نئے سیاسی اتحاد کی گونج
پیپلز پارٹی کے خلاف سینئر سیاستدان میدان میں آگئے
گذشتہ دنوں شہرِ قائد میں نئے سیاسی اتحاد کی گونج سنائی دی۔ صوبے میں لاقانونیت، کرپشن، غربت، منہگائی، رشوت خوری اور بدامنی سمیت دیگر مسائل کے خلاف سینئر سیاست دانوں نے سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ، ارباب غلام رحیم کی رہائش گاہ پر مشترکہ جدوجہد کے اپنے فیصلے سے میڈیا کو آگاہ کیا۔
ایک اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا گیا کہ جلد باضابطہ سیاسی اتحاد کا اعلان کیا جائے گا۔ ارباب غلام رحیم کے علاوہ الہیٰ بخش سومرو، غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی اور مسلم لیگ فنکشنل کے صوبائی صدر پیر صدرالدین راشدی اس اجلاس میں شریک تھے۔ ارباب غلام رحیم نے پریس کانفرنس میں حکومتِ سندھ کی کارکردگی کو ناقص اور اس کی پالیسیوں کو عوام دشمن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھاکہ سندھ میں ڈاکوؤں اور زمینوں پر قبضہ مافیا کا راج ہے، تھر کی حالت سب کے سامنے ہے، صوبے میں کرپشن عروج پر ہے۔
اس موقع پر لیاقت جتوئی کا کہنا تھا کہ صوبے کے عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، لیکن وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سندھ کی ترقی کے دعوے کرتے ہیں، جو سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ذاتی مفاد میں نہیں بلکہ سندھ کی خاطر اکٹھے ہوئے ہیں۔ ان راہ نماؤں کا کہنا تھاکہ سندھ کے ایشوز پر دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی بات کریں گے اور متحدہ قومی موومنٹ سے بھی رابطہ کیا جائے گا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت مشکلات سے دوچار نظر آتی ہے۔ تھر کی صورتِ حال پر اِسے سیاسی مخالفین کے علاوہ سماجی، مذہبی تنظیموں اور عوام کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جب کہ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سندھ کے مختلف شہروں میں جلسوں کے دوران پیپلز پارٹی کی قیادت اور حکومت کی کارکردگی کو ناقص قرار دے رہے ہیں۔
پچھلے دنوں پی پی پی کے گڑھ لاڑکانہ میں پی ٹی آئی نے کام یاب جلسہ کیا، جسے تجزیہ کاروں نے مقامی سیاست میں تبدیلی کا آغاز قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم عوامی مسائل اور مختلف ایشوز پر آواز بلند کرکے پی پی پی کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے اراکینِ اسمبلی اپنے حلقۂ انتخاب میں عوام کے سامنے ترقیاتی فنڈز میں خورد برد، بے روزگاری، غربت، تعلیم و صحّت کے شعبوں کی زبوں حالی سمیت شہریوں کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ خصوصاً اندرونِ سندھ ایم کیو ایم کے عوامی رابطوں میں تیزی آرہی ہے۔
اس کے علاوہ پی پی پی کو مسلم لیگ فنکشنل کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو وزیر اعلیٰ سندھ کی تبدیلی کی افواہ اب بھی توانا نظر آتی ہے، لیکن پی پی پی کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی معاملہ زیرِ بحث نہیں۔ پیپلز پارٹی کے قائدین سیاسی میدان میں اپنی مخالفت کا جواب دینے کی کوشش اور حکومت کا بھرپور دفاع کر رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں ایم کیوایم کے راہ نما اور سینیٹر بابر غوری نے وزیر اعلیٰ سندھ کو خط کے ذریعے سرکاری ملازمتوں میں شہری آبادی کو نظر انداز کرنے کا معاملہ اٹھایا ہے اور اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ میڈیا ذرایع کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ صوبائی ملازمتوں میں شہری سندھ کو حصہ نہ دے کر آئین کی خلاف ورزی کی گئی۔ پولیس، زراعت، ایکسائز، قانون اور دیگر اداروں میں شہری سندھ کا حصہ نہیں دیا گیا۔ آبادی کے لحاظ سے نمائندگی کے اصول پر سندھ میں عمل ہونا چاہیے تھا۔
بیوروکریسی میں اقربا پروری اور کرپشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیاکہ وزیرِ اعلیٰ نے اپنے فیصلوں سے خود کو صرف پیپلز پارٹی کا وزیرِ اعلیٰ ثابت کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھی اپنے ایک خطاب میں صوبے کے سرکاری اداروں میں اردو بولنے والوں کو نظر انداز کرنے کا ذکر کرچکے ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکنان پچھلے دنوں اپنی جماعت کی رکنیت سازی مہم میں مصروف نظر آئے۔
