پاکستان ایک نظر میں جب مینار پاکستان نے تنگی داماں کی شکایت کردی
آج میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ کہ تمام تر خامیوں کے باوجود جماعت اسلامی اس ملک کی نمائندگی کا حق ادا کر سکتی ہے.
سوشل میڈیا پرزیر گردش یہ دلچسپ تبصرہ پڑھیں پھر آگے بڑھتے ہیں''انہوں نے کہاجو بہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دے اسے الیکشن کمیشن نا اہل قرار دے، آپ سوئے رہے۔ انہوں نے اپنے اجتماع عام میں تین ہزار عیسائیوں ، سکھوں اور ہندئوں کو بلوایا ، انہیں عزت دی ، آپ نے کروٹ لے لی۔انہوں نے کوٹ رادھا کشن میں جلائے گئے عیسائی جوڑے کے بچے کی تعلیم و تربیت کے لئے مفت ہاسٹل کا بندوبست کیا ،آپ نے چادر منہ پر لے لی۔انہوں نے مذہب کی بنیاد پر ہونے والے لفظ ''اقلیت '' کو ختم کرنے کی سب سے پہلے تجویز دی، آپ کو سنائی نہیں دیا۔ انہوں نے کہا صرف ووٹ اور جمہوریت ہی نہیں ،بلکہ جہاد فی سبیل اللہ کے کلچر کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے، آپ بستر سے چھلانگ لگا کر اٹھ گئے، آپ کا سارا خمار اور نشہ اتر گیا، آپ کے کیمرے آن ہوگئے، آپ کے کان اور زبان بیک وقت کھل گئے، کانوں سے دھواں اور زبان سے زہر نکلنا شروع ہوگیا۔'' یہ وہ تبصرہ ہے جو جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن کے جہاد کے بارے میں بیان کے بعد جنم لینے والی صورت حال پر کسی نے کیا ہے ۔
میں ذاتی طور پر اس تبصرے سے اتفاق کرتا ہوں جس نے بھی کہا کمال کیا ہے۔ میرے خیال میں جماعت اسلامی کے حالیہ اجتماع عام کے دوران میڈیا نا انصافی کا مرتکب ہوگیا، مینار پاکستان کے سائے تلے منعقدہ جلسوں میں سے عمران خان کے دو جلسے تاریخی اہمیت کے حامل مانے جاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر امڈ آیا تھا، لیکن اب کی بار واقفان حال کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے اجتماع عام نے مینار پاکستان پر آج تک ہونے والے جلسے جلوسوں کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اندرکی خبر یہ ہے کہ خود ذمہ داران جماعت بھی حیران و ششدر رہ گئے کہ عوام کو کہاں سمویا جائے، یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ انتظامات کم پڑ جانے پر لاہور کے مقامی کارکنا ن کو رات کے وقت اپنے گھروں کو لوٹنا پڑا۔خواتین کے پورشن میں صرف25 ہزارخواتین کی گنجائش رکھی گئی تھی جوں جوں قافلے پہنچنے شروع ہوگئے خواتین کی تعداد 75 ہزارکا ہندسہ عبور کر گئی۔ اسی وقت ہنگامی بنیادوں پرمزیدخیمے لگوائے گئے۔
شرکاء کی تعداد پر کسی نے یوں تبصرہ کیا ''جب مینار پاکستان نے تنگی داماں کی شکایت کردی''۔اجتماع عام کا آغازکرتے ہوئے سراج الحق نے اپنی افتتاحی تقریر میں عوامی ایجنڈا بھی پیش کیا۔ دوسری جانب اسی دن لاڑکانہ میں تحریک انصاف کا جلسہ منعقد ہو رہا تھا ، میڈیا کے سارے کیمرے اس طرف متوجہ ہوگئے، حالانکہ اس دن کپتان کا جلسہ جماعت اسلامی کے اجتماع عام کے مقابلے میں کارنر میٹنگ دکھائی دے رہا تھا۔دوسری بات یہ نوٹ کی گئی جیسے کہ آج کل ملک میں وی آئی پی کلچر کے خلاف عوامی سطح پر ایک لہر اٹھی ہے، جس کو ہر کوئی کیش کرنا چاہتا ہے، ان میں سرفہرست خان صاحب ہیں۔ لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ خان صاحب نجی طیارے میں تشریف لائے اور اسی دن جماعت اسلامی کے امیر رات کی تاریکی میں موٹر سائیکل پر سوار انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے اخباری رپورٹرز سے جا ٹکرائے۔ جماعت اسلامی خیبرپختون خواہ کے امیر پروفیسر ابراہیم خان کے بیٹے کو سیکورٹی کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے دیکھا گیا، اسی طرح سراج الحق کے بیٹے کو سیکورٹی پر مامور کارکنان نے کئی بار اسٹیج پر چڑھنے سے نہ صرف روکا بلکہ ان کے ساتھ انتہائی سختی سے پیش آئے۔
