ایک نظر ادھر بھی

نبی بخش بلوچ جوکہ لیاری کے رہائشی ہیں جنھوں نے اپنے عملی زندگی کا آغاز بطور سماجی کارکن کے کیا۔

shabbirarman@yahoo.com

ایڈمنسٹریٹر کراچی رؤف اختر فاروقی نے کہاہے کہ بلدیہ عظمیٰ کے اسکولوں میں اسکاؤٹ، اسکول بینڈز کی تربیت ، ان ڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں کو فروغ دیا جائے گا۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی کا یہ مثبت فیصلہ ہے جسے سراہا جائے گا۔ جہاں تک لیاری زون میں بلدیاتی اسکولوں کا تعلق ہے تو یہاں کے ایم سی کے 54 اسکول ہیں جن میں9 سیکنڈری اسکول ہیں، ان میں 6 لڑکوں کے اور 3 لڑکیوں کی ہیں۔ 26 پرائمری کے اسکول ہیں ان میں سے 13 بوائز اور 13 گرلز اسکول ہیں۔ 3 اسکول مخلوط ہیں ۔ 14 ایلیمنٹری اور 2 لوئر سیکنڈری اسکول ہیں۔

ان تمام اسکولوں میں تقریباً 10 ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان اسکولوں میں اساتذہ کی کل تعداد 351 ہے ان میں 211 ٹیچرز مستقل ہیں اور 140 استاد کنٹریکٹ پر ملازم ہیں۔ ان میں سے 46 ٹیچرز اگست 2012 میں بھرتی ہوئے، ستمبر 2012 میں 26 نان ٹیچنگ اسٹاپ بھرتی ہوئے۔ 4 ٹیچرز اور ایک نائب قاصد نومبر 2012 کو اور دسمبر 2012 کو 90 ٹیچرز اور 10 سوئیپرز بھرتی کیے گئے۔ یہ تمام بھرتیاں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کی گئیں۔ جب کہ درجہ چہارم کے ملازمین کی تعداد 37 ہے۔ 128 نان ٹیچنگ مستقل ملازم ہیں۔ 30 ٹیچرز جوکہ لیاری کی سماجی کارکنوں پر مشتمل ہے رضاکارانہ طورپر بلا معاوضہ تعلیم دے رہے ہیں۔ قبل ازیں 140 ٹیچرز میں سے 135 ریٹائرڈ، انتقال اور ٹرانسفر کیے گئے ہیں۔

میونسپل کمشنر ساؤتھ محمد رئیسی کے تعاون سے بلدیاتی اسکولوں (لیاری زون میں) لیاری ٹاؤن آفس کے 100 ملازمین 80 ٹیچرز اور 20 نان ٹیچنگ کے طورپر خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

کنٹریکٹ کی بنیاد پر جو 140 ٹیچرز بھرتی کیے گئے ان میں سے 72 ٹیچرزکی کنٹریکٹ کی معیاد گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ختم تھا لیکن ان کے کنٹریکٹ میں توسیع نہیں کی گئی اور وہ اس دوران بلا معاوضہ بچوں کو پڑھاتے رہے اور انھیں اس دوران مالی مشکلات سے گزرنا پڑا اور ان کے گھروں میں فاقہ کشی کی بھی نوبت آئی۔ ان ملازمین نے اپنے کنٹریکٹ میں توسیع کرانے کے لیے مسلسل کوششیں کیں اور 16 اکتوبر 2014 کو ان 72 ملازمین کی کنٹریکٹ کی معیاد میں ایک سال کے لیے توسیع کی گئی اور انھیں یقین دہانی کرائی گئی کہ آیندہ دو ماہ بعد انھیں مستقبل کردیا جائے گا۔ خیال رہے کہ باقی ماندہ غیر مستقل 105 ملازمین میں سے 5 ملازمین ماہ نومبر میں اور باقی ملازمین دسمبر 2014 میں فارغ ہونے والے ہیں۔ ان ملازمین کا کہنا ہے کہ انھیں مستقل کیا جائے تاکہ وہ بے روزگاری کے بے رحم ستم سے بچ سکیں اور وہ آسودگی و یکسوئی سے طلبا و طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرسکیں۔

نبی بخش بلوچ جوکہ لیاری کے رہائشی ہیں جنھوں نے اپنے عملی زندگی کا آغاز بطور سماجی کارکن کے کیا۔ بہت ہی مخلص اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں، ان کی ذاتی کوششوں سے آج لیاری میں بلدیاتی اسکولز آباد ہیں۔ نبی بخش بلوچ ان دنوں بلدیاتی محکمہ تعلیم میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر (لیاری زون) میں تعینات ہیں ۔ انھوں نے ایک ملاقات میں بتایاکہ لیاری میں موجود بلدیاتی اسکولوں میں سے 6اسکول اپ ڈیٹ کیے گئے ہیں جن میں 3لوئر سیکنڈری اسکول کا درجہ دیا گیا ہے اور آیندہ مزید 3 اسکولوں کو پرائمری سے سیکنڈری اور 3 کو لوئر سیکنڈری کا درجہ دیا جائے گا۔


اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً ٹیچرز ٹریننگ کا اہتمام کیا گیا ہے جس وجہ سے تعلیم کے فروغ میں معیار پیدا ہوا ہے۔ انھوں نے کہاکہ لیاری زون کے بلدیاتی اسکولوں میں فروغ تعلیم کے لیے علاقے کے سماجی ادارے اور کارکن بھی بڑھ چڑھ کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان میں یوسف لاسی، شیر محمد شیرا، وحید شاد، اقبال دانش، امداد حسین، پرویز احمد،جہانگیر، عبدالحکیم کچھی، یحییٰ بلوچ اوردیگر شامل ہیں، ان کی انتھک محنت و کوششوں سے لیاری کے بلدیاتی اسکولز آباد ہیں۔

سندھ حکومت وعدے بھول گئی: ادھر باکسنگ کے کھیل میں پاکستان کے لیے عالمی مقابلوں کے دوران 2 طلائی، 4 چاندی اور کانسی کا ایک تمغہ جیتنے والے سابق اولمپیئن و قومی کوچ مرحوم جان محمد بلوچ کے ورثا 2 برس بعد بھی سندھ حکومت کے وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ 2012 میں مرحوم کی وفات کے بعد سندھ حکومت نے ان کے 2 بیٹوں کو نوکری،5 لاکھ امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔ مرحوم جان محمد بلوچ کے 3 بیٹے، 5 بیٹیاں اور بیوہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اب تک 5 میں سے صرف ایک بیٹی کی شادی ہوئی ہے۔ جب کہ باقی گھر بیٹھی ہیں۔ جان محمد بلوچ کا سب سے چھوٹا 18سالہ بیٹا نجی کمپنی میں انتہائی کم اجرت پر عارضی ملازم ہے۔ جہاں اسے مہینے میں چند روز ہی کام ملتا ہے۔ ایک بیٹا بے روزگار ہے۔

گھر کا واحد کفیل بڑا بیٹا ظفر بلوچ ہے جو مرحوم والد کا باکسنگ کلب چلارہا ہے۔ جن میں انتہائی کم افراد کے ممبر ہونے کے باعث انھیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مرحوم کے بیٹے ظفر بلوچ کا کہناہے کہ سندھ اسپورٹس بورڈ و گورنر ہاؤس کے حکام کو متعدد درخواستیں دینے کے باوجود ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ والد کے انتقال کے بعد انتہائی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، گھر میں فاقہ کشی کی صورت حال ہے۔ ہمارے والد نے ملک کے لیے کئی اعزاز لیے، تاہم حکومت نے ان کی خدمات کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ حکومت نے ہمارے 2 بھائیوں کو نوکری دینے کا اعلان بھی کیا تھا اور اب بھی آسرا دیا جارہاہے تاہم کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کے نتیجے میں ان کا گھرانہ فاقہ کشی پر مجبور ہے۔

مرحوم جان محمد بلوچ نے 1971 میں جنوبی کوریا میں ہونے والے ایشین باکسنگ مقابلوں میں پہلا اور 1975 میں ترک شہر استنبول میں آر سی ڈی باکسنگ مقابلوں میں دوسرا طلائی تمغہ جیتا۔ انھوں نے 1971 کی تہران ایشین گیمز، 1973 میں کولمبو کی ہلالی باکسنگ چیمپئن شپ اور 1977 کی جکارتہ (انڈونیشیا) ایشین باکسنگ چیمپئن شپ اور 1980 میں بنکاک کی گولڈن جوبلی باکسنگ چیمپئن شپ میں سلور میڈل جیتے۔ انھوں نے پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے 1970 میں لندن کی دولت مشترکہ گیمز کے باکسنگ مقابلوں اور اسی برس بنکاک میں کھیلی گئی ایشین گیمز میں پاکستان کے لیے کانسی کے تمغے حاصل کیے۔

1971 کے جرمنی میں ہونے والی اولمپیئن گیمز میں چوتھی پوزیشن لی۔ 1982 سے 2002 تک پاکستان باکسنگ ٹیم ان کی کوچنگ میں 33 طلائی، 19 نقدئی اور 14 کانسی کے تمغے جیتے۔ اس کے باوجود سرکاری سطح پر اس کی وہ قدر نہ کی گئی جس کے وہ حق دار تھے۔ اب مرنے کے بعد ان کے گھر والے کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ اگر اسی طرح لیاری کے کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب لیاری ٹاؤن اسپورٹس کے حوالے سے بانجھ ہوجائے گا ۔
Load Next Story