کا بھی بن کر سامنے آجائے تو ان کی آنکھوں میں نہیں جچے گا۔
عامر جب اسپاٹ فکسنگ میں اپنے گینگ کے دیگر ساتھیوں سمیت رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو پی سی بی نے از خود ان کو معطل کرکے انکوائری بیٹھانے کے بجائے تینوں کو ہی معصوم قرار دے دیا جس پر آئی سی سی حرکت میں آئی اور سب کچا چٹھا سامنے آگیا۔ اس وقت بورڈ ان بدنام کھلاڑیوں کو سپورٹ کررہا تھا بلکہ اس وقت کے برطانیہ پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو بھی مفت میں شرمسار کرایا تھا جوکہ بورڈ کے بہکاوے میں آکر اور ان تینوں کرپٹ کرکٹرز کو بے گناہ سمجھ بیٹھے تھے اور بعد میں رپورٹس کے مطابق اس وقت کے چیئرمین کرکٹ بورڈ اعجاز بٹ سے ناراضی بھی ظاہر کی تھی۔
عامر، سلمان اور آصف پر پانچ پانچ برس کی پابندی عائد ہوئی تو پی سی بی نے شروع دن سے ہی اپنے اس انوکھے لاڈلے کو ہی کلیئر کرانے کی کوششیں شروع کردیں اور اس سلسلے میں سب سے بڑا قدم مائیکل ایتھرٹن سے 100 فیصد 'فکسڈ' انٹرویو کرا کر کیا گیا جس کا پورا کا پورا اسکرپٹ بورڈ کا لکھا ہوا تھا اور اس میں عامر کو انتہائی معصوم و مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اعجاز بٹ، ذکا اشرف، نجم سیٹھی اور اب شہریار خان سب کے سب نے آئی سی سی کی میٹنگز میں عامر پرسے پابندی کے خاتمے کے لئے آواز اٹھائی اگر یہ چاروں پورے دل و جان سے یہی کوشش پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے کرتے تو آج ہمارے ملک کے اسٹیڈیمز بھی آباد ہوتے۔ یہ تو بھلا ہوسیاسی جلسوں کا جس کی وجہ سے ان میں کچھ ہلا گلا ہوجاتا ہے۔ پی سی بی کی جانب سے آئی سی سی سے باقاعدہ درخواست کردی گئی ہے کہ اس معصوم 'بچے' پر سے پابندی ہٹائی جائے تاکہ وہ فوری طور پر ڈومیسٹک کرکٹ کھیل سکے تاکہ جس دن پابندی ختم ہو اس سے اگلے روز قومی ٹیم میں پھر سے شامل کرلیں۔ جیسا کہ سابق کپتان رمیز راجہ نے کہا کہ '' ہرکسی زندگی میں دوسرا موقع ملنا چاہئے لیکن عامر کو اس کھیل میں واپس نہ آنے دیا جائے جس کو اس نے اپنے ہاتھوں سے بدنام کیا ہے''۔
جو لوگ عامر کی کرکٹ میں واپسی کے حامی ہیں ان کی دلیل ہے کہ جب کسی نے سزا کاٹ لی تو پھر اس کو دوسرا موقع ملنا چاہئے لیکن ان کے لئے سب سے بڑا جواب یہ ہے کہ آپ ایک سزا یافتہ شخص کو دوبارہ ٹیم میں شامل کرکے کیا ان نوجوانوں کی حق تلفی کا حصہ بننا چاہتے ہیں جوکہ تپتی دھوپ اور سرد موسم میں صرف قومی ٹیم میں ایک چانس کا خواب پورا کرنے کے لئے گھنٹوں محنت کرتے ہیں ؟ یا پھر بورڈ کی طرح سمجھتے ہیں کہ عامر جیسا ٹیلنٹ قسمت سے پاکستان میں آگیا تھا جوکہ اور کہیں نہیں اور یہ انوکھا لاڈلا چاہئے کتنے ہی 'چاند' کیوں نہ خراب کردے، اس کو کھیلنے سے نہیں روکنا چاہئے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بہرحال لاڈلوں پر اپنی ریسرچ کو فی الحال پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ لاڈلے فاسٹ بولر عامر تک ہی محدود رکھیں تو ہم سمیت کئی لوگوں کا بھلا ہوجائے گا۔
