بنی گالہ سے لاڑکانہ تک
آپ کا تعلق خواہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو آپ پاکستان کے موجودہ سیاسی اکھاڑے میں اتر سکتے ہیں
KARACHI:
پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول کے تناظر میں اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا کہ آج کے دور میں یہاں سیاست کرنے کے لیے کسی خاص سیاسی نظریے، فکر اور فلسفے سے وابستگی ضروری نہیں اور نہ ہی سیاسی تربیت حاصل کرنا، جمہوری اقدار و اخلاقیات کی پاسداری کرنا شرط ہے۔ سنجیدگی و اخلاص نیت کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کرنے کا حقیقی جذبہ اور سیاست کے اسرار و رموز سے آگاہی نہ بھی ہو تو بھی آپ میدان سیاست میں داخل ہو کر تہلکہ مچا سکتے ہیں۔ آپ ریٹائرڈ جرنیل ہوں، جج ہوں، اسٹوڈنٹس لیڈر ہوں، صنعتکار و تاجر ہوں یا اداکار و کھلاڑی ہوں۔
آپ کا تعلق خواہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو آپ پاکستان کے موجودہ سیاسی اکھاڑے میں اتر سکتے ہیں۔ بس آپ کو ایک دو باتوں کا دھیان رکھنا ہو گا اول آپ کو پاکستانی قوم کی نفسیات کو سمجھنے اور ان کے جذبات کو ابھارنے کا ہنر آنا چاہیے آپ قوم کو سبز باغ دکھا کر ان میں مقبولیت حاصل کرنے کا گر جانتے ہوں دوم آپ کو جوشیلی و ہیجان انگیز تقریر کرنے کا فن آتا ہو اور آپ چند مخصوص اہداف، جو عوام کے لیے کشش رکھتے ہوں کو حاصل کرنے کے عزم کو تکرار کے ساتھ دہرانے میں مہارت رکھتے ہوں۔
سوئم آپ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نام اور کام کو استعمال کرنے کا سلیقہ جانتے ہوں تو بس سمجھ لیں کہ لوگ آپ کے پیچھے ہوں گے اور آپ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر کسی بھی جمہوری و منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کا شوق پورا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں و سیاسی مبصرین کے مطابق کچھ ایسے ہی ماحول میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ''سونامی'' بھی رواں دواں ہے۔
کرکٹ کے میدان میں ورلڈ کپ جیسی تاریخی فتح حاصل کرنے کے بعد جب عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو 18 سال تک ناکامی ان کا پیچھا کرتی رہی پھر انھوں نے پاکستانی قوم کی نفسیات کو سمجھا سیکھا اور یہاں کے مخصوص سیاسی کلچر اور عوامی خواہشات سے آگاہی حاصل کی اور آج کا عمران خان کرکٹ کے میدانوں سے حاصل ہونے والی شہرت و عوامی مقبولیت کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
خان صاحب نواز حکومت کو اپنے طویل دھرنے سے گرانے میں ناکامی کے بعد اب ملک بھر میں جلسے کر کے نواز حکومت ختم کر کے عوام کو ایک نیا پاکستان بنانے کی یقین دہانیاں کراتے ہوئے پرجوش تقریروں کے ذریعے لوگوں کو مستقبل کے ایسے ایسے سبز باغ دکھا رہے ہیں کہ جیسے ہی نواز حکومت کا خاتمہ ہو گا اور وہ برسر اقتدار آئیں گے تو ملک میں تبدیلی آ جائے گی اور نیا پاکستان بن جائے گا جہاں سرکار مدینہ کے دور جیسا نظام حکمرانی قائم ہو گا اور ہاری، کسان، وڈیرے، جاگیردار، مزدور، سرمایہ دار اور امیر و غریب سب محمود و ایاز کی صورت ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ عمران اپنے ہر جلسے میں کم و بیش یہی باتیں دہراتے چلے آ رہے ہیں۔
