شادی اور مذہب
یہ تقسیم ہند کے بعد کی بات ہے۔ وجے لکشمی پنڈت نےایک مسلمان سے شادی کرنی چاہی۔گاندھی اور نہرو نے اس بات کو پسند نہ کیا۔
مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان آپس کی شادیوں کے واقعات اور کشمکش ہمارا آج کا موضوع ہے۔ یہ کوئی پچاس سو برس کی بات نہیں بلکہ یہ دس بارہ نہیں تو کم از کم چار چھ صدیوں کی بات تو ہے ہی۔ آج بھی بھارت کے ہندو فلمساز اور ہدایت کار اس حوالے سے ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ اس تنازعے کی زوردار ابتدا شہنشاہ اکبر سے نظر آتی ہے۔ مسلمان بادشاہ حکومت کررہا تھا اور وہ بھی ایک ہندو اکثریتی ملک پر۔ اس نے چاہا کہ کوئی درمیان کا راستہ اختیار کیا جائے۔
اکبر کی ایجاد کو پانچ صدیوں قبل ہندوؤں اور مسلمانوں نے قبول نہیں کیا تھا۔ اکیسویں صدی میں عشق زادے نامی بھارت کی ایک فلم میں دونوں مذاہب کے ماننے والوں نے ایسے رشتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ یہ ہمارے کالم کی ابتدا اور انتہا ہوگی۔ گفتگو شروع ہوگی مغل شہنشاہ اور جودھا بائی کی شادی سے اور اس کا اختتام ہوگا ایک فلم میں ٹریجڈی پر۔
شہنشاہ اکبر نے ایک ہندو خاتون جودھا بائی سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس نے مسلمان عالموں سے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلہ معلوم کرنا چاہا۔ انھوں نے بتایاکہ ''مسلمان مرد اور عورت کسی مشرک سے شادی نہیں کرسکتے'' یہ قرآن کے واضح احکامات ہیں۔ ''دین الٰہی'' کا بانی اکبر نہ مانا اور پھر اس کے محل میں مندر بھی بن گیا اور بت بھی سج گئے۔
ہند میں سرمایہ ملت کے نگہبان حضرت مجدد الف ثانی نے اس کی مخالفت کی۔ اس تاریخی ٹکراؤ پر اس مختصر گفتگو کے بعد اس کالم میں ہم برصغیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی اور نہ ہوسکنے والی شادیوں پر گفتگو کریںگے۔ حقیقت و فسانہ یعنی سچی مچی کے واقعات اور اسی حوالے سے بننے والی فلموں کے حوالے سے ہم بات کو آگے بڑھائیںگے۔
قائداعظم کی عمر بیالیس برس کی تھی، تو ان سے نصف عمر کی پارسی لڑکی انھیں پسند کرنے لگی۔ جناح نے تمام مذہبی اور قانونی تقاضے پورے کیے۔ لڑکی کی بلوغت کی عمر تک پہنچنے کے انتظار سے کہ اس کی اسلام کی قبولیت تک۔ عدالت سے رجوع کرنے سے لے کر رتی جناح کو دین فطرت کی تعلیم میں دلچسپی کی حوصلہ افزائی تک۔ ایسا ہی تاریخی معاملہ نہرو کی بہن کے ساتھ پیش آیا۔
یہ تقسیم ہند کے بعد کی بات ہے۔ وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کرنی چاہی۔ گاندھی اور نہرو نے اس بات کو پسند نہ کیا۔ اس مسلمان افسر کو کسی ملک کے سفارت خانے میں بھجواکر ہندوستان سے دور بھجوادیا گیا۔ یوں یہ پیار لڑکی کے بڑوں کی چالاکی سے ادھورا رہ گیا۔ لیلیٰ مجنوں، شیریں فرھاد، عمر ماروی، رومیو جیولیٹ، ہیر رانجھا اور سسی پنوں کی طرح۔
