فیصل آباد ادب آباد
نثری ادب پر تو ایسی بہار چڑھتے ہم نے پہلے کبھی کہاں دیکھی تھی۔ لگتا ہے کہ مشاعرے کے بعد اردو کا یہ دوسرا میوہ ہے۔
SYDNEY:
لیجیے ہم فیصل آباد لٹریری، فیسٹیول بھی دیکھ آئے اور اب ہم سوچ رہے ہیں کہ دیکھتے دیکھتے لٹریری فیسٹیول کو پاکستان کی تہذیبی زندگی کا یا نئے محاورے میں پاکستانی کلچر کا سب سے مقبول مال بن گئے ہیں۔ ارے ہمارے یہاں اتنی بھری محفل یا تو مشاعرے میں ہوتی چلی آئی ہے یا موسیقی کانفرنس میں۔ نثری ادب پر تو ایسی بہار چڑھتے ہم نے پہلے کبھی کہاں دیکھی تھی۔
لگتا ہے کہ مشاعرے کے بعد اردو کا یہ دوسرا میوہ ہے جسے قبول عام کا شرف حاصل ہوا ہے۔ بس پچھلے چند برسوں میں یہ گل کھلا ہے بلکہ مشاعرے کی تو اب عمر بہت ہوگئی ہے تو اپنے دیس میں اس کی بہار نے کچھ خزاں والا رنگ پکڑ لیا ہے۔ اب دوسرے دیسوں میں پہنچ کر مشاعرہ اپنا زور باندھ رہا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی انگلش لٹریری فیسٹیول سے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور برٹش کونسل نے مل کر کراچی میں اس کی طرح ڈالی تھی۔ اس سے پاکستان کی انگریزی مخلوق کے جیسے دن پھر گئے۔ بس وہ سمجھنے لگے کہ اس دیس میں بس اب انگریزی ناول ہی کا سکہ چلے گا۔ اردو پٹ گئی۔ مگر پاکستان میں جب الیکٹرونک میڈیا کی دنیا میں انگلش چینل ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ گیا تو انگلش لٹریری فیسٹیول کا سکہ کتنے دن چلتا۔ سو جلد ہی منتظمین نے صورتحال کو بھانپا اور اپنے انگلش فیسٹیول میں اردو کا تڑکا لگایا۔ اس تڑکہ نے کام دکھایا اور دیکھتے دیکھتے اس فیسٹیول پر ایسی بہار آئی اور اتنی گہما گہمی دیکھنے میں آئی کہ سچ مچ ادبی میلہ کا سماں بندھ گیا۔
وہ میلہ اپنی جگہ۔ اس سے شہ پا کر نخالص اردو نے جھرجھری لی اور اب یہ اردو ادبی میلے میں اپنے انگریزی نام کے ساتھ کراچی اور لاہور ایسے بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹے شہروں میں بالخصوص پنجاب کے شہروں میں پہنچ گئی ہے۔ اور وہاں ان میں کچھ زیادہ ہی گہما گہمی نظر آتی ہے۔ مگر ادھر ایک تبدیلی اور بھی تو ہوئی ہے جس سے ادبی سرگرمی کو اس رنگ کی تقویت ملی ہے۔ وہ یہ کہ ان شہروں میں یونیورسٹیاں قائم ہو گئی ہیں تو اب یہ پسماندہ شہر نہیں رہے۔
تعلیمی فروغ کے فیض سے یہاں اب نئی لہر بہر نظر آتی ہے۔ فیصل آباد کے نگر میں جب ہم نے قدم رکھا تو تھوڑے قدم چلے تھے تو ایک گیٹ نظر آیا بورڈ لگا تھا ''یونیورسٹی سٹی'' تو گویا ہم فیصل آباد میں چار قدم چلنے کے بعد فیصل آباد یونیورسٹی سٹی میں داخل ہو رہے تھے۔ اس وقت تو یہ یونیورسٹی کچھ زیادہ یونیورسٹی سٹی نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اگر یہاں کی نئی تعلیم یافتہ مخلوق کے تیور یہ ہیں تو ان آگے چل کر یہ صحیح معنوں میں یونیورسٹی سٹی یعنی شہر علم نظر آئے گا اور آکسفورڈ اور کیمبرج سے برابری کا دعویٰ کرتا نظر آئے گا۔
