پاکستان ایک نظر میں پہلے آگ تو بجھا دیجئے
آج ہم جسم سے بم باندھ کر جنازوں تک کو نہیں بخشتے۔کسی کی جان لینے کیلئے بس اس سے اختلاف ہونا ہی واحد شرط قرار پائی ہے۔
ہم کہ شعلہ بھی ہیں شبنم بھی
تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو
یہ ذکر کسی اور کا نہیں سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کا ہے۔ ہم نے تو ذرائع ابلاغ میں انہیں ہمیشہ جوش کے عالَم میں ہی دیکھا ہے، مگر ان سے ذاتی راہ و رسم رکھنے والے بتاتے ہیں کہ وہ ایسے بھی غصیلے نہیں۔ دوران گفتگو شگفتہ بیانی سے اپنے مہمان کو محظوظ کرتے رہتے ہیں۔ بہت سادہ آدمی ہیں، حقیقی معنوں میں متوسط طبقے سے نکل کر آنے والے ایسے سیاست دان، جس نے زمانہ طالب علمی سے ہی یہاں کی سیاست میں قدم رکھ دیا تھا۔ منور حسن اور ان کی جماعت کے ہماری سیاست میں انفرادیت کا اعتراف اس کے مخالفین بھی کرتے ہیں کہ یہ کسی خاندان یا شخصیت کی جاگیر نہ رہی۔ نہ ہی اس کی قیادت کسی مخصوص علاقے کے لوگوں کی میراث بنی۔ کچھ اور جماعتیں بھی اسی بات کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر جماعت اسلامی کو یہ برتری کہ یہ اپنے بانی کے گزر جانے کے باوجود ایک نظام کے تحت رواں دواں ہے۔
ناقدین کے مطابق یہ جماعت صرف اپنے کارکنان کے ہی ووٹ لے پاتی ہے، جو کہ ملک کے طول وارض میں دور دور تک بکھرے ہیں۔ ایم کیو ایم سے پہلے کراچی اور حیدرآباد ملک بھر میں ان کے مضبوط ترین قلعے جانے جاتے تھے، اس کے بعد یہ کئی مرتبہ ڈوبتی اور ابھرتی رہی۔ 1980 کی دہائی میں خطے کی صورت حال تبدیل ہوئی اور پھر شدت پسندی کا آسیب دہشت گردی کی صورت میں یہاں سے لے کر وہاں تک ہمیں اپنی گرفت میں لیتا چلا گیا، تو جماعت اسلامی کبھی کبھی ایسی باتیں کرجاتی کہ تنقید کرنے والے اسے دہشت گردی کا حامی قرار دے ڈالتے۔ تازہ واقعہ ہی لیجیے کہ ابھی ابھی امارت سے سبک دوش ہونے والے منور حسن نے لاہور کے اجتماع میں فن خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے ایک ایسی ہی بات کرڈالی کہ ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ فرمایا جہاد کے بغیر انقلاب نہیں آسکتا۔
اسلام کے حوالے سے واجبی سے معلومات رکھنے کے باعث میں اسے درست یا غلط کہنے کے قابل تو نہیں، تاہم معاشرے کی موجودہ حالت دیکھ کر یہ کہنے کی جسارت ضرور کر سکتا ہوں کہ ہمارے جذباتی ماحول میں اس کے نہایت غلط معنی اخذ کئے جانے کا خدشہ ہے! ایسے ناسمجھ ماحول میں جہاں لوگ محض اختلاف رائے پر گولی مار دیتے ہوں، کافر اورواجب القتل ہونے کے فتوے لگا دیتے ہوں، بندوق کی نوک پر عقائد بدلنے پرمجبور کرتے ہوں، اقلتییں تو اقلیتیں، مسلمانوں کے ہی مختلف گروہوں کی جان کے درپے ہوں، برداشت اور تحمل ناپید ہو، اس معاشرے میں تو پہلے لوگوں کو منہ کھولنے کی تمیز اور بند کرنے کے آداب سکھانا زیادہ ضروری ہے۔
جہاں ہر ہاتھ میں ہی ہتھیار کسی کی بھی جان لینے کو مچل رہا ہو، وہاں پہلے تو اسے ہتھیار رکھنے اور کسی جان بچالینے کا درس دینا ضروری ہے۔ جہاں لوگوں کی عبادت گاہیں اور مقدس مقامات کو کارِثواب سمجھ کر مسمار کیا جا رہا ہو اور اس مجموعی صورت حال پر سماج پر ایک بے حسی طاری ہو، وہاں اس طرح کی بات کرنا، لرزہ سا طاری ہوتا ہے، مذہبی ارکان کا ذکر کرتے ہوئے کہ ہم نے اپنے دین کو کیا بنا رکھا ہے، ہماری جذباتیت ہمیں کہاں لیے جا رہی ہے۔ قتل وغارت اور خوں ریزی پر آپ اور میں آتے جاتے گلی کوچوں میں کیا سنتے ہیں ''ہاں اوئے، صحیح مارا ہے، ابے، اور مارنا چاہیے!''