اداکارہ نرگس مسلمان تھیں، جب کہ ان کی شادی سنیل دت سے ہوئی۔ بھارتی عدالتوں سے قید کی سزا پانے والے سنجے دت کے ماں باپ مختلف مذاہب کے تھے۔ سنیل نے اپنا مذہب تبدیل نہ کیا اور وہ ہندو رہے جب کہ نرگس کی آخری رسومات بطور مسلمان کے ادا کی گئیں۔ مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی نے کسی ہندو سے شادی کی اور اپنی وصیت کے مطابق ہندوؤں کی طرح ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ انھوں نے تدفین کے بجائے جلنا پسند کیا، پاکستان کے کرکٹر محسن خان کی شادی بھارتی اداکارہ رینا رائے سے ہوئی۔ کہتے ہیں کہ دلہن مسلمان ہوئی تھیں۔ یہ شادی زیادہ عرصے نہ چل سکی اور معاملہ طلاق پر ختم ہوا۔
محسن کی بیٹی کا نام جنت رکھا گیا اور وہ ماں کے پاس ہندوستان میں رہی، اب سنا گیا کہ رینا رائے نے بیٹی کا نام تبدیل کردیا ہے۔ سیف علی خان کے والد نواب منصور کی شادی شرمیلا ٹیگور نامی ہندو اداکارہ سے ہوئی۔ سنتے ہیں کہ ان کا نام تبدیل کرکے رضیہ رکھا گیا تھا۔ شاہ رخ کی شادی فلموں میں آنے سے قبل ہی ہندو لڑکی گوری سے ہوچکی تھی۔ دونوں اپنے اپنے مذاہب پر قائم رہے۔ شاہ رخ کے تین بچے مسلمانوں کے سے انداز میں پل رہے ہیں جب کہ ان کے نام نہ ہندوؤں کے سے ہیں اور نہ مسلمانوں کے سے۔ ایشوریہ رائے بھی ایک وقت میں سلمان خان سے شادی کرنا چاہ رہی تھیں لیکن ہندو انتہاپسند تنظیموں کے شور مچانے پر یہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔ بالآخر سابقہ ملکہ حسن کی شادی اپنے ہی ہم مذہب ابھیشک بچن سے ہوگئی۔
بھارتی فلم ساز کیا ڈنڈی مارتے ہیں؟ اب تک ہم حقیقی واقعات پر گفتگو کرچکے ہیں۔ تقسیم ہند کے موقع پر بڑے پیمانے پر آبادی کا تبادلہ ہوا تھا۔ اس ہنگامہ آرائی میں بے شمار خاندان اپنی بچیوں سے بچھڑ گئے۔ کچھ ہندو لڑکیاں مسلمانوں کے درمیان رہ گئیں تو کچھ مسلمان لڑکیاں ہندوؤں و سکھوں کے درمیان۔ اب بھارتی کہانی نویسوں کو صرف یکطرفہ کہانیاں ہی نظر آتی ہیں۔ لاکھوں میں ایک کی طرح وہ ایسی فلمیں بناتے ہیں جس میں ہیرو تو ہندو ہو جب کہ ہیروئن مسلمان ہو۔
آگے چل کر راج کپور نے فلم ''حنا'' فلم بند کی۔ تقسیم کی کہانی اور مسلمان لڑکی۔ انھوں نے اپنے بیٹے رشی کپور کو ہیرو اور پاکستان مسلمان لڑکی زیبا بختیار کو فلم کی ہیروئن بنایا۔ یہ ڈنڈی مارنا نہیں تو اور کیا ہے؟ بھارتی ہدایت کار اپنی ہیروئنز کے نام گیتا اور بلونت اور ان کے مقابل ہیرو کو احمد یا اقبال یا سلیم کا نام دینے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے۔ اسی لیے جب ایک پاکستانی کھلاڑی شعیب ملک بھارت کی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کو بیاہ کر لائے تو یہ موازنہ مذہب کے نہیں بلکہ ممالک کے درمیان ہوا۔ پاکستانی لڑکے اور ہندوستانی لڑکی کے رشتے کو پاکستانیوں نے بھارتی فلم انڈسٹری کے نقلی نہلے پر اصلی دھلا قرار دیا۔
