میرے غالبا ایس جہان اندر
مرزا اسداﷲ غالب ریختہ ہی کے نہیں فارسی کے بھی بڑے شاعر تھے۔
صاحب اسلوب شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھاتے بھی تھے ۔ اردو کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی وہ پنجابی میں بھی شعر کہہ لیا کرتے تھے۔ 65 کی جنگ کے دوران انھوں نے تادیر رہ جانے والا نغمہ لکھا اور موسیقار حسن لطیف ملک مرحوم نے طرز بھی لازوال بنا ڈالی اور آخر ملکہ ترنم نور جہان کی رسیلی آواز نے اس نغمے کو بام عروج عطا کردیا۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد آج بھی وہ نغمہ تر و تازہ ہے۔ اﷲ صوفی تبسم، حسن لطیف اور نور جہان کے درجات بلند فرمائے (آمین) نغمہ کی چند سطریں لکھنے کو جی چاہ رہا ہے سو لکھ رہا ہوں۔
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
کی لبدی پھریں بازار کڑے
اے سودا نقد وی نئیں ملدا
توں منگدی پھریں ادھار کڑے
بے انتہا مقبول اس فوجی نغمے کے معنی و مفہوم سے سبھی واقف ہیں کہ ''یہ بیٹے (فوجی) بھی دکانوں پر نہیں بکتے، پگلی تو کیا بازار میں تلاش کررہی ہے۔ یہ سودا تو نقد بھی نہیں ملتا اور تو ادھار میں مانگ رہی ہے۔''
خیر اس وقت میں صوفی تبسم کی ایک اور پنجابی غزل کا ذکر چھیڑنا چاہتاہوں جو میرے آج کے کالم کا عنوان بھی ہے۔ مرزا اسداﷲ غالب ریختہ ہی کے نہیں فارسی کے بھی بڑے شاعر تھے۔ مرزا کی ایک فارسی غزل کا صوفی غلام مصطفی تبسم نے منظوم ترجمہ کیا تھا اور وہ بھی پنجابی میں۔ غالب کا یہ پنجابی منظوم ترجمہ معروف غزل گائیک غلام علی نے گایا اور خوب گایا اور مشہور بھی خوب ہوا۔ مطلع دیکھیے۔
میرے شوق کا دا نئیں اعتبار تینوں آجا ویخ مرا انتظار آجا
ایویں لڑن بہانے لبنا اے کی سوچنا ایں ستم گار آجا
اس غزل کا مقطع ہی میری آج کی گفتگو کا اصل محور ہے۔
سکھی و سنڑاں جے توں چوہنا اے، میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وچ آبے جا، ایتھے بیٹھدے نیں خاکسار آجا
مقطع کا سادہ سا ترجمہ کیے دیتا ہوں ''اے میرے غالب تو سکھی زندگی اس جہان میں گزارنا چاہتا ہے تو رندوں کی بزم میں آ اور بیٹھ جا۔ کیوں کہ یہاں خاکسار بیٹھتے ہیں''
ایک چینل پر تہمینہ درانی سے جگنو محسن گفتگو کررہی تھیں، خادمہ ٔ اعلیٰ بننے کا اعلان کیا ہے اور سر دست تہمینہ درانی ماڈل ٹاؤن میں واقع وسیع و عریض محل نما گھر کو چھوڑ کر محض دس مرلے کے گھر میں منتقل ہورہی ہیں ۔(کراچی والوں کے لیے عرض ہے کہ دس مرلہ زمین 250 گز ہوتی ہے) لوجی! ہم تو ان خوش نصیبوں میں پہلے ہی سے شامل ہیں جو 250 گز کے گھر میں رہ رہے ہیں۔
تہمینہ درانی کہہ رہی تھیں کہ میرا کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں ہے اور میں تمام سیاست دانوں کو مشورہ دے رہی ہوں کہ وہ اپنے اپنے محل، حویلیاں، ماڑیاں، فارم ہاؤسز چھوڑ کر زیادہ دولت غریبوں کو دے دیں یہ ملک بھر میں موجود سیاست دانوں، جاگیرداروں وڈیروں، خانوں، سرداروں، مزاروں کے مجاوروں، گدی نشینوں کی جاگیریں اور مال و دولت، سب غریبوں میں تقسیم کردیں، تہمینہ درانی کہہ رہی تھیں کہ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنا شروع ہوگیا ہے اور وہ وقت آن پہنچا ہے کہ غریب ان جاگیروں کو تہس نہس کردیں گے۔
جگنو محسن نے تہمینہ درانی سے پوچھا ''کیا آپ نے اپنے شوہر میاں شہباز شریف کو دس مرلے والا مشورہ دیا ہے؟'' تہمینہ درانی نے کہا ''ہاں میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ اتنا کام کرتے ہیں تو دس مرلے کے مکان میں رہائش بھی اختیار کرلیں'' تہمینہ زور دیکر مزید کہہ رہی تھیں کہ ملک بچانا ہے تو ملک کا دیا لوٹا دو، ملک کو اشد ضرورت ہے ورنہ یہ سب کچھ چھن جائے گا''
