دنیا بھر سے ’’وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا‘‘
ایک شخص نے نیو یارک کے ایک پارک میں ایک پاگل کُتّے کو مار دیا کیونکہ وہ ایک معصوم بچے پر حملہ آور ہو رہا تھا، وقوعہ سے کچھ ہی دور موجود ایک پولیس والے نے جب یہ دیکھا تو وہ فوراً اس شخص کے نزدیک آیا اور اسکی تعریف کرتے ہوئے بولا کہ کل شہر کے تمام اخبارات میں یہ خبر ہوگی کہ ''ایک بہادر امریکی نے پاگل کُتّے سے ایک معصوم بچے کی جان بچائی '' ، اس شخص نے پولیس والے کو بتایا کہ وہ امریکی نہیں بلکہ پاکستانی ہے تو اگلے دن اخبارات کی سرخی کچھ یوں تھی کہ ''ایک پاکستانی مسلمان دہشت گرد نے ایک معصوم کُتّے کی جان لے لی''۔
ہ مختصر قصہ ایک مخصوص امریکی ذہنیت کی طویل داستان سناتا ہے کہ وہ بھی دہرے معیار کی بیماری سے پاک نہیں ہیں،کون نہیں جانتا کہ امریکی صدر کی رہائشگاہ کا نام 'وہائٹ ہاؤس' گوروں کی 'کالی ذہنیت' کاہی ایک شاخسانہ ہے جو اُن کی سیاہ فاموں کے ساتھ شدید نفرت کی عکاسی کر تا ہے اور دوسری طرف وہ انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ بھی کرتے نظر آتے ہیں اور دنیا کے ہرفورم پر اس کا پرچاربڑے فخر سے کرتے ہیں۔
امریکی ریاست میزوری کے شہر میں ہونے والے ایک المناک واقعے نے ایک دفعہ پھر امریکیوں کے انسانی حقوق سے متعلق دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔فرگوسن میں 18سالہ سیاہ فام نوجوان کو ایک پولیس اہلکار نے گولی مار کر ہلاک کر دیا اور گرینڈ جیوری نے ملزم پولیس اہلکار ڈیرن ولسن کو بیگناہ قراردیتے ہوئے فردِ جرم عائد نہیں کی اور فیصلے میں کہا کہ ولسن پر جرم ثابت نہیں ہوا حالانکہ اس نے چور سمجھ کر 18سالہ مائیکل براؤن کے سینے میں 5گولیاں اتاردی تھیں۔جیوری کے فیصلے کے بعد سینکڑوں افراد فرگوسن پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہو گئے اور تھانے کا گھیراؤ کر لیا جبکہ پولیس اور متاثرہ خاندان کے افراد کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی جس کے بعد مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیئے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیااور کشیدگی بڑھنے پر مشتعل مظاہرین نے پولیس کی 2گاڑیوں کے ساتھ ساتھ12عمارتوں کو بھی آگ لگا دی۔
یہ واقعہ اگر پاکستان میں بسنے والی کسی اقلیتی برادری کے فرد کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو اب تک' امریکہ صاحب بہادر'کی طرف سے کوئی نہ کوئی بیان آ چکا ہوتا جس میں پروپیگینڈے کے انداز میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ڈھنڈوراپیٹا گیا ہوتا لیکن اب چونکہ یہ واقعہ امریکہ میں پیش آیا ہے اس لیئے یہ کوئی بڑا واقعہ نہیں ہے کیونکہ کسی گورے کی جان نہیں گئی ورنہ قانون ضرور حرکت میں آتااور اگر کسی سیاہ فام نے کسی گورے کی جان لی ہوتی تو اب تک جیوری پورے سسٹم کو' ایک ٹانگ' پر کھڑاکر چکی ہوتی ۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یہاں ایسا واقعہ پیش آنا عین ممکن ہے لیکن امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں قانون سب کیلئے ایک جیسا نہ ہونا ایک اچنبھے کی بات ہے،یہاں پر امن و امان کی صورتحال پر انہیں ہمیشہ 'تشویش'رہتی ہے لیکن اب تشویش نام کی کوئی چیز انہیں چھو کر بھی نہیں گزر رہی،اوروہاں کی انسانی حقوق کی تنظیمیں خدا جانے کون سے اہم کام میں مصروف ہیں جو انہیں ایک معصوم سیاہ فام کی جان کے ضیاع پر کوئی تکلیف نہیں ہوئی ورنہ مطلب کی بات پر تو وہ ہر وقت 'رولا' ڈالے رکھتی ہیں اور دوسری طرف امریکی صدر باراک اوباما نے متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے دو لفظ بول کر اپنا 'فرض' ادا کر دیا کہ اگر احتجاج کرنا ہے تو پرامن طریقے سے کریں یعنی دوسرے لفظوں میں وہ فرما رہے ہیں کہ 'جومرضی کرو قاتل کو سزا نہیں ہوگی'۔
اس دہرے معیار کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے،ا نسانی حقوق کی تنظیموں کو اس سلسلے میں متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار ضرور ادا کرناچاہیئے۔اس دہرے معیار پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