ارے اسی یونیورسٹی کے فیض سے تو فیصل آباد لٹریری فیسٹیول میں اتنی رونق نظر آ رہی تھی۔ تعلیم یافتہ اور زیر تعلیم لڑکوں سے بڑھ کر یہاں تعلیم یافتہ اور زیر تعلیم لڑکیوں کی لہر بہر نظر آ رہی تھی۔ وہ فیسٹیول کے انتظام میں اتنی متحرک تھیں کہ جیسے یہاں کی ساری رونق اور سارا انتظام انھیں کا مرہون منت ہے۔
یہ ایک روزہ سیمینار تھا۔ ایک کے بعد دوسرا سیشن، دوسرے کے بعد تیسرا سیشن۔ یعنی یاروں کو سانس لینے کا موقعہ نہیں مل رہا تھا۔ سو جھوٹ کیوں بولیں۔ سارے سیشن میں تو ہم بھی حاضری نہیں دے سکے۔ ہر سیشن میں ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور آخری سیشن کے احوال کا کیا پوچھتے ہو۔ مجمع ابلا پڑ رہا تھا۔ ہم کن مشکلوں سے اسٹیج تک پہنچے ہیں۔ ذکر فیضؔ کا اور گفتگو سلیمہ ہاشمی کی۔ سونے پہ سہاگہ۔ مثل ہمارے یہاں یہ چلی آئی ہے کہ اگر پدر نتواند پسر تمام کند۔ مگر زمانہ بہت بدل گیا۔ بیٹوں کی جگہ بیٹیوں نے لے لی ہے۔ سلیمہ ہاشمی فیضؔ صاحب کی بیٹی ہیں۔ بیٹی سے بڑھ کر بیٹا ہیں۔ خیر بولنے والے تو اور بھی تھے۔
ٹکڑا لگانے والوں میں ہم بھی تھے اور سب سے بڑھ کر چہک رہی تھیں۔ عارفہ سیدہ، ارے ان کا کیا پوچھتے ہو۔ سچ مچ چہکتی ہیں۔ زبان و بیان کا جادو دیکھنا ہو تو انھیں سنو۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں ہے اور لو اصغر ندیم سید کو تو ہم بھول ہی چلے تھے۔ وہی تو اس سیشن کے اینکر بنے ہوئے تھے۔ مگر اس سیشن میں کیا وہ تو پورے فیسٹیول کی روح رواں بنے ہوئے تھے۔ پہلے سیشن سے آخری سیشن تک۔ پہلا سیشن یعنی افتتاحی سیشن جس میں کرسی صدارت پر رونق افروز تھے عبداللہ حسین، چھڑی ٹیکتے ٹیکتے اسٹیج پر پہنچے۔ ان کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی چھڑی پکڑی اور کلیدی خطبہ در بغل ہم بھی چھڑی ٹیکتے ٹیکتے اسٹیج پر جا پہنچے۔
ارے ہمیں اس کے سوا کیا کہنا تھا کہ ادب اور فنون لطیفہ کی موجودہ صورت حال پر گفتگو کر رہے ہو۔ مگر مت بھولو کہ یہ زمانہ کونسا ہے اور ادب کے لیے کتنا سازگار ہے۔ شور کتنا ہے، سیاستدانوں نے کیا غل مچایا ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر دھرنوں نے سر پہ آسمان اٹھا رکھا ہے۔ ادب اس زمانے میں۔ اور ادیب غریب سمجھ لو کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز۔ پھر بھی شکر کرو کہ اس کے باوصف چہک رہی ہے۔ سو بیشک طوطی کو جوتی دکھائو مگر نقارخانے کی دھماچوکڑی بھی پیش نظر رہے۔