عامر ایک ایسا انوکھا لاڈلا ہے جوکہ حقیقت میں چاند سے یعنی سبز ہلالی پرچم پر موجود چاند اور اس میں موجود ستارے کے ساتھ کھیل چکا ہے اور یہ ایسا شرمناک کھیل تھا جس نے پاکستان کی ساکھ کو دنیا بھر میں خاک میں ملا دیا اور اپنی ٹیم پر 'چیٹر' کی چھاپ لگائی۔ اب یہی انوکھا لاڈلا ایک بار پھر کھیلنے کو وہی چاند ستارہ مانگ رہا ہے جوکہ ٹیسٹ میں گرین کیپ پر سجا ہوا ہے اور ون ڈے و ٹوئنٹی20 میں گرین شرٹ کی زینت ہے۔ آپ دنیا بھر میں کہیں بھی چلے جائیں اور کسی بھی کھلاڑی سے سوال کریں کہ بطور کرکٹر ان کے لئے سب سے بڑا اعزاز کیا ہے تقریباً سب کا جواب اپنے ملک کی نمائندگی ہوگا۔
وطن عزیز میں پرانی مردم شماری کی بنیاد پر 18 کروڑ عوام بستے ہیں اور ان میں ایک ٹیم کیلئے 18 نہیں بلکہ 15 یا پھر 16 کھلاڑیوں کا انتخاب ہوتا ہے اگر دیکھا جائے تو اسکواڈ کا حصہ بننا ہی سب سے بڑا اعزاز ہے اور اگر کسی کوگرین کیپ پہننے یا پھر پر گرین شرٹ اپنے تن پر سجانے کا موقع مل جائے تو پھر جیسے اس کو دنیا بھر کی دولت مل گئی۔ اس چیز کا احساس اسے ہوتا ہے جوکہ اپنے ملک کو خود پر مقدم رکھتا اور اس کے لئے جیتا اور مرتا ہے۔
یہ پاکستان ٹیم میں کھیلنے کا اعزاز ہی تھا جس نے اس انوکھے لاڈلے کو ایک پسماندہ دیہات سے اٹھا کر لاہور کے پوش ایریا کی کروڑوں روپے کی کوٹھی میں پہنچایا۔ یہ پاکستانی پرچم کے رنگ میں رنگی ہوئی کیپ کا کمال تھا جس کو سر پر اوڑھنے کی وجہ سے وہ اس معروف کولڈ ڈرنک کا برانڈ ایمبیسڈر بنا بچپن میں جس کو پینے کے لئے خود اس کی جیب میں پیسے نہیں ہوتے تھے۔ انوکھا لاڈلا سب بھول گیا اور اسی تھالی میں ہی چھید کردیا جس میں وہ کھانا کھا رہا تھا۔ اس نے وہی شاخ ہی کاٹ ڈالی جس پر بیٹھا تھا اور اسی ملک کو دنیا بھر میں بدنام کردیا جس نے اس کو نام دیا۔
بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے اور حقیقت میں ایسا ہی بھی لیکن جب کسی آنکھ میں 'موتیا' اتر آئے تو اس کو گلاب کیوں کر دکھائی دے گا۔ یہ انوکھا لاڈلا حقیقت میں پی سی بی حکام چاہے وہ سابق ہوں یا موجودہ ان سب کی آنکھ کا 'موتیا' بن چکا ہے۔ یہ ایک ایسا موتیا ہے جس کا علاج لیزر آپریشن سے بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اب صورتحال ایسی ہوتو کوئی انتہائی باصلاحیت بولر سونے کا بھی بن کر سامنے آجائے تو ان کی آنکھوں میں نہیں جچے گا۔
