پاکستان ایک نظر میں یہ بچیاں کس کی ہیں

اگر ریاست ذمہ داری ادا کرے تو بچے کو ذاتی چیز یا ملکیت سمجھ کر جو چاہے کرو والی سوچ کو روکا جاسکتا ہے۔

اگر ریاست ذمہ داری ادا کرے تو بچے کو ذاتی چیز یا ملکیت سمجھ کر جو چاہے کرو والی سوچ کو روکا جاسکتا ہے۔ فوٹو آن لائن

20 نومبر بچوں کے حقوق کا عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ابھی اس اہم دن کو گزرے زیا دہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ میڈیا میں آنے والے ایک خبر نے ایوان اقتدار کو جھنجھوڑنے کی کوثش کی ، یہ خبر تھی کراچی کے علاقے سے برآمد ہونے والی 33 کے قریب بچیوں کی،اتنی بڑی تعداد میں بچیوں کا یوں برآمد ہونا بچوں کے حقوق کی صورتحال پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ بچیاں کس کی ہیں یہ سوال میڈیا پر ہر طرف گردش کرتا رہا، مگر یہ سوال کسی نے نہیں کیا کہ یہ ذمہ داری کس کی ہیں؟

حقوق اطفال کے عالمی معاہدے کو پچیس سال ہوگئے ہیں ۔ یہ معاہدہ 20 نومبر 1989 کو اقوام متحدہ نے اپناتے ہوئے رُکن ممالک سے توثیق کے لئے پیش کیا۔ معاہدہ اپنے اند ر انقلابی مندرجات رکھتا تھا جس نے بچوں کے مسائل کو خیرات اوربھیک سے ہمہ گیری حقوق کا موضوع بحث بنا دیا، سب سے زیادہ شہرت پانے والے عالمی معاہدوں میں سے ایک معاہدے کی توثیق دُنیا بھر کی ریاستوں نے کی، پاکستان بھی اُن چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے اس کی توثیق ابتدائی دنوں میں کردی۔ اس دستاویز پردستخط کے بعد بچوں کے حقوق کی بنیادی ذمہ دار ریاست اور وہ مُلک ہے جسے میں وہ بچہ رہ رہا ہے۔

حقوق اطفال کا عالمی معاہدہ بچوں کے حقوق کو چار حصوں میں تقسیم کرتا ہے پہلا حصہ " بچوں کی بقاـ" کے حوالے سے ہے یعنی اُن کے جینے کا حق، یہ حق بچے کے پید ا ہونے سے پہلے شروع ہوجاتا ہے ۔ بقاء سے متعلق یہ حقوق زندگی سے متعلقہ ہے،صحت مند زندگی گزارنے کا حق، بچے کی پیدائش کے بعد رجسٹریشن کا حق اور ایک اہم حق جو اس میں شامل ہے اُس کی پہچان کا حق ہے۔

دوسرا اہم حصہ تعمیر و ترقی اور آ گے بڑھنے سے متعلقہ حقوق کا ہے یعنی جو تعلیم و تربیت کا حق، بہترین زندگی گزارنے والے لوازمات کا حق، معاشرتی بقاء ، تفریح مواقعوں کی دستیابی اور آرام کا حق۔

تیسرا حصہ شرکت کے حقوق سے متعلق، شرکت یعنی فیصلہ سازی کرتے وقت اپنی بات کہنے کا حق، سوچنے اور سمجھنے کا حق، اکٹھے ہونے کا حق،پرائیویسی اور معلومات تک رسائی کا حق ۔


چوتھا حصہ تحفظ سے متعلقہ حقوق کا ہے ہر قسم کے تشدد اور استحصال سے بچائو کا حق جس میں ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد شامل ہیں، بچے کا مزدوری سے تخفظ کا حق، قانونی پیچیدگیوں کے دوران حقوق کی پامالی سے تحفظ کا حق،جنگ کے دوران حقوق جیسے سمگلنگ ، ٹریفکنگ وغیرہ سے تخفظ کاحق وغیرہ۔

یہ تمام حقو ق ہمارے مذہب ، روایات اور آئین سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود بچوں کے حقوق کی پامالی کاسلسہ انتہائی گھمبیر صورتحال اختیارچکا ہے۔ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بچوں کے ساتھ کسی قسم ظلم روا رکھا جائے، ایک حدیث مبارکہ کے مطابق رحمت العالمین ؐ نے فرمایا ـ ''جو بچوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں'' مگر اس ارضِ پاک میں کس کس پامالی کا ذکر کریں، تھر میں مرنے والے بچوں کا نوحہ کہیں یا لاہور میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والی معصوم سُنبل کے لیے آنسو بہائیں، پولیو کا شکار بچوں کی بڑھتی تعداد پر حکومتی پالیسیوں اور اُن کے والدین کی عقل کا ماتم کریں یا مزدوری کا شکار سینکڑوں بچوں کی اموات اوربد ترین سلوک کے باوجود حکومتی خاموشی کا رونا روئیں۔

اگر اسی آنے والی خبر کا بغور جائزہ لیا جائے اور اندازہ کیا جائے کہ یہ بچیاں سینکڑوں میل کا سفر کرکے جب کراچی پہنچی تو ان کے کون کون سے حقوق پامال ہوئے تو انتہائی دردناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ بچوں کو جس بھی انداز میں اپنے گھر اور علاقے سے دُور کردیا گیا ، والدین نے جس کے بھی بہکاوے میں آکر یہ عمل کیا اپنے بچے کو اپنی جائیداد یا ملکیتی چیز سمجھ کر دوسرے ہاتھ میں دے دیا، یہ اُن کے بقاء کے حقوق کی پامالی کا باعث بنا ، یعنی والدین سے جُدا کرکے اپنے علاقے سے دُور کردیا گیااُن کی تعلیم و ترقی اور زمانے کی رفتار سے ہم آہنگ ہونے کے حق کو نظر انداز کیا گیااور اُن کو غیر قانونی طور پر ایسے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جن کے پا س قانونی طور پر کوئی جواز نہیں کہ وہ کسی کو بچے اپنے پا س رکھیں اور مزید برآں وہ ایک ایسے غیر مخفوظ ماحول میں آگئی جو ہر قسم کے تشدد اور استحصال کے لئے سازگار ہے۔

عالمی معاہدے پر دستخظ کے بعد یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے لئے ایسے قوانین اور پالیسی سازی کرے جس میں بچے اپنے حقوق سے کسی طور پر بھی محروم نہ ہوں ایوان اقتدار اگر ان بچیوں کو اپنی بچیاں سمجھے تو پھر شاید یہ سوال نہ اُٹھے کہ یہ بچے کس کے ہیں۔ اگر ریاست ذمہ داری ادا کرے تو بچے کو ذاتی چیز یا ملکیت سمجھ کر جو چاہے کرو والی سوچ کو روکا جاسکتا ہے کیونکہ بالآخر ذمہ داری ریا ست کی ہے کہ وہ حقوق اطفال کے عالمی معاہدے کی توثیق کے بعد بچے کے بہترین مفاد کے تخفظ کے لیے ہر ممکن کوثش کرے۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story