اس کے سوا اور کس سیشن کا ذکر کریں۔ عبداللہ حسین کے سیشن کا جہاں ان کے ناول ''اداس نسلیں'' کی پچاس سالہ سالگرہ منائی جا رہی تھی اور اسی ذیل میں ان سے جواب سوال کیے جا رہے تھے۔
ناول کی مقبولیت پر دل میں بیشک لڈو پھوٹ رہے ہوں۔ مگر زبان سے یہی کہہ رہے تھے کہ میں تو بھول بھی چکا ہوں کہ کیا لکھا تھا اور میں نے بعد میں جو کچھ لکھا ہے کہانیاں، ناول، آخر وہ کس کھاتے میں گئے۔ یار لوگ ''اداس نسلیں'' کا راگ گائے جا رہے ہیں۔
اس مسئلہ پر بات ہو سکتی ہے کہ جب کسی لکھنے والے کا ایک افسانہ یا ایک ناول اتنی شہرت پکڑ لیتا ہے کہ قارئین اسی ایک کام پر لکھنے والے کو داد دیتے ہیں تو لکھنے والے کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ اس کے باقی کام کی طرف سے منہ موڑ کر صرف ایک کام پر داد دینے کی شکایت برحق مگر آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔
ہاں ایک سیشن میں ہم نے کشور ناہید کو دیکھا کہ رواں ہیں سوال کیے جا رہے ہیں اور وہ بتا رہی ہیں کہ انھوں نے شاعری کا کیسے آغاز کیا اور بزرگوں نے ان کی کس کس رنگ سے حوصلہ افزائی کی۔ ایک مشاعرے میں سید عابد علی عابد نے ان کی غزل سنی تو داد اس انداز سے دی کہ اسی شاعرہ سے پھر پڑھوائو۔ مشاعرہ کنڈکٹ کرنے والے نے کہا کہ اب وقت کہاں ہے۔ آپ کو بھی تو آخر ہمیں سننا ہے۔ بولے کہ بیشک میری غزل کے لیے وقت نہ رہے۔ اس نوخیز شاعرہ سے مزید سننا لازم آتا ہے۔
لیجیے ہم فیصل آباد لٹریری، فیسٹیول بھی دیکھ آئے اور اب ہم سوچ رہے ہیں کہ دیکھتے دیکھتے لٹریری فیسٹیول کو پاکستان کی تہذیبی زندگی کا یا نئے محاورے میں پاکستانی کلچر کا سب سے مقبول مال بن گئے ہیں۔ ارے ہمارے یہاں اتنی بھری محفل یا تو مشاعرے میں ہوتی چلی آئی ہے یا موسیقی کانفرنس میں۔ نثری ادب پر تو ایسی بہار چڑھتے ہم نے پہلے کبھی کہاں دیکھی تھی۔
لگتا ہے کہ مشاعرے کے بعد اردو کا یہ دوسرا میوہ ہے جسے قبول عام کا شرف حاصل ہوا ہے۔ بس پچھلے چند برسوں میں یہ گل کھلا ہے بلکہ مشاعرے کی تو اب عمر بہت ہوگئی ہے تو اپنے دیس میں اس کی بہار نے کچھ خزاں والا رنگ پکڑ لیا ہے۔ اب دوسرے دیسوں میں پہنچ کر مشاعرہ اپنا زور باندھ رہا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی انگلش لٹریری فیسٹیول سے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور برٹش کونسل نے مل کر کراچی میں اس کی طرح ڈالی تھی۔ اس سے پاکستان کی انگریزی مخلوق کے جیسے دن پھر گئے۔ بس وہ سمجھنے لگے کہ اس دیس میں بس اب انگریزی ناول ہی کا سکہ چلے گا۔ اردو پٹ گئی۔ مگر پاکستان میں جب الیکٹرونک میڈیا کی دنیا میں انگلش چینل ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ گیا تو انگلش لٹریری فیسٹیول کا سکہ کتنے دن چلتا۔ سو جلد ہی منتظمین نے صورتحال کو بھانپا اور اپنے انگلش فیسٹیول میں اردو کا تڑکا لگایا۔ اس تڑکہ نے کام دکھایا اور دیکھتے دیکھتے اس فیسٹیول پر ایسی بہار آئی اور اتنی گہما گہمی دیکھنے میں آئی کہ سچ مچ ادبی میلہ کا سماں بندھ گیا۔