پنجاب کے مختلف شہروں میں جلسے کرنے کے بعد خان صاحب نے سندھ دھرتی کے سپوت ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی شہر لاڑکانہ کو بھی، سندھیوں اور بھٹو کے لازوال رومانوی رشتے کو سمجھے بغیر، اپنا ہدف بنایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بھٹو ازم کو شکست دے کر سندھ کو فتح کر سکتے ہیں۔ لاڑکانہ میں لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرنے کے دعوؤں کے باوجود پی ٹی آئی کے جلسے میں چند ہزار لوگ ہی شریک ہوئے۔
ماہرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق لاڑکانہ کے جلسے میں اکثریت شاہ محمود قریشی کے مریدوں اور انڑ و لغاری قبائل کے حامیوں کی تھی۔ پی ٹی آئی عام سندھیوں کو اپنے جلسے میں لانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ان کے تمام دعوے نقش برآب ثابت ہوئے۔ عمران خان نے لاڑکانہ کے جلسے میں بھی اپنی روایتی تقریر کو دہرایا جو وہ ہر جلسے میں کرتے ہیں۔ کہنے کے لیے ان کے پاس کوئی تازہ بات نہ تھی الزامات در الزامات سے مخالفین کو مطعون کرنا ان کی تقریر کا خاصا تھا البتہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور سندھ کی تقسیم کے حوالے سے عمران خان نے سندھیوں کی رضامندی کو لازمی قرار دے کر ماحول کو نارمل رکھنے کی موہوم سی کوشش ضرور کی۔
خان صاحب کا سندھ کے عوام کو غلامی سے نجات دلانے کا دعویٰ کرنا گویا یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ سندھ کے عوام غلامانہ زندگی بسر کر رہے ہیں جو سراسر لغو اور فضول بات ہے۔ غالباً عمران خان سندھ کی سیاسی تاریخ اور سندھی عوام و سیاسی رہنماؤں کی سیاسی جدوجہد سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ انھیں علم ہی نہیں کہ سندھ کے جس شہر لاڑکانہ میں کھڑے ہو کر وہ نیا پاکستان بنانے کے دعوے کر رہے ہیں اسی شہر میں آباد سیاسی خانوادے کے چشم و چراغ اور عالمی سطح پر شہرت و عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے مدبر سیاستداں ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط بنگال کے بعد ایک نئے اور توانا و روشن پاکستان کی بنیاد رکھ دی تھی اور ایٹمی قوت بنا کر اس کے وجود کو مضبوط و مستحکم بنا دیا تھا۔
یہ بھٹو ہی تھے جنھوں نے سیاست کو ڈرائنگ رومز سے نکال کر ہاریوں، کسانوں، مزدوروں، طالب علموں، غریبوں، محکوموں اور مظلوم عوام کے دلوں کی دھڑکن بنا دیا۔ یہ بھٹو ہی تھے جنھوں نے اسلامی دنیا کو متحد کرنے اور پاکستان کو عالمی برادری میں ایک باوقار مقام دلانے کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ یہ بھٹو جیسا جرأت مند و بہادر لیڈر ہی تھا جو امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا۔ یہ بھٹو ہی کا جنون اور حب الوطنی تھی کہ وہ بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا عہد رکھتے تھے بھٹو نئے پاکستان کو بہت آگے لے جانے کے لیے کوشاں تھے کہ بعض اندرونی و بیرونی قوتوں کے گٹھ جوڑ نے انھیں تختہ دار تک پہنچا دیا ۔
بعدازاں ان کی بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے نئے پاکستان کو آگے لے جانا چاہا لیکن انھیں بھی شہید کر دیا گیا اور پھر وطن عزیز مشکلات سے دوچار ہوتا چلا گیا۔ چار دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی سندھ کے عوام بھٹو اور بی بی کی لازوال قربانی کے معترف اور ان کی محبتوں و عقیدتوں کے اسیر ہیں۔ عمران سے پہلے بھی سیاسی رہنماؤں نے بھٹو اور سندھی عوام کی محبتوں کے قلعے میں دراڑیں ڈالنے کی سر توڑ کوششیں کیں لیکن ناکام رہے یہی ناکامی عمران خان کا بھی مقدر ہے۔ وہ انڑ و لغاری قبیلے کی بیساکھیوں اور بھٹو مخالف ابن الوقت قوتوں کی ہم رکابی کے باوجود بھٹو کا سندھ فتح نہیں کر سکتے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر شرمیلا فاروقی کے بقول عمران کے پاس کوئی نیا چہرہ اور پروگرام نہیں۔ وہ ان ہی پرانے چہروں کو جو پی پی پی اور (ن) لیگ سے وابستہ رہے اپنے ساتھ کھڑا کر کے نیا پاکستان کیسے بنائیں گے۔ شرمیلا فاروقی نے ایک بڑی خوبصورت بات کہی کہ دوسری جماعتوں کے منحرف لیڈر پی ٹی آئی میں آ جائیں تو نئے پاکستان کی پہچان بن جاتے ہیں اسی طرح عوام جب ہمارے جلسوں میں شریک ہوں تو بقول عمران وہ غلامی کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں تو یہی عوام جب عمران کے جلسوں میں آئیں تو تبدیلی اور نئے پاکستان کی علامت قرار پاتے ہیں جس سے خان صاحب کی سیاسی سوچ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے پی ٹی آئی کے جلسے کو کارنر میٹنگ سے تعبیر کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ لاڑکانہ کا جلسہ ناکام ثابت ہوا۔ انھوں نے بالکل درست کہا کہ اگر پی پی پی سندھ کے عوام کی خدمت نہ کرتی تو 2013ء کے انتخابات میں سندھ سے کلین سوئپ بھی نہ کرتی۔ شرجیل میمن نے واضح کیا کہ کالا باغ ڈیم پر عمران نے اپنے منشور سے یوٹرن لے کر سندھ کے عوام کو بیوقوف بنانے کی جو کوشش کی اس کو عوام اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے سندھ کے عوام گہرا سیاسی شعور رکھتے ہیں انھیں بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ عمران بھٹو جیسے وژنری و بلند قامت رہنما بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ بنی گالہ سے لاڑکانہ پہنچنے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول کے تناظر میں اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا کہ آج کے دور میں یہاں سیاست کرنے کے لیے کسی خاص سیاسی نظریے، فکر اور فلسفے سے وابستگی ضروری نہیں اور نہ ہی سیاسی تربیت حاصل کرنا، جمہوری اقدار و اخلاقیات کی پاسداری کرنا شرط ہے۔ سنجیدگی و اخلاص نیت کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کرنے کا حقیقی جذبہ اور سیاست کے اسرار و رموز سے آگاہی نہ بھی ہو تو بھی آپ میدان سیاست میں داخل ہو کر تہلکہ مچا سکتے ہیں۔ آپ ریٹائرڈ جرنیل ہوں، جج ہوں، اسٹوڈنٹس لیڈر ہوں، صنعتکار و تاجر ہوں یا اداکار و کھلاڑی ہوں۔
آپ کا تعلق خواہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو آپ پاکستان کے موجودہ سیاسی اکھاڑے میں اتر سکتے ہیں۔ بس آپ کو ایک دو باتوں کا دھیان رکھنا ہو گا اول آپ کو پاکستانی قوم کی نفسیات کو سمجھنے اور ان کے جذبات کو ابھارنے کا ہنر آنا چاہیے آپ قوم کو سبز باغ دکھا کر ان میں مقبولیت حاصل کرنے کا گر جانتے ہوں دوم آپ کو جوشیلی و ہیجان انگیز تقریر کرنے کا فن آتا ہو اور آپ چند مخصوص اہداف، جو عوام کے لیے کشش رکھتے ہوں کو حاصل کرنے کے عزم کو تکرار کے ساتھ دہرانے میں مہارت رکھتے ہوں۔
سوئم آپ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نام اور کام کو استعمال کرنے کا سلیقہ جانتے ہوں تو بس سمجھ لیں کہ لوگ آپ کے پیچھے ہوں گے اور آپ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر کسی بھی جمہوری و منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کا شوق پورا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں و سیاسی مبصرین کے مطابق کچھ ایسے ہی ماحول میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ''سونامی'' بھی رواں دواں ہے۔