جب ہم دین کے کام کا بیڑہ اٹھاتے ہیں تو پھر ہم پر یہ ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ملک میں ویسے ہی آگ لگی ہوئی ہے، شدت پسندی نے جہاد جیسے مقدس رکن کو بدنام کر دیا ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں کو تو دوسروں سے زیادہ شدت پسندی کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے۔ آگے بڑھ کر لوگوں کو سمجھانا چاہیے کہ مذہبی اختلاف پر جان لینا قطعی جہاد نہیں ہے۔ جہاد تو ریاست کا کام ہے، اور محض ہتھیار اٹھا کر دشمن سے لڑائی کوئی جنگ تو ہو سکتی ہے، لیکن جہاد نہیں! یہ تو ایک مقدس ترین لڑائی ہے، جو مکمل طور پر احترام انسانیت پر استوار ہے۔ یہ لڑائی تو کسی سرسبز درخت اور فصلوں کو نقصان پہنچانے سے منع کرتی ہے، بے گناہ انسان کی جان لینا تو بہت دور کی بات ہے۔ واضح طور پر منع فرمایا گیا کہ عورتوں، بزرگوں، بچوں اورجو نہتّے ہوںانہیں کچھ نہ کہنا مگر آج؟ آج تو ہم جسم سے بم باندھ کر جنازوں تک کو نہیں بخشتے۔ کسی کی جان لینے کے لئے بس اس سے اختلاف ہونا واحد شرط قرار پائی ہے، جہاں ایسی دہشت اور وحشت کا راج ہو۔ وہاں منور حسن کا بیان ہمارے برداشت سے عاری لوگوں کو کیا پیغام دے گا۔ کاش کوئی انہیں سمجھائے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو
یہ ذکر کسی اور کا نہیں سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کا ہے۔ ہم نے تو ذرائع ابلاغ میں انہیں ہمیشہ جوش کے عالَم میں ہی دیکھا ہے، مگر ان سے ذاتی راہ و رسم رکھنے والے بتاتے ہیں کہ وہ ایسے بھی غصیلے نہیں۔ دوران گفتگو شگفتہ بیانی سے اپنے مہمان کو محظوظ کرتے رہتے ہیں۔ بہت سادہ آدمی ہیں، حقیقی معنوں میں متوسط طبقے سے نکل کر آنے والے ایسے سیاست دان، جس نے زمانہ طالب علمی سے ہی یہاں کی سیاست میں قدم رکھ دیا تھا۔ منور حسن اور ان کی جماعت کے ہماری سیاست میں انفرادیت کا اعتراف اس کے مخالفین بھی کرتے ہیں کہ یہ کسی خاندان یا شخصیت کی جاگیر نہ رہی۔ نہ ہی اس کی قیادت کسی مخصوص علاقے کے لوگوں کی میراث بنی۔ کچھ اور جماعتیں بھی اسی بات کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر جماعت اسلامی کو یہ برتری کہ یہ اپنے بانی کے گزر جانے کے باوجود ایک نظام کے تحت رواں دواں ہے۔
ناقدین کے مطابق یہ جماعت صرف اپنے کارکنان کے ہی ووٹ لے پاتی ہے، جو کہ ملک کے طول وارض میں دور دور تک بکھرے ہیں۔ ایم کیو ایم سے پہلے کراچی اور حیدرآباد ملک بھر میں ان کے مضبوط ترین قلعے جانے جاتے تھے، اس کے بعد یہ کئی مرتبہ ڈوبتی اور ابھرتی رہی۔ 1980 کی دہائی میں خطے کی صورت حال تبدیل ہوئی اور پھر شدت پسندی کا آسیب دہشت گردی کی صورت میں یہاں سے لے کر وہاں تک ہمیں اپنی گرفت میں لیتا چلا گیا، تو جماعت اسلامی کبھی کبھی ایسی باتیں کرجاتی کہ تنقید کرنے والے اسے دہشت گردی کا حامی قرار دے ڈالتے۔ تازہ واقعہ ہی لیجیے کہ ابھی ابھی امارت سے سبک دوش ہونے والے منور حسن نے لاہور کے اجتماع میں فن خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے ایک ایسی ہی بات کرڈالی کہ ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ فرمایا جہاد کے بغیر انقلاب نہیں آسکتا۔