تہمینہ درانی گفتگو کررہی تھیں اور میرے ذہن میں اسٹیج ابھر رہا تھا جو فیض صاحب سجاکر گئے ہیں۔ یہ اسٹیج دنیا کے کئی ممالک میں سج چکا ہے یہاں ہمارے ملک میں اگر ایسا ہوگا تو کچھ انوکھا نہیں ہوگا۔
جب تخت گرائے جائیں گے
اور تاج اچھالے جائیں گے
اور راج کرے گی خلق خدا
ہم دیکھیں گے ، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے اور عوام کا شاعر حبیب جالب بھی کہہ کر گیا ہے:
کھیت وڈیروں سے لے لو
ملیں لٹیروں سے لے لو
ملک اندھیروں سے لے لو
رہے نہ کوئی عالی جاہ
پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اﷲ
تہمینہ درانی بول رہی تھیں ''لوگ بھوکوں مررہے ہیں، خودکشیاں کررہے ہیں، افلاس کے ہاتھوں رسوائیاں جنم لے رہی ہیں، جالب کے مصرع آگئے ہیں۔ سو لکھ رہا ہوں۔ یہ ایک فلمی گیت ہے۔
چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے زندگی
چھین لیتے ہیں جب چاہتے ہیں خوشی
اونے اونچے گھروں میں ہے جو روشنی
جل رہے ہیں ہمارے لہو کے دیے
دکھ ہمیں جو دیے اس جہاں نے دیے
بلاول ہاؤس، حکمرانی کرکے گیا ہے، جاتی امرا حکومت کررہاہے، بنی گالہ حکومت کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ گویا ''بٹتی رہے گی محلوں کی محلوں میں روشنی اور کچے گھروں میں دیپ جلاتا نہیں کوئی۔''
تہمینہ بی بی کروڑوں غریبوں کو مجھ سمیت تمہارے اگلے قدم کا انتظار رہے گا۔ تم نے اگر اپنے گھر والے کو ہی اپنا کرلیا تو سرخرو ہوجاؤگی اور حقیقی انقلاب تو اب بہت ہی قریب ہے۔
ہزار ظالم سہی اندھیرا، سحر بھی لیکن قریب تر ہے
مجھے نہ دن رات کا سفر ہے
بات غالب کی فارسی غزل سے شروع ہوئی تھی، غالب اسی لیے تو غالب ہے کہ وہ ہر زمانے کا شاعر ہے وہ بھی یہی پیغام دے رہا ہے کہ اگر اس جہان میں سکھ چین سے رہنا ہے تو خاکساروں کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔
تہمینہ بی بی بازاروں میں جنس کی صورت بکتی عورتوں کے لیے شیلٹر ہومز بھی بنانے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔ اﷲ تمہیں خوش رکھے، فی الحال کم ازکم تم ایسا سوچ تو رہی ہو۔
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
کی لبدی پھریں بازار کڑے
اے سودا نقد وی نئیں ملدا
توں منگدی پھریں ادھار کڑے
بے انتہا مقبول اس فوجی نغمے کے معنی و مفہوم سے سبھی واقف ہیں کہ ''یہ بیٹے (فوجی) بھی دکانوں پر نہیں بکتے، پگلی تو کیا بازار میں تلاش کررہی ہے۔ یہ سودا تو نقد بھی نہیں ملتا اور تو ادھار میں مانگ رہی ہے۔''
خیر اس وقت میں صوفی تبسم کی ایک اور پنجابی غزل کا ذکر چھیڑنا چاہتاہوں جو میرے آج کے کالم کا عنوان بھی ہے۔ مرزا اسداﷲ غالب ریختہ ہی کے نہیں فارسی کے بھی بڑے شاعر تھے۔ مرزا کی ایک فارسی غزل کا صوفی غلام مصطفی تبسم نے منظوم ترجمہ کیا تھا اور وہ بھی پنجابی میں۔ غالب کا یہ پنجابی منظوم ترجمہ معروف غزل گائیک غلام علی نے گایا اور خوب گایا اور مشہور بھی خوب ہوا۔ مطلع دیکھیے۔
میرے شوق کا دا نئیں اعتبار تینوں آجا ویخ مرا انتظار آجا
ایویں لڑن بہانے لبنا اے کی سوچنا ایں ستم گار آجا
اس غزل کا مقطع ہی میری آج کی گفتگو کا اصل محور ہے۔
سکھی و سنڑاں جے توں چوہنا اے، میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وچ آبے جا، ایتھے بیٹھدے نیں خاکسار آجا
مقطع کا سادہ سا ترجمہ کیے دیتا ہوں ''اے میرے غالب تو سکھی زندگی اس جہان میں گزارنا چاہتا ہے تو رندوں کی بزم میں آ اور بیٹھ جا۔ کیوں کہ یہاں خاکسار بیٹھتے ہیں''