وہ میلہ اپنی جگہ۔ اس سے شہ پا کر نخالص اردو نے جھرجھری لی اور اب یہ اردو ادبی میلے میں اپنے انگریزی نام کے ساتھ کراچی اور لاہور ایسے بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹے شہروں میں بالخصوص پنجاب کے شہروں میں پہنچ گئی ہے۔ اور وہاں ان میں کچھ زیادہ ہی گہما گہمی نظر آتی ہے۔ مگر ادھر ایک تبدیلی اور بھی تو ہوئی ہے جس سے ادبی سرگرمی کو اس رنگ کی تقویت ملی ہے۔ وہ یہ کہ ان شہروں میں یونیورسٹیاں قائم ہو گئی ہیں تو اب یہ پسماندہ شہر نہیں رہے۔
تعلیمی فروغ کے فیض سے یہاں اب نئی لہر بہر نظر آتی ہے۔ فیصل آباد کے نگر میں جب ہم نے قدم رکھا تو تھوڑے قدم چلے تھے تو ایک گیٹ نظر آیا بورڈ لگا تھا ''یونیورسٹی سٹی'' تو گویا ہم فیصل آباد میں چار قدم چلنے کے بعد فیصل آباد یونیورسٹی سٹی میں داخل ہو رہے تھے۔ اس وقت تو یہ یونیورسٹی کچھ زیادہ یونیورسٹی سٹی نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اگر یہاں کی نئی تعلیم یافتہ مخلوق کے تیور یہ ہیں تو ان آگے چل کر یہ صحیح معنوں میں یونیورسٹی سٹی یعنی شہر علم نظر آئے گا اور آکسفورڈ اور کیمبرج سے برابری کا دعویٰ کرتا نظر آئے گا۔
ارے اسی یونیورسٹی کے فیض سے تو فیصل آباد لٹریری فیسٹیول میں اتنی رونق نظر آ رہی تھی۔ تعلیم یافتہ اور زیر تعلیم لڑکوں سے بڑھ کر یہاں تعلیم یافتہ اور زیر تعلیم لڑکیوں کی لہر بہر نظر آ رہی تھی۔ وہ فیسٹیول کے انتظام میں اتنی متحرک تھیں کہ جیسے یہاں کی ساری رونق اور سارا انتظام انھیں کا مرہون منت ہے۔
یہ ایک روزہ سیمینار تھا۔ ایک کے بعد دوسرا سیشن، دوسرے کے بعد تیسرا سیشن۔ یعنی یاروں کو سانس لینے کا موقعہ نہیں مل رہا تھا۔ سو جھوٹ کیوں بولیں۔ سارے سیشن میں تو ہم بھی حاضری نہیں دے سکے۔ ہر سیشن میں ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور آخری سیشن کے احوال کا کیا پوچھتے ہو۔ مجمع ابلا پڑ رہا تھا۔ ہم کن مشکلوں سے اسٹیج تک پہنچے ہیں۔ ذکر فیضؔ کا اور گفتگو سلیمہ ہاشمی کی۔ سونے پہ سہاگہ۔ مثل ہمارے یہاں یہ چلی آئی ہے کہ اگر پدر نتواند پسر تمام کند۔ مگر زمانہ بہت بدل گیا۔ بیٹوں کی جگہ بیٹیوں نے لے لی ہے۔ سلیمہ ہاشمی فیضؔ صاحب کی بیٹی ہیں۔ بیٹی سے بڑھ کر بیٹا ہیں۔ خیر بولنے والے تو اور بھی تھے۔