اسلام کے حوالے سے واجبی سے معلومات رکھنے کے باعث میں اسے درست یا غلط کہنے کے قابل تو نہیں، تاہم معاشرے کی موجودہ حالت دیکھ کر یہ کہنے کی جسارت ضرور کر سکتا ہوں کہ ہمارے جذباتی ماحول میں اس کے نہایت غلط معنی اخذ کئے جانے کا خدشہ ہے! ایسے ناسمجھ ماحول میں جہاں لوگ محض اختلاف رائے پر گولی مار دیتے ہوں، کافر اورواجب القتل ہونے کے فتوے لگا دیتے ہوں، بندوق کی نوک پر عقائد بدلنے پرمجبور کرتے ہوں، اقلتییں تو اقلیتیں، مسلمانوں کے ہی مختلف گروہوں کی جان کے درپے ہوں، برداشت اور تحمل ناپید ہو، اس معاشرے میں تو پہلے لوگوں کو منہ کھولنے کی تمیز اور بند کرنے کے آداب سکھانا زیادہ ضروری ہے۔
جہاں ہر ہاتھ میں ہی ہتھیار کسی کی بھی جان لینے کو مچل رہا ہو، وہاں پہلے تو اسے ہتھیار رکھنے اور کسی جان بچالینے کا درس دینا ضروری ہے۔ جہاں لوگوں کی عبادت گاہیں اور مقدس مقامات کو کارِثواب سمجھ کر مسمار کیا جا رہا ہو اور اس مجموعی صورت حال پر سماج پر ایک بے حسی طاری ہو، وہاں اس طرح کی بات کرنا، لرزہ سا طاری ہوتا ہے، مذہبی ارکان کا ذکر کرتے ہوئے کہ ہم نے اپنے دین کو کیا بنا رکھا ہے، ہماری جذباتیت ہمیں کہاں لیے جا رہی ہے۔ قتل وغارت اور خوں ریزی پر آپ اور میں آتے جاتے گلی کوچوں میں کیا سنتے ہیں ''ہاں اوئے، صحیح مارا ہے، ابے، اور مارنا چاہیے!''
جب ہم دین کے کام کا بیڑہ اٹھاتے ہیں تو پھر ہم پر یہ ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ملک میں ویسے ہی آگ لگی ہوئی ہے، شدت پسندی نے جہاد جیسے مقدس رکن کو بدنام کر دیا ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں کو تو دوسروں سے زیادہ شدت پسندی کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے۔ آگے بڑھ کر لوگوں کو سمجھانا چاہیے کہ مذہبی اختلاف پر جان لینا قطعی جہاد نہیں ہے۔ جہاد تو ریاست کا کام ہے، اور محض ہتھیار اٹھا کر دشمن سے لڑائی کوئی جنگ تو ہو سکتی ہے، لیکن جہاد نہیں! یہ تو ایک مقدس ترین لڑائی ہے، جو مکمل طور پر احترام انسانیت پر استوار ہے۔ یہ لڑائی تو کسی سرسبز درخت اور فصلوں کو نقصان پہنچانے سے منع کرتی ہے، بے گناہ انسان کی جان لینا تو بہت دور کی بات ہے۔ واضح طور پر منع فرمایا گیا کہ عورتوں، بزرگوں، بچوں اورجو نہتّے ہوںانہیں کچھ نہ کہنا مگر آج؟ آج تو ہم جسم سے بم باندھ کر جنازوں تک کو نہیں بخشتے۔ کسی کی جان لینے کے لئے بس اس سے اختلاف ہونا واحد شرط قرار پائی ہے، جہاں ایسی دہشت اور وحشت کا راج ہو۔ وہاں منور حسن کا بیان ہمارے برداشت سے عاری لوگوں کو کیا پیغام دے گا۔ کاش کوئی انہیں سمجھائے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