خواتین پر تشدد لمحہ فکریہ
اس پارلر کی خا ص بات یہ ہے کہ وہاں کی ماہر حسن وہ لڑکیاں ہیں جن کے چہرے بھیا نک انداز میں جلے ہوئے ہیں
سمن آباد کی ایک صبح کا منظر تھا جب ایک ماں اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے جا رہی تھی اس خاتون نے کچھ عرصے قبل ہی اپنے ظالم شوہر سے روز روز کی مار پیٹ سے تنگ آ کر علیحدگی حاصل کی تھی اب اپنے بچوں کے ساتھ پر سکون زندگی گزارنا چا ہتی تھی وہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت پر توجہ رکھنا چا ہتی تھی اسی لیے وہ انھیں صبح سویرے اسکول چھوڑنے آئی تھی لیکن اس کے سابقہ شوہر کو اس کی یہ آزادی ایک آنکھ نہ بھائی تھی۔
حسد و انا کی آگ میں جلتے اس نے تیزاب کی بھری بو تل اس پر انڈیل دی۔ یہ واقعے کسی دور دراز گاؤں دیہات کے جاہل دہقان کے ہاتھوں نہیں پیش آیا بلکہ شہری علا قے میں رہنے والے کے ہاتھوں انجام پایا اس قسم کے درجنوں واقعات ہما رے معاشرے کا حصہ ہیں وہ بدنصیب لڑکیاں و خواتین جو زندہ درگور ہو جاتی ہیں ان میں وہ بھی شا مل ہیں جن کے اپنے قریبی رشتے بطور سزا ناک کاٹ دیتے اور انھیں سا ری زندگی منہ چھپا کر جینا پڑتا ہے۔
ایک جانب ہمارے سماج میں شدت پرست افراد ہمارے معاشرے کا ناسور ہیں وہاں چند قابل ستائش افراد بھی ہیں جو ان خواتین کے زخموں پر ہر ممکن مر ہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک بیوٹی پارلر کی بات میں یہاں کرنا چاہوں گی۔
اس پارلر کی خا ص بات یہ ہے کہ وہاں کی ماہر حسن وہ لڑکیاں ہیں جن کے چہرے بھیا نک انداز میں جلے ہوئے ہیں جنھیں معاشرے کے انا پر ست بیمار ذہنیت مردوں نے اپنی بدلے کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ تیزاب اور جلا ئے جا نے والی ان لڑکیوں کا کو ئی پر سان حال نہیں وہ اپنے جلے ہو ئے چہروں کے سا تھ زندگی کو کس طرح انجوائے کر سکتی ہیں کہ نہ کو ئی ذریعہ معاش ہے نہ کو ئی پنا ہ! بیوٹی پارلر کی اونر مسرت مصباح نے اس نیک کا م کا بیڑ ہ اٹھایا وہ قابل تعریف ہیں کہ معاشرے کی ستائی ہوئی ان بے سہارا لڑکیوں کے روزگار اور علا ج کا انتظام کرتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواتین پر تشدد اور تیزاب پھینکنے کے واقعات عام ہو تے جا رہے ہیں، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کو ئی سخت اقدامات نظر نہیں آتے۔ پاکستان میں 2009ء کی نسبت2010 ء میں خواتین پر جبروتشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
2013ء کے سماجی سروے کے مطا بق پاکستان دنیا بھر میں خوا تین پر تشدد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے جہا ں گھر یلو تشدد کو شکار ہونے والی عورتوں کا تناسب نوے فی صد ہے یہ بھی بد قسمتی ہے کہ جو خواتین اس ظلم کا شکار ہوئیں ان میں اکثریت کے کیس رجسٹر ہی نہیں کیے جاتے کہیں بدنامی کے خوف سے تو کہیں اس ڈر سے کہ خوا مخواہ کی دشمنی ہو گی ملزم کو سزا نہیں ملتی۔ وہ عدالت کے کٹہرے سے باعزت بری ہوکر واپس آ جاتا ہے ہمارے قوانین کمزور ہیں ایسی بہت ہی کم مثالیں ہیںجو ملزم نے اپنے کیے کی سزا بھگتی ہو۔
ہیو من رائٹس کمیشن آف پا کستا ن ایک ایسا ادارہ ہے جو سماج میں محروم طبقے کے لیے انصاف کی آواز اٹھا تا ہے۔ جو مذہب رنگ نسل، زباں اور علا قے کی تفریق کے بنا سب کے حقوق کی بات کرتا ہے یہ ادارہ 80ء کی دہائی میں قائم ہوا، اور 1990ء میں اس ادارے نے پاکستان میں اپنی سالانہ رپوٹوں کا دائرہ کار شروع کیا۔ پاکستان میں انسانی حقوق خصوصاً خواتین پر تشدد کے واقعات پر یہ رپورٹیں کم صفحات پر مشتمل تھیں پھر ان میں اضا فہ ہو تا گیا ان رپورٹوں میں عمر بھر کے لیے معذور کیے جانے، جنسی تشدد، اغواء و زنا، خودکشی، چولھا پھٹنے اور تیزاب سے جلائے جا نے کی دلخراش داستانیں شامل ہیں، جس قدر بھیا نک احوال اس ضخیم رپورٹ کا ہے دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔
یہ ہما رے مسلم معاشرے کی بے حسی اور سنگ دلی کا منہ بو لتا ثبوت ہے مسلم معاشرے میں یہ سب وہ لوگ کر تے ہیں جنھوں نے ا سلام کا کلمہ پڑھا ہے لیکن خطبہ حجتہ الوداع کے پیا رے خطیبﷺ کی بات بھول گئے جنھوں نے فرمایا ''لو گو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو وہ تمھارے پا س خدا کی امانت ہیں، پس تم ان سے نیک سلوک کرو، تمھارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔'' عورتوں کو تعلیم کا حق دیا گیا لیکن شما لی علا قوں میں شدت پسند وں کے ہا تھوں لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تہس نہس کیا جا رہا ہے ایسا لگتا ہے ہم قبل اسلام کے زمانے میں داخل ہو گئے ہیں جب عورت دنیا میں با عث شرم و ذلت اور گناہ سمجھی جا تی تھی۔
اقوام متحدہ کے قیام نے جہاں دنیا کے مسائل حل کرنے میں مدد دی وہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں، ادارے قا ئم ہو ئے اقوام متحد ہ نے25 نومبر کو خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن قرار دیا اس دن کا پس منظر تین بہنوں کا المناک قتل تھا جن کا گنا ہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنے ملک کے ایک ظالم و جابر آمر سے ٹکر لی۔ 25 نومبر1960ء کو ڈومینکن ری پبلک کے آمر را فیل لیونڈیس مولینا (Refael Leanidas Molina) نے مرابیل نامی چار بہنوں کو ان کی گستاخیوں کی سخت سزا دی ان کے خاندان کو کئی بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔
آخر 25 نومبر کو تین بہنوں کو بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ اس قتل سے پورے ملک میں غم و غصے کی آگ بھڑک اٹھی، عوامی احتجاج رنگ لایا اور رافیل کو حکومت چھوڑنا پڑی۔ ڈومینکن ری پبلک کے نمایندے نے 74 ممالک کی حمایت کے ساتھ اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی اس دن کو خواتین پر تشدد کے حوالے سے منا نے کا اعلان ہوا۔ ڈومینکن عوام نے ان بہنوں کی جدوجہد پر خراج تحسین پیش کیا، انھیں ''نا قابل فراموش تتلیاں'' کے لقب سے یادگار بنا دیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطا بق دنیا بھر میں 70 سے 80 فی صد خواتین کو زندگی کے کسی مرحلے میں تشدد اور جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں پندرہ سے چا لیس سال کی عورتوں اور لڑکیوں کے لیے زنا اور گھریلو تشدد کے واقعات میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
دیہی اور قبائلی علا قوں میں کاروکا ری کی رسم جا ری ہے ایک قبیلے کا دوسرے دشمن قبیلے سے خون بہا کے بدلے لڑکی کو ونی کر نے کا رواج ہے اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جا تی کہ مرد کتنا بڑا ہے یا معذور ہے، ایسے جرائم کو روکنے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک قانون پا س کیا گیا ہے جس کے تحت زبردستی کی شادی پر قید اور جرما نہ کی سزا ئیں رکھی گئی ہیں اگر یہ قابل عمل بھی ہو تو بہت اچھا فیصلہ ہے۔ کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانو ن کا دہرا نظام ہے
دیکھا جا ئے تو عالمی حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی دہرا معیار اپنائے ہوئے ہیں اس کی شرمناک مثال عا فیہ صد یقی کیس ہے۔ اس عورت پر کیے گئے ظلم و ستم کے خلا ف یہ تنظیمیں مجرمانہ خاموشی اپنائے ہوئے ہیں قدرت کا نظام ہے کہ نیکی اور بدی آپس میں صف آرا رہی ہیں ان سب با توں کا روشن پہلو یہ ہے کہ خوا تین کو اپنے حقوق کی پہلے سے زیا دہ آگا ہی ہو رہی ہے جن جرا ئم کی پہلے پردہ پو شی کی جا تی تھی اب کھل کر عوام کے سا منے آ رہے ہیں یہ کارنامہ کا فی حد تک ان دلیر صحا فیوں کے سر جا تا ہے۔
