دنیا بھر سے شائینگ انڈیا
یہ بھارت کی خوش قسمتی ہے کہ کم از کم ان کے پاس ثانیہ مرزا جیسی شخصیت موجود ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جانب سے ٹینس کی عالمی شہرت یافتہ خاتون کھلاڑی ثانیہ مرزا کی خیر سگالی سفیر برائے حقوقِ خواتین کے تقرری بالواسطہ بھارت اور بلاواسطہ پاکستان کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کے خطے کے لئے باعثِ افتخار ہے۔ ثانیہ مرزا پہلی جنوبی ایشیائی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ثانیہ مرزا پنی پیشہ وارانہ زندگی میں متنوع تنازعات کے باعث مختلف مواقعوں پر بھارتی عوام اور میڈیا کے عتاب کا شکار رہی ہیں۔ جن میں مالی معاملات پر بھارتی ٹینس فیڈریشن سے اختلافات کے باعث ڈیوس کپ میں جنوبی کوریا کے خلاف اہم میچ میں بھارتی ٹیم سے الگ ہو جانے سے لے کر لندن اولمپکس میں بھارتی جھنڈا اٹھا کر نہ چلنے کی وجہ سے جذبہ حب الوطنی پر اٹھائے گئے سوالات اور پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے شادی کے باعث بھارتی سیاستدانوں کی جانب سے 'پاکستان کی بہو' ہونے جیسے طعنوں کا سامنا کرنے تک کے واقعات شامل ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ثانیہ مرزا نے اپنی زندگی اپنی شرائط پر کامیابی سے جی کر دکھائی ہے۔
ایسا ہی ایک اور تنازع اس وقت کھڑا ہو گیا جب بھارتی خواتین کو درپیش مسائل اور مشکلات کا برملا اظہار ثانیہ مرزا نے منگل کے روزاقوامِ متحدہ کے سفیر کی تقرری کے موقع پر کیا کہ '' بھارت میں خواتین کی حالت جانوروں سے بھی بدتر ہے''۔ یوں محسوس ہوا جیسے قیامت برپا ہو گئی! ایک کامیاب بھارتی پیشہ ور خاتون کھلاڑی کے طور پر اپنی زندگی کی اونچ نیچ، کامیابی ناکامی اور تجربے کا اعادہ کرتے ہوئے عورت جنس سے متعلق جن بنیادی معاشرتی خامیوں اور رویوں کا ذکر کیا وہ 100 فیصد درست ہونے کے باوجود ایک غالب مرد معاشرے کے لئے آج بھی ناقابلِ قبول ہیں۔ بھارت میں عوام کا خواتین کی حالتِ زار پر ثانیہ مرزا کے کھلے خیالات پر اس قدر سیخ پا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت بھی خطے کے دیگر ممالک کی طرح بنیادی معاشرتی سطح پر قدامت پسند اور برداشت کی کمی کا شکار ملک ہے جہاں ہر وہ شخص گنہگار وہ ہے جو برائی کو آئینہ دکھانے کی جسارت کرے۔اس ردِ عمل کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے فورم پر ایسے مسائل کا ذکر کرنے سے بھارت کی دنیا کے سامنے پیش کردہ ''شائینگ انڈیا'' کی ساکھ مجروح ہوئی ہے جو بھارتی میڈیا کے لئے قابلِ قبول نہیں!
پاکستان میں ثانیہ مرزا کے بھارتی خواتین بارے اظہارِ خیال اور اس پر بھارتی عوام کے سخت ردِ عمل پر خوشیاں منانے کی وجہ ناقابلِ فہم ہے۔ یہ بھارت کی خوش قسمتی ہے کہ کم از کم ان کے پاس ثانیہ مرزا جیسی شخصیت موجود ہے جو جنس کی بنیاد پر غیرمساوی سلوک اور خواتین کو درپیش مسائل کی آواز بن کر دنیا میں گونج اٹھی ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر اپنی زندگی کے نشیب و فراز کا ذکر کرنے کی ہمت بھی رکھتی ہے۔ پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ ثانیہ مرزا کی آواز کو بھارت کی جگ ہنسائی سے منسلک نہ کیا جائے بلکہ یہ ایک سنہری موقع ہے کہ اس آوازکو جنوبی ایشیا کی خواتین سے استحصالی رویوں کے خلاف آواز کے طور پر ابھارا جائے۔ اسے پاکستان کی خواتین کی آواز بھی سمجھا جائے کیونکہ پاکستان میں خواتین کے معاشرتی مسائل بھارت سے مختلف نہیں ۔
پاکستان میں بھی خواتین کو ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد جیسے واقعات درپیش ہیں جو کسی طور بھارت سے کم نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ثانیہ کی آواز کو اس خطے کی آواز کے طور پر بھر پور طریقہ سے ابھار کر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور خواتین کو جنس کی بنیاد پر کمتر انسان خیال کرنے کے نظریہ کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے حقیقی و ٹھوس بنیادوں اور برابری کی سطح پر تمام قسم کے حقوق فراہم کئے جائیں جس میں تعلیم سے لے کر اپنا من پسند پیشہ اپنانے اور جنسی استحصال کے بغیر کام کرنے کی مکمل آزادی تک کے حقوق باقائدہ قوانین کی صورت میں لاگو کئے جانے چاہیں۔
