موت کی آہٹ سننے کے بعد

یورپ کے حکماء و علماء و ادباء کا تذکرہ مرتب کر رہا ہوں۔ صرف یورپ کے جنات پیش نظر ہیں۔

rmvsyndlcate@gmail.com

KARACHI:
جانا تو ہم سب ہی کا ٹھہر چکا ہے۔ آج تم کل ہماری باری ہے۔ مگر یہ جانے کی کونسی ادا ہے کہ ہنستے بولتے محفل سے اٹھے ہیں اور اس کے بعد آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ بیچ میں ایک دفعہ جھلک دکھائی پھر غائب اور پھر اس کے بعد وہ یار نہیں آیا۔ بس پھر اس کی خبر ہی آئی۔ یہ ہمارے دوست عقیل روبی کا قصہ ہے۔

یار تو وہ جانے کس کس کا تھا اور کس کس محفل میں جا کر چہکتا بولتا تھا۔ بس جیسے اس کے قلم کی سمت مقرر نہیں تھی۔ ویسے ہی اس کی اپنی سمت بھی مقرر نہیں تھی۔ مگر ہم بھی سمجھتے رہے کہ وہ بس ہم یاروں کا یار ہے۔ آتا تھا تو آتا ہی چلا جاتا تھا مگر اس کے آنے کا بھی تو ایک طور تھا۔ اگلے زمانے کے بزرگوں اور یاروں کا ایک طور یہ تھا کہ جس گھر جائیں خالی ہاتھ نہیں جاتے تھے۔ تو وہ ہمارے بیچ اس طرح آتا تھا کہ دونوں ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ یہ کیا ہے۔ یہ جلیبیاں ہیں اور یہ اس پڑے میں کیا ہے۔ یہ سموسے ہیں، پیٹیز ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

اس کے قلم کا بھی یہی احوال تھا۔ ایک رنگ تھوڑا ہی تھا۔ لیجیے ایک مثل یاد آئی۔ گئے زمانے کے دلی کے ہنر مندوں کے متعلق مشہور تھا۔ دو ہاتھوں کی دس انگلیاں اور دس ہنر۔ کبھی تدریس کا پیشہ تو خیر ہوا۔ مگر نثر اور نظم کے میدانوں میں کتنے گل کھلائے۔ فلم کے لیے گیت لکھنے پر آئے تو بس جیسے فلمی گیت نگار ہی کی حیثیت سے نام پیدا کرنا ہے۔ ناول لکھنے پہ مائل ہوئے تو ناول کے بعد ناول۔ ڈرامہ لکھنے پر آئے مگر ٹھہریئے یہاں سے ایک اور طرح کا سفر شروع ہوتا ہے۔

یہ آج کا ڈرامہ کیا ہوا۔ ڈرامہ تو یونان والے لکھ گئے پھر تم کیوں اپنے طور پر جھک مار رہے ہو۔ یونانی ڈرامے سے غرض رکھو۔ اُدھر کا رخ کیا تو یونان نے پکڑ لیا۔ یونان، یونان، یونان۔ ہر ذکر یونان سے شروع ہو رہا ہے اور یونان تو علم دریاؤ ہے۔ یونانی فلسفہ، یونانی رزمیہ، یونانی شاعری، یونانی دیومالا، سقراط، ہومر، سیفو، سوفوکلیز، آدمی ہنر مند ہو اور قلم رواں ہو تو قدرداں کسی نہ کسی وقت میسر آ ہی جاتا ہے۔ یار تو یونان کے واسطے سے فقرہ بازی کرتے رہے۔ عقیل روبی یونانی۔ اتنا لمبا کھینچنے کی کیا ضرورت ہے۔ روبی دی گریٹ کہہ دو۔ بات پوری ہو جائے گی۔ لیکن سوفو کلینر کا کوئی ترجمہ ضیا محی الدین کی نظر سے گزرا اور انھوں نے اس عزیز کو لپک لیا۔ کرو ترجمے یونانی ڈراموں کے۔ ہم اسٹیج پر پیش کریں گے۔

لیکن طبیعت کو اور قلم کو قرار کہاں۔ اب کیا کر رہے ہو۔ یورپ کے حکماء و علماء و ادباء کا تذکرہ مرتب کر رہا ہوں۔ صرف یورپ کے جنات پیش نظر ہیں۔ نہیں، پھر اس کے بعد مشرق کے جنات کی طرف آؤں گا۔ یورپ کے جنات کا تذکرہ تو مرتب ہو گیا۔ مشرق کی طرف آتے آتے قلم کسی دوسری سمت میں چل پڑا۔

