بزنس پارٹنر مطلوب ہیں
ایک وقت تھا جب آسودہ حال لوگ بھی صحن یا مکانوں کی چھتوں پر بے خوف سوتے تھے۔
یوں تو کئی قسمیں ہوں گی لیکن موٹی موٹی دو ٹائپ کی سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے والے افسر میرے نوٹس میں آئے ہیں۔ ایک وہ جو قناعت پسند ہوتے اورایمانداری سے نوکری کرنے کے بعد پنشن اور لائق اولاد کو اپنا ریٹائرمنٹ کا اثاثہ سمجھتے اور منظر عام سے کنارہ کش ہوتے ہیں دوسرے وہ جو ملازمت کے دوران خوب ہاتھ رنگتے ہیں۔ میرے پاس ایک شام تیسری قسم کا نیا نیا پنشنر دوست آیا جس نے رزق حلال میں سے کچھ رقم پس انداز کر رکھی تھی اورکوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کے لیے مشورے کا طالب تھا۔
وہ پنشنر دوست میرے پاس بیٹھا تھا کہ ایک گرگ صفت کامیاب کاروباری دوست بھی آ گیا۔ وہ نئے سے نئے بزنس کرنے میں ماہر تھا۔ میرا پنشنر دوست خوش ہوا۔ اس تیسرے بزنس مین دوست نے ہماری گفتگو سنی تھی تو اس نے کہا ''آج کل کے حالات کے پیش نظر ہر کوئی غیرمحفوظ ہے۔ ایسا ملک میں لا اینڈ آرڈر اور سیکیورٹی کے حالات کے سبب ہوتا ہے۔ میں لوگوں کی عام گاڑیوں کو بلٹ پروف بنانے کا کارخانہ لگانے کا پلان بنا رہا ہوں۔ اگر ارادہ ہو تو اس بزنس میں میرے ساتھ شمولیت کر لو۔ نقصان کا احتمال نہیں ہے۔'' دہشت گردی اور خودکش حملوں کے بارے میں حساب لگایا تو مجھے اس کاروبار میں کامیابی کے امکان نظر آئے کیونکہ لاقانونیت اور عدم تحفظ نے ہمیں دنیا کے غیر محفوظ ممالک کی صف میں بڑا اونچا مقام دے رکھا ہے۔
ایک وقت تھا جب آسودہ حال لوگ بھی صحن یا مکانوں کی چھتوں پر بے خوف سوتے تھے۔ جرائم میں اضافہ ہوا تو چوکیدار کسی کسی کوٹھی کے گیٹ پر نظر آنے لگے۔ کوئی دو دہائیاں قبل چند سیکیورٹی کمپنیاں معرض وجود میں آئیں پھر کئی ریٹائرڈ فوجی افسروں نے سیکیورٹی ایجنسیاں بنا لیں۔ دیکھا دیکھی بہت سے امیر لوگوں نے مسلح باوردی گارڈ رکھنا اسٹیٹس سمبل بنا کر دوسروں کو اس بھیڑ چال میں شامل کر لیا۔
دشمن دار بدمعاشوں اور وڈیروں نے کئی کئی گن مینوں کے جلو میں شہر میں گھومنا بلکہ شادی، مرگ کے فنکشنوں میں شرکت سے شوبازی کی طرح ڈال دی۔ اس قماش کے افراد کی اولادوں نے بھی کاروں جیپوں میں مسلح بندوقچیوں کے حصار میں اسکولوں، کالجوں اور مارکیٹوں میں جانا شروع کر دیا۔ بڑے بڑے سیاسی مولوی جو اپنے مخالف مسلک کے بڑوں اور پیروکاروں کے خلاف اشتعال انگیزی کے نتیجے میں خود غیر محفوظ ہو گئے وہ اب نئی پجیرو میں سوار آٹومیٹک اسلحہ سے لیس گن مینوں کی معیت میں جلسوں اور عبادت گاہوں میں جا کر امن اور نیکی کا وعظ کرتے ہیں۔ بڑے شہروں کے کئی محلوں میں حفاظتی گیٹ لگ گئے ہیں ۔ اور ان علاقوں میں جانے اور وہاں سے نکلنے کے لیے صرف دو ان اور آؤٹ گارڈڈ گیٹ کھلے رکھے جاتے ہیں اور اگر کوئی ناواقف ان بند محلوں میں پھنس جائے تو بھول بھلیوں اور LABYRINTH کے معانی زندگی بھر کے لیے سمجھ لیتا ہے۔
