نیا پاکستان کیسا ہو گا ۔۔۔
سرکاری دفتروں میں صرف کام ہی کام ہو گا۔ فائلوں کو آگے بڑھانے اور چلانے کے لیے پہیے نہیں لگانے پڑیں گے۔
عمران خان کی تقریروں، بیانات اور دعوؤں کے مطابق اگر اُنہیں حکومت مل جائے تو وہ ایک نیا پاکستان بنائیں گے۔ ایسا پاکستان جس میں پولیس والوں کی تنخواہیں اتنی کر دی جائیں گی کہ وہ رشوت لینا بھول جائیں گے۔ کتنے خوب صورت اور سہانے ہوں گے وہ دن جب ہمارے یہاں تھانوں میں انتہائی نیک اور ایماندار ایس ایچ اوز بیٹھا کریں گے۔
لوگ اُن کے پاس بلا کسی خوف و خطر جایا کریں گے۔ تھانوں میں کام کرنے والے سبھی سنتری، کانسٹیبل اور افسران نیکی اور بھلائی کی روشن مثال بن کر اِس قوم کی دن رات خدمت کیا کریں گے۔ سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑا کوئی بھی ٹریفک کانسٹیبل رشوت کی کمائی سے اپنی جیبیں نہیں بھر رہا ہو گا۔ تھانوں کی بولیاں نہیں لگا کرینگی۔ چوروں، ڈاکوؤں اور مجرموں کو فوراً گرفتار کر کے اُنہیں عدالتوں کے ذریعے سزا دلوائی جائے گی۔ جھوٹے گواہ اور اُن کے سرپرست سب کے سب ناپید ہو چکے ہوں گے۔ ہر طرف امن و آشتی ہو گی۔
سرکاری دفتروں میں صرف کام ہی کام ہو گا۔ فائلوں کو آگے بڑھانے اور چلانے کے لیے پہیے نہیں لگانے پڑیں گے۔ عوام الناس کی ساری مشکلات منٹوں میں حل ہو جایا کریںگی۔ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ احتساب کا قانون سخت ہو گا۔ مجرم چھوٹا ہو یا بڑا سب ہی کو قانون کے شکنجے سے گزرنا ہو گا۔ عدل و انصاف کا بول بالا ہو گا۔ ججوں کو دلیری سے منصفانہ فیصلے کرنے کا اختیار ہو گا۔ کوئی مالی معاونت اور پیسہ دیکر انصاف نہیں خرید پائے گا۔ یہ سب 30 نومبر کے بعد ہی ہو گا۔
وزیرِ اعظم ہاؤس، وزیرِ اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس لائبریریوں اور یونیورسٹیوں میں بدل جائیں گی۔ حکمران صرف اپنے ذاتی گھروں میں ہی رہا کریں گے اور ذاتی گاڑیاں استعمال کریں گے۔ اُن پر صَرف ہونے والا خرچ بھی بچے گا۔ وی آئی پی کلچر کا سدِباب ہو گا۔ وزیروں کے پروٹو کول میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کا نیلام ہو گا۔ ایک عام آدمی اور وی آئی پی سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو گا۔ بجلی، گیس اور پیٹرول انتہائی سستے داموں دستیاب ہوں گے۔ سارے ملک میں بجلی دو روپے فی یونٹ کر دی جائے گی۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا جائے گا۔ مہنگائی اور اشیائے صرف کی گرانی کا خاتمہ ہو گا۔ سب کو روزگار ملے گا۔ سرکاری اسپتالوں میں سستا اور بہترین علاج ہوا کرے گا۔ غریب عوام کو دوائیں بھی مفت ملا کریں گی۔ ڈاکٹر اپنی پرائیویٹ پریکٹس بھی اِن ہی اسپتالوں میں کیا کریں گے۔ نومولود بچوں کی اموات میں نمایاں کمی ہو جائے گی۔ زمینداری اور پٹواری نظام کا خاتمہ ہو گا۔ ضلعی سطح پر بلدیاتی الیکشن مقررہ تاریخ پر ہوا کرینگے۔ میٹرو بس جیسی پُر تعیش سہولت بند کر دی جائے گی کیونکہ بقول عمران خان قومی بجٹ پر یہ ایک غیر ضروری اضافی بوجھ ہے۔ اِس کی بجائے ملک کے اندر سب کو پینے کا صاف پانی ملا کریگا۔
