ہم پُرامید ہیں

اگلے انتخابات میں خیال ہے کہ پی ٹی آئی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ملک بھر سے نئے چیلنج کی صورت میں سامنے آسکتی ہے۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

اسے دھرنوں اور جلسوں کی برکات کہیے یا تاریخ سے سبق سیکھنا کہ اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قوم کو تیزی سے ڈلیور کرنا شروع کردیا ہے اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور یہ سب نہ صرف ملک و قوم بلکہ خود مسلم لیگ (ن) کی سیاسی بقا کے لیے بیحد ضروری ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ قوم اب بیدار ہوچکی ہے اور وہ تبدیلی کی خواہشمند ہے، ''تبدیلی'' سے ہرگز یہ مراد نہیں لینی چاہیے کہ قوم اب نئے چہرے دیکھنا چاہتی ہے بلکہ قوم اب نیا نظام دیکھنا چاہتی ہے اور جو نیا نظام دے گا وہی بقا پائے گا۔

میاں صاحب کے پاس تاریخی موقع ہے کہ وہ اپنی حکومت کی 5سالہ مدت میں قوم کو اپنا نیا طرز حکمرانی دکھائیں، نیا نظام دیں، نیا پاکستان بنائیں، تاریخ کو سامنے رکھیں، ان اسباب و محرکات کو بھی پیش نظر رکھیں جن کی وجہ سے عوام انتہائی مایوسی کے عالم میں قادری اور عمران خان کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

ان غلطیوں سے سبق کو بھی ترجیحات میں رکھیے جو پیپلز پارٹی نے اپنے گزشتہ 5سالہ دور حکومت میں انجام دیں، جس کی بدولت وہ ایسی عبرتناک شکست سے دوچار ہوئے کہ سندھ میں محدود ہوکر رہ گئے، اگر مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنی توجہ صرف 5سال مکمل کرنے پر ہی مرکوز کیے رکھی اور ملک و قوم کو کچھ ڈلیور نہیں کیا تو یقیناً 2018 کے انتخابات میں وہ بھی صرف پنجاب تک محدود ہوکر رہ جائے گی اور اگر عمران کا جادو چل گیا تو پھر سمجھئے کہ پنجاب بھی ہاتھ سے گیا۔

اگلے انتخابات میں خیال ہے کہ پی ٹی آئی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ملک بھر سے نئے چیلنج کی صورت میں سامنے آسکتی ہے اور اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کی واحد صورت موجودہ حکمرانوں کی اچھی کارکردگی کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتی، جو جو سیاسی جماعت جہاں جہاں سے ملک بھر میں منتخب ہوئیں اور عوام نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا اب اس اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے انھیں عوام کو اپنی اپنی سطح پر ڈلیور کرنا ضروری ہے اور یہ فرض خود پاکستان تحریک انصاف پر عائد ہوتا ہے کہ وہ خیبرپختونخوا میں سب سے پہلے نئے نظام اور نئے پاکستان کی بنیاد رکھے، جس نئے نظام اور نئے پاکستان کا خواب وہ قوم کو دکھا رہی ہے اس کے رول ماڈل کے طور پر وہ سب سے پہلے اور سب کے سامنے خیبر پختونخوا کو رکھے وہاں کے عوام کو تمام سہولیات و حقوق مہیا کرے بصورت دیگر اس کے تمام دعوے بیکار ہیں۔

خیبرپختونخوا کی عوام اس سے قبل متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی کو ناقص کارکردگی پر مسترد کرچکی ہے، وہاں کے عوام جس قدر جلد بازی سے اپنے حکمراں منتخب کرتی ہے اتنی جلد بازی سے مایوس ہوکر تبدیلی چاہتی اور انھیں مسترد بھی کردیتی ہے، حکومت بنانا اتنا بڑا چیلنج نہیں ہوتا جتنا اسے بہتر انداز میں چلانا اور عوام کو مطمئن کرکے اپنی سیاسی ساکھ کو بحال رکھنا اور عزت بچانا ہوتا ہے، بصورت دیگر عوام اب باشعور ہوچکی ہے، اس کی کسی سے یاری نہیں اسے تو صرف تبدیلی پیاری ہے اور جو حقیقی معنوں میں اسے تبدیلی دے وہی اس کو پیارا ہے ورنہ بے فیض و بے ثمر سیاست کا اللہ کو پیارا ہونے کا روشن امکان اب وطن عزیز میں پیدا ہوچکا ہے۔