ہماری تین اہم جبلتوں بھوک جنس اور خوف میں اب خوف کی جبلت ہمارے ہاں پہلے نمبر پر آ گئی ہے۔ بظاہر جتنا بڑا کوئی پاٹے خاں ہے اسی قدر خوفزدہ رہتا اور ڈرپوک ہو گیا ہے۔ خونخوار مونچھوں رعونت سے لبریز چہروں، شعلہ بار نظروں اور کانوں سے دھواں چھوڑتے گرجدار آواز میں ٹی وی اور ٹیلیفون پر غرّاتے حکمرانوں ہی کو لیجیے اب وہ بیرون ملک دوروں پر رہتے محفوظ میٹنگز کرتے اور بلٹ پروف مرسیڈیزوں میں سڑکیں بلاک کر کے تین رستوں پر بیک وقت لگے روٹوں میں سے جس کی آخری لمحے کلیئرنس ملے اس پر برق رفتار CAVALCADE کے ساتھ اپنے DUPLICATE کو اگلی یا پچھلی گاڑی میں بٹھا کر اپنے عوام کی نظروں کے تیروں سے بچ کر محفوظ سفر کرتے ہیں۔
اس پندرہ منٹ کے سفر کے لیے تین سڑکوں پر مسلح روٹ لگتا ہے جس کی وجہ سے ان اطراف کی ٹریفک بغرض سیکیورٹی مجبوراً بلاک کرنا پڑتی ہے۔ میں نے جان کی امان پائے بغیر یہ تفصیل اس لیے لکھ دی کہ جان تو ایک چیونٹی کو بھی پیاری ہوتی ہے۔ آپ سب بھی اپنی اپنی سیکیورٹی کا خیال رکھا کریں۔ سنا ہے صدام حسین نے بھی اپنی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے سات ڈپلیکیٹ پالے ہوئے تھے۔ خدانخواستہ بیچارے حرام موت نہ مارے جا چکے ہوں۔ اگر ان میں سے کوئی زندہ ہو تو رابطہ کرے۔ اس کی کہانی سن کر تو ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے اور میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں اس کی رائیلٹی جنرل مشرف کے لیکچروں کی جعلی رائیلٹیوں سے ہزار گنا زیادہ ہو گی۔
جہازوں اور ٹینکوں کے سوا ہمارے دہشت گرد بھائیوں کے پاس ہر قسم کا تباہی پھیلانے والا اسلحہ موجود ہے۔ یہ سارا فساد وہ بزعم خود فی سبیل اللہ اور خدمت دین کا مقدس فریضہ انجام دینے کی غرض سے پھیلا رہے ہیں۔ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ ان کی مسلح کارروائیوں اور خودکش بمباروں کے پھٹنے سے بے قصور مسلمان ہلاک ہوتے ہیں اور ان ھی کی سرکاری و ذاتی املاک تباہ ہوتی ہیں، ملک اور دنیا بھر میں مسلمان الگ بدنام ہوتے ہیں لیکن نہ وہ شخصیات جنھیں جید علماء کا درجہ دیا جاتا ہے نہ ہی اسلامی ممالک کھل کر اور برملا ان وحشیانہ کارروائیوں کی مذمت و مخالفت کرتے ہیں بلکہ مختلف تاویلوں سے دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا پہلو اجاگر کیا جاتا ہے اور اس تمام ٹیررازم کا جواز امریکی مداخلت کے جواب اور حساب میں ڈال کر سلسلہ جاری رکھا جا رہا ہے جس کا بظاہر اختتام نظر نہیں آ رہا۔
ابھی پہلی مشاورتی ملاقات کو چند روز ہی گزرے تھے کہ ہمارا تیسری کیٹگری والا پنشنر دوست پھر میرے پاس آ گیا اور کہنے لگا کہ ''تمہارا وہ دوست جس نے عام موٹروں کو بلٹ پروف بنانے پر ریسرچ کے بعد ایسا کارخانہ شروع کرنے اور مجھے اس میں کاروباری شراکت کی آفر دی تھی کہاں ہے مجھے اس سے ملوا دو۔ مجھے اس کے مذکورہ پروجیکٹ میں بڑا Potential نظر آتا ہے۔ جان کس کو پیاری نہیں ہوتی۔