یہ وہ سارے حسین اور سہانے خواب ہیں جن کی آس اور اُمید عمران خان نے پچھلے چند مہینوں سے قوم کو دلا رکھی ہے۔ موجودہ نظام پر تنقید کرتے ہوئے جن جن برائیوں اور خامیوں کا تذکرہ وہ اپنے ہر جلسے اور تقریر میں کیا کرتے ہیں اُن سے اُمید تو یہی کی جا سکتی ہے کہ اگر اُنہیں اقتدار مل گیا تو وہ سارا نظام ہی بدل ڈالیں گے۔ جس تبدیلی کی باتیں وہ ہر روز کیا کرتے ہیں اُس کی تخیلاتی تصویر توکچھ ایسی ہی بن سکتی ہے۔ اِس میں ہم نے آسمان سے تا رے توڑنے اور دودھ کی نہریں بہانے کی کوئی بات نہیں کی ہے۔
صرف اُنہی باتوں کا ذکر کیا ہے جن کی دلکش اور خوب صورت تصویر کشی وہ اپنے تاریخی دھرنے میں صبح و شام کیا کرتے ہیں۔ ہماری دعا ہے اللہ اُنہیں اگلے الیکشن میں ضرور سرخرو اور کامیاب کرے تا کہ یہ ملک اور قوم کو ایک نیا پاکستان دے سکیں۔
ایک نیا پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اِس قوم کو دیا تھا۔ پاکستانی قوم دنیا میں وہ واحد خوش قسمت قوم ہے جسے ایک سے زائد ماؤ زے تنگ، لینن اور چوائن لائی ملے اور ایک سے زائد نئے پاکستان ملے۔ ملک دو لخت ہو کر آدھا رہ گیا اور بچے کچے پاکستان کو نئے پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ سوشلزم اور کمیونزم کے اُصولوں پر عمل پیرا ہو کر ملک کے سارے معاشی نظام کو تبدیل کر دیا گیا۔ ملوں، کارخانوں اور کئی مالی اداروں کو قومی ملکیت میںلے کر حکومتی تحویل میں دے دیا گیا۔ بائیس خاندانوں کی امارت کا چرچہ کر کے ساری معیشت کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔
مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق نام پر ہر ادارے میں یونین سازی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ سیاسی وابستگی کے تحت اپنے چاہنے والوں کو خوب نوازا گیا۔ مزدور دوستی کا نعرہ لگا کر ہر منافع بخش ادارے میں گنجائش سے ذیادہ افراد بھرتی کر کے اُسے نیست و نابود کر دیا گیا۔ نجی بینکوں اور اسکولوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ نیشنلائزیشن کی پالیسی کو یہاں بھی جبراً رائج کر دیا گیا۔ نتیجتاً تباہی و بربادی اِن کا بھی مقدر بن گئی۔
ٹیچروں اور اُستادوں کی تنخواہوں میں اضافہ تو ضرور ہو ا لیکن معیارِ تعلیم گرتا چلا گیا۔ بینکوں کی حالت ڈاکخانوں جیسی اور اسکولوں کی حالت چراگاہوں جیسی کر دی گئی۔ مزدوروں کی طرح ٹیچروں کا مزاج بھی بدل گیا او ر وہ کام کرنے کی بجائے صرف حاضری لگا کر تنخواہیں لیتے رہے۔ ایوب دور کی ساری کامیابیوں پر پانی پھیر دیا گیا۔ ملکی اداروں میں مالی بد عنوانی اور کرپشن کو جو فروغ اِس دور میں حاصل ہوا شاید ہی اِس سے قبل پُرانے پاکستان میں ہوا ہو گا۔ اِسی لیے ہمارے بہت سے لوگوں کو نئے پاکستان کے نام سے بھی خوف آتا ہے۔ اب عمران خان تبدیلی کا نام لے کر نیا پاکستان بنانے نکلے ہیں۔ ملک کے اندر اب وہ بائیس خاندان تو نہیں رہے لیکن شریف برادران اور زرداری تو باقی ہیں جن کو نشانہ بنا کر عوام کو اُن سے بد دل اور بد ظن تو کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کام وہ تین سالوں سے بڑے انہماک اور لگن کے ساتھ کر رہے ہیں۔
اگر آج محترمہ بے نظیر زندہ ہوتیں تو زرداری کی بجائے وہی اُن کی تنقید کا ہدف بنتیں۔ لانگ مارچ سے شروع ہونے والے میوزیکل کنسرٹ کو جسے وہ احتجاجی دھرنے کا نام دیتے ہیں سو دن مکمل ہو چکے ہیں۔ حکومت گرانے کی تاریخوں کو آگے بڑھاتے بڑھاتے اب وہ اگلے سال کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ شہر شہر نگر نگر جلسے کرنے اور عوام کا شعوربلند کرنے کے ساتھ ساتھ ہر شام کو وہ اسلام آباد کے ڈی چوک پر حاضری ضرور دیتے ہیں۔ ایک سنچری بن چکی ہے اور دوسری کی تیاری ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر ہمارے 30 نومبر کے احتجاج کو روکا گیا تو وہ دو ہفتوں بعد پھر آ جائیں گے، اور پھر روکا گیا تو دوہفتوں بعد پھر آ جائیں گے۔ گویا یہ ہنگامہ یونہی جا ری و ساری رکھنا مقصود ہے۔ کامیابی ملے یا نہ ملے ملک کو آگے چلنے نہیں دینا ہے۔ نیا پاکستان اگر بنا نہیں پائے تو موجودہ پاکستان کو بھی روکے رکھنا ہے۔ معیشت کا پہیہ یونہی جام رکھنا ہے۔
گوادر سے کاشغر تک مجوزہ شاہراہ کو صرف کاغذوں تک ہی محدود رکھنا ہے۔ ترقی و خوشحالی کا کوئی راستہ اُن کے بغیر مکمل ہو نہ پائے۔ ورنہ خدشہ ہے جو نیا پاکستان بنانے کا وہ دعویٰ کر تے ہیں کہیں کسی اور کے ذریعے نہ بن جائے۔ چین کے صدر کا دورہ تو ڈی چوک کے ہنگامے کی نذر ہو گیا لیکن پاکستانی وزیرِ اعظم کا دورہ چین وہ روک نہ سکے۔ اب کو شش یہی ہے کہ وہاں ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمدکو ناممکن بنا د یا جائے۔ عمران خان کی حبّ الوطنی پر ہمیں کو ئی شک نہیں ہے لیکن وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے میاں صاحب کا نہیں اِس پاکستان کابہت نقصان کر رہے ہیں۔ جب وزیر اعظم کے استعفیٰ کے بغیر وہ جوڈیشل انکوائری پر رضامند ہو چکے ہیں تو پھر اِس کارِ خیر کو آگے بڑھنے دیں۔
جلاؤ گھیراو ٔاور مارنے مر جانے کی باتوں سے وہ کس کے عزائم کو پورا کر رہے ہیں۔ ا ضطراب، اشتعال اور ہیجان کی کیفیت میں مبتلا رہ کر پاکستان بھلا کس طرح آگے بڑھ سکتا ہے۔ خدارا اپنی جھوٹی انا کے خول سے باہر نکل کر کچھ اِس قوم کی حالتِ زار کا بھی سوچیں۔ اُسے اِس غیر یقینی صورتحال اور مایوسیوں کے اندھیروںسے باہر نکالیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کے بھی ہاتھ کچھ نہ آئے اور ہم صرف دھرنے کی سنچریاں بنا کر ہی خوش ہوتے رہیں۔
خدا وہ دن ہی نہ لائے کہ سوگوار ہوں ہم!