بالی وڈ کے ہندو فلم سازوں کی فلموں کے ذریعے کوشش ہے کہ مسلمان لڑکیاں ہندو لڑکوں سے شادی کریں۔ کوشش تو باہمی رشتہ داریوں کی ہوتی ہے لیکن مسلمان کے لیے شرک کرنے والوں سے رشتے کی ممانعت ہے۔ مسلمان لڑکا ممکن ہے ہندو لڑکی کو مسلمان بناکر رشتہ کرے، اب اگر کسی ہندو لڑکے کے لیے ممکن نہ ہو کہ وہ مسلمان لڑکی کی خاطر اپنا دھرم چھوڑے۔ یہ اس ہندو مرد کی مردانگی کے خلاف ہو۔
فلمیں ایسی بنائی جارہی ہے کہ مسلمان لڑکی مذہب، ذات پات اور مسلم سماج کو ٹھوکر مارنے والی دکھائی جاتی ہے۔ اس کے مسلمان خاندان کو ولن کی طرح دکھایا جاتا ہے۔ عشق و محبت کا ایسا گلیمر سجایا جاتا ہے کہ ہندو اکثریت کے درمیان رہنے والے مسلمان نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ''سیکولرازم'' کے سیلاب میں بہہ جائیں۔ اس حوالے سے مسلمان لڑکی کے ہندو لڑکے سے پیار کو کئی مرتبہ بھارتی فلموں کا موضوع بنایا جاچکا ہے۔
تقسیم کے موقع پر مشرقی پنجاب کی مسلمان لڑکی اپنے خاندان سے الگ ہوکر امرتسر میں رہ جاتی ہے، فلم میں دکھایا گیا کہ اس کو سکھ لڑکے سے پیار ہوجاتا ہے، اس فلم میں بھی پاکستانیوں کو کم تر دکھانے کی کوشش کی گئی تھی، یہ چھوٹے ذہن کی بات ہے۔ اسی طرح جیسے فلم ''گاندھی'' میں قائداعظم کے کردار کو کم تر دکھانے کی کوشش کی گئی، جب ہم نے ''جناح'' بنائی تو نہرو اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کی قربت کو دکھاکر ہم نے بدلہ لینے کی غیر ضروری کوشش کی۔
مذہب اسلام اور اس کی تعلیمات اتنی کمزور نہیں، جب ہزار سال ہندو اکثریت کے درمیان رہنے کے باوجود دونوں ریل کی متوازی پٹریوں کی مانند چلتے رہے، اسی طرح بھارت کا ہندو سماج ایسی جگہ بڑا طاقت ور ہے، پریوار کی پرم پرا سے اب پاکستانی بھی واقف ہیں۔ کسی ہندو لڑکے کا کسی مسلمان لڑکی کو بیاہ کر اپنے خاندان کے لیے قابل قبول کروانا بہت مشکل ہے۔
یہی کچھ فلم ''عشق زادے'' میں دکھایا گیا، اب نیا حربہ اختیار کیا گیا کہ دونوں مذاہب کے ماننے والے اپنی شادی کے موقع پر نکاح بھی پڑھوائیں اور پھیرے بھی لگوائیں۔ اس کے باوجود دونوں کا خاندان اس جوڑے کو قبول نہیں کرتا۔ ہندو و مسلم سماج کے بھارتی ٹھیکیدار دونوں پریمیوں کو مل کر مارنے کو آتے ہیں۔ ایک طرف بڑوں کی سیاسی و مذہبی مجبوریاں ہوتی ہیں تو دوسری طرف نوجوانوں کا پیار۔
شادی ہو اور مذہب مختلف ہو تو مسئلہ ہمیشہ پیش آتا ہے۔ پاکستان میں بھی کہا جاتا ہے کہ ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرکے ان سے بیاہ رچایا جاتا ہے، کئی چینلز نے مذہب تبدیل کرکے مسلمان سے شادی کرنے والی لڑکیوں سے انٹرویو لیے تو انھوں نے جبر سے انکار کیا لیکن اس معاملے پر پاکستانی ہندوؤں کا اطمینان لازمی ہے۔ حقیقت کچھ بھی ہو پاک و ہند میں دونوں مذاہب کی آپس میں شادیوں کی ایک تاریخ ہے۔