اگر وزیر اعظم، دیگر وزراء، گورنروں، چیف منسٹروں کے پاس سرکاری بلٹ پروف گاڑیاں نہیں تو پیرائیویٹ امرأ اپنی اپنی گاڑیوں کو بلٹ پروف کرانے کے لیے دوڑے چلے آئیں گے اور تمہارے دوست کے پاس آرڈروں کی قطاریں لگ جائیں ی اور یہ منصوبہ بے حد کامیاب ہو گا۔ تم اس کے ساتھ میری کاروباری شراکت کرا دو'' اب میں اپنے پنشنر دوست کے لیے بلٹ پروف گاڑیوں کے پراجیکٹ پر کام شروع کرنے والے دوست کو بلواؤں گا اور ممکن ہے خود بھی اس کاروبار میں شراکت اختیار کر لوں گا۔ اگر کوئی اور حضرات دلچسپی رکھتے ہوں تو میرے آئندہ کالم کا انتظار کریں۔
وہ پنشنر دوست میرے پاس بیٹھا تھا کہ ایک گرگ صفت کامیاب کاروباری دوست بھی آ گیا۔ وہ نئے سے نئے بزنس کرنے میں ماہر تھا۔ میرا پنشنر دوست خوش ہوا۔ اس تیسرے بزنس مین دوست نے ہماری گفتگو سنی تھی تو اس نے کہا ''آج کل کے حالات کے پیش نظر ہر کوئی غیرمحفوظ ہے۔ ایسا ملک میں لا اینڈ آرڈر اور سیکیورٹی کے حالات کے سبب ہوتا ہے۔ میں لوگوں کی عام گاڑیوں کو بلٹ پروف بنانے کا کارخانہ لگانے کا پلان بنا رہا ہوں۔ اگر ارادہ ہو تو اس بزنس میں میرے ساتھ شمولیت کر لو۔ نقصان کا احتمال نہیں ہے۔'' دہشت گردی اور خودکش حملوں کے بارے میں حساب لگایا تو مجھے اس کاروبار میں کامیابی کے امکان نظر آئے کیونکہ لاقانونیت اور عدم تحفظ نے ہمیں دنیا کے غیر محفوظ ممالک کی صف میں بڑا اونچا مقام دے رکھا ہے۔
ایک وقت تھا جب آسودہ حال لوگ بھی صحن یا مکانوں کی چھتوں پر بے خوف سوتے تھے۔ جرائم میں اضافہ ہوا تو چوکیدار کسی کسی کوٹھی کے گیٹ پر نظر آنے لگے۔ کوئی دو دہائیاں قبل چند سیکیورٹی کمپنیاں معرض وجود میں آئیں پھر کئی ریٹائرڈ فوجی افسروں نے سیکیورٹی ایجنسیاں بنا لیں۔ دیکھا دیکھی بہت سے امیر لوگوں نے مسلح باوردی گارڈ رکھنا اسٹیٹس سمبل بنا کر دوسروں کو اس بھیڑ چال میں شامل کر لیا۔
دشمن دار بدمعاشوں اور وڈیروں نے کئی کئی گن مینوں کے جلو میں شہر میں گھومنا بلکہ شادی، مرگ کے فنکشنوں میں شرکت سے شوبازی کی طرح ڈال دی۔ اس قماش کے افراد کی اولادوں نے بھی کاروں جیپوں میں مسلح بندوقچیوں کے حصار میں اسکولوں، کالجوں اور مارکیٹوں میں جانا شروع کر دیا۔ بڑے بڑے سیاسی مولوی جو اپنے مخالف مسلک کے بڑوں اور پیروکاروں کے خلاف اشتعال انگیزی کے نتیجے میں خود غیر محفوظ ہو گئے وہ اب نئی پجیرو میں سوار آٹومیٹک اسلحہ سے لیس گن مینوں کی معیت میں جلسوں اور عبادت گاہوں میں جا کر امن اور نیکی کا وعظ کرتے ہیں۔ بڑے شہروں کے کئی محلوں میں حفاظتی گیٹ لگ گئے ہیں ۔ اور ان علاقوں میں جانے اور وہاں سے نکلنے کے لیے صرف دو ان اور آؤٹ گارڈڈ گیٹ کھلے رکھے جاتے ہیں اور اگر کوئی ناواقف ان بند محلوں میں پھنس جائے تو بھول بھلیوں اور LABYRINTH کے معانی زندگی بھر کے لیے سمجھ لیتا ہے۔
ہماری تین اہم جبلتوں بھوک جنس اور خوف میں اب خوف کی جبلت ہمارے ہاں پہلے نمبر پر آ گئی ہے۔ بظاہر جتنا بڑا کوئی پاٹے خاں ہے اسی قدر خوفزدہ رہتا اور ڈرپوک ہو گیا ہے۔ خونخوار مونچھوں رعونت سے لبریز چہروں، شعلہ بار نظروں اور کانوں سے دھواں چھوڑتے گرجدار آواز میں ٹی وی اور ٹیلیفون پر غرّاتے حکمرانوں ہی کو لیجیے اب وہ بیرون ملک دوروں پر رہتے محفوظ میٹنگز کرتے اور بلٹ پروف مرسیڈیزوں میں سڑکیں بلاک کر کے تین رستوں پر بیک وقت لگے روٹوں میں سے جس کی آخری لمحے کلیئرنس ملے اس پر برق رفتار CAVALCADE کے ساتھ اپنے DUPLICATE کو اگلی یا پچھلی گاڑی میں بٹھا کر اپنے عوام کی نظروں کے تیروں سے بچ کر محفوظ سفر کرتے ہیں۔