عامر جب اسپاٹ فکسنگ میں اپنے گینگ کے دیگر ساتھیوں سمیت رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو پی سی بی نے از خود ان کو معطل کرکے انکوائری بیٹھانے کے بجائے تینوں کو ہی معصوم قرار دے دیا جس پر آئی سی سی حرکت میں آئی اور سب کچا چٹھا سامنے آگیا۔ اس وقت بورڈ ان بدنام کھلاڑیوں کو سپورٹ کررہا تھا بلکہ اس وقت کے برطانیہ پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو بھی مفت میں شرمسار کرایا تھا جوکہ بورڈ کے بہکاوے میں آکر اور ان تینوں کرپٹ کرکٹرز کو بے گناہ سمجھ بیٹھے تھے اور بعد میں رپورٹس کے مطابق اس وقت کے چیئرمین کرکٹ بورڈ اعجاز بٹ سے ناراضی بھی ظاہر کی تھی۔
عامر، سلمان اور آصف پر پانچ پانچ برس کی پابندی عائد ہوئی تو پی سی بی نے شروع دن سے ہی اپنے اس انوکھے لاڈلے کو ہی کلیئر کرانے کی کوششیں شروع کردیں اور اس سلسلے میں سب سے بڑا قدم مائیکل ایتھرٹن سے 100 فیصد 'فکسڈ' انٹرویو کرا کر کیا گیا جس کا پورا کا پورا اسکرپٹ بورڈ کا لکھا ہوا تھا اور اس میں عامر کو انتہائی معصوم و مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اعجاز بٹ، ذکا اشرف، نجم سیٹھی اور اب شہریار خان سب کے سب نے آئی سی سی کی میٹنگز میں عامر پرسے پابندی کے خاتمے کے لئے آواز اٹھائی اگر یہ چاروں پورے دل و جان سے یہی کوشش پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے کرتے تو آج ہمارے ملک کے اسٹیڈیمز بھی آباد ہوتے۔ یہ تو بھلا ہوسیاسی جلسوں کا جس کی وجہ سے ان میں کچھ ہلا گلا ہوجاتا ہے۔ پی سی بی کی جانب سے آئی سی سی سے باقاعدہ درخواست کردی گئی ہے کہ اس معصوم 'بچے' پر سے پابندی ہٹائی جائے تاکہ وہ فوری طور پر ڈومیسٹک کرکٹ کھیل سکے تاکہ جس دن پابندی ختم ہو اس سے اگلے روز قومی ٹیم میں پھر سے شامل کرلیں۔ جیسا کہ سابق کپتان رمیز راجہ نے کہا کہ '' ہرکسی زندگی میں دوسرا موقع ملنا چاہئے لیکن عامر کو اس کھیل میں واپس نہ آنے دیا جائے جس کو اس نے اپنے ہاتھوں سے بدنام کیا ہے''۔
جو لوگ عامر کی کرکٹ میں واپسی کے حامی ہیں ان کی دلیل ہے کہ جب کسی نے سزا کاٹ لی تو پھر اس کو دوسرا موقع ملنا چاہئے لیکن ان کے لئے سب سے بڑا جواب یہ ہے کہ آپ ایک سزا یافتہ شخص کو دوبارہ ٹیم میں شامل کرکے کیا ان نوجوانوں کی حق تلفی کا حصہ بننا چاہتے ہیں جوکہ تپتی دھوپ اور سرد موسم میں صرف قومی ٹیم میں ایک چانس کا خواب پورا کرنے کے لئے گھنٹوں محنت کرتے ہیں ؟ یا پھر بورڈ کی طرح سمجھتے ہیں کہ عامر جیسا ٹیلنٹ قسمت سے پاکستان میں آگیا تھا جوکہ اور کہیں نہیں اور یہ انوکھا لاڈلا چاہئے کتنے ہی 'چاند' کیوں نہ خراب کردے، اس کو کھیلنے سے نہیں روکنا چاہئے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