ایک چینل پر تہمینہ درانی سے جگنو محسن گفتگو کررہی تھیں، خادمہ ٔ اعلیٰ بننے کا اعلان کیا ہے اور سر دست تہمینہ درانی ماڈل ٹاؤن میں واقع وسیع و عریض محل نما گھر کو چھوڑ کر محض دس مرلے کے گھر میں منتقل ہورہی ہیں ۔(کراچی والوں کے لیے عرض ہے کہ دس مرلہ زمین 250 گز ہوتی ہے) لوجی! ہم تو ان خوش نصیبوں میں پہلے ہی سے شامل ہیں جو 250 گز کے گھر میں رہ رہے ہیں۔
تہمینہ درانی کہہ رہی تھیں کہ میرا کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں ہے اور میں تمام سیاست دانوں کو مشورہ دے رہی ہوں کہ وہ اپنے اپنے محل، حویلیاں، ماڑیاں، فارم ہاؤسز چھوڑ کر زیادہ دولت غریبوں کو دے دیں یہ ملک بھر میں موجود سیاست دانوں، جاگیرداروں وڈیروں، خانوں، سرداروں، مزاروں کے مجاوروں، گدی نشینوں کی جاگیریں اور مال و دولت، سب غریبوں میں تقسیم کردیں، تہمینہ درانی کہہ رہی تھیں کہ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنا شروع ہوگیا ہے اور وہ وقت آن پہنچا ہے کہ غریب ان جاگیروں کو تہس نہس کردیں گے۔
جگنو محسن نے تہمینہ درانی سے پوچھا ''کیا آپ نے اپنے شوہر میاں شہباز شریف کو دس مرلے والا مشورہ دیا ہے؟'' تہمینہ درانی نے کہا ''ہاں میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ اتنا کام کرتے ہیں تو دس مرلے کے مکان میں رہائش بھی اختیار کرلیں'' تہمینہ زور دیکر مزید کہہ رہی تھیں کہ ملک بچانا ہے تو ملک کا دیا لوٹا دو، ملک کو اشد ضرورت ہے ورنہ یہ سب کچھ چھن جائے گا''
تہمینہ درانی گفتگو کررہی تھیں اور میرے ذہن میں اسٹیج ابھر رہا تھا جو فیض صاحب سجاکر گئے ہیں۔ یہ اسٹیج دنیا کے کئی ممالک میں سج چکا ہے یہاں ہمارے ملک میں اگر ایسا ہوگا تو کچھ انوکھا نہیں ہوگا۔
جب تخت گرائے جائیں گے
اور تاج اچھالے جائیں گے
اور راج کرے گی خلق خدا
ہم دیکھیں گے ، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے اور عوام کا شاعر حبیب جالب بھی کہہ کر گیا ہے:
کھیت وڈیروں سے لے لو
ملیں لٹیروں سے لے لو
ملک اندھیروں سے لے لو
رہے نہ کوئی عالی جاہ
پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اﷲ
تہمینہ درانی بول رہی تھیں ''لوگ بھوکوں مررہے ہیں، خودکشیاں کررہے ہیں، افلاس کے ہاتھوں رسوائیاں جنم لے رہی ہیں، جالب کے مصرع آگئے ہیں۔ سو لکھ رہا ہوں۔ یہ ایک فلمی گیت ہے۔
چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے زندگی
چھین لیتے ہیں جب چاہتے ہیں خوشی
اونے اونچے گھروں میں ہے جو روشنی
جل رہے ہیں ہمارے لہو کے دیے
دکھ ہمیں جو دیے اس جہاں نے دیے
بلاول ہاؤس، حکمرانی کرکے گیا ہے، جاتی امرا حکومت کررہاہے، بنی گالہ حکومت کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ گویا ''بٹتی رہے گی محلوں کی محلوں میں روشنی اور کچے گھروں میں دیپ جلاتا نہیں کوئی۔''
تہمینہ بی بی کروڑوں غریبوں کو مجھ سمیت تمہارے اگلے قدم کا انتظار رہے گا۔ تم نے اگر اپنے گھر والے کو ہی اپنا کرلیا تو سرخرو ہوجاؤگی اور حقیقی انقلاب تو اب بہت ہی قریب ہے۔
ہزار ظالم سہی اندھیرا، سحر بھی لیکن قریب تر ہے
مجھے نہ دن رات کا سفر ہے
بات غالب کی فارسی غزل سے شروع ہوئی تھی، غالب اسی لیے تو غالب ہے کہ وہ ہر زمانے کا شاعر ہے وہ بھی یہی پیغام دے رہا ہے کہ اگر اس جہان میں سکھ چین سے رہنا ہے تو خاکساروں کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔
تہمینہ بی بی بازاروں میں جنس کی صورت بکتی عورتوں کے لیے شیلٹر ہومز بھی بنانے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔ اﷲ تمہیں خوش رکھے، فی الحال کم ازکم تم ایسا سوچ تو رہی ہو۔