دنیا بھر سے ہلکی پھلکی گفتگو
پڑوسی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اوربھارت کا تناؤ کا رشتہ ہے جس میں اتار بہت زیادہ اورچڑھاؤ بہت کم رہے ہیں۔
جنوب ایشیائی ملکوں کی تنظیم 'سارک' کو قائم ہوئے دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے اور اس دوران اورکچھ ہویا نہ ہو اجلاس ضرور منقعد کیا جاتا ہے جس میں عوام کے دکھ درد کا ذکرکرکے ان کی قسمت بدلنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اس سال بھی سارک کانفرنس کے لئے انتخاب کیا گیا نیپال کے قدرتی مناظر سے سجے دارالحکومت کھٹمنڈو کا جہاں دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کے برف سے ڈھکے نظارے شرکاکے لئے خصوصی دلچسپی کا باعث رہے۔
یوں تو کانفرنس میں بنگلہ دیش ، افغانستان ، مالدیپ ،بھوٹان ،سری لنکا کے سربراہان موجود تھے لیکن پوری دنیا کی نگاہیں جمی تھیں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کی ملاقات پر۔ہرچیز کو گلیمرس انداز اور حقیقی زندگی سے بڑھا چڑھا کرپیش کرنے والا بھارتی میڈیا زور وشور سے یہ پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہا کہ پاکستان کو کسی نے اہمیت نہیں دی جبکہ وزیراعظم مودی کے لئے سب نے پلکیں بچھا دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان ہی وہ'منجن ' ہے جو بھارت میں سب سے زیادہ بکتا ہے اسی لئے پاکستان کی بات کئے بغیر چارہ بھی نہیں ہے۔
سارک کانفرنس میں سارا زور اس بات پر تھا کہ بھارتی وزیراعظم جناب نوازشریف سے کوئی بات نہیں کریں گے، اور اس سلسلے میں پاکستانی وزیراعظم کی تمام ترمصروفیت کو' فوکس 'بھی کیاگیا اس امید پر کہ شاید کوئی سرپرائز ملے جائے۔ افتتاحی دن تو سمجھیں بے رنگ رہا کیونکہ روایتی تقریروں کے علاوہ کوئی 'اسکوپ' نہیں مل پایا لیکن دوسرے روز اختتامی مراحل میں بالآخر میڈیا کی امیدیں برآئیں اورنوازشریف اور نریندرمودی کے رسمی طورپر ہاتھ ملانے اور ہلکی پھلکی گفتگو نے بریکنگ نیوز کا دھماکا مہیا کردیا۔
پڑوسی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اوربھارت کا تناؤ کا رشتہ ہے جس میں اتار بہت زیادہ اورچڑھاؤ بہت کم رہے ہیں۔ دونوں ملکوں میں رہنے والے بہت سے خاندان اب دوحصوں میں بٹے زندگیاں گزار رہیں اور کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اپنے پیاروں سے ملنے سے محروم ہیں۔ سیاست سے ہٹ کر دیکھا جائے تو انسانی حوالے سے یہ ایک بڑامسئلہ ہے۔
خصوصاً بھارتی میڈیا کو پاکستان کے خلاف سنسنی پھیلانے اوردشمنی کے جذبات ابھارنے کے بجائے وہ چیزیں دیکھانی چاہئیں جس سے لوگوں کا بھلا ہو اور دونوں ملکوں کے درمیان امن کی راہ ہموار ہو۔بھارت کو اب یہ تسلیم کرلینا چاہئیے کہ پاکستان ایک حقیقت ہے اور خطے میں امن اور دونوں ملکوں کے عوام کی ترقی اورخوشحالی کا راستہ پاکستان کا ہاتھ پکڑ کر ہی طے کیا جاسکتا ہے نہ کہ پاکستان کو تباہ کر کے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یوں تو کانفرنس میں بنگلہ دیش ، افغانستان ، مالدیپ ،بھوٹان ،سری لنکا کے سربراہان موجود تھے لیکن پوری دنیا کی نگاہیں جمی تھیں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کی ملاقات پر۔ہرچیز کو گلیمرس انداز اور حقیقی زندگی سے بڑھا چڑھا کرپیش کرنے والا بھارتی میڈیا زور وشور سے یہ پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہا کہ پاکستان کو کسی نے اہمیت نہیں دی جبکہ وزیراعظم مودی کے لئے سب نے پلکیں بچھا دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان ہی وہ'منجن ' ہے جو بھارت میں سب سے زیادہ بکتا ہے اسی لئے پاکستان کی بات کئے بغیر چارہ بھی نہیں ہے۔
سارک کانفرنس میں سارا زور اس بات پر تھا کہ بھارتی وزیراعظم جناب نوازشریف سے کوئی بات نہیں کریں گے، اور اس سلسلے میں پاکستانی وزیراعظم کی تمام ترمصروفیت کو' فوکس 'بھی کیاگیا اس امید پر کہ شاید کوئی سرپرائز ملے جائے۔ افتتاحی دن تو سمجھیں بے رنگ رہا کیونکہ روایتی تقریروں کے علاوہ کوئی 'اسکوپ' نہیں مل پایا لیکن دوسرے روز اختتامی مراحل میں بالآخر میڈیا کی امیدیں برآئیں اورنوازشریف اور نریندرمودی کے رسمی طورپر ہاتھ ملانے اور ہلکی پھلکی گفتگو نے بریکنگ نیوز کا دھماکا مہیا کردیا۔
پڑوسی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اوربھارت کا تناؤ کا رشتہ ہے جس میں اتار بہت زیادہ اورچڑھاؤ بہت کم رہے ہیں۔ دونوں ملکوں میں رہنے والے بہت سے خاندان اب دوحصوں میں بٹے زندگیاں گزار رہیں اور کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اپنے پیاروں سے ملنے سے محروم ہیں۔ سیاست سے ہٹ کر دیکھا جائے تو انسانی حوالے سے یہ ایک بڑامسئلہ ہے۔
خصوصاً بھارتی میڈیا کو پاکستان کے خلاف سنسنی پھیلانے اوردشمنی کے جذبات ابھارنے کے بجائے وہ چیزیں دیکھانی چاہئیں جس سے لوگوں کا بھلا ہو اور دونوں ملکوں کے درمیان امن کی راہ ہموار ہو۔بھارت کو اب یہ تسلیم کرلینا چاہئیے کہ پاکستان ایک حقیقت ہے اور خطے میں امن اور دونوں ملکوں کے عوام کی ترقی اورخوشحالی کا راستہ پاکستان کا ہاتھ پکڑ کر ہی طے کیا جاسکتا ہے نہ کہ پاکستان کو تباہ کر کے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