ایک رپورٹر نے یہ خبر بھی دی کہ سراج الحق کی فیملی خواتین کے لئے لگائے گئے عام خیموں میں تین دن کے لیے رہایش پذیر رہی۔ یہ سب میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہا بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ میڈیا نے دانستہ ان مناظر کو عوام کی نظروں سے بھی اوجھل رکھا۔باخبر صحافیوں اور رپورٹرز دوستوں سے جماعت اسلامی کو اس طرح یکسر نظر انداز کرنے کی وجہ جاننے کے لئے رابطہ کیا۔ سب نے ملا جلا سا جواب دیا ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں شریک 75 ہزار سے زائد خواتین پردے میں ہیں، جماعت اسلامی سے میڈیا ہاوسز کا کوئی خاص مفاد وابستہ نہیں ہے۔لہذا میڈیا اس وجہ سے چشم پوشی اختیار کر رہا ہے۔
تین دن تک مسلسل جماعت اسلامی کو نظرانداز کیے رکھنے کے بعد منور حسن کے خطاب کے بعد گویا سب کے کان کھڑے ہوگئے۔ کسی نے القاعدہ اور داعش سے ملانے کی کوشش کی اور کسی نے تحریک طالبان پاکستان کی صفوں میں لا کھڑا کردیا۔ جبکہ کراچی میں ایک سیاسی جماعت نے باقاعدہ مہم جوئی شروع کردی۔ اس ساری صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد میں حیرتوں کے سمندر میں ابھی تک تیر رہا ہوں، کہ کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کا خطاب براہ راست نشر نہ کرنے کی پاداش میں پورے کراچی میں تمام تر ٹی وی چینلز کی نشریات بند کردی جاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں سب'' بندے داپتر'' بن جاتے ہیں، لیکن مجال ہو کہ جماعت اسلامی کے قائدین کی زباں سے حرف شکایت تک نکلا ہو یا نچلی سطح پر کارکنان نے کوئی غیر اخلاقی یا غیر قانونی حرکت کی ہو۔ آج میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ کہ تمام تر خامیوں کے با وجود جماعت اسلامی اس ملک کی نمائندگی کا حق ادا کر سکتی ہے، وی آئی پی کلچر کا حقیقی معنوں میں خاتمہ بھی یہی جماعت کر سکتی ہے جس کے مرکزی امیر کے دفتر میں اے سی تک موجونہ ہو، جہاں کارکنان سو رہے ہو جبکہ مرکزی امیر موٹر سائیکل پر سوار ہوکر انتظامات کا جائزہ لینے پنڈال کے گرد چکر لگا رہا ہو،جہاں مرکزی امیر کے بیٹے کو اسٹیج پر چڑھنے کی بجائے عام کارکنان کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہو،اور جہاں صوبائی امیر کا بیٹا ہاتھ میں ڈنڈا لئے اجتماع گاہ کے گرد پہرہ دے رہا ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میں ذاتی طور پر اس تبصرے سے اتفاق کرتا ہوں جس نے بھی کہا کمال کیا ہے۔ میرے خیال میں جماعت اسلامی کے حالیہ اجتماع عام کے دوران میڈیا نا انصافی کا مرتکب ہوگیا، مینار پاکستان کے سائے تلے منعقدہ جلسوں میں سے عمران خان کے دو جلسے تاریخی اہمیت کے حامل مانے جاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر امڈ آیا تھا، لیکن اب کی بار واقفان حال کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے اجتماع عام نے مینار پاکستان پر آج تک ہونے والے جلسے جلوسوں کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اندرکی خبر یہ ہے کہ خود ذمہ داران جماعت بھی حیران و ششدر رہ گئے کہ عوام کو کہاں سمویا جائے، یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ انتظامات کم پڑ جانے پر لاہور کے مقامی کارکنا ن کو رات کے وقت اپنے گھروں کو لوٹنا پڑا۔خواتین کے پورشن میں صرف25 ہزارخواتین کی گنجائش رکھی گئی تھی جوں جوں قافلے پہنچنے شروع ہوگئے خواتین کی تعداد 75 ہزارکا ہندسہ عبور کر گئی۔ اسی وقت ہنگامی بنیادوں پرمزیدخیمے لگوائے گئے۔