مختاراں مائی کیس ہو یا نصیر آباد اور خیرپور میں پیش آنے والے نا قابل یقین وا قعات ہو ں ان آوازوں نے ایوان با لا کو ہلا کر رکھ دیا اسی لیے ہر بڑا لیڈر اور صا حب اختیار ان سے نا لاں نظر آتا ہے۔ خواتین پر تشدد کے خلا ف معاشرے میں درد مند دل رکھنے والے اپنا کر دار اداکر رہے ہیں ۔
حسد و انا کی آگ میں جلتے اس نے تیزاب کی بھری بو تل اس پر انڈیل دی۔ یہ واقعے کسی دور دراز گاؤں دیہات کے جاہل دہقان کے ہاتھوں نہیں پیش آیا بلکہ شہری علا قے میں رہنے والے کے ہاتھوں انجام پایا اس قسم کے درجنوں واقعات ہما رے معاشرے کا حصہ ہیں وہ بدنصیب لڑکیاں و خواتین جو زندہ درگور ہو جاتی ہیں ان میں وہ بھی شا مل ہیں جن کے اپنے قریبی رشتے بطور سزا ناک کاٹ دیتے اور انھیں سا ری زندگی منہ چھپا کر جینا پڑتا ہے۔
ایک جانب ہمارے سماج میں شدت پرست افراد ہمارے معاشرے کا ناسور ہیں وہاں چند قابل ستائش افراد بھی ہیں جو ان خواتین کے زخموں پر ہر ممکن مر ہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک بیوٹی پارلر کی بات میں یہاں کرنا چاہوں گی۔
اس پارلر کی خا ص بات یہ ہے کہ وہاں کی ماہر حسن وہ لڑکیاں ہیں جن کے چہرے بھیا نک انداز میں جلے ہوئے ہیں جنھیں معاشرے کے انا پر ست بیمار ذہنیت مردوں نے اپنی بدلے کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ تیزاب اور جلا ئے جا نے والی ان لڑکیوں کا کو ئی پر سان حال نہیں وہ اپنے جلے ہو ئے چہروں کے سا تھ زندگی کو کس طرح انجوائے کر سکتی ہیں کہ نہ کو ئی ذریعہ معاش ہے نہ کو ئی پنا ہ! بیوٹی پارلر کی اونر مسرت مصباح نے اس نیک کا م کا بیڑ ہ اٹھایا وہ قابل تعریف ہیں کہ معاشرے کی ستائی ہوئی ان بے سہارا لڑکیوں کے روزگار اور علا ج کا انتظام کرتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواتین پر تشدد اور تیزاب پھینکنے کے واقعات عام ہو تے جا رہے ہیں، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کو ئی سخت اقدامات نظر نہیں آتے۔ پاکستان میں 2009ء کی نسبت2010 ء میں خواتین پر جبروتشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
2013ء کے سماجی سروے کے مطا بق پاکستان دنیا بھر میں خوا تین پر تشدد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے جہا ں گھر یلو تشدد کو شکار ہونے والی عورتوں کا تناسب نوے فی صد ہے یہ بھی بد قسمتی ہے کہ جو خواتین اس ظلم کا شکار ہوئیں ان میں اکثریت کے کیس رجسٹر ہی نہیں کیے جاتے کہیں بدنامی کے خوف سے تو کہیں اس ڈر سے کہ خوا مخواہ کی دشمنی ہو گی ملزم کو سزا نہیں ملتی۔ وہ عدالت کے کٹہرے سے باعزت بری ہوکر واپس آ جاتا ہے ہمارے قوانین کمزور ہیں ایسی بہت ہی کم مثالیں ہیںجو ملزم نے اپنے کیے کی سزا بھگتی ہو۔
ہیو من رائٹس کمیشن آف پا کستا ن ایک ایسا ادارہ ہے جو سماج میں محروم طبقے کے لیے انصاف کی آواز اٹھا تا ہے۔ جو مذہب رنگ نسل، زباں اور علا قے کی تفریق کے بنا سب کے حقوق کی بات کرتا ہے یہ ادارہ 80ء کی دہائی میں قائم ہوا، اور 1990ء میں اس ادارے نے پاکستان میں اپنی سالانہ رپوٹوں کا دائرہ کار شروع کیا۔ پاکستان میں انسانی حقوق خصوصاً خواتین پر تشدد کے واقعات پر یہ رپورٹیں کم صفحات پر مشتمل تھیں پھر ان میں اضا فہ ہو تا گیا ان رپورٹوں میں عمر بھر کے لیے معذور کیے جانے، جنسی تشدد، اغواء و زنا، خودکشی، چولھا پھٹنے اور تیزاب سے جلائے جا نے کی دلخراش داستانیں شامل ہیں، جس قدر بھیا نک احوال اس ضخیم رپورٹ کا ہے دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔
یہ ہما رے مسلم معاشرے کی بے حسی اور سنگ دلی کا منہ بو لتا ثبوت ہے مسلم معاشرے میں یہ سب وہ لوگ کر تے ہیں جنھوں نے ا سلام کا کلمہ پڑھا ہے لیکن خطبہ حجتہ الوداع کے پیا رے خطیبﷺ کی بات بھول گئے جنھوں نے فرمایا ''لو گو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو وہ تمھارے پا س خدا کی امانت ہیں، پس تم ان سے نیک سلوک کرو، تمھارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔'' عورتوں کو تعلیم کا حق دیا گیا لیکن شما لی علا قوں میں شدت پسند وں کے ہا تھوں لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تہس نہس کیا جا رہا ہے ایسا لگتا ہے ہم قبل اسلام کے زمانے میں داخل ہو گئے ہیں جب عورت دنیا میں با عث شرم و ذلت اور گناہ سمجھی جا تی تھی۔
اقوام متحدہ کے قیام نے جہاں دنیا کے مسائل حل کرنے میں مدد دی وہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں، ادارے قا ئم ہو ئے اقوام متحد ہ نے25 نومبر کو خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن قرار دیا اس دن کا پس منظر تین بہنوں کا المناک قتل تھا جن کا گنا ہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنے ملک کے ایک ظالم و جابر آمر سے ٹکر لی۔ 25 نومبر1960ء کو ڈومینکن ری پبلک کے آمر را فیل لیونڈیس مولینا (Refael Leanidas Molina) نے مرابیل نامی چار بہنوں کو ان کی گستاخیوں کی سخت سزا دی ان کے خاندان کو کئی بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔
آخر 25 نومبر کو تین بہنوں کو بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ اس قتل سے پورے ملک میں غم و غصے کی آگ بھڑک اٹھی، عوامی احتجاج رنگ لایا اور رافیل کو حکومت چھوڑنا پڑی۔ ڈومینکن ری پبلک کے نمایندے نے 74 ممالک کی حمایت کے ساتھ اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی اس دن کو خواتین پر تشدد کے حوالے سے منا نے کا اعلان ہوا۔ ڈومینکن عوام نے ان بہنوں کی جدوجہد پر خراج تحسین پیش کیا، انھیں ''نا قابل فراموش تتلیاں'' کے لقب سے یادگار بنا دیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطا بق دنیا بھر میں 70 سے 80 فی صد خواتین کو زندگی کے کسی مرحلے میں تشدد اور جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں پندرہ سے چا لیس سال کی عورتوں اور لڑکیوں کے لیے زنا اور گھریلو تشدد کے واقعات میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
دیہی اور قبائلی علا قوں میں کاروکا ری کی رسم جا ری ہے ایک قبیلے کا دوسرے دشمن قبیلے سے خون بہا کے بدلے لڑکی کو ونی کر نے کا رواج ہے اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جا تی کہ مرد کتنا بڑا ہے یا معذور ہے، ایسے جرائم کو روکنے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک قانون پا س کیا گیا ہے جس کے تحت زبردستی کی شادی پر قید اور جرما نہ کی سزا ئیں رکھی گئی ہیں اگر یہ قابل عمل بھی ہو تو بہت اچھا فیصلہ ہے۔ کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانو ن کا دہرا نظام ہے
دیکھا جا ئے تو عالمی حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی دہرا معیار اپنائے ہوئے ہیں اس کی شرمناک مثال عا فیہ صد یقی کیس ہے۔ اس عورت پر کیے گئے ظلم و ستم کے خلا ف یہ تنظیمیں مجرمانہ خاموشی اپنائے ہوئے ہیں قدرت کا نظام ہے کہ نیکی اور بدی آپس میں صف آرا رہی ہیں ان سب با توں کا روشن پہلو یہ ہے کہ خوا تین کو اپنے حقوق کی پہلے سے زیا دہ آگا ہی ہو رہی ہے جن جرا ئم کی پہلے پردہ پو شی کی جا تی تھی اب کھل کر عوام کے سا منے آ رہے ہیں یہ کارنامہ کا فی حد تک ان دلیر صحا فیوں کے سر جا تا ہے۔
مختاراں مائی کیس ہو یا نصیر آباد اور خیرپور میں پیش آنے والے نا قابل یقین وا قعات ہو ں ان آوازوں نے ایوان با لا کو ہلا کر رکھ دیا اسی لیے ہر بڑا لیڈر اور صا حب اختیار ان سے نا لاں نظر آتا ہے۔ خواتین پر تشدد کے خلا ف معاشرے میں درد مند دل رکھنے والے اپنا کر دار اداکر رہے ہیں ۔