دونوں سماج مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں لیکن پیار کی بھی ایک طاقت ہوتی ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی اس خطے کے لوگ عشق و محبت کی کہانیاں سنیں گے، لڑائیاں، جھگڑے اور تنازعے بھی ہوںگے، جب جب الگ الگ مذہب کے لوگ ایک ہونا چاہیںگے، تب تب برصغیر میں ہمیشہ باتیں ہوتی رہیںگی، شادی اور مذہب کی۔
اکبر کی ایجاد کو پانچ صدیوں قبل ہندوؤں اور مسلمانوں نے قبول نہیں کیا تھا۔ اکیسویں صدی میں عشق زادے نامی بھارت کی ایک فلم میں دونوں مذاہب کے ماننے والوں نے ایسے رشتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ یہ ہمارے کالم کی ابتدا اور انتہا ہوگی۔ گفتگو شروع ہوگی مغل شہنشاہ اور جودھا بائی کی شادی سے اور اس کا اختتام ہوگا ایک فلم میں ٹریجڈی پر۔
شہنشاہ اکبر نے ایک ہندو خاتون جودھا بائی سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس نے مسلمان عالموں سے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلہ معلوم کرنا چاہا۔ انھوں نے بتایاکہ ''مسلمان مرد اور عورت کسی مشرک سے شادی نہیں کرسکتے'' یہ قرآن کے واضح احکامات ہیں۔ ''دین الٰہی'' کا بانی اکبر نہ مانا اور پھر اس کے محل میں مندر بھی بن گیا اور بت بھی سج گئے۔
ہند میں سرمایہ ملت کے نگہبان حضرت مجدد الف ثانی نے اس کی مخالفت کی۔ اس تاریخی ٹکراؤ پر اس مختصر گفتگو کے بعد اس کالم میں ہم برصغیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی اور نہ ہوسکنے والی شادیوں پر گفتگو کریںگے۔ حقیقت و فسانہ یعنی سچی مچی کے واقعات اور اسی حوالے سے بننے والی فلموں کے حوالے سے ہم بات کو آگے بڑھائیںگے۔
قائداعظم کی عمر بیالیس برس کی تھی، تو ان سے نصف عمر کی پارسی لڑکی انھیں پسند کرنے لگی۔ جناح نے تمام مذہبی اور قانونی تقاضے پورے کیے۔ لڑکی کی بلوغت کی عمر تک پہنچنے کے انتظار سے کہ اس کی اسلام کی قبولیت تک۔ عدالت سے رجوع کرنے سے لے کر رتی جناح کو دین فطرت کی تعلیم میں دلچسپی کی حوصلہ افزائی تک۔ ایسا ہی تاریخی معاملہ نہرو کی بہن کے ساتھ پیش آیا۔
یہ تقسیم ہند کے بعد کی بات ہے۔ وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کرنی چاہی۔ گاندھی اور نہرو نے اس بات کو پسند نہ کیا۔ اس مسلمان افسر کو کسی ملک کے سفارت خانے میں بھجواکر ہندوستان سے دور بھجوادیا گیا۔ یوں یہ پیار لڑکی کے بڑوں کی چالاکی سے ادھورا رہ گیا۔ لیلیٰ مجنوں، شیریں فرھاد، عمر ماروی، رومیو جیولیٹ، ہیر رانجھا اور سسی پنوں کی طرح۔
اداکارہ نرگس مسلمان تھیں، جب کہ ان کی شادی سنیل دت سے ہوئی۔ بھارتی عدالتوں سے قید کی سزا پانے والے سنجے دت کے ماں باپ مختلف مذاہب کے تھے۔ سنیل نے اپنا مذہب تبدیل نہ کیا اور وہ ہندو رہے جب کہ نرگس کی آخری رسومات بطور مسلمان کے ادا کی گئیں۔ مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی نے کسی ہندو سے شادی کی اور اپنی وصیت کے مطابق ہندوؤں کی طرح ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ انھوں نے تدفین کے بجائے جلنا پسند کیا، پاکستان کے کرکٹر محسن خان کی شادی بھارتی اداکارہ رینا رائے سے ہوئی۔ کہتے ہیں کہ دلہن مسلمان ہوئی تھیں۔ یہ شادی زیادہ عرصے نہ چل سکی اور معاملہ طلاق پر ختم ہوا۔