کرکٹ کے میدان میں ورلڈ کپ جیسی تاریخی فتح حاصل کرنے کے بعد جب عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو 18 سال تک ناکامی ان کا پیچھا کرتی رہی پھر انھوں نے پاکستانی قوم کی نفسیات کو سمجھا سیکھا اور یہاں کے مخصوص سیاسی کلچر اور عوامی خواہشات سے آگاہی حاصل کی اور آج کا عمران خان کرکٹ کے میدانوں سے حاصل ہونے والی شہرت و عوامی مقبولیت کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
خان صاحب نواز حکومت کو اپنے طویل دھرنے سے گرانے میں ناکامی کے بعد اب ملک بھر میں جلسے کر کے نواز حکومت ختم کر کے عوام کو ایک نیا پاکستان بنانے کی یقین دہانیاں کراتے ہوئے پرجوش تقریروں کے ذریعے لوگوں کو مستقبل کے ایسے ایسے سبز باغ دکھا رہے ہیں کہ جیسے ہی نواز حکومت کا خاتمہ ہو گا اور وہ برسر اقتدار آئیں گے تو ملک میں تبدیلی آ جائے گی اور نیا پاکستان بن جائے گا جہاں سرکار مدینہ کے دور جیسا نظام حکمرانی قائم ہو گا اور ہاری، کسان، وڈیرے، جاگیردار، مزدور، سرمایہ دار اور امیر و غریب سب محمود و ایاز کی صورت ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ عمران اپنے ہر جلسے میں کم و بیش یہی باتیں دہراتے چلے آ رہے ہیں۔
پنجاب کے مختلف شہروں میں جلسے کرنے کے بعد خان صاحب نے سندھ دھرتی کے سپوت ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی شہر لاڑکانہ کو بھی، سندھیوں اور بھٹو کے لازوال رومانوی رشتے کو سمجھے بغیر، اپنا ہدف بنایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بھٹو ازم کو شکست دے کر سندھ کو فتح کر سکتے ہیں۔ لاڑکانہ میں لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرنے کے دعوؤں کے باوجود پی ٹی آئی کے جلسے میں چند ہزار لوگ ہی شریک ہوئے۔
ماہرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق لاڑکانہ کے جلسے میں اکثریت شاہ محمود قریشی کے مریدوں اور انڑ و لغاری قبائل کے حامیوں کی تھی۔ پی ٹی آئی عام سندھیوں کو اپنے جلسے میں لانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ان کے تمام دعوے نقش برآب ثابت ہوئے۔ عمران خان نے لاڑکانہ کے جلسے میں بھی اپنی روایتی تقریر کو دہرایا جو وہ ہر جلسے میں کرتے ہیں۔ کہنے کے لیے ان کے پاس کوئی تازہ بات نہ تھی الزامات در الزامات سے مخالفین کو مطعون کرنا ان کی تقریر کا خاصا تھا البتہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور سندھ کی تقسیم کے حوالے سے عمران خان نے سندھیوں کی رضامندی کو لازمی قرار دے کر ماحول کو نارمل رکھنے کی موہوم سی کوشش ضرور کی۔
خان صاحب کا سندھ کے عوام کو غلامی سے نجات دلانے کا دعویٰ کرنا گویا یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ سندھ کے عوام غلامانہ زندگی بسر کر رہے ہیں جو سراسر لغو اور فضول بات ہے۔ غالباً عمران خان سندھ کی سیاسی تاریخ اور سندھی عوام و سیاسی رہنماؤں کی سیاسی جدوجہد سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ انھیں علم ہی نہیں کہ سندھ کے جس شہر لاڑکانہ میں کھڑے ہو کر وہ نیا پاکستان بنانے کے دعوے کر رہے ہیں اسی شہر میں آباد سیاسی خانوادے کے چشم و چراغ اور عالمی سطح پر شہرت و عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے مدبر سیاستداں ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط بنگال کے بعد ایک نئے اور توانا و روشن پاکستان کی بنیاد رکھ دی تھی اور ایٹمی قوت بنا کر اس کے وجود کو مضبوط و مستحکم بنا دیا تھا۔
