سفرکی بہتر سہولیات‘ اہم ضرورت
اگر ہم بات کریں اپنے وطن پاکستان کی اور سفر اور سفری سہولیات کی تو بدقسمتی کی بدقسمتی نظر آتی ہے دور دور تک۔
اگر آپ کسی سفر پر براستہ سڑک گاڑی میں روانہ ہوتے ہیں تو اور اگر پہلی دفعہ آپ کا سفر ہو تو وہ یقیناً بہت دلچسپ سفر ہوگا لیکن آپ کا آنا جانا لگا رہتا ہو تو آپ سفر کے اور راستوں کے ہم آشنا ہوجاتے ہیں، راستے میں سفر میں ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے آپ کو گاہے بگاہے رکنا بھی پڑتا ہے۔
بے تحاشا ایسے نوجوان، بزرگ بسوں سے اور دیگر ذرایع سے ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف روزگار حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے کاروبار کے لیے اور بے تحاشا ضروریات زندگی کے لیے یہ سفر جاری و ساری رکھتے ہیں اور رہنا بھی چاہیے کہ زندگی رواں دواں ہی اچھی لگتی ہے۔ براستہ سڑک، ٹرین، بس جو بھی وسیلہ سفر ہو، ہر سفر کی اپنی ضروریات ضرور ہوتی ہے اور ان کا پورا ہونا یا ان میں سہولتوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ مغربی دنیا میں سفر کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں کہ عوام کو بہتر سے بہتر آنے جانے کے لیے وسائل موجود ہوں۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں جو ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ان تمام ممالک میں جہاں بنیادی ضروریات زندگی کو سہل بنایا جاتا ہے وہاں سفر کی سہولیات پر بہت گہری نگاہ رکھی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی بھی ملک کے شہریوں کا معیار زندگی جانچنا چاہو تو آپ ان کے ٹریفک رولز کو (Follow) کرنے کا انداز دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ لوگ کس معیار کے ہیں۔ ہمارے ترقی یافتہ اسلامی ممالک میں بھی یورپ اور امریکا کے ساتھ ساتھ سفر کو آسان بنانے کے لیے بہت ہی اعلیٰ پائے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں، اور ان پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے۔
اگر ہم بات کریں اپنے وطن پاکستان کی اور سفر اور سفری سہولیات کی تو بدقسمتی کی بدقسمتی نظر آتی ہے دور دور تک بالکل ایسے ہی جیسے کے دوسرے مسائل ہیں۔صبح سے لے کر رات گئے تک، سفر کے یہ سلسلے جاری رہتے ہیں۔ خواہش تو ہر پاکستانی کی بھی یہی ہے کہ وہ بہترین سے بہترین سفر کی سہولتوں کو انجوائے کرے مگر انجوائے کا لفظ تو شاید ابھی ہم سے کوسوں دور ہے۔ ہم ابھی تک یعنی 2014 تک بھی اپنی سفری سہولیات کو اس قابل بھی نہیں بنا سکے ہیں کہ عام و خاص، تمام عوام اپنی منزل مقصود پر باآسانی پہنچ سکیں۔
پاکستان کے تمام مسائل چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، شہروں کے ہوں یا گاؤں کے یا دیہاتوں کے۔ ان سب کا حل صرف اور صرف تعلیم میں پنہاں ہے۔ تعلیم، تربیت، شعور ہی ہمیں بہترین رہنمائی کرسکتے ہیں اور اس کے ذریعے ہی ہم ترقی اور کامیابی کے راستوں پر چل سکتے ہیں۔ لیکن یہ کون دے گا اور کہاں سے آئے گا یہ بھی ہمارے لیے ایک سوال ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سوال کب اور کون حل کرے گا؟
پاکستان میں آبادی بڑھتی ہی جا رہی ہے اور دن بہ دن مختلف مسائل سامنے آرہے ہیں، پوری دنیا میں موسمی تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر خواہ وہ کسی بھی وجہ سے ہو، بہت زیادہ نظر آرہے ہیں۔حالات، موسم، بڑھتی ہوئی آبادیاں، لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف مائل کرتے ہیں، بہرحال یہ مسائل اپنی جگہ۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں سفر کی سہولیات کا فقدان نظر آتا ہے بے ہنگم ٹریفک اور تنگ راستے کئی کئی گھنٹوں تک لوگوں کو اذیت میں مبتلا ہیں۔