محسن کی بیٹی کا نام جنت رکھا گیا اور وہ ماں کے پاس ہندوستان میں رہی، اب سنا گیا کہ رینا رائے نے بیٹی کا نام تبدیل کردیا ہے۔ سیف علی خان کے والد نواب منصور کی شادی شرمیلا ٹیگور نامی ہندو اداکارہ سے ہوئی۔ سنتے ہیں کہ ان کا نام تبدیل کرکے رضیہ رکھا گیا تھا۔ شاہ رخ کی شادی فلموں میں آنے سے قبل ہی ہندو لڑکی گوری سے ہوچکی تھی۔ دونوں اپنے اپنے مذاہب پر قائم رہے۔ شاہ رخ کے تین بچے مسلمانوں کے سے انداز میں پل رہے ہیں جب کہ ان کے نام نہ ہندوؤں کے سے ہیں اور نہ مسلمانوں کے سے۔ ایشوریہ رائے بھی ایک وقت میں سلمان خان سے شادی کرنا چاہ رہی تھیں لیکن ہندو انتہاپسند تنظیموں کے شور مچانے پر یہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔ بالآخر سابقہ ملکہ حسن کی شادی اپنے ہی ہم مذہب ابھیشک بچن سے ہوگئی۔
بھارتی فلم ساز کیا ڈنڈی مارتے ہیں؟ اب تک ہم حقیقی واقعات پر گفتگو کرچکے ہیں۔ تقسیم ہند کے موقع پر بڑے پیمانے پر آبادی کا تبادلہ ہوا تھا۔ اس ہنگامہ آرائی میں بے شمار خاندان اپنی بچیوں سے بچھڑ گئے۔ کچھ ہندو لڑکیاں مسلمانوں کے درمیان رہ گئیں تو کچھ مسلمان لڑکیاں ہندوؤں و سکھوں کے درمیان۔ اب بھارتی کہانی نویسوں کو صرف یکطرفہ کہانیاں ہی نظر آتی ہیں۔ لاکھوں میں ایک کی طرح وہ ایسی فلمیں بناتے ہیں جس میں ہیرو تو ہندو ہو جب کہ ہیروئن مسلمان ہو۔
آگے چل کر راج کپور نے فلم ''حنا'' فلم بند کی۔ تقسیم کی کہانی اور مسلمان لڑکی۔ انھوں نے اپنے بیٹے رشی کپور کو ہیرو اور پاکستان مسلمان لڑکی زیبا بختیار کو فلم کی ہیروئن بنایا۔ یہ ڈنڈی مارنا نہیں تو اور کیا ہے؟ بھارتی ہدایت کار اپنی ہیروئنز کے نام گیتا اور بلونت اور ان کے مقابل ہیرو کو احمد یا اقبال یا سلیم کا نام دینے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے۔ اسی لیے جب ایک پاکستانی کھلاڑی شعیب ملک بھارت کی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کو بیاہ کر لائے تو یہ موازنہ مذہب کے نہیں بلکہ ممالک کے درمیان ہوا۔ پاکستانی لڑکے اور ہندوستانی لڑکی کے رشتے کو پاکستانیوں نے بھارتی فلم انڈسٹری کے نقلی نہلے پر اصلی دھلا قرار دیا۔
بالی وڈ کے ہندو فلم سازوں کی فلموں کے ذریعے کوشش ہے کہ مسلمان لڑکیاں ہندو لڑکوں سے شادی کریں۔ کوشش تو باہمی رشتہ داریوں کی ہوتی ہے لیکن مسلمان کے لیے شرک کرنے والوں سے رشتے کی ممانعت ہے۔ مسلمان لڑکا ممکن ہے ہندو لڑکی کو مسلمان بناکر رشتہ کرے، اب اگر کسی ہندو لڑکے کے لیے ممکن نہ ہو کہ وہ مسلمان لڑکی کی خاطر اپنا دھرم چھوڑے۔ یہ اس ہندو مرد کی مردانگی کے خلاف ہو۔