یہ بھٹو ہی تھے جنھوں نے سیاست کو ڈرائنگ رومز سے نکال کر ہاریوں، کسانوں، مزدوروں، طالب علموں، غریبوں، محکوموں اور مظلوم عوام کے دلوں کی دھڑکن بنا دیا۔ یہ بھٹو ہی تھے جنھوں نے اسلامی دنیا کو متحد کرنے اور پاکستان کو عالمی برادری میں ایک باوقار مقام دلانے کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ یہ بھٹو جیسا جرأت مند و بہادر لیڈر ہی تھا جو امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا۔ یہ بھٹو ہی کا جنون اور حب الوطنی تھی کہ وہ بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا عہد رکھتے تھے بھٹو نئے پاکستان کو بہت آگے لے جانے کے لیے کوشاں تھے کہ بعض اندرونی و بیرونی قوتوں کے گٹھ جوڑ نے انھیں تختہ دار تک پہنچا دیا ۔
بعدازاں ان کی بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے نئے پاکستان کو آگے لے جانا چاہا لیکن انھیں بھی شہید کر دیا گیا اور پھر وطن عزیز مشکلات سے دوچار ہوتا چلا گیا۔ چار دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی سندھ کے عوام بھٹو اور بی بی کی لازوال قربانی کے معترف اور ان کی محبتوں و عقیدتوں کے اسیر ہیں۔ عمران سے پہلے بھی سیاسی رہنماؤں نے بھٹو اور سندھی عوام کی محبتوں کے قلعے میں دراڑیں ڈالنے کی سر توڑ کوششیں کیں لیکن ناکام رہے یہی ناکامی عمران خان کا بھی مقدر ہے۔ وہ انڑ و لغاری قبیلے کی بیساکھیوں اور بھٹو مخالف ابن الوقت قوتوں کی ہم رکابی کے باوجود بھٹو کا سندھ فتح نہیں کر سکتے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر شرمیلا فاروقی کے بقول عمران کے پاس کوئی نیا چہرہ اور پروگرام نہیں۔ وہ ان ہی پرانے چہروں کو جو پی پی پی اور (ن) لیگ سے وابستہ رہے اپنے ساتھ کھڑا کر کے نیا پاکستان کیسے بنائیں گے۔ شرمیلا فاروقی نے ایک بڑی خوبصورت بات کہی کہ دوسری جماعتوں کے منحرف لیڈر پی ٹی آئی میں آ جائیں تو نئے پاکستان کی پہچان بن جاتے ہیں اسی طرح عوام جب ہمارے جلسوں میں شریک ہوں تو بقول عمران وہ غلامی کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں تو یہی عوام جب عمران کے جلسوں میں آئیں تو تبدیلی اور نئے پاکستان کی علامت قرار پاتے ہیں جس سے خان صاحب کی سیاسی سوچ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے پی ٹی آئی کے جلسے کو کارنر میٹنگ سے تعبیر کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ لاڑکانہ کا جلسہ ناکام ثابت ہوا۔ انھوں نے بالکل درست کہا کہ اگر پی پی پی سندھ کے عوام کی خدمت نہ کرتی تو 2013ء کے انتخابات میں سندھ سے کلین سوئپ بھی نہ کرتی۔ شرجیل میمن نے واضح کیا کہ کالا باغ ڈیم پر عمران نے اپنے منشور سے یوٹرن لے کر سندھ کے عوام کو بیوقوف بنانے کی جو کوشش کی اس کو عوام اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے سندھ کے عوام گہرا سیاسی شعور رکھتے ہیں انھیں بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ عمران بھٹو جیسے وژنری و بلند قامت رہنما بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ بنی گالہ سے لاڑکانہ پہنچنے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