اس پندرہ منٹ کے سفر کے لیے تین سڑکوں پر مسلح روٹ لگتا ہے جس کی وجہ سے ان اطراف کی ٹریفک بغرض سیکیورٹی مجبوراً بلاک کرنا پڑتی ہے۔ میں نے جان کی امان پائے بغیر یہ تفصیل اس لیے لکھ دی کہ جان تو ایک چیونٹی کو بھی پیاری ہوتی ہے۔ آپ سب بھی اپنی اپنی سیکیورٹی کا خیال رکھا کریں۔ سنا ہے صدام حسین نے بھی اپنی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے سات ڈپلیکیٹ پالے ہوئے تھے۔ خدانخواستہ بیچارے حرام موت نہ مارے جا چکے ہوں۔ اگر ان میں سے کوئی زندہ ہو تو رابطہ کرے۔ اس کی کہانی سن کر تو ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے اور میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں اس کی رائیلٹی جنرل مشرف کے لیکچروں کی جعلی رائیلٹیوں سے ہزار گنا زیادہ ہو گی۔
جہازوں اور ٹینکوں کے سوا ہمارے دہشت گرد بھائیوں کے پاس ہر قسم کا تباہی پھیلانے والا اسلحہ موجود ہے۔ یہ سارا فساد وہ بزعم خود فی سبیل اللہ اور خدمت دین کا مقدس فریضہ انجام دینے کی غرض سے پھیلا رہے ہیں۔ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ ان کی مسلح کارروائیوں اور خودکش بمباروں کے پھٹنے سے بے قصور مسلمان ہلاک ہوتے ہیں اور ان ھی کی سرکاری و ذاتی املاک تباہ ہوتی ہیں، ملک اور دنیا بھر میں مسلمان الگ بدنام ہوتے ہیں لیکن نہ وہ شخصیات جنھیں جید علماء کا درجہ دیا جاتا ہے نہ ہی اسلامی ممالک کھل کر اور برملا ان وحشیانہ کارروائیوں کی مذمت و مخالفت کرتے ہیں بلکہ مختلف تاویلوں سے دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا پہلو اجاگر کیا جاتا ہے اور اس تمام ٹیررازم کا جواز امریکی مداخلت کے جواب اور حساب میں ڈال کر سلسلہ جاری رکھا جا رہا ہے جس کا بظاہر اختتام نظر نہیں آ رہا۔
ابھی پہلی مشاورتی ملاقات کو چند روز ہی گزرے تھے کہ ہمارا تیسری کیٹگری والا پنشنر دوست پھر میرے پاس آ گیا اور کہنے لگا کہ ''تمہارا وہ دوست جس نے عام موٹروں کو بلٹ پروف بنانے پر ریسرچ کے بعد ایسا کارخانہ شروع کرنے اور مجھے اس میں کاروباری شراکت کی آفر دی تھی کہاں ہے مجھے اس سے ملوا دو۔ مجھے اس کے مذکورہ پروجیکٹ میں بڑا Potential نظر آتا ہے۔ جان کس کو پیاری نہیں ہوتی۔
اگر وزیر اعظم، دیگر وزراء، گورنروں، چیف منسٹروں کے پاس سرکاری بلٹ پروف گاڑیاں نہیں تو پیرائیویٹ امرأ اپنی اپنی گاڑیوں کو بلٹ پروف کرانے کے لیے دوڑے چلے آئیں گے اور تمہارے دوست کے پاس آرڈروں کی قطاریں لگ جائیں ی اور یہ منصوبہ بے حد کامیاب ہو گا۔ تم اس کے ساتھ میری کاروباری شراکت کرا دو'' اب میں اپنے پنشنر دوست کے لیے بلٹ پروف گاڑیوں کے پراجیکٹ پر کام شروع کرنے والے دوست کو بلواؤں گا اور ممکن ہے خود بھی اس کاروبار میں شراکت اختیار کر لوں گا۔ اگر کوئی اور حضرات دلچسپی رکھتے ہوں تو میرے آئندہ کالم کا انتظار کریں۔