جہاں تک عوام اور میڈیا کی تنقید کا تعلق ہے تو یہ ثانیہ مرزا کے لئے نئی بات نہیں اور انہوں نے معاملات کی نزاکت کے پیش نظر اپنے تمام حالیہ بیانات کی اچھے طریقہ سے وضاحت بھی کر دی ہے پر پھر بھی اس خطہ میں موجود عدم برداشت اور تنگ نظری کے رویے کے پیش نظر شعیب بھائی کو ثانیہ بھابھی کی حمایت میں بھرپور طور پر آگے آنا چاہیے جو شعیب بھائی کا فرض بھی ہے اور اخلاقی تقاضا بھی۔ ویسے یہ اخلاقی ذمہ داری مساوی حقوق کی بات کرنے والے تمام افراد پر بھی عائد ہوتی ہے!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایسا ہی ایک اور تنازع اس وقت کھڑا ہو گیا جب بھارتی خواتین کو درپیش مسائل اور مشکلات کا برملا اظہار ثانیہ مرزا نے منگل کے روزاقوامِ متحدہ کے سفیر کی تقرری کے موقع پر کیا کہ '' بھارت میں خواتین کی حالت جانوروں سے بھی بدتر ہے''۔ یوں محسوس ہوا جیسے قیامت برپا ہو گئی! ایک کامیاب بھارتی پیشہ ور خاتون کھلاڑی کے طور پر اپنی زندگی کی اونچ نیچ، کامیابی ناکامی اور تجربے کا اعادہ کرتے ہوئے عورت جنس سے متعلق جن بنیادی معاشرتی خامیوں اور رویوں کا ذکر کیا وہ 100 فیصد درست ہونے کے باوجود ایک غالب مرد معاشرے کے لئے آج بھی ناقابلِ قبول ہیں۔ بھارت میں عوام کا خواتین کی حالتِ زار پر ثانیہ مرزا کے کھلے خیالات پر اس قدر سیخ پا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت بھی خطے کے دیگر ممالک کی طرح بنیادی معاشرتی سطح پر قدامت پسند اور برداشت کی کمی کا شکار ملک ہے جہاں ہر وہ شخص گنہگار وہ ہے جو برائی کو آئینہ دکھانے کی جسارت کرے۔اس ردِ عمل کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے فورم پر ایسے مسائل کا ذکر کرنے سے بھارت کی دنیا کے سامنے پیش کردہ ''شائینگ انڈیا'' کی ساکھ مجروح ہوئی ہے جو بھارتی میڈیا کے لئے قابلِ قبول نہیں!
پاکستان میں ثانیہ مرزا کے بھارتی خواتین بارے اظہارِ خیال اور اس پر بھارتی عوام کے سخت ردِ عمل پر خوشیاں منانے کی وجہ ناقابلِ فہم ہے۔ یہ بھارت کی خوش قسمتی ہے کہ کم از کم ان کے پاس ثانیہ مرزا جیسی شخصیت موجود ہے جو جنس کی بنیاد پر غیرمساوی سلوک اور خواتین کو درپیش مسائل کی آواز بن کر دنیا میں گونج اٹھی ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر اپنی زندگی کے نشیب و فراز کا ذکر کرنے کی ہمت بھی رکھتی ہے۔ پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ ثانیہ مرزا کی آواز کو بھارت کی جگ ہنسائی سے منسلک نہ کیا جائے بلکہ یہ ایک سنہری موقع ہے کہ اس آوازکو جنوبی ایشیا کی خواتین سے استحصالی رویوں کے خلاف آواز کے طور پر ابھارا جائے۔ اسے پاکستان کی خواتین کی آواز بھی سمجھا جائے کیونکہ پاکستان میں خواتین کے معاشرتی مسائل بھارت سے مختلف نہیں ۔
پاکستان میں بھی خواتین کو ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد جیسے واقعات درپیش ہیں جو کسی طور بھارت سے کم نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ثانیہ کی آواز کو اس خطے کی آواز کے طور پر بھر پور طریقہ سے ابھار کر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور خواتین کو جنس کی بنیاد پر کمتر انسان خیال کرنے کے نظریہ کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے حقیقی و ٹھوس بنیادوں اور برابری کی سطح پر تمام قسم کے حقوق فراہم کئے جائیں جس میں تعلیم سے لے کر اپنا من پسند پیشہ اپنانے اور جنسی استحصال کے بغیر کام کرنے کی مکمل آزادی تک کے حقوق باقائدہ قوانین کی صورت میں لاگو کئے جانے چاہیں۔
جہاں تک عوام اور میڈیا کی تنقید کا تعلق ہے تو یہ ثانیہ مرزا کے لئے نئی بات نہیں اور انہوں نے معاملات کی نزاکت کے پیش نظر اپنے تمام حالیہ بیانات کی اچھے طریقہ سے وضاحت بھی کر دی ہے پر پھر بھی اس خطہ میں موجود عدم برداشت اور تنگ نظری کے رویے کے پیش نظر شعیب بھائی کو ثانیہ بھابھی کی حمایت میں بھرپور طور پر آگے آنا چاہیے جو شعیب بھائی کا فرض بھی ہے اور اخلاقی تقاضا بھی۔ ویسے یہ اخلاقی ذمہ داری مساوی حقوق کی بات کرنے والے تمام افراد پر بھی عائد ہوتی ہے!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