حتمی حل کیا ’رحمانہ قتل‘ ہے…
جب ہٹلرنےناقابل علاج مریضوں کےلیےرحمانہ قتل کااختیار دیا تواس پروگرام کی توسیع کرکےاس میں بڑوں کوبھی شامل کیا جانےلگا۔
ISLAMABAD:
اعصابیاتی امراض (neurological diseases) کو عام الفاظ میں دماغی امراض بھی کہا جاتا ہے اور عصبی یا اعصابی امراض بھی۔ اعصابیاتی کی اصطلاح اصل میں اس لفظ کی انگریزی کے متبادل کے طور پر لی جاتی ہے جو کہ ایسے امراض سے متعلق ہے جو اعصابیات neurology کے دائرے میں آتے ہیں۔
دماغی امراض اور عصبی امراض کی اصطلاحات میں علمی قباحت یہ ہے کہ دماغی امراض کی اصطلاح محض دماغ کی بیماریوں تک محدود ہونے کا گمان پیدا کرتی ہے جب کہ عصبی یا اعصابی امراض اور عصبی امراض کی اصطلاح محض اعصاب تک، اس کے برعکس (neurological diseases) میں مرکزی اور جانبی peripheral اور دونوں نظاموں کے امراض آتے ہیں۔
اعصابیاتی امراض ایسی طبی کیفیات کو کہا جاتا ہے کہ جو اعصابی نظام کی فعلیات میں بنیادی خلل پیدا کریں یا اسے یوں سمجھیں کہ اعصابی نظام کو متاثر کریں، اعصابیاتی امراض اپنی سبیات etiology میں ساختی (یعنی نسیحیاتی، تشریحی یا حیاتیاتی) بھی ہوسکتے ہیں اور یا پھر ان امراض میں بنیادی خلل سالماتی سطح پر بھی ہوسکتا ہے، مزید یہ کہ جماعت بندی امراض کے لحاظ سے یہ پیدائشی (وارثی/ غیر وارثی) بھی ہوسکتے ہیں اور بعد از پیدائش یعنی حصولی (وارثی/ غیر وارثی) بھی۔ پھر اس خلقی اور حصولی امراض کے تحت بنیادی جماعت بندی کے بعد ان امراض کی مزید ذیلی جماعت بندی ان کے اپنے اپنے انفرادی (یا خصوصی) اسباب کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
قارئین یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اعصابیاتی امراض کی اس ثقیل تمہید کے مقاصد کیا ہیں، تو اس سلسلے میں صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ انسان جب اپنے اعمال کو خودساختہ دلائل میں ملبوس کرلیتا ہے تو تاریخ میں اندوہناک سانحات جنم لیتے ہیں، مثال کے طور پر دوسری جنگ عظیم نے قومی مسائل پر بوجھ سمجھے جانے والے ''غیر مطلوبہ افراد'' کو قتل کرنے کے نئے پروگراموں کے لیے ایک بہانہ فراہم کردیا۔
1920 کی دہائی میں چند ڈاکٹروں اور قانون سازوں کی طرف سے پیش کردہ دلائل کو استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے 'رحمانہ قتل' کا لفظ استعمال کرکے قتل کا جواز فراہم کیا اور سیکڑوں سیاسی پناہ کے اداروں کے ڈاکٹروں، بچوں کے ڈاکٹروں اور دماغی امراض کے ڈاکٹروں، فیملی ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھرتی کیا گیا۔ نسلی امتیاز کے اقدامات کی حیثیت سے رحمانہ قتل کو مسترد کرنے والوں نے بھی ''دھرتی کی بہتری کے لیے'' قتل کی حمایت شروع کردی۔
