بے جان مٹی

دنیاصرف دو طبقوں میں تقسیم ہے۔ امیراور غریب۔ پاکستان کے امیرطبقے اور امریکا کے امیرلوگوں میں کوئی فرق نہیں۔

raomanzarhayat@gmail.com

دنیامختلف ممالک میں تقسیم نظرآتی ہے۔تمام لوگ جغرافیائی حدودکومدِنظررکھتے ہوئے دوسرے ملکوں کاویزہ حاصل کرتے ہیں۔یہ تمام ملک دیکھنے میں جدا ہونے کے باوجودجڑے ہوئے ہیں۔ یہ تفریق بھی کسی حدتک درست ہے۔لیکن غورسے دیکھا جائے تودنیاصرف دو طبقوں میں تقسیم ہے۔ امیراور غریب۔ پاکستان کے امیرطبقے اور امریکا کے امیرلوگوں میں کوئی فرق نہیں۔ کینیاکے غریب اور افراد اور پاکستان میں مجبورلوگوں میںکوئی فرق نہیں۔ شائد رنگ کا فرق نظرآئے مگرمیری دانست میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

میں اس وقت نیروبی میں ہوں۔یہ کالم لائکوہوٹل کی لابی میں بیٹھ کرلکھ رہاہوں۔میں یہاں تقریباًچارپانچ دن سے قیام پذیرہوں۔یہ ہوٹل فورسٹارکے زمرے میں آتاہے۔اس طرح کے درجنوں ہوٹل اورلاجز اس شہرمیں موجودہیں۔انتہائی جدید،خوبصورت اوردیدہ زیب!دنیاکی ہرآسائش یہاں موجودہے۔ مگر اس ہوٹل میں صرف ایک چیزکی کمی ہے۔یہ کمی میں نے پہلے دن محسوس نہیں کی۔دوسرے دن یہ تلخ حقیقت میرے سامنے آئی۔ نیروبی اورکینیامیں آنے والے مغربی سیاحوں کی تعدادبہت کم رہ گئی ہے۔آپ یقین فرمائیے مجھے صبح ناشتہ کی جگہ پرتین دن کے بعددوسفیدفام سیاح نظر آئے۔ مکالمہ میں معلوم ہواکہ وہ سیاح نہیں ہیںبلکہ کاروباری لوگ ہیں۔سیاحت کے ساتھ کینیامیں وہی کچھ ہواہے جو پاکستان میں تیس برس سے مسلسل ہورہاہے۔

کینیااور پاکستان میں سیاحوں کے نہ آنے کی وجہ بالکل ایک جیسی ہے۔دہشت گردی اورتشددپسندی ۔یہاں دہشت گردتنظیم شباب انتہائی سرگرم ہے۔مجھے ٹی وی سے معلوم ہواکہ چنددن پہلے چنددہشت گردوں نے ایک مقامی بستی پرحملہ کیا۔انھوں نے مردوں اورخواتین کی قطاریں بنوائیں۔

اس کے بعدان سے اسلام کے بنیادی ارکان پوچھنے شروع کردیے۔جن اشخاص پرانھیں ہلکا سا بھی شائبہ گزراکہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں،انھیں بے دریغ قتل کردیاگیا۔میں نے نیروبی کے سینئرافسروں سے اس معاملہ پرتفصیل سے بات کی۔ یہ لوگ ہماری حکومت کی دہشت گردی کے خلاف مسلسل جنگ سے بہت کچھ سیکھناچاہتے ہیں۔ان کی حکومت پاکستانی فوج اورقانون نافذکرنے والے اداروں سے متاثر نظرآتی ہیں۔مجھے دبے لفظوں میں کئی لوگوں نے بتایاکہ یہ پاکستان کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے دہشتگردی کی اس بلاکوختم کرنا چاہتے ہیں۔مجھے معلوم نہیں کہ انجام کیا ہوگا یا اس ملک میں خوف کی فضاکیسے کم ہوگی مگران کی حکومت آج حالت جنگ میں ہے۔ہرہوٹل اورسرکاری ادارے میں جانے کے لیے چیکنگ کیجاتی ہے۔ اکثرچہروں پراَن دیکھے خوف کے سائے نظر آتے ہیں۔