فلمیں ایسی بنائی جارہی ہے کہ مسلمان لڑکی مذہب، ذات پات اور مسلم سماج کو ٹھوکر مارنے والی دکھائی جاتی ہے۔ اس کے مسلمان خاندان کو ولن کی طرح دکھایا جاتا ہے۔ عشق و محبت کا ایسا گلیمر سجایا جاتا ہے کہ ہندو اکثریت کے درمیان رہنے والے مسلمان نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ''سیکولرازم'' کے سیلاب میں بہہ جائیں۔ اس حوالے سے مسلمان لڑکی کے ہندو لڑکے سے پیار کو کئی مرتبہ بھارتی فلموں کا موضوع بنایا جاچکا ہے۔
تقسیم کے موقع پر مشرقی پنجاب کی مسلمان لڑکی اپنے خاندان سے الگ ہوکر امرتسر میں رہ جاتی ہے، فلم میں دکھایا گیا کہ اس کو سکھ لڑکے سے پیار ہوجاتا ہے، اس فلم میں بھی پاکستانیوں کو کم تر دکھانے کی کوشش کی گئی تھی، یہ چھوٹے ذہن کی بات ہے۔ اسی طرح جیسے فلم ''گاندھی'' میں قائداعظم کے کردار کو کم تر دکھانے کی کوشش کی گئی، جب ہم نے ''جناح'' بنائی تو نہرو اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کی قربت کو دکھاکر ہم نے بدلہ لینے کی غیر ضروری کوشش کی۔
مذہب اسلام اور اس کی تعلیمات اتنی کمزور نہیں، جب ہزار سال ہندو اکثریت کے درمیان رہنے کے باوجود دونوں ریل کی متوازی پٹریوں کی مانند چلتے رہے، اسی طرح بھارت کا ہندو سماج ایسی جگہ بڑا طاقت ور ہے، پریوار کی پرم پرا سے اب پاکستانی بھی واقف ہیں۔ کسی ہندو لڑکے کا کسی مسلمان لڑکی کو بیاہ کر اپنے خاندان کے لیے قابل قبول کروانا بہت مشکل ہے۔
یہی کچھ فلم ''عشق زادے'' میں دکھایا گیا، اب نیا حربہ اختیار کیا گیا کہ دونوں مذاہب کے ماننے والے اپنی شادی کے موقع پر نکاح بھی پڑھوائیں اور پھیرے بھی لگوائیں۔ اس کے باوجود دونوں کا خاندان اس جوڑے کو قبول نہیں کرتا۔ ہندو و مسلم سماج کے بھارتی ٹھیکیدار دونوں پریمیوں کو مل کر مارنے کو آتے ہیں۔ ایک طرف بڑوں کی سیاسی و مذہبی مجبوریاں ہوتی ہیں تو دوسری طرف نوجوانوں کا پیار۔
شادی ہو اور مذہب مختلف ہو تو مسئلہ ہمیشہ پیش آتا ہے۔ پاکستان میں بھی کہا جاتا ہے کہ ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرکے ان سے بیاہ رچایا جاتا ہے، کئی چینلز نے مذہب تبدیل کرکے مسلمان سے شادی کرنے والی لڑکیوں سے انٹرویو لیے تو انھوں نے جبر سے انکار کیا لیکن اس معاملے پر پاکستانی ہندوؤں کا اطمینان لازمی ہے۔ حقیقت کچھ بھی ہو پاک و ہند میں دونوں مذاہب کی آپس میں شادیوں کی ایک تاریخ ہے۔
دونوں سماج مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں لیکن پیار کی بھی ایک طاقت ہوتی ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی اس خطے کے لوگ عشق و محبت کی کہانیاں سنیں گے، لڑائیاں، جھگڑے اور تنازعے بھی ہوںگے، جب جب الگ الگ مذہب کے لوگ ایک ہونا چاہیںگے، تب تب برصغیر میں ہمیشہ باتیں ہوتی رہیںگی، شادی اور مذہب کی۔