اس کا پہلا نشانہ جرمن شیر خوار اور بڑے بچے تھے، وزرات داخلہ نے تمام دائیوں اور ڈاکٹروں کو ہدایات جاری کردیں کہ سنگین پیدایشی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کا اندراج کیا جائے، تین ماہر ڈاکٹر ہر کیس کا جائزہ لیتے تھے اور عام طور پر بچوں کو دیکھے بغیر ہی قتل کے لیے منتخب کرلیتے تھے، سرکاری اہلکار بچوں کے والدین کو موت کی من گھڑت وجوہات بیان کر دیتے۔ 1939 اور 1945 کے درمیان سرکاری اسپتالوں اور کلینکوں میں قائم کردہ بچوں کے وارڈوں میں پانچ ہزار سے زائد لڑکوں اور لڑکیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اکتوبر 139 میں جب ہٹلر نے ناقابل علاج مریضوں کے لیے رحمانہ قتل کا اختیار دیا تو اس پروگرام کی توسیع کرکے اس میں بڑوں کو بھی شامل کیا جانے لگا۔ آپریشن T-4 کا نام برلن کے مقام ٹیئر گارٹن شٹراسے 4- میں واقع ہونے کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔ جنوری 1940 سے اگست 1941 کے درمیان 70 ہزار افراد کو جرمنی اور آسٹریا میں واقع خصوصی عملے کے ساتھ 6 سہولیات میں سے کسی ایک پر لے جاکر شاور کی طرح لگنے والے گیس چیمبروں میں گیس دے کر ماردیا گیا، جب ان معاملات کی آگاہی عام ہونے لگی تو ہٹلر نے اس پروگرام کو روک دیا، لیکن بتایا یہ جاتا ہے کہ رحمانہ قتل کے دوسرے طریقے اپناتے ہوئے قتل کا سلسلہ جاری رکھا، جس میں زیادہ دوا دے کر یا بھوکے رکھ کر مارے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ مختلف رحمانہ قتل کے پروگراموں میں ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ کے لگ بھگ افراد مارے گئے۔
اسی طرح مقبوضہ پولینڈ میں ہائن رش ہملر کی قیادت میں ایس ایس کے اہلکار حیاتیاتی خطرات سمجھے جانے والے افراد کو دہشت زدہ کر رہے تھے یا ختم کر رہے تھے۔ کچھ حوالہ جات ایسے بھی ملتے ہیں کہ نسلی صفائی کے نتیجے میں یورپ، سوویت یونین میں لاکھوں یہودیوں کو گولی مارکر ہلاک کیا لیکن مردوں عورتوں اور بچوں کو آمنے سامنے گولی ماردینے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے ہائن رش ہملر نے قتل کرنے کے ''زیادہ صاف'' اور ''زیادہ موثر'' طریقے تلاش کرنے شروع کردیے۔
بتایا جاتا ہے کہ تقریباً بیس لاکھ افراد جن کی اکثریت پولش یہودیوں پر مشتمل تھی، قتل کے لیے چیلمنو، سوبی بور، ٹریبلنکا اور بیلز یک جو کہ مقبوضہ پولینڈ کے الگ تھگ کیمپ تھے، جہاں متعین کیا گیا، T-4 کا عملہ گیس کی تنصیبات اور لاشیں جلانے کے لیے بھٹیوں کو چلاتا تھا۔ آش وٹز اور برکینائو میں جرمنی کے مقبوضہ علاقوں سے جلاوطن ہونے والے دس لاکھ سے زائد یہودی ختم کیے گئے۔
بچائو کی صرف ایک صورت رکھی گئی تھی کہ وہ صحت مند ہو کر مشقت کرتے تھے اور عارضی موت سے بچ جایا کرتے، جنگ ختم ہونے کے بعد نازیوں کی نسلی صفائی کی پالیسیوں کو مخلتف طریقوں سے برتنے اور انھیں قانونی قرار دینے میں مدد دینے والے بائیو میڈیکل ماہرین میں سے کسی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی ان سے اپنے اعمال کی وجہ سے کسی بھی قسم کا جواب دہی طلب کی گئی، زیادہ تر اپنے پیشوں پر قائم رہے۔
حالیہ دنیا میں جس طرح جنگیں کی جا رہی ہے اور فرقہ واریت، نسلی عصبیت اور لسانی و نسلی بنیادوں پر انسانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے اس سے بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے ''رحمانہ قتل'' کا مفروضہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