اس دوران اورنگی ٹاؤن میں اس سلسلے میں قائم کیمپ پر کریکر حملہ بھی کیا گیا تھا۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران بھی شہر میں ٹارگیٹ کلنگ کے مختلف واقعات میں متحدہ کے کارکن اپنی جان سے گئے، جب کہ پی پی پی اور اے این پی کے کارکنان بھی ٹارگیٹ کلرز کا نشانہ بنے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرے اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔
لاہور میں جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام میں شرکت کے بعد مقامی قیادت اور کارکنان کراچی لوٹ چکے ہیں۔ اس اجتماع کے لیے بدھ کے روز ٹرین کے ذریعے کراچی سے قافلہ لاہور روانہ ہوا اور رات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس موقع پر کارکنان نے نعرۂ تکبیر کے ساتھ اسلامی انقلاب اور اسلامی خوش حال پاکستان کے نعرے لگائے۔ امیرجماعت اسلامی (کراچی) حافظ نعیم الرحمن نے قافلوں کو کینٹ اسٹیشن سے رخصت کیا۔ قافلوں کی لاہور روانگی کے موقع پر جماعتِ اسلامی کے راہ نما عبدالوہاب، راشد قریشی، انجینئر صابر احمد، زاہد عسکری، یونس بارائی اور دیگر بھی موجود تھے۔
جماعتِ اسلامی کے امیر سراجُ الحق کراچی اور اندرونِ سندھ مختلف علاقوں کے دورے کر چکے ہیں اور ان کی قیادت میں جماعت کی سیاسی سرگرمیوں اور عوامی رابطوں میں تیزی نظر آرہی ہے۔ سراجُ الحق کو وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت کو بامقصد مذاکرات پر آمادہ کرنے اور جمہوریت کی بقا کے لیے کوششوں پر سیاسی حلقوں میں سراہا گیا ہے۔ جماعتِ اسلامی کی موجودہ قیادت نہایت منظم انداز میں آگے بڑھتے ہوئے عوامی مسائل پر آواز بلند کررہی ہے۔ چند ماہ قبل ان کی طرف سے وفاقی حکومت سے کراچی کی ترقی اور خوش حالی کے لیے فنڈز کا مطالبہ بھی ساکنانِ شہرِ قائد کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔
گذشتہ دنوں شگفتہ جمانی کی صدارت میں پیپلز پارٹی خواتین ونگ (سندھ) کی ایگزیکیٹو کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں لاہور میں پارٹی کنونشن سے متعلق تیاریوں اور کارکنان کی سرگرمیوں پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر شگفتہ جمانی کا کہنا تھاکہ تمام کارکن آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی پالیسی اور قیادت کو تسلیم کرتے ہیں، بلاول بھٹو زرداری ہی نوجوان نسل کے اصل لیڈر ہیں، کراچی میں بلاول بھٹو کے کام یاب جلسے سے مخالفین کے منہ بند ہو گئے ہیں۔
ایک اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا گیا کہ جلد باضابطہ سیاسی اتحاد کا اعلان کیا جائے گا۔ ارباب غلام رحیم کے علاوہ الہیٰ بخش سومرو، غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی اور مسلم لیگ فنکشنل کے صوبائی صدر پیر صدرالدین راشدی اس اجلاس میں شریک تھے۔ ارباب غلام رحیم نے پریس کانفرنس میں حکومتِ سندھ کی کارکردگی کو ناقص اور اس کی پالیسیوں کو عوام دشمن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھاکہ سندھ میں ڈاکوؤں اور زمینوں پر قبضہ مافیا کا راج ہے، تھر کی حالت سب کے سامنے ہے، صوبے میں کرپشن عروج پر ہے۔
اس موقع پر لیاقت جتوئی کا کہنا تھا کہ صوبے کے عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، لیکن وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سندھ کی ترقی کے دعوے کرتے ہیں، جو سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ذاتی مفاد میں نہیں بلکہ سندھ کی خاطر اکٹھے ہوئے ہیں۔ ان راہ نماؤں کا کہنا تھاکہ سندھ کے ایشوز پر دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی بات کریں گے اور متحدہ قومی موومنٹ سے بھی رابطہ کیا جائے گا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت مشکلات سے دوچار نظر آتی ہے۔ تھر کی صورتِ حال پر اِسے سیاسی مخالفین کے علاوہ سماجی، مذہبی تنظیموں اور عوام کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جب کہ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سندھ کے مختلف شہروں میں جلسوں کے دوران پیپلز پارٹی کی قیادت اور حکومت کی کارکردگی کو ناقص قرار دے رہے ہیں۔