لوگ اُن کے پاس بلا کسی خوف و خطر جایا کریں گے۔ تھانوں میں کام کرنے والے سبھی سنتری، کانسٹیبل اور افسران نیکی اور بھلائی کی روشن مثال بن کر اِس قوم کی دن رات خدمت کیا کریں گے۔ سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑا کوئی بھی ٹریفک کانسٹیبل رشوت کی کمائی سے اپنی جیبیں نہیں بھر رہا ہو گا۔ تھانوں کی بولیاں نہیں لگا کرینگی۔ چوروں، ڈاکوؤں اور مجرموں کو فوراً گرفتار کر کے اُنہیں عدالتوں کے ذریعے سزا دلوائی جائے گی۔ جھوٹے گواہ اور اُن کے سرپرست سب کے سب ناپید ہو چکے ہوں گے۔ ہر طرف امن و آشتی ہو گی۔
سرکاری دفتروں میں صرف کام ہی کام ہو گا۔ فائلوں کو آگے بڑھانے اور چلانے کے لیے پہیے نہیں لگانے پڑیں گے۔ عوام الناس کی ساری مشکلات منٹوں میں حل ہو جایا کریںگی۔ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ احتساب کا قانون سخت ہو گا۔ مجرم چھوٹا ہو یا بڑا سب ہی کو قانون کے شکنجے سے گزرنا ہو گا۔ عدل و انصاف کا بول بالا ہو گا۔ ججوں کو دلیری سے منصفانہ فیصلے کرنے کا اختیار ہو گا۔ کوئی مالی معاونت اور پیسہ دیکر انصاف نہیں خرید پائے گا۔ یہ سب 30 نومبر کے بعد ہی ہو گا۔
وزیرِ اعظم ہاؤس، وزیرِ اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس لائبریریوں اور یونیورسٹیوں میں بدل جائیں گی۔ حکمران صرف اپنے ذاتی گھروں میں ہی رہا کریں گے اور ذاتی گاڑیاں استعمال کریں گے۔ اُن پر صَرف ہونے والا خرچ بھی بچے گا۔ وی آئی پی کلچر کا سدِباب ہو گا۔ وزیروں کے پروٹو کول میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کا نیلام ہو گا۔ ایک عام آدمی اور وی آئی پی سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو گا۔ بجلی، گیس اور پیٹرول انتہائی سستے داموں دستیاب ہوں گے۔ سارے ملک میں بجلی دو روپے فی یونٹ کر دی جائے گی۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا جائے گا۔ مہنگائی اور اشیائے صرف کی گرانی کا خاتمہ ہو گا۔ سب کو روزگار ملے گا۔ سرکاری اسپتالوں میں سستا اور بہترین علاج ہوا کرے گا۔ غریب عوام کو دوائیں بھی مفت ملا کریں گی۔ ڈاکٹر اپنی پرائیویٹ پریکٹس بھی اِن ہی اسپتالوں میں کیا کریں گے۔ نومولود بچوں کی اموات میں نمایاں کمی ہو جائے گی۔ زمینداری اور پٹواری نظام کا خاتمہ ہو گا۔ ضلعی سطح پر بلدیاتی الیکشن مقررہ تاریخ پر ہوا کرینگے۔ میٹرو بس جیسی پُر تعیش سہولت بند کر دی جائے گی کیونکہ بقول عمران خان قومی بجٹ پر یہ ایک غیر ضروری اضافی بوجھ ہے۔ اِس کی بجائے ملک کے اندر سب کو پینے کا صاف پانی ملا کریگا۔
