بات کچھ اِدھر اُدھر کی تحریک و انقلاب ۔۔۔ مختصر جائزہ
سیاسی تحریکیں اور انقلاب کی صدائیں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تو برسوں پرانی روایات ہیں۔
جلسے ، جلوس، ریلیاں، اجتماعات۔۔۔ یہ کسی بھی ملک کے سیاسی کلچر سے آگاہی حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پوری دنیا میں سیاسی، مذہبی ،معاشی، معاشرتی اور اسی طرح کے بہت سے اور معاملات میں بھی ریلیاں نکالنا، اور جلسے جلوس منعقد کرنا ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان میں شامل شرکاء کی تعداد ان کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ جلسے یا اجتماعات کسی بھی معاشرے کی مجموعی نفسیات کو سمجھنے میں بھی اہم کردار ادار کرتے ہیں۔ بعض جگہ پر یہ اجتماعات اور جلسے حقیقی معنوں میں تبدیلی کی راہ ہموار کرتے ہیں اور بعض جگہ پر یہ صرف تاریخ میں رقم ہو جاتے ہیں اس کے علاوہ ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
1963ء میں امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ کی سربراہی میں ہونے والا مارچ سیاسی لحاظ سے ایک الگ تاریخ رقم کر چکا ہے۔ اس مارچ سے نہ صرف سیاسی طور پر آگاہی پھیلی بلکہ رنگ و نسل کی بنیاد پر حقوق کی تقسیم پر بھی کاری ضرب لگی ۔ اس مارچ کے روح رواں مارٹن لوتھر کنگ جو ایک سیاہ فام تھے ایک ہیرو بن کر ابھرے۔ اس جہدوجہد کو مقصد بھی بنیادی طور پر سیا ہ فام شہریوں سے امتیازی سلوک کا خاتمہ تھا۔
اسی طرح 1789 سے 1799 تک کے عرصے نے فرانس کی تاریخ بدل ڈالی۔ اس عرصے کو دنیا آج انقلاب فرانس کے نام سے جانتی ہے ۔انقلاب فرانس نے نہ صرف سیاسی سطح پر تبدیلی کو نمایاں کیا بلکہ اس انقلاب کی وجہ سے سماجی سطح پر بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اور شاید موجودہ فرانس اسی انقلاب کی وجہ سے دنیا کے سامنے ہے۔
ماضی قریب کا جائزہ لیں تو انقلابِ ایران جسے اسلامی انقلاب بھی کہا جاتا ہے ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس انقلاب کی وجہ سے سیاسی طور پر ایران کا نقشہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا جو آج تک ایران کی سیاسی و سماجی تشخص کی پہچان بنا ہوا ہے۔ اس انقلاب کے بڑے واقعات 1977 سے 1979تک پیش آئے۔ 16جنوری 1979 کو جب پہلوی ، جس کا پورا نام محمد رضا شاہ پہلوی تھا، ایران چھوڑا تو اس وقت اس انقلاب کی کامیابی یقینی ہو گئی تھی۔ رضا شاہ پہلوی باقی پوری زندگی جلاوطن رہا اور جلاوطنی میں ہی داعی ملک عدم ہو گیا۔ انقلاب سے پہلے ایران امریکہ کے بہت قریب تھا۔ شاہ کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی اور ایران لبرل ازم کی طرف گامزن تھا۔ لیکن انقلاب کے بعد نہ صرف امریکہ سے تعلقات میں سرد مہری آئی بلکہ مذہبی رجحان میں بھی اضافہ ہوا۔ طالبعلموں کا امریکی سفارتخانے پر قبضہ اور عملے کو یرغمال بنانا اس انقلاب کے عروجی نقاط کہے جا سکتے ہیں۔
برصغیر پاک وہند کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو گاندھی جی کا'سالٹ مارچ' جس کی ابتداء 1930ء میں ہوئی آنے والے دنوں میں اہمیت اختیار کر گیا۔ یہ بنیادی طور پر ٹیکس نظام کے خلاف تھا۔ اسی طرح اقبالؒ کے الٰہ آباد کے خطبے کے بعد 1930 ء سے مسلمانان ہند نے ایک نئی تحریک کا دامن تھام لیا۔ جسے 1940ء میں تحریک پاکستان کا نام مل گیا۔ اس پوری تحریک نے برصغیر پاک وہند کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔ سیاسی طور پر مضبوط ہونے کے باجود کانگریس قائدؒ کی ولولہ انگیز قیادت کا سامنا نہ کر پائی اور 1947ء میں دنیا کے نقشے پر کچھ لکیریں ابھریں جن لکیروں میں لاکھوں شہیدوں کا لہو شامل ہوا۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ورنہ قدیم کائنات اور موجودہ جدید دنیا انقلاب ، احتجاج، تحریکوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ صرف ان ہزاروں مثالوں میں سے چند مثالیں ہیں جو کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔پاکستان کی مثال کو سامنے رکھیں تو بہت سی مثالیں ہیں۔ بھٹو کی تحریک ہو یا 70ء کے انتخابات کے بعد کی صورت حال، بی بی کی واپسی ہو یا میاں صاحب کا لانگ مارچ ۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ لمبی اس لیے کہ پانچ لوگ بھی کھڑے ہوں تو اسے انقلاب یا مارچ کا نام دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے معروضی حالات کو سامنے رکھیں تو اس وقت عمران خان پورے ملک میں جلسے جلوس کر رہے ہیں۔ ان کے جلسوں سے آنے والی تبدیلی کا تو پتا نہیں لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان میں باقاعدگی لا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں جتنی بھی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ چاہے وہ پر امن ہوں یا ہنگامہ خیز ، ان میں باقاعدگی کا عنصر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ موجودہ جلسوں کی لہر سے عمران خان کامیاب ہوں یا ناکام یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن تین دہائیوں سے روایتی سیاسی ہنگاموں میں ایک باقاعدگی کا عنصر شامل ہو تا جا رہا ہے۔ بے ترتیبی جو جلسوں کی پہچان بن چکی تھی۔ وہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بہر حال ایک اچھا عمل ہے۔ جلسہ، جلوس، ریلی، تحریک وغیرہ چاہے حکمران جماعت کرے یا اپوزیشن جماعتیں۔ انقلاب کا نعرہ چاہے جو بھی لگائے مگر اس تمام ہلچل کا مقصد تعمیری ہونا بہت ضروری ہے۔
تمام سیاسی کارکنوں کے لیے اور سیاسی رہنماؤں کے لیے دنیا میں چلنے والی تحریکیں، جلسے ، جلوسوں یا رونما ہونے والے انقلاب کا مطالعہ کرنا ایک مفید عمل ہو سکتا ہے۔ اس سے سیاسی کارکنوں و راہنماؤں کو یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ کہاں انقلاب آیا اور کس ملک میں تحریک چلی اور ان کے مقاصد کیا تھے۔ ان کے روح رواں ان سے کتنے مخلص رہے اور اس میں شامل لوگوں کی ترجیحات کیا تھیں اور کسی بھی تحریک یا انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کروانے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ ایسا کرنا نہ صرف عمومی طور پر معاشرتی رویوں میں برداشت اور صبر کا عنصر شامل کرے گا بلکہ مجموعی طور پر سیاسی سوجھ بوجھ میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
1963ء میں امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ کی سربراہی میں ہونے والا مارچ سیاسی لحاظ سے ایک الگ تاریخ رقم کر چکا ہے۔ اس مارچ سے نہ صرف سیاسی طور پر آگاہی پھیلی بلکہ رنگ و نسل کی بنیاد پر حقوق کی تقسیم پر بھی کاری ضرب لگی ۔ اس مارچ کے روح رواں مارٹن لوتھر کنگ جو ایک سیاہ فام تھے ایک ہیرو بن کر ابھرے۔ اس جہدوجہد کو مقصد بھی بنیادی طور پر سیا ہ فام شہریوں سے امتیازی سلوک کا خاتمہ تھا۔
اسی طرح 1789 سے 1799 تک کے عرصے نے فرانس کی تاریخ بدل ڈالی۔ اس عرصے کو دنیا آج انقلاب فرانس کے نام سے جانتی ہے ۔انقلاب فرانس نے نہ صرف سیاسی سطح پر تبدیلی کو نمایاں کیا بلکہ اس انقلاب کی وجہ سے سماجی سطح پر بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اور شاید موجودہ فرانس اسی انقلاب کی وجہ سے دنیا کے سامنے ہے۔
ماضی قریب کا جائزہ لیں تو انقلابِ ایران جسے اسلامی انقلاب بھی کہا جاتا ہے ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس انقلاب کی وجہ سے سیاسی طور پر ایران کا نقشہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا جو آج تک ایران کی سیاسی و سماجی تشخص کی پہچان بنا ہوا ہے۔ اس انقلاب کے بڑے واقعات 1977 سے 1979تک پیش آئے۔ 16جنوری 1979 کو جب پہلوی ، جس کا پورا نام محمد رضا شاہ پہلوی تھا، ایران چھوڑا تو اس وقت اس انقلاب کی کامیابی یقینی ہو گئی تھی۔ رضا شاہ پہلوی باقی پوری زندگی جلاوطن رہا اور جلاوطنی میں ہی داعی ملک عدم ہو گیا۔ انقلاب سے پہلے ایران امریکہ کے بہت قریب تھا۔ شاہ کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی اور ایران لبرل ازم کی طرف گامزن تھا۔ لیکن انقلاب کے بعد نہ صرف امریکہ سے تعلقات میں سرد مہری آئی بلکہ مذہبی رجحان میں بھی اضافہ ہوا۔ طالبعلموں کا امریکی سفارتخانے پر قبضہ اور عملے کو یرغمال بنانا اس انقلاب کے عروجی نقاط کہے جا سکتے ہیں۔