اگر کوئی ناگہانی پریشانی آگئی تو شام کو واپس اپنے گھروں کو لوٹنے والے کئی کئی طویل گھنٹوں، بھوک و پیاس کے ساتھ سڑکوں پر ہی بے یارو مددگار نظر آتے ہیں اور تمام راستے اس جنگل کا حال پیش کرنے لگتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنی مرضی کا مالک ہے۔ٹریفک پولیس ایسے غائب ہوتی ہے کہ جیسے کبھی تھی ہی نہیں، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت گھنٹوں پریشانی کے عالم سے اپنے آپ کو نکالتے ہیں۔ بڑے بڑے ہیوی ٹرک، بسیں، ٹیکسیاں، رکشے، گدھا گاڑیاں، ایمبولینسیں، چنگ چی، موٹر سائیکلیں سب کا سب آپ کو ایک ہی سڑک پر جاتا ہوا نظر آرہا ہوگا۔
تیز و طرار ہارن، زگ زیگ بناتی ہوئی موٹر سائیکلیں اور ایسا بہتا ہوا ٹریفک کے اللہ کی پناہ۔ جس طرح اب پوری دنیا میں ٹریفک پر اور راستوں پر کام ہو رہا ہے اور سفری سہولیات کو آسان سے آسان اور سہل بنانے کے لیے کام کیے جا رہے ہیں، وہیں اگر ہم پاکستان کی طرف نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ روشنی سے نظر اٹھاکر آپ نے اندھیرے کی طرف دیکھ لیا ہے۔ دور دور تک کوئی ایسی خوش فہمی نظر نہیں آتی کہ آپ خوش ہی ہوجائیں۔تمام تر ترقی ہمیں تقریروں میں نظر آتی ہے اور اب جلسوں میں نظر آتی ہے کوئی لاہور کو پیرس بنانا چاہتا ہے اور کوئی کراچی کو لندن یا نیویارک، مگر یہ کراچی کو کراچی یا لاہور کو لاہور رہنے دینا نہیں چاہتے۔
پچھلی پنجاب کی بارشوں نے نقلی ترقی کا پول کھول دیا، لاہور جو پیرس بننے جا رہا تھا، وہ ایک نالہ بن گیا، میٹرو بسوں کا جال بارشوں کی نذر ہوگیا اور عوام نے اللہ کی مدد کو پکارا کہ اس کے سوا کوئی بھی ان کا مددگار نہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں لوگوں کو ''بہتر'' سہولیات سفر دینے کے لیے چنگ چی بھی اب ہم سفر ہے۔ اب شاید ہمیں انتظار کرنا چاہیے بہتر سفر کے لیے، پھر سے گھوڑا گاڑیوں اور اونٹ گاڑیوں کا کہ ان میں پٹرول کا استعمال یا سی این جی کی ضرورت نہیں۔
سنا ہے کہ اسلام آباد کے بعد کراچی میں بھی موٹروے بنائی جائے گی تاکہ سفر سہانا ہوجائے، ابھی تو یہ ایک خبر ہے پوری کب ہوگی کون جانے؟ بہرحال کراچی سے پشاور تک بہتر ذرایع سفر وقت کی بہت اہم ضرورت جس کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ براستہ سڑک سفر کرنے والوں کے لیے بہتر سے بہتر سہولتوں کا انتظام کیا جائے۔چھوٹے چھوٹے ڈھابے یا کھانے پینے کی جگہوں کو محفوظ بنایا جائے اور ان کھانوں کو بھی صحت کے لیے صاف و ستھرا ہونے کا انتظام کیا جائے، واش روم اور رہنے کی جگہوں کو بھی سیکیورٹی دینا بہت ضروری ہے تاکہ لوگ اپنی آمدورفت کو خوشگوار بناسکیں۔
کراچی میں یا دوسری پاکستان کی جگہوں میں اگر ہائی ویز پر سفر کے دوران ہائی ویز پولیس آپ کو بہترین تعاون دیتی ہے اور آپ کی مدد کے لیے جگہ جگہ موجود ہے تو ہماری ٹریفک پولیس اس جیسا رزلٹ کیوں نہیں دے سکتی؟ ہم جنگلوں میں نہیں رہتے ہیں پھر ماحول جنگل جیسا کیوں؟ بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ بغیر کرپشن کے ہمیں اپنے ذرایع آمد و رفت کو بہترین بنانے کی شدید ضرورت ہے۔ اور ''بغیر کرپشن'' کے الفاظ پڑھ کر اگر آپ کو بہت زور سے ہنسی آئے تو بھی ہنس لیجیے کیونکہ اپنے آپ پر ہنسنے کا کام تو ہمیں آتا ہی ہے۔ کرپشن ایک ایسی دیمک ہے جس نے ملک کے ملک، شہر کے شہر تباہ کردیے، بڑے بڑے سورماؤں کو زندگی کے تخت سے گلی کے چوراہے پر پھینک دیا، اگر ہم اس دور میں اس حالات میں بھی سبق نہ سیکھے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔
پاکستان جیسے خوبصورت ملک کو بے انتہا خوبصورت موسموں کو بے حساب معدنیات اور اللہ کی بہت زیادہ نعمتوں سے مالا مال اس ملک اور اس کی ہر گلی کوچے کو ضرورت ہے تو ان ذہنوں کی ان کرداروں کی جو لالچ و ہوس سے کوسوں دور ہوں، جو زندہ رہنا چاہتے ہوں مرنے کے بعد جو چاہتے ہوں کہ ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے کچھ نیک کلمات ہوں۔
منصوبے بنائے جائیں عوام کی سہولیات کے لیے نا کہ ان کو بے وقوف بنانے کے لیے۔ کراچی میں سی این جی بسیں، زبردست تقاریر، زبردست بیانات نتیجہ صفر، کروڑوں روپے عوام کے گڑھے میں ڈال دیے گئے۔ حد تو یہ ہے کہ جو بسیں زیارتوں کے لیے عوام کے سفر کا ذریعہ بنتی ہیں ان پر بھی ڈاکوؤں کا راج ہوگیا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گہرائی میں جائیں تو پتا چلے گا کہ مل بانٹ کر کھانے کا سلسلہ ہے۔ ملک کو، شہروں کو، عوام کو پستی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
جو لوگ ترقی کی باتیں کریں وہ باہر کے ملکوں کے ایجنٹ قرار پاتے ہیں۔ تو پھر وفادار کون؟ دوست کون اور دشمن کون؟ جو گاڑیاں چل رہی ہیں جو ٹرینیں رواں دواں ہیں جو جہاز اڑانیں بھر رہے ہیں ان کا حال اپنی جگہ ایک الگ کہانی ہے۔کبھی کبھی صرف چند گھنٹوں کا سفر ایک ایک دو دو دن میں طے ہو رہا ہے۔ دن بہ دن کرایوں میں اضافہ، سفر کرنے والوں کے لیے عذاب جان بنا ہوا ہے۔ نہ گاڑیوں کی حالت چیک کی جاتی ہے نہ ان کو چلانے والے بلکہ حد تو یہ ہے کہ ایک ٹی وی پروگرام کے اینکر نے ایک اندھے کو لے جاکر اس کا ڈرائیونگ لائسنس بنوادیا۔
بے تحاشا ایسے نوجوان، بزرگ بسوں سے اور دیگر ذرایع سے ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف روزگار حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے کاروبار کے لیے اور بے تحاشا ضروریات زندگی کے لیے یہ سفر جاری و ساری رکھتے ہیں اور رہنا بھی چاہیے کہ زندگی رواں دواں ہی اچھی لگتی ہے۔ براستہ سڑک، ٹرین، بس جو بھی وسیلہ سفر ہو، ہر سفر کی اپنی ضروریات ضرور ہوتی ہے اور ان کا پورا ہونا یا ان میں سہولتوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ مغربی دنیا میں سفر کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں کہ عوام کو بہتر سے بہتر آنے جانے کے لیے وسائل موجود ہوں۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں جو ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ان تمام ممالک میں جہاں بنیادی ضروریات زندگی کو سہل بنایا جاتا ہے وہاں سفر کی سہولیات پر بہت گہری نگاہ رکھی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی بھی ملک کے شہریوں کا معیار زندگی جانچنا چاہو تو آپ ان کے ٹریفک رولز کو (Follow) کرنے کا انداز دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ لوگ کس معیار کے ہیں۔ ہمارے ترقی یافتہ اسلامی ممالک میں بھی یورپ اور امریکا کے ساتھ ساتھ سفر کو آسان بنانے کے لیے بہت ہی اعلیٰ پائے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں، اور ان پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے۔