یہ وہ سارے حسین اور سہانے خواب ہیں جن کی آس اور اُمید عمران خان نے پچھلے چند مہینوں سے قوم کو دلا رکھی ہے۔ موجودہ نظام پر تنقید کرتے ہوئے جن جن برائیوں اور خامیوں کا تذکرہ وہ اپنے ہر جلسے اور تقریر میں کیا کرتے ہیں اُن سے اُمید تو یہی کی جا سکتی ہے کہ اگر اُنہیں اقتدار مل گیا تو وہ سارا نظام ہی بدل ڈالیں گے۔ جس تبدیلی کی باتیں وہ ہر روز کیا کرتے ہیں اُس کی تخیلاتی تصویر توکچھ ایسی ہی بن سکتی ہے۔ اِس میں ہم نے آسمان سے تا رے توڑنے اور دودھ کی نہریں بہانے کی کوئی بات نہیں کی ہے۔
صرف اُنہی باتوں کا ذکر کیا ہے جن کی دلکش اور خوب صورت تصویر کشی وہ اپنے تاریخی دھرنے میں صبح و شام کیا کرتے ہیں۔ ہماری دعا ہے اللہ اُنہیں اگلے الیکشن میں ضرور سرخرو اور کامیاب کرے تا کہ یہ ملک اور قوم کو ایک نیا پاکستان دے سکیں۔
ایک نیا پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اِس قوم کو دیا تھا۔ پاکستانی قوم دنیا میں وہ واحد خوش قسمت قوم ہے جسے ایک سے زائد ماؤ زے تنگ، لینن اور چوائن لائی ملے اور ایک سے زائد نئے پاکستان ملے۔ ملک دو لخت ہو کر آدھا رہ گیا اور بچے کچے پاکستان کو نئے پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ سوشلزم اور کمیونزم کے اُصولوں پر عمل پیرا ہو کر ملک کے سارے معاشی نظام کو تبدیل کر دیا گیا۔ ملوں، کارخانوں اور کئی مالی اداروں کو قومی ملکیت میںلے کر حکومتی تحویل میں دے دیا گیا۔ بائیس خاندانوں کی امارت کا چرچہ کر کے ساری معیشت کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔
مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق نام پر ہر ادارے میں یونین سازی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ سیاسی وابستگی کے تحت اپنے چاہنے والوں کو خوب نوازا گیا۔ مزدور دوستی کا نعرہ لگا کر ہر منافع بخش ادارے میں گنجائش سے ذیادہ افراد بھرتی کر کے اُسے نیست و نابود کر دیا گیا۔ نجی بینکوں اور اسکولوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ نیشنلائزیشن کی پالیسی کو یہاں بھی جبراً رائج کر دیا گیا۔ نتیجتاً تباہی و بربادی اِن کا بھی مقدر بن گئی۔
ٹیچروں اور اُستادوں کی تنخواہوں میں اضافہ تو ضرور ہو ا لیکن معیارِ تعلیم گرتا چلا گیا۔ بینکوں کی حالت ڈاکخانوں جیسی اور اسکولوں کی حالت چراگاہوں جیسی کر دی گئی۔ مزدوروں کی طرح ٹیچروں کا مزاج بھی بدل گیا او ر وہ کام کرنے کی بجائے صرف حاضری لگا کر تنخواہیں لیتے رہے۔ ایوب دور کی ساری کامیابیوں پر پانی پھیر دیا گیا۔ ملکی اداروں میں مالی بد عنوانی اور کرپشن کو جو فروغ اِس دور میں حاصل ہوا شاید ہی اِس سے قبل پُرانے پاکستان میں ہوا ہو گا۔ اِسی لیے ہمارے بہت سے لوگوں کو نئے پاکستان کے نام سے بھی خوف آتا ہے۔ اب عمران خان تبدیلی کا نام لے کر نیا پاکستان بنانے نکلے ہیں۔ ملک کے اندر اب وہ بائیس خاندان تو نہیں رہے لیکن شریف برادران اور زرداری تو باقی ہیں جن کو نشانہ بنا کر عوام کو اُن سے بد دل اور بد ظن تو کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کام وہ تین سالوں سے بڑے انہماک اور لگن کے ساتھ کر رہے ہیں۔