مملکت شام میں حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال، عراق میں فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر امریکی جارحیت کے بعد خانہ جنگی، فلسطین میں یہودیوں کا عیسائیوں سے انتقام لینے کے بجائے معصوم مسلمانوں کا قتل عام اور جبری علاقوں پر قبضہ، افغانستان میں مذہب کے نام پر لاکھوں انسانوں کا قتل، پاکستان میں فرقہ وارانہ، صوبائیت اور لسانی بنیادوں پر انتہا پسندوں کی کارروائیاں، کراچی میں مخصوص مفادات کے لیے غریب معصوم محنت کش انسانوں کی نسل کشی اور متشدد سیاست تو یہی ثابت کر رہی ہے کہ ملک کے حکمرانوں، سیاستدانوں، سیاسی اور کالعدم مذہبی جماعتوں کے کارکنان اور قوم پرست یا لسانی جماعتوں کے عسکری ونگ کے رہنما ہوں یا کارکنان، سب اعصابی امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اپنی اسی بیماری کی وجہ سے وہ رحمانہ قتل کی پالیسی پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔
انھیں اس بات سے سروکار نہیں ہے کہ ان کے اعمال ظاہرہ سے مستقبل کے معماروں پر کیا اثرات رونما ہو رہے ہیں، عدم برداشت کی سیاست اور دشنامی نے عوام میں ایک ہیجان خیزی پیدا کردی ہے، قانون کے موثر انداز میں اثر پذیر نہ ہونے کے سبب پکڑے جانے ملزموں کو عوام موقع پر ہی اتنا تشدد کرکے قتل کردیتے ہیں کہ بعض اوقات تشدد کرنے والے کو بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا معالج یا قانون دان یا مذہبی شخصیت، اسی ذہنی خلفشار کا شکار ہو کر رحمانہ قتل کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر آپ کے بچوں کو لمبے عرصے تک ڈرائونے خواب آتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ وہ زندگی میں دماغی امراض کا باعث بن سکتا ہے۔ رات کے وقت دہشت ناک خواب یا خیالات کے دوران بچوں کو تھوڑی دیر کے لیے جگانے سے اس سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے، لیکن رحمانہ قتل کا علاج تو ان ارباب اختیار کے پاس ہے جنھیں خود ضرورت ہے؟
اعصابیاتی امراض (neurological diseases) کو عام الفاظ میں دماغی امراض بھی کہا جاتا ہے اور عصبی یا اعصابی امراض بھی۔ اعصابیاتی کی اصطلاح اصل میں اس لفظ کی انگریزی کے متبادل کے طور پر لی جاتی ہے جو کہ ایسے امراض سے متعلق ہے جو اعصابیات neurology کے دائرے میں آتے ہیں۔
دماغی امراض اور عصبی امراض کی اصطلاحات میں علمی قباحت یہ ہے کہ دماغی امراض کی اصطلاح محض دماغ کی بیماریوں تک محدود ہونے کا گمان پیدا کرتی ہے جب کہ عصبی یا اعصابی امراض اور عصبی امراض کی اصطلاح محض اعصاب تک، اس کے برعکس (neurological diseases) میں مرکزی اور جانبی peripheral اور دونوں نظاموں کے امراض آتے ہیں۔
اعصابیاتی امراض ایسی طبی کیفیات کو کہا جاتا ہے کہ جو اعصابی نظام کی فعلیات میں بنیادی خلل پیدا کریں یا اسے یوں سمجھیں کہ اعصابی نظام کو متاثر کریں، اعصابیاتی امراض اپنی سبیات etiology میں ساختی (یعنی نسیحیاتی، تشریحی یا حیاتیاتی) بھی ہوسکتے ہیں اور یا پھر ان امراض میں بنیادی خلل سالماتی سطح پر بھی ہوسکتا ہے، مزید یہ کہ جماعت بندی امراض کے لحاظ سے یہ پیدائشی (وارثی/ غیر وارثی) بھی ہوسکتے ہیں اور بعد از پیدائش یعنی حصولی (وارثی/ غیر وارثی) بھی۔ پھر اس خلقی اور حصولی امراض کے تحت بنیادی جماعت بندی کے بعد ان امراض کی مزید ذیلی جماعت بندی ان کے اپنے اپنے انفرادی (یا خصوصی) اسباب کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