اگر ہم بات کریں اپنے وطن پاکستان کی اور سفر اور سفری سہولیات کی تو بدقسمتی کی بدقسمتی نظر آتی ہے دور دور تک بالکل ایسے ہی جیسے کے دوسرے مسائل ہیں۔صبح سے لے کر رات گئے تک، سفر کے یہ سلسلے جاری رہتے ہیں۔ خواہش تو ہر پاکستانی کی بھی یہی ہے کہ وہ بہترین سے بہترین سفر کی سہولتوں کو انجوائے کرے مگر انجوائے کا لفظ تو شاید ابھی ہم سے کوسوں دور ہے۔ ہم ابھی تک یعنی 2014 تک بھی اپنی سفری سہولیات کو اس قابل بھی نہیں بنا سکے ہیں کہ عام و خاص، تمام عوام اپنی منزل مقصود پر باآسانی پہنچ سکیں۔
پاکستان کے تمام مسائل چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، شہروں کے ہوں یا گاؤں کے یا دیہاتوں کے۔ ان سب کا حل صرف اور صرف تعلیم میں پنہاں ہے۔ تعلیم، تربیت، شعور ہی ہمیں بہترین رہنمائی کرسکتے ہیں اور اس کے ذریعے ہی ہم ترقی اور کامیابی کے راستوں پر چل سکتے ہیں۔ لیکن یہ کون دے گا اور کہاں سے آئے گا یہ بھی ہمارے لیے ایک سوال ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سوال کب اور کون حل کرے گا؟
پاکستان میں آبادی بڑھتی ہی جا رہی ہے اور دن بہ دن مختلف مسائل سامنے آرہے ہیں، پوری دنیا میں موسمی تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر خواہ وہ کسی بھی وجہ سے ہو، بہت زیادہ نظر آرہے ہیں۔حالات، موسم، بڑھتی ہوئی آبادیاں، لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف مائل کرتے ہیں، بہرحال یہ مسائل اپنی جگہ۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں سفر کی سہولیات کا فقدان نظر آتا ہے بے ہنگم ٹریفک اور تنگ راستے کئی کئی گھنٹوں تک لوگوں کو اذیت میں مبتلا ہیں۔
اگر کوئی ناگہانی پریشانی آگئی تو شام کو واپس اپنے گھروں کو لوٹنے والے کئی کئی طویل گھنٹوں، بھوک و پیاس کے ساتھ سڑکوں پر ہی بے یارو مددگار نظر آتے ہیں اور تمام راستے اس جنگل کا حال پیش کرنے لگتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنی مرضی کا مالک ہے۔ٹریفک پولیس ایسے غائب ہوتی ہے کہ جیسے کبھی تھی ہی نہیں، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت گھنٹوں پریشانی کے عالم سے اپنے آپ کو نکالتے ہیں۔ بڑے بڑے ہیوی ٹرک، بسیں، ٹیکسیاں، رکشے، گدھا گاڑیاں، ایمبولینسیں، چنگ چی، موٹر سائیکلیں سب کا سب آپ کو ایک ہی سڑک پر جاتا ہوا نظر آرہا ہوگا۔
تیز و طرار ہارن، زگ زیگ بناتی ہوئی موٹر سائیکلیں اور ایسا بہتا ہوا ٹریفک کے اللہ کی پناہ۔ جس طرح اب پوری دنیا میں ٹریفک پر اور راستوں پر کام ہو رہا ہے اور سفری سہولیات کو آسان سے آسان اور سہل بنانے کے لیے کام کیے جا رہے ہیں، وہیں اگر ہم پاکستان کی طرف نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ روشنی سے نظر اٹھاکر آپ نے اندھیرے کی طرف دیکھ لیا ہے۔ دور دور تک کوئی ایسی خوش فہمی نظر نہیں آتی کہ آپ خوش ہی ہوجائیں۔تمام تر ترقی ہمیں تقریروں میں نظر آتی ہے اور اب جلسوں میں نظر آتی ہے کوئی لاہور کو پیرس بنانا چاہتا ہے اور کوئی کراچی کو لندن یا نیویارک، مگر یہ کراچی کو کراچی یا لاہور کو لاہور رہنے دینا نہیں چاہتے۔