اگر آج محترمہ بے نظیر زندہ ہوتیں تو زرداری کی بجائے وہی اُن کی تنقید کا ہدف بنتیں۔ لانگ مارچ سے شروع ہونے والے میوزیکل کنسرٹ کو جسے وہ احتجاجی دھرنے کا نام دیتے ہیں سو دن مکمل ہو چکے ہیں۔ حکومت گرانے کی تاریخوں کو آگے بڑھاتے بڑھاتے اب وہ اگلے سال کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ شہر شہر نگر نگر جلسے کرنے اور عوام کا شعوربلند کرنے کے ساتھ ساتھ ہر شام کو وہ اسلام آباد کے ڈی چوک پر حاضری ضرور دیتے ہیں۔ ایک سنچری بن چکی ہے اور دوسری کی تیاری ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر ہمارے 30 نومبر کے احتجاج کو روکا گیا تو وہ دو ہفتوں بعد پھر آ جائیں گے، اور پھر روکا گیا تو دوہفتوں بعد پھر آ جائیں گے۔ گویا یہ ہنگامہ یونہی جا ری و ساری رکھنا مقصود ہے۔ کامیابی ملے یا نہ ملے ملک کو آگے چلنے نہیں دینا ہے۔ نیا پاکستان اگر بنا نہیں پائے تو موجودہ پاکستان کو بھی روکے رکھنا ہے۔ معیشت کا پہیہ یونہی جام رکھنا ہے۔
گوادر سے کاشغر تک مجوزہ شاہراہ کو صرف کاغذوں تک ہی محدود رکھنا ہے۔ ترقی و خوشحالی کا کوئی راستہ اُن کے بغیر مکمل ہو نہ پائے۔ ورنہ خدشہ ہے جو نیا پاکستان بنانے کا وہ دعویٰ کر تے ہیں کہیں کسی اور کے ذریعے نہ بن جائے۔ چین کے صدر کا دورہ تو ڈی چوک کے ہنگامے کی نذر ہو گیا لیکن پاکستانی وزیرِ اعظم کا دورہ چین وہ روک نہ سکے۔ اب کو شش یہی ہے کہ وہاں ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمدکو ناممکن بنا د یا جائے۔ عمران خان کی حبّ الوطنی پر ہمیں کو ئی شک نہیں ہے لیکن وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے میاں صاحب کا نہیں اِس پاکستان کابہت نقصان کر رہے ہیں۔ جب وزیر اعظم کے استعفیٰ کے بغیر وہ جوڈیشل انکوائری پر رضامند ہو چکے ہیں تو پھر اِس کارِ خیر کو آگے بڑھنے دیں۔
جلاؤ گھیراو ٔاور مارنے مر جانے کی باتوں سے وہ کس کے عزائم کو پورا کر رہے ہیں۔ ا ضطراب، اشتعال اور ہیجان کی کیفیت میں مبتلا رہ کر پاکستان بھلا کس طرح آگے بڑھ سکتا ہے۔ خدارا اپنی جھوٹی انا کے خول سے باہر نکل کر کچھ اِس قوم کی حالتِ زار کا بھی سوچیں۔ اُسے اِس غیر یقینی صورتحال اور مایوسیوں کے اندھیروںسے باہر نکالیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کے بھی ہاتھ کچھ نہ آئے اور ہم صرف دھرنے کی سنچریاں بنا کر ہی خوش ہوتے رہیں۔
خدا وہ دن ہی نہ لائے کہ سوگوار ہوں ہم!