شرکاء کی تعداد پر کسی نے یوں تبصرہ کیا ''جب مینار پاکستان نے تنگی داماں کی شکایت کردی''۔اجتماع عام کا آغازکرتے ہوئے سراج الحق نے اپنی افتتاحی تقریر میں عوامی ایجنڈا بھی پیش کیا۔ دوسری جانب اسی دن لاڑکانہ میں تحریک انصاف کا جلسہ منعقد ہو رہا تھا ، میڈیا کے سارے کیمرے اس طرف متوجہ ہوگئے، حالانکہ اس دن کپتان کا جلسہ جماعت اسلامی کے اجتماع عام کے مقابلے میں کارنر میٹنگ دکھائی دے رہا تھا۔دوسری بات یہ نوٹ کی گئی جیسے کہ آج کل ملک میں وی آئی پی کلچر کے خلاف عوامی سطح پر ایک لہر اٹھی ہے، جس کو ہر کوئی کیش کرنا چاہتا ہے، ان میں سرفہرست خان صاحب ہیں۔ لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ خان صاحب نجی طیارے میں تشریف لائے اور اسی دن جماعت اسلامی کے امیر رات کی تاریکی میں موٹر سائیکل پر سوار انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے اخباری رپورٹرز سے جا ٹکرائے۔ جماعت اسلامی خیبرپختون خواہ کے امیر پروفیسر ابراہیم خان کے بیٹے کو سیکورٹی کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے دیکھا گیا، اسی طرح سراج الحق کے بیٹے کو سیکورٹی پر مامور کارکنان نے کئی بار اسٹیج پر چڑھنے سے نہ صرف روکا بلکہ ان کے ساتھ انتہائی سختی سے پیش آئے۔
ایک رپورٹر نے یہ خبر بھی دی کہ سراج الحق کی فیملی خواتین کے لئے لگائے گئے عام خیموں میں تین دن کے لیے رہایش پذیر رہی۔ یہ سب میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہا بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ میڈیا نے دانستہ ان مناظر کو عوام کی نظروں سے بھی اوجھل رکھا۔باخبر صحافیوں اور رپورٹرز دوستوں سے جماعت اسلامی کو اس طرح یکسر نظر انداز کرنے کی وجہ جاننے کے لئے رابطہ کیا۔ سب نے ملا جلا سا جواب دیا ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں شریک 75 ہزار سے زائد خواتین پردے میں ہیں، جماعت اسلامی سے میڈیا ہاوسز کا کوئی خاص مفاد وابستہ نہیں ہے۔لہذا میڈیا اس وجہ سے چشم پوشی اختیار کر رہا ہے۔
تین دن تک مسلسل جماعت اسلامی کو نظرانداز کیے رکھنے کے بعد منور حسن کے خطاب کے بعد گویا سب کے کان کھڑے ہوگئے۔ کسی نے القاعدہ اور داعش سے ملانے کی کوشش کی اور کسی نے تحریک طالبان پاکستان کی صفوں میں لا کھڑا کردیا۔ جبکہ کراچی میں ایک سیاسی جماعت نے باقاعدہ مہم جوئی شروع کردی۔ اس ساری صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد میں حیرتوں کے سمندر میں ابھی تک تیر رہا ہوں، کہ کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کا خطاب براہ راست نشر نہ کرنے کی پاداش میں پورے کراچی میں تمام تر ٹی وی چینلز کی نشریات بند کردی جاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں سب'' بندے داپتر'' بن جاتے ہیں، لیکن مجال ہو کہ جماعت اسلامی کے قائدین کی زباں سے حرف شکایت تک نکلا ہو یا نچلی سطح پر کارکنان نے کوئی غیر اخلاقی یا غیر قانونی حرکت کی ہو۔ آج میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ کہ تمام تر خامیوں کے با وجود جماعت اسلامی اس ملک کی نمائندگی کا حق ادا کر سکتی ہے، وی آئی پی کلچر کا حقیقی معنوں میں خاتمہ بھی یہی جماعت کر سکتی ہے جس کے مرکزی امیر کے دفتر میں اے سی تک موجونہ ہو، جہاں کارکنان سو رہے ہو جبکہ مرکزی امیر موٹر سائیکل پر سوار ہوکر انتظامات کا جائزہ لینے پنڈال کے گرد چکر لگا رہا ہو،جہاں مرکزی امیر کے بیٹے کو اسٹیج پر چڑھنے کی بجائے عام کارکنان کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہو،اور جہاں صوبائی امیر کا بیٹا ہاتھ میں ڈنڈا لئے اجتماع گاہ کے گرد پہرہ دے رہا ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