آپ اس معاشرہ کی رواداری پرغورفرمائیے۔ان کی اہم ترین سرکاری تقریبات میں ہرمذہب کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔مجھے سفارت خانے کے ایک افسرنے بتایاکہ ان کے صدر یاوزراء کی حلف وفاداری کی تقریب کاآغاز قرآن حکیم کی سے تلاوت سے کیاگیا۔اسی طرح دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں سے بھی مختلف جملے پڑھے گئے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ کابینہ اورشرکاء میں ہرمذہب کے پیروکارموجودتھے۔

رفیع الزماں کینیامیں پاکستان کے سفیرہیں۔ تقریباً دس ماہ قبل یہ اسٹاف کالج لاہورمیں چھ ماہ کاکورس کرکے واپس آئے ہیں۔اسٹاف کالج میں میری اس شخص سے واجبی سی ملاقات تھی۔سرکاری طرزپرٹھنڈی برف کی طرزکے رسمی سے تعلقات!مگر ان چنددنوں میں رفیع الزماں کوپہچاننے اور جاننے کاایک نایاب موقع ملا۔مجھے چھ ماہ کے اسٹاف کالج میں تربیت کے دوران یہ نہ پتہ چل سکاکہ وہ چوہدری خلیق الزماں کاپوتاہے۔اس کی رہائش گاہ پرمیں نے دونادر تصاویر دیکھیں۔ ایک تصویرجناب خلیق الزماں،سعودی عرب کے شاہی فرما روا کے بزرگ اوراردن کے موجودہ بادشاہ کے دادا کی ہے۔ دوسری تصویرمحترمہ نصرت بھٹواوررفیع الزماں کی والدہ کی تھی۔

یہ انتہائی پُروقارتصویرتھی۔نفاست اورسنجیدگی سے بھرپور! مگراصل متاثر کن اَمریہ تصاویرنہیں ہیں۔جس شدت اورمحبت سے رفیع الزماں اوران کی ٹیم پاکستان کی خدمت کررہی ہے،وہ جذبہ قابل قدربھی ہے اورقابل تقلیدبھی!ان لوگوں کاپاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے انتہائی قربت اورگرمجوشی کاتعلق ہے۔رفیع میری نظرمیں انتہائی منکسر المزاج،خاندانی اورشریف آدمی ہے۔یہ بڑی ریاضت سے افریقہ کے اس اہم ملک میں پاکستان کے لیے نیک نامی کے رستے بنارہاہے۔

کینیامیں ہزاروں پاکستانی موجودہیں۔یہ کاروبار پرچھائے ہوئے ہیں۔گاڑیوں کے کاروبار کانوے فیصد حصہ ان لوگوں کے پاس ہے۔اس کے علاوہ ہرکاروبارمیں آپکو پاکستانی نظر آئیں گے۔خصوصی طورپرچاول کاسارا کاروباربھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کاہے۔


نیروبی میں لاء اینڈآرڈرکی حالت خاصی تشویش ناک ہے۔اگرآپکے پاس پیسے نہیں ہیں اورآپ خدانخواستہ رات گئے چندجرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں،تومعاملات بہت تکلیف دہ ہوسکتے ہیں۔یہاں دوماہ پہلے نیروبی شہرکے وسط میں ڈاکوؤں نے ایک سفیرکے انیس سالہ بیٹے کوصرف اس لیے قتل کردیاکہ اس کی جیب میں پیسے نہیں تھے۔یہاں حکومت کی جانب سے اسلحہ پرمکمل پابندی ہے۔مگرجرائم پیشہ لوگ ایک خاص طرزکی تلواراستعمال کرتے ہیں۔اس شہرمیں رات کوآزادی سے پھرناناممکن نہیں توپھربھی بہت مشکل کام ہے۔ہمارے سرکاری وفدکوبارباربتایاگیاکہ رات کوہوٹل سے باہرپیدل نہیں جاناچاہیے۔ہرگھرکے باہربڑی اونچی اونچی مضبوط دیواریں موجودہیں۔امیرعلاقوں میں سی۔سی۔ٹی وی حفاظتی کیمرے اوربرقی رو والی حفاظتی تاریں بالکل عام سی بات ہے۔عدم تحفظ کایہ احساس ہرطرف موجودہے!