جو حکومت جتنا عرصہ قائم رہتی ہے عوام بھی اب اسے کارکردگی کے لحاظ سے اسی تناظر میں ناپتے اور تولتے ہیں، کوئی حکومت اگر درمیان میں گرا کر سیاسی شہید کردی جائے تو وہ مظلوم ٹھہرتی ہے اور جو بلا کارکردگی اپنی مدت پوری کرے اس کا یہ اقدام یقیناً سیاسی خودکشی ہی قرار دیا جاسکتا ہے، موجودہ سیاسی صورتحال مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت ان تمام سیاسی جماعتوں کو جن کی حکومت جہاں جہاں قائم ہے اور جہاں جہاں عوام نے ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے لمحہ فکریہ فراہم کرتی ہے۔

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ موٹر وے، میٹرو بس سروس، اقلیتوں کے تحفظ کے لیے جدوجہد ، ریلوے کے نظام کی اصلاح، ڈالر کی قیمت میں کمی، اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھارت کو جرأت مندانہ انداز میں للکارنا اور مسئلہ کشمیر کو موثر انداز میں اٹھانا، پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں کمی، اپنا روزگار اسکیم، تعلیم کے فروغ کے لیے لیپ ٹاپ کی تقسیم اور دانش اسکولز وغیرہ کا قیام، پولیو کے مکمل خاتمے کا عزم، آپریشن ضرب عضب، معاشی ترقی کے منصوبے اور بجلی بحران کے مکمل خاتمے اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے دیرینہ دوست چین کے ساتھ 21 معاہدے وغیرہ بلاشبہ مسلم لیگ(ن) کے بڑے کارنامے ہیں جن کا تمام تر کریڈٹ میاں صاحب اور ان کے مشیروں کو جاتا ہے۔

قریب ہی ہے کہ جب چین کے صدر پاکستان کا دورہ کریں اور ان کا یہ دورہ بھی یقینا بڑی اہمیت کا حامل اور تاریخی نوعیت کا ہوگا، چین خطے کا سب سے طاقتور ملک ہے ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ ہمارا دوست ہے ہمیں بہت پہلے ہی اپنے مسائل و چیلنجز کے حل اور بحرانوں پر قابو پانے کے لیے چین سے رابطے و معاہدے کرنے چاہیے تھے تاہم چلیے دیر آید درست آید۔ ہمیں اپنے دوست دشمن کی پہچان ہونی چاہیے، ہم نے امریکا کا بیحد ساتھ دیا لیکن اس نے ہمیشہ بھارت ہی کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور پاکستان کی تمام تر قربانیوں کو ایک جانب رکھ کر ہمیشہ منفی سیاست ہی کرتا رہا جب کہ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ اس سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کیے رکھیں۔

ملک میں چونکہ تعمیرو ترقی کے سفر کا آغاز ہوتا دکھائی دے رہا ہے لہٰذا یہ وقت ایک قوم بن کر ملک کے خلاف ہر سازش اور دہشت گردی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے کا ہے، وہ تمام ملک دشمن عناصر اور طاقتیں جو پاکستان کو نقصان پہنچانا اور خاتمہ چاہتی ہیں وہ ترقی کے اس سفر میں سر راہ ہونے کی ضرور کوشش کریں گے، ہماری خوشحالی کسی کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی، حکومت سمیت پوری قوم کو ہوشیار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔

میاں صاحب! یہ قوم67 برس سے تبدیلی کی منتظر ہے، آپ قوم کو سرپرائز دیں، مسلسل ڈلیور کریں، یہی اس قوم کے لیے سب سے بڑی تبدیلی ہوگی پھر قوم بھی آپ کو سرپرائز دے گی اور تبدیلی کے نام پر وہ بھی آپ کو اگلی مدت کے لیے منتخب کرے گی، یہ دکھیاری قوم بڑی ستم رسیدہ ہے 67 برس سے مسلسل ظلم و جبر اور ناانصافی کی چکی میں پس رہی ہے، اسے کسی ہمدرد، کسی مخلص کسی سچے خیرخواہ انقلابی کی ضرورت ہے، آپ نے بھی تو انتخابات میں انقلابی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، قوم نے آپ کو موقع فراہم کیا اب قوم کی نگاہیں آپ میں اسی انقلاب کی متلاشی ہیں، مایوس نہ کیجیے گا ورنہ آپ خود بھی مایوس ہوکر رہ جائیں گے۔ آپ سمیت تمام سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کے پاس اب ڈلیوری کے سوا کوئی چارا نہیں اور ہم سب ہی امید سے ہیں!
Load Next Story