پچھلے دنوں پی پی پی کے گڑھ لاڑکانہ میں پی ٹی آئی نے کام یاب جلسہ کیا، جسے تجزیہ کاروں نے مقامی سیاست میں تبدیلی کا آغاز قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم عوامی مسائل اور مختلف ایشوز پر آواز بلند کرکے پی پی پی کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے اراکینِ اسمبلی اپنے حلقۂ انتخاب میں عوام کے سامنے ترقیاتی فنڈز میں خورد برد، بے روزگاری، غربت، تعلیم و صحّت کے شعبوں کی زبوں حالی سمیت شہریوں کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ خصوصاً اندرونِ سندھ ایم کیو ایم کے عوامی رابطوں میں تیزی آرہی ہے۔
اس کے علاوہ پی پی پی کو مسلم لیگ فنکشنل کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو وزیر اعلیٰ سندھ کی تبدیلی کی افواہ اب بھی توانا نظر آتی ہے، لیکن پی پی پی کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی معاملہ زیرِ بحث نہیں۔ پیپلز پارٹی کے قائدین سیاسی میدان میں اپنی مخالفت کا جواب دینے کی کوشش اور حکومت کا بھرپور دفاع کر رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں ایم کیوایم کے راہ نما اور سینیٹر بابر غوری نے وزیر اعلیٰ سندھ کو خط کے ذریعے سرکاری ملازمتوں میں شہری آبادی کو نظر انداز کرنے کا معاملہ اٹھایا ہے اور اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ میڈیا ذرایع کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ صوبائی ملازمتوں میں شہری سندھ کو حصہ نہ دے کر آئین کی خلاف ورزی کی گئی۔ پولیس، زراعت، ایکسائز، قانون اور دیگر اداروں میں شہری سندھ کا حصہ نہیں دیا گیا۔ آبادی کے لحاظ سے نمائندگی کے اصول پر سندھ میں عمل ہونا چاہیے تھا۔
بیوروکریسی میں اقربا پروری اور کرپشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیاکہ وزیرِ اعلیٰ نے اپنے فیصلوں سے خود کو صرف پیپلز پارٹی کا وزیرِ اعلیٰ ثابت کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھی اپنے ایک خطاب میں صوبے کے سرکاری اداروں میں اردو بولنے والوں کو نظر انداز کرنے کا ذکر کرچکے ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکنان پچھلے دنوں اپنی جماعت کی رکنیت سازی مہم میں مصروف نظر آئے۔
اس دوران اورنگی ٹاؤن میں اس سلسلے میں قائم کیمپ پر کریکر حملہ بھی کیا گیا تھا۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران بھی شہر میں ٹارگیٹ کلنگ کے مختلف واقعات میں متحدہ کے کارکن اپنی جان سے گئے، جب کہ پی پی پی اور اے این پی کے کارکنان بھی ٹارگیٹ کلرز کا نشانہ بنے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرے اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔
لاہور میں جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام میں شرکت کے بعد مقامی قیادت اور کارکنان کراچی لوٹ چکے ہیں۔ اس اجتماع کے لیے بدھ کے روز ٹرین کے ذریعے کراچی سے قافلہ لاہور روانہ ہوا اور رات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس موقع پر کارکنان نے نعرۂ تکبیر کے ساتھ اسلامی انقلاب اور اسلامی خوش حال پاکستان کے نعرے لگائے۔ امیرجماعت اسلامی (کراچی) حافظ نعیم الرحمن نے قافلوں کو کینٹ اسٹیشن سے رخصت کیا۔ قافلوں کی لاہور روانگی کے موقع پر جماعتِ اسلامی کے راہ نما عبدالوہاب، راشد قریشی، انجینئر صابر احمد، زاہد عسکری، یونس بارائی اور دیگر بھی موجود تھے۔
جماعتِ اسلامی کے امیر سراجُ الحق کراچی اور اندرونِ سندھ مختلف علاقوں کے دورے کر چکے ہیں اور ان کی قیادت میں جماعت کی سیاسی سرگرمیوں اور عوامی رابطوں میں تیزی نظر آرہی ہے۔ سراجُ الحق کو وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت کو بامقصد مذاکرات پر آمادہ کرنے اور جمہوریت کی بقا کے لیے کوششوں پر سیاسی حلقوں میں سراہا گیا ہے۔ جماعتِ اسلامی کی موجودہ قیادت نہایت منظم انداز میں آگے بڑھتے ہوئے عوامی مسائل پر آواز بلند کررہی ہے۔ چند ماہ قبل ان کی طرف سے وفاقی حکومت سے کراچی کی ترقی اور خوش حالی کے لیے فنڈز کا مطالبہ بھی ساکنانِ شہرِ قائد کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔
گذشتہ دنوں شگفتہ جمانی کی صدارت میں پیپلز پارٹی خواتین ونگ (سندھ) کی ایگزیکیٹو کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں لاہور میں پارٹی کنونشن سے متعلق تیاریوں اور کارکنان کی سرگرمیوں پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر شگفتہ جمانی کا کہنا تھاکہ تمام کارکن آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی پالیسی اور قیادت کو تسلیم کرتے ہیں، بلاول بھٹو زرداری ہی نوجوان نسل کے اصل لیڈر ہیں، کراچی میں بلاول بھٹو کے کام یاب جلسے سے مخالفین کے منہ بند ہو گئے ہیں۔