پچھلی پنجاب کی بارشوں نے نقلی ترقی کا پول کھول دیا، لاہور جو پیرس بننے جا رہا تھا، وہ ایک نالہ بن گیا، میٹرو بسوں کا جال بارشوں کی نذر ہوگیا اور عوام نے اللہ کی مدد کو پکارا کہ اس کے سوا کوئی بھی ان کا مددگار نہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں لوگوں کو ''بہتر'' سہولیات سفر دینے کے لیے چنگ چی بھی اب ہم سفر ہے۔ اب شاید ہمیں انتظار کرنا چاہیے بہتر سفر کے لیے، پھر سے گھوڑا گاڑیوں اور اونٹ گاڑیوں کا کہ ان میں پٹرول کا استعمال یا سی این جی کی ضرورت نہیں۔
سنا ہے کہ اسلام آباد کے بعد کراچی میں بھی موٹروے بنائی جائے گی تاکہ سفر سہانا ہوجائے، ابھی تو یہ ایک خبر ہے پوری کب ہوگی کون جانے؟ بہرحال کراچی سے پشاور تک بہتر ذرایع سفر وقت کی بہت اہم ضرورت جس کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ براستہ سڑک سفر کرنے والوں کے لیے بہتر سے بہتر سہولتوں کا انتظام کیا جائے۔چھوٹے چھوٹے ڈھابے یا کھانے پینے کی جگہوں کو محفوظ بنایا جائے اور ان کھانوں کو بھی صحت کے لیے صاف و ستھرا ہونے کا انتظام کیا جائے، واش روم اور رہنے کی جگہوں کو بھی سیکیورٹی دینا بہت ضروری ہے تاکہ لوگ اپنی آمدورفت کو خوشگوار بناسکیں۔
کراچی میں یا دوسری پاکستان کی جگہوں میں اگر ہائی ویز پر سفر کے دوران ہائی ویز پولیس آپ کو بہترین تعاون دیتی ہے اور آپ کی مدد کے لیے جگہ جگہ موجود ہے تو ہماری ٹریفک پولیس اس جیسا رزلٹ کیوں نہیں دے سکتی؟ ہم جنگلوں میں نہیں رہتے ہیں پھر ماحول جنگل جیسا کیوں؟ بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ بغیر کرپشن کے ہمیں اپنے ذرایع آمد و رفت کو بہترین بنانے کی شدید ضرورت ہے۔ اور ''بغیر کرپشن'' کے الفاظ پڑھ کر اگر آپ کو بہت زور سے ہنسی آئے تو بھی ہنس لیجیے کیونکہ اپنے آپ پر ہنسنے کا کام تو ہمیں آتا ہی ہے۔ کرپشن ایک ایسی دیمک ہے جس نے ملک کے ملک، شہر کے شہر تباہ کردیے، بڑے بڑے سورماؤں کو زندگی کے تخت سے گلی کے چوراہے پر پھینک دیا، اگر ہم اس دور میں اس حالات میں بھی سبق نہ سیکھے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔
پاکستان جیسے خوبصورت ملک کو بے انتہا خوبصورت موسموں کو بے حساب معدنیات اور اللہ کی بہت زیادہ نعمتوں سے مالا مال اس ملک اور اس کی ہر گلی کوچے کو ضرورت ہے تو ان ذہنوں کی ان کرداروں کی جو لالچ و ہوس سے کوسوں دور ہوں، جو زندہ رہنا چاہتے ہوں مرنے کے بعد جو چاہتے ہوں کہ ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے کچھ نیک کلمات ہوں۔
منصوبے بنائے جائیں عوام کی سہولیات کے لیے نا کہ ان کو بے وقوف بنانے کے لیے۔ کراچی میں سی این جی بسیں، زبردست تقاریر، زبردست بیانات نتیجہ صفر، کروڑوں روپے عوام کے گڑھے میں ڈال دیے گئے۔ حد تو یہ ہے کہ جو بسیں زیارتوں کے لیے عوام کے سفر کا ذریعہ بنتی ہیں ان پر بھی ڈاکوؤں کا راج ہوگیا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گہرائی میں جائیں تو پتا چلے گا کہ مل بانٹ کر کھانے کا سلسلہ ہے۔ ملک کو، شہروں کو، عوام کو پستی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
جو لوگ ترقی کی باتیں کریں وہ باہر کے ملکوں کے ایجنٹ قرار پاتے ہیں۔ تو پھر وفادار کون؟ دوست کون اور دشمن کون؟ جو گاڑیاں چل رہی ہیں جو ٹرینیں رواں دواں ہیں جو جہاز اڑانیں بھر رہے ہیں ان کا حال اپنی جگہ ایک الگ کہانی ہے۔کبھی کبھی صرف چند گھنٹوں کا سفر ایک ایک دو دو دن میں طے ہو رہا ہے۔ دن بہ دن کرایوں میں اضافہ، سفر کرنے والوں کے لیے عذاب جان بنا ہوا ہے۔ نہ گاڑیوں کی حالت چیک کی جاتی ہے نہ ان کو چلانے والے بلکہ حد تو یہ ہے کہ ایک ٹی وی پروگرام کے اینکر نے ایک اندھے کو لے جاکر اس کا ڈرائیونگ لائسنس بنوادیا۔