کرپشن کی ہوش رباکہانیاں ہرسطح پرگردش کررہی ہیں۔ رشوت بالکل معمول کاحصہ ہے۔کوئی بھی کام سرکارکی سطح پرپیسے کے لین دین کے بغیرنہیں ہوسکتا۔کرپشن کایہ عفریب سیاسی اورسرکاری سطح پرمضبوطی سے براجمان ہے۔ یہاں ایک پاکستانی تاجرکی گاڑی چوری ہوگئی۔پولیس کا ایک اعلیٰ افسر اس کی گاڑی واپس کروانے کے لیے کوشش کررہا تھا۔گاڑی واپس مل گئی۔مگراس کے ساتھ ساتھ اس تاجرکے دفترآکرایک لاکھ روپیہ وصول کیاگیا۔یہ اس اعلیٰ پولیس افسرکی محنت کی غیرسرکاری فیس تھی۔مگررشوت کوکسی طریقے سے بھی غیرمعمولی حیثیت کاحامل نہیں سمجھاجاتا۔یہ اب اس ملک کے سماج کاحصہ بن چکی ہے۔آپ خود اندازہ کیجیے، کہ دہشتگردی،تشددپسندی اور رشوت سے آراستہ ملک کتنے موثرطریقے سے ان بلاؤں کامقابلہ کریگا؟

اس شہرمیں عام آدمی کی زندگی ازحدمشکل ہے۔ نیروبی میں دنیاکی سب سے بڑی کچی بستی موجودہے۔اس میں لاکھوں لوگ جانوروں اورانسانوں کے درمیانی سطح کی زندگی گزار رہے ہیں۔غربت اورافلاس کوآپ اس شہراورملک کے قریہ قریہ اوربستی بستی محسوس کرسکتے ہیں۔ لوگوں کے کپڑے، رہن سہن کاانداز،ان کے جوتوں اور حسرت بھری نگاہوں سے ہرچیز واضح طورپرنظرآتی ہے۔ مگر تصویر کا دوسرا رخ بھی موجود ہے۔یہاں دولت صرف اورصرف ایک طبقہ تک محدود ہے۔ یہ بالائی طبقہ ہرطرح کی سہولت سے مزین زندگی گزار رہا ہے۔

قیمتی گاڑیاں،دیدہ زیب لباس اورپُرتعیش زندگی کاسٹائل انتہائی سفاک طریقے سے نظرآتاہے۔یہاں ایک طرف لوگ شہرکی کچی بستی میں رہ رہے ہیں توبالکل اسی طرح،اس نیروبی شہرمیں چندسو افرادانتہائی عیش وآرام سے رہ رہے ہیں۔ان کے گھروں میں درجنوں نوکرہیں۔ان کے پاس انتہائی بڑے گھراورفارم ہاؤس ہیں۔دولت کایہ ارتکازانتہائی مصنوعی ہے۔اس ملک کااصل مسئلہ بھی یہی ہے۔امیرشخص انتہائی امیرہے اورغریب کاذکرکرناتوبالکل لاحاصل ہے!جب تک اس معاشی فرق کوکم نہیں کیاجاتا،تمام مسائل جوں کے توں رہینگے۔بلکہ میری دانست میں یہ خوفناک طریقے سے بڑھیں گے۔ شائدمہلت کم رہ گئی ہے!

نیروبی سے سوکلومیٹرکے لگ بھگ"نواشا جھیل" ہے۔ اس شہرسے دوگھنٹے کی مسافت پرہے۔سڑک درمیانی سطح کی ہے۔مگر"نواشا جھیل"کاسفرانتہائی یادگار اور اچھوتا تجربہ تھا۔وہاں بارش کے پانی سے آراستہ جھیل کوحکومت نے انتہائی دانائی سے سیاحت کے لیے ایک دلکش تجربہ بنادیا ہے۔ ہماراپورا وفداس جھیل کے قریب پہنچا۔ہرطرف نجی شعبہ نے پرائیویٹ ہوٹل یا لاجزبنادیے ہیں۔ان کی تعداد درجنوں میں ہے۔ہم لوگ"سمبالاج"میں گئے۔وہ انتہائی خوبصورت اورسبزہ سے بھرپورجگہ ہے۔ٹھہرنے کے کمرے، سیاحوں کے لیے تمام انتظام زندگی موجودہے۔مگریہ اس جگہ کا اصل جادونہیں ہے۔ "سمبالاج"کی عمارت کے اردگردایک جنگل موجودہے۔اس جنگل میں درجنوں جانورہروقت موجود رہتے ہیں۔