روبی کے ساتھ یہی مشکل تھی۔ کسی ایک فن پہ قناعت کرنا اور پِتہ مار کر اس میں اپنے جوہر دکھانا ایسی یکسوئی اور صبر آزمائی سے موصوف محروم تھے۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کا لپکا پڑ گیا تھا اور پھر حافظہ غضب کا پایا تھا۔ جتنا کچھ پڑھا تھا وہ ازبر تھا۔ سو جو مضمون زیر بحث آیا اس پر رواں ہو گئے۔ سو ہفت رنگ تو بن گئے مگر اس کے ساتھ بکھر بھی گئے۔ ایک کھونٹے سے لکھنے والا تھوڑی مدت بندھا رہے اور اس سے پیوست رہے تو اس واسطے سے پہنچانا جاتا ہے۔ بکھرواں ادیب کو کونسے واسطے سے شناخت کریں۔ ارے اگر فلمی گیت ہی لکھتے تھے تو جم کر بیٹھتے اور شکیل اور مجروح کے کندھوں سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے۔

تو اس عزیز کی جو طاقت تھی وہی اس کی کمزوری بن گئی۔ طبیعت میں آوارگی تھی۔ اشہب قلم بگٹٹ دوڑتا تھا۔ حافظہ ایسا کہ جیسے مال سے بھرا گودام ہو۔ جس محفل میں گئے معلومات کے دریا بہا دیے اور داستان در


داستان سنا کر محفل پر چھا گئے؎
پر ہائے آدمی تھا وہ خانہ خراب کیا

زبان کا میٹھا، طبیعت کا نرم، ہاتھ کھلا ہوا، حاتم کو اٹھاؤ اسے بٹھاؤ۔ ہم نے کبھی اپنے بیچ اسے خالی ہاتھ آتے نہ دیکھا۔ ارے کیا وہ اپنی ساری کمائی دوستوں پر لٹا دیتا تھا۔

اصل میں ایک مہذب معاشرے کی شان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ یک رنگ نہیں ہوتا اور ساری مخلوق کسی ایک سانچہ میں ڈھلی ہوئی نہیں ہوتی۔ یہ تو ڈکٹیٹروں اور مصلحین کا خبط ہوتا ہے کہ ایک سانچہ مقرر کیا اور طے کیا کہ معاشرے کے ہر فرد کو اسی سانچے میں ڈھالنا ہے۔ رنگارنگ معاشرے میں ہر رنگ کا بشیر نظر آتا ہے۔ اسی رنگ میں وہ اپنی شناخت پاتا ہے اور یکتا نظر آتا ہے۔ ایک قسم ایسی مخلوق کی بھی ہوتی ہے جس کا نام ہمارے زمانے میں عقیل روبی تھا۔

ایسے آدمی کی ایک شان یہ بھی ہوتی ہے کہ سب کی خوشی میں خوش مگر اپنے دکھ کا کسی کو پتہ نہیں دیتا۔ اور ہاں قدیم ہندوستان میں آدمی کا ایک طور یہ بھی تھا کہ جب آخری وقت آتا تو اسے پہلے سے اس کی آہٹ سنائی دے جاتی تھی۔ بس پھر وہ اپنوں پرایوں سے کنارہ کر کے جنگل میں نکل جاتا تھا۔ پھر وہیں سے وہ اس سمت میں نکل جاتا جہاں سے جانے والا واپس نہیں آیا کرتا۔ سو جب اسے وہ جان لیوا بیماری لگ گئی جسے کینسر کہتے ہیں تو اس نے یار و اغیار سے یکسر منہ موڑ لیا۔ محفلوں سے سرے سے غائب۔ ارے آتے آتے اور محفل میں جان محفل بنتے بنتے اچانک کہاں غائب ہو گیا۔ ٹیلی فون کرتے رہو، ادھر سے کوئی ہنکارا نہیں بھر رہا۔

بیچ میں افاقہ ہوا اور گمان ہوا کہ شاید ابھی اس دنیائے رنگ و بو میں کچھ اور سانس لینے ہیں، تھوڑا اور چہکنا مہکنا ہے۔ سو واپسی ہوئی مگر جلدی ہی پھر کنارہ کر لیا۔ پھر نظروں سے اوجھل اور بس پھر ہمیشہ کے لیے پردہ کر لیا ؎

متاعِ سخن پھیر لے کرچلو
بہت لکھنؤ میں رہے گھر چلو
Load Next Story