یارو ایک لڑائی ہے

ہمارا حکمران طبقہ کہہ رہا ہے کہ دھرنے والے جلسوں والے 2018ء تک انتظار کریں۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

67 سال سے اس ملک میں جو ظالمانہ، منافقانہ، مکارانہ، لٹیری سیاست چل رہی ہے اب اس کے چل چلاؤ کا وقت آ گیا ہے، کشمیر سے کراچی تک عوام میں جو اضطراب ہے،بے چینی ہے، اشتعال ہے، جوش و جذبہ ہے، وہ نہ کوئی کھیل تماشا ہے نہ مذاق، بلکہ اس گلے سڑے استحصالی نظام کی تباہی اور اس کے محافظوں کے کڑے احتساب کی نوید ہے۔

روایتی سیاستدان اور حکمران طبقات ان تبدیلیوں کی سنگینی کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں لیکن اس کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے اس صورت حال کو کبھی تماشا کہہ رہ ہے ہیں، یہ کوشش کر رہے ہیں کہ عوام میں اس سنگین صورت حال کے حوالے سے ذہنی انتشار، بدگمانیاں، غیر یقینیت پیدا کر کے اسے فیوز کر دیں لیکن ''ایں خیال است و محال است و جنوں'' اس لیے ہے کہ یہ نہ چند مداریوں کا کھیل ہے نہ تماشا بلکہ کراچی سے کشمیر تک بپھرے ہوئے کروڑ انسانوں کا فکری انقلاب ہے۔

ہمارا حکمران طبقہ کہہ رہا ہے کہ دھرنے والے جلسوں والے 2018ء تک انتظار کریں وزارت عظمیٰ کے لیے بے چین ہونے والوں کو ابھی 4 سال دل پر پتھر رکھ کر صبر کرنا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ 1947ء سے آج تک جو سیاست ہوتی رہی اس میں عوام کسی حوالے سے شریک نہ رہے بس ان کا کام یہ رہ گیا تھا کہ ہر پانچ سال بعد اپنے معاشی قاتلوں، لٹیروں کو منتخب کر کے انھیں پانچ سال تک لوٹ مار کا سرٹیفکیٹ دیں جس کا نام ان بزرگوں نے مینڈیٹ رکھا ہوا ہے۔

ایک بار دھونس دھاندلی، بے ایمانی سے منتخب ہونے کے بعد انھیں پانچ سال سے پہلے کوئی مائی کا لعل ہٹا نہیں سکتا۔ آج اسی حق کی تکرار کی جا رہی ہے اور اسی دھاندلی کی پیداوار مینڈیٹ کو 5 سال تک عوام کے سروں پر سوار رہنے کا پروانہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ نہیں دیکھا جا رہا ہے کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزر گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بددیانت دارانہ نظام کی حمایت کرنے والے T.V دانشور، اینکر سب اس حقیقت کو تسلیم بھی کر رہے ہیں کہ منتخب حکومتوں نے ''ڈلیور'' نہیں کیا یعنی عوام کو کچھ نہیں دیا۔ جب منتخب حکومتوں نے ڈلیور نہیں کیا اور بیڈ گورننس ہی کا مظاہرہ کیا تو پھر انھیں پانچ سال تک عوام کے سروں پر مسلط رہنے کا کیا حق ہے۔

دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں پارٹیوں کے منشور کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور انتخابی مہم کے دوران جو وعدے کیے جاتے ہیں انتخابات جیتنے والی پارٹی کو وہ وعدے پورے کرنے پڑتے ہیں اس طرح مینڈیٹ مکمل طور پر مشروط ہوتا ہے، لیکن ہمارے محترم سیاستدانوں نے اس مشروط مینڈیٹ کو پانچ سال حکومت کرنے کا سرٹیفکیٹ بنا لیا ہے۔ اب یہ فارمولا نہیں چل سکتا۔ چونکہ حکمران طبقہ اور اس کے ساجھے دار 5 سالہ حکومتی میعاد کو پکا کرنا چاہتے تھے اس لیے آئین سے وہ شقیں ختم کرا دیں جن کے ذریعے ان کی ناقص کارکردگی کا احتساب کیا جاتا تھا اگرچہ ان شقوں کو استعمال کرنے والوں کی نیت صاف نہیں تھی نہ ان شقوں کو استعمال کر کے بددیانت دارانہ سیاست میں کوئی تبدیلی لائی گئی لیکن جب صورت حال ایسی ہو جاتی ہے تو دوسرے راستے تلاش کر لیے جاتے ہیں۔