ٹکڑا لگانے والوں میں ہم بھی تھے اور سب سے بڑھ کر چہک رہی تھیں۔ عارفہ سیدہ، ارے ان کا کیا پوچھتے ہو۔ سچ مچ چہکتی ہیں۔ زبان و بیان کا جادو دیکھنا ہو تو انھیں سنو۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں ہے اور لو اصغر ندیم سید کو تو ہم بھول ہی چلے تھے۔ وہی تو اس سیشن کے اینکر بنے ہوئے تھے۔ مگر اس سیشن میں کیا وہ تو پورے فیسٹیول کی روح رواں بنے ہوئے تھے۔ پہلے سیشن سے آخری سیشن تک۔ پہلا سیشن یعنی افتتاحی سیشن جس میں کرسی صدارت پر رونق افروز تھے عبداللہ حسین، چھڑی ٹیکتے ٹیکتے اسٹیج پر پہنچے۔ ان کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی چھڑی پکڑی اور کلیدی خطبہ در بغل ہم بھی چھڑی ٹیکتے ٹیکتے اسٹیج پر جا پہنچے۔
ارے ہمیں اس کے سوا کیا کہنا تھا کہ ادب اور فنون لطیفہ کی موجودہ صورت حال پر گفتگو کر رہے ہو۔ مگر مت بھولو کہ یہ زمانہ کونسا ہے اور ادب کے لیے کتنا سازگار ہے۔ شور کتنا ہے، سیاستدانوں نے کیا غل مچایا ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر دھرنوں نے سر پہ آسمان اٹھا رکھا ہے۔ ادب اس زمانے میں۔ اور ادیب غریب سمجھ لو کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز۔ پھر بھی شکر کرو کہ اس کے باوصف چہک رہی ہے۔ سو بیشک طوطی کو جوتی دکھائو مگر نقارخانے کی دھماچوکڑی بھی پیش نظر رہے۔
اس کے سوا اور کس سیشن کا ذکر کریں۔ عبداللہ حسین کے سیشن کا جہاں ان کے ناول ''اداس نسلیں'' کی پچاس سالہ سالگرہ منائی جا رہی تھی اور اسی ذیل میں ان سے جواب سوال کیے جا رہے تھے۔
ناول کی مقبولیت پر دل میں بیشک لڈو پھوٹ رہے ہوں۔ مگر زبان سے یہی کہہ رہے تھے کہ میں تو بھول بھی چکا ہوں کہ کیا لکھا تھا اور میں نے بعد میں جو کچھ لکھا ہے کہانیاں، ناول، آخر وہ کس کھاتے میں گئے۔ یار لوگ ''اداس نسلیں'' کا راگ گائے جا رہے ہیں۔
اس مسئلہ پر بات ہو سکتی ہے کہ جب کسی لکھنے والے کا ایک افسانہ یا ایک ناول اتنی شہرت پکڑ لیتا ہے کہ قارئین اسی ایک کام پر لکھنے والے کو داد دیتے ہیں تو لکھنے والے کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ اس کے باقی کام کی طرف سے منہ موڑ کر صرف ایک کام پر داد دینے کی شکایت برحق مگر آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔
ہاں ایک سیشن میں ہم نے کشور ناہید کو دیکھا کہ رواں ہیں سوال کیے جا رہے ہیں اور وہ بتا رہی ہیں کہ انھوں نے شاعری کا کیسے آغاز کیا اور بزرگوں نے ان کی کس کس رنگ سے حوصلہ افزائی کی۔ ایک مشاعرے میں سید عابد علی عابد نے ان کی غزل سنی تو داد اس انداز سے دی کہ اسی شاعرہ سے پھر پڑھوائو۔ مشاعرہ کنڈکٹ کرنے والے نے کہا کہ اب وقت کہاں ہے۔ آپ کو بھی تو آخر ہمیں سننا ہے۔ بولے کہ بیشک میری غزل کے لیے وقت نہ رہے۔ اس نوخیز شاعرہ سے مزید سننا لازم آتا ہے۔