زیبرے، چیتل،ہرن،بندراورانتہائی خوبصورت پرندے اس طرح اس جگہ کوپُرکشش بنادیتے ہیں کہ ان سے نظراٹھانامشکل ہوجاتی ہے۔یہ تمام جانورلوگوں سے بالکل نہیں گھبراتے۔اگرآپ ان کے بہت قریب چلے جائیں تو پھر یہ آرام سے ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔ لاج کے ڈائنگ روم بلکہ ہرکمرے سے یہ جانورنظرآتے ہیں۔ اس لاج کے مالک کانام میں بھول رہاہوں۔اسکاتعلق پاکستان یاہندوستان سے ہے۔ میں نے زیبرے کے جسم پر کالے رنگ کی دھاریوں کوبڑے قریب سے دیکھا۔ چند پرندے اتنے رنگ برنگے تھے کہ لگتاتھاکہ قدرت نے ان پر مختلف رنگوں کی بارش اورآمیزش کردی ہے!مگرحیرت کدہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔لاج سے چندسوگزپرجھیل موجود ہے۔ وہاں ہوٹل نے موٹر بورٹس کا انتظام کررکھاہے۔

تیس ڈالر لیکر ایک گھنٹے کی آبی سیرکرواتے ہیں۔اس جھیل میں جانے کے بعدآپکوقدرت کاایک اورنظارہ دم بخودکردیتاہے۔سیکڑوں کی تعدادمیں "دریائی گھوڑے"۔یہ کشتی کی آوازسن کرفوراًپانی میں چھپ جاتے ہیں۔مگرتھوڑی دیربعدوہ سانس لینے کے لیے دوبارہ پانی کی سطح سے اوپرآتے ہیں۔قدرتی ماحول میں اس مہیب جانورکودیکھناایک دلکش نظارہ ہے۔کینیامیں کسی قسم کاشکارنہیں کیاجاسکتا۔اس پرمکمل پابندی ہے۔شکارکوروکنے کے لیے ایک خاص پولیس بنائی گئی ہے۔

انکوہرسہولت مہیاکی گئی ہے۔مجھے پولیس کے مقامی افسر نے بتایاکہ اگرایک بھی گینڈے کاشکارہوجائے توجواب طلبی قصرصدارت سے شروع ہوتی ہے۔میں نے یہ چیزیہاں محسوس کی ہے کہ ان لوگوں کواپنے جانوروں سے عشق ہے۔سیاحت نے انکوترقی کرنے کے مواقع اورروزگارفراہم کیاہے۔کچھ عرصے پہلے تک یہاں سالانہ لاکھوں مغربی سیاح آتے تھے۔ان سے کینیاکواربوں ڈالرکی کمائی ہوتی تھی۔مگردہشت گردی سے اب سیاحت دم توڑتی نظرآرہی ہے۔

اس ملک کی مٹی سرخی مائل ہے!شائدصدیوں کی غلامی نے اس رنگ کوخاکی سے سرخ بنادیاہے!شایدلاکھوں غلاموں کاخون اس میں شامل ہوچکاہے!یہ مٹی اتنی طاقت ورہے کہ آپ اس پرکوئی بیج پھینک دیں،وہ خودبخودپھل پھول کردرخت بن جائیگا!ہرطرف سبزہ کوزندگی دینے والی مٹی میری نظرمیں بالکل بے جان ہے!ہمارے ملک کی خاکی زمین کی طرح!یہ سرخی مائل زمین پوری طاقت رکھنے کے باوجوداتنی کمزورہے کہ کوئی ایسا سیاسی قائد پیدا نہیں کرسکی جو اس کو دہشت گردی، کرپشن اورتشددسے محفوظ رکھ سکے!میری نظرمیں یہ مٹی بالکل بے جان ہے!بالکل ہماری طرح!
Load Next Story