آج حکمران طبقات اور ان کے جواری اور غیر ملکی آقا سب یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ''ہم ماورائے آئین'' کسی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے لیکن عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ 1977ء کی تبدیلی کیا ماورائے آئین تبدیلی نہیں تھی، کیا یہ تبدیلی لانے والے آج کے روایتی سیاستدانوں کے باپ دادا نہیں تھے؟ اگر حقیقت یہی ہے کہ 1977ء کی تبدیلی ماورائے آئین تھی اور اس تبدیلی کے لانے والے آج کے ''چھوٹوں'' کے بڑے تھے تو آج پھر اپنے بزرگوں کی روایت کی مخالفت کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟

اس ممکنہ تبدیلی کو روکنے کے لیے آئین میں ایسی شقیں ہوتیں جو ناکارہ حکومتوں کو ہٹانے کی راہ ہموار کرتیں تو کوئی شخص ماورائے آئین تبدیلی کی حمایت نہ کرتا۔جن خرابیوں اور جس گندی سیاست کا آج عوام کو سامنا ہے وہ اچانک نمودار ہونے والی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا آغاز تحریک پاکستان ہی کے دور میں اس وقت ہوا جب تقسیم ہند یقینی ہو گئی اور پاکستان کی زمینی اشرافیہ کو یہ نظر آنے لگا کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو تو ایسے متحدہ ہندوستان میں سب سے پہلا وار جاگیردارانہ نظام پر ہوگا۔

اس نقصان سے بچنے کے لیے جاگیردار ایک طرف مسلم لیگ کی صفوں میں گھس کر اپنی جاگیریں بچانے کے لیے تقسیم کی حمایت کرنے لگے تو دوسری طرف پاکستان بننے کے بعد اقتدار میں آنے کی راہ بھی ہموار کر لی۔ قائد اعظم محمد علی جناح جو پاکستان چاہتے تھے اس پاکستان کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور اس پاکستان کو آگے لایا گیا جس میں عوام کا کوئی عمل دخل نہیں صرف زمینی اور صنعتی اشرافیہ کی میراث بن گیا ہے۔ 67 سال تک اقتدار اور لوٹ مار کے مزے لینے والوں کا دل ابھی نہیں بھرا اب وہ اقتدار کو اپنی نئی نسل کے حوالے کرنے کے لیے ولی عہدی نظام کو رائج اور مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام پاکستان میں ایک بار پھر مغل دور اور بہادر شاہ ظفر جیسے حکمرانوں کو واپس لانا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہمیں 14 اگست 2014ء سے آج تک مل رہا ہے۔ آج جو لڑائی لڑی جا رہی ہے وہ نہ آئین کی لڑائی ہے نہ جمہوریت کی، یہ لڑائی لوٹ مار کے موروثی نظام اور 67 سال سے غلام بنا کر رکھے گئے عوام کی لڑائی ہے۔ اس عوامی جنگ کو ناکام بنانے اور لٹیرا شاہی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ہزاروں جتن کیے جا رہے ہیں۔

کبھی کہا جاتا ہے کہ انارکسٹ ملک میں بدنظمی پیدا کر کے جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں کبھی کہا جاتا ہے کہ دھرنے والے ملکی معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان الزامات کے ذریعے جہاں عوامی تحریک کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہیں اس موروثی سیاست اور موروثی اقتدار کا دفاع کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان کے 53 فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

جہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ آج کراچی سے کشمیر تک جو عوام باہر آرہے ہیں وہ چہروں کی تبدیلی کے لیے نہیں بلکہ اس شاطرانہ غیر منصفانہ منافقانہ اشرافیائی نظام کو بدلنے کے لیے آ رہے ہیں نہ کہ عوام محض نواز شریف کی جگہ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے اور ممنون حسین کی جگہ قادری کو صدر بنانے کے لیے آ رہے ہیں۔ اگر کوئی رہنما نظام کی تبدیلی کے بجائے اس فرسودہ نظام کا حصہ بننے کی کوشش کرے گا تو عوام ایسے رہنما کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیں گے۔

پاکستان کی 67 سالہ تاریخ میں پہلی بار عوام چہروں کی تبدیلی کے خلاف باہر نکلے ہیں اور نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کر رہے ہیں یہی اصل لڑائی ہے ایوب خان کے دور میں ہمارے ایک منفرد شاعر دوست سعید رضا سعید کا ایک مصرعہ بہت مقبول ہوا تھا وہ مصرعہ یہ تھا ''یارو ایک لڑائی ہے سائیگان سے منگھو پیر تلک'' اس وقت دنیا کے عوام کی امریکی سامراج سے لڑائی تھی اور آج امریکی سامراج کے غلاموں اور عوام کی لڑائی ہے اس لڑائی کو جہاں امریکا کے غلام جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں امریکی سامراج ان کی حمایت کر رہا ہے لیکن یہ لڑائی اب اس مرحلے میں داخل ہو گئی ہے ۔
Load Next Story