برصغیر پاک وہند کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو گاندھی جی کا'سالٹ مارچ' جس کی ابتداء 1930ء میں ہوئی آنے والے دنوں میں اہمیت اختیار کر گیا۔ یہ بنیادی طور پر ٹیکس نظام کے خلاف تھا۔ اسی طرح اقبالؒ کے الٰہ آباد کے خطبے کے بعد 1930 ء سے مسلمانان ہند نے ایک نئی تحریک کا دامن تھام لیا۔ جسے 1940ء میں تحریک پاکستان کا نام مل گیا۔ اس پوری تحریک نے برصغیر پاک وہند کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔ سیاسی طور پر مضبوط ہونے کے باجود کانگریس قائدؒ کی ولولہ انگیز قیادت کا سامنا نہ کر پائی اور 1947ء میں دنیا کے نقشے پر کچھ لکیریں ابھریں جن لکیروں میں لاکھوں شہیدوں کا لہو شامل ہوا۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ورنہ قدیم کائنات اور موجودہ جدید دنیا انقلاب ، احتجاج، تحریکوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ صرف ان ہزاروں مثالوں میں سے چند مثالیں ہیں جو کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔پاکستان کی مثال کو سامنے رکھیں تو بہت سی مثالیں ہیں۔ بھٹو کی تحریک ہو یا 70ء کے انتخابات کے بعد کی صورت حال، بی بی کی واپسی ہو یا میاں صاحب کا لانگ مارچ ۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ لمبی اس لیے کہ پانچ لوگ بھی کھڑے ہوں تو اسے انقلاب یا مارچ کا نام دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے معروضی حالات کو سامنے رکھیں تو اس وقت عمران خان پورے ملک میں جلسے جلوس کر رہے ہیں۔ ان کے جلسوں سے آنے والی تبدیلی کا تو پتا نہیں لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان میں باقاعدگی لا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں جتنی بھی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ چاہے وہ پر امن ہوں یا ہنگامہ خیز ، ان میں باقاعدگی کا عنصر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ موجودہ جلسوں کی لہر سے عمران خان کامیاب ہوں یا ناکام یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن تین دہائیوں سے روایتی سیاسی ہنگاموں میں ایک باقاعدگی کا عنصر شامل ہو تا جا رہا ہے۔ بے ترتیبی جو جلسوں کی پہچان بن چکی تھی۔ وہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بہر حال ایک اچھا عمل ہے۔ جلسہ، جلوس، ریلی، تحریک وغیرہ چاہے حکمران جماعت کرے یا اپوزیشن جماعتیں۔ انقلاب کا نعرہ چاہے جو بھی لگائے مگر اس تمام ہلچل کا مقصد تعمیری ہونا بہت ضروری ہے۔
تمام سیاسی کارکنوں کے لیے اور سیاسی رہنماؤں کے لیے دنیا میں چلنے والی تحریکیں، جلسے ، جلوسوں یا رونما ہونے والے انقلاب کا مطالعہ کرنا ایک مفید عمل ہو سکتا ہے۔ اس سے سیاسی کارکنوں و راہنماؤں کو یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ کہاں انقلاب آیا اور کس ملک میں تحریک چلی اور ان کے مقاصد کیا تھے۔ ان کے روح رواں ان سے کتنے مخلص رہے اور اس میں شامل لوگوں کی ترجیحات کیا تھیں اور کسی بھی تحریک یا انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کروانے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ ایسا کرنا نہ صرف عمومی طور پر معاشرتی رویوں میں برداشت اور صبر کا عنصر شامل کرے گا بلکہ مجموعی طور پر سیاسی سوجھ بوجھ میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