قارئین یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اعصابیاتی امراض کی اس ثقیل تمہید کے مقاصد کیا ہیں، تو اس سلسلے میں صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ انسان جب اپنے اعمال کو خودساختہ دلائل میں ملبوس کرلیتا ہے تو تاریخ میں اندوہناک سانحات جنم لیتے ہیں، مثال کے طور پر دوسری جنگ عظیم نے قومی مسائل پر بوجھ سمجھے جانے والے ''غیر مطلوبہ افراد'' کو قتل کرنے کے نئے پروگراموں کے لیے ایک بہانہ فراہم کردیا۔
1920 کی دہائی میں چند ڈاکٹروں اور قانون سازوں کی طرف سے پیش کردہ دلائل کو استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے 'رحمانہ قتل' کا لفظ استعمال کرکے قتل کا جواز فراہم کیا اور سیکڑوں سیاسی پناہ کے اداروں کے ڈاکٹروں، بچوں کے ڈاکٹروں اور دماغی امراض کے ڈاکٹروں، فیملی ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھرتی کیا گیا۔ نسلی امتیاز کے اقدامات کی حیثیت سے رحمانہ قتل کو مسترد کرنے والوں نے بھی ''دھرتی کی بہتری کے لیے'' قتل کی حمایت شروع کردی۔
اس کا پہلا نشانہ جرمن شیر خوار اور بڑے بچے تھے، وزرات داخلہ نے تمام دائیوں اور ڈاکٹروں کو ہدایات جاری کردیں کہ سنگین پیدایشی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کا اندراج کیا جائے، تین ماہر ڈاکٹر ہر کیس کا جائزہ لیتے تھے اور عام طور پر بچوں کو دیکھے بغیر ہی قتل کے لیے منتخب کرلیتے تھے، سرکاری اہلکار بچوں کے والدین کو موت کی من گھڑت وجوہات بیان کر دیتے۔ 1939 اور 1945 کے درمیان سرکاری اسپتالوں اور کلینکوں میں قائم کردہ بچوں کے وارڈوں میں پانچ ہزار سے زائد لڑکوں اور لڑکیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اکتوبر 139 میں جب ہٹلر نے ناقابل علاج مریضوں کے لیے رحمانہ قتل کا اختیار دیا تو اس پروگرام کی توسیع کرکے اس میں بڑوں کو بھی شامل کیا جانے لگا۔ آپریشن T-4 کا نام برلن کے مقام ٹیئر گارٹن شٹراسے 4- میں واقع ہونے کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔ جنوری 1940 سے اگست 1941 کے درمیان 70 ہزار افراد کو جرمنی اور آسٹریا میں واقع خصوصی عملے کے ساتھ 6 سہولیات میں سے کسی ایک پر لے جاکر شاور کی طرح لگنے والے گیس چیمبروں میں گیس دے کر ماردیا گیا، جب ان معاملات کی آگاہی عام ہونے لگی تو ہٹلر نے اس پروگرام کو روک دیا، لیکن بتایا یہ جاتا ہے کہ رحمانہ قتل کے دوسرے طریقے اپناتے ہوئے قتل کا سلسلہ جاری رکھا، جس میں زیادہ دوا دے کر یا بھوکے رکھ کر مارے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ مختلف رحمانہ قتل کے پروگراموں میں ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ کے لگ بھگ افراد مارے گئے۔
اسی طرح مقبوضہ پولینڈ میں ہائن رش ہملر کی قیادت میں ایس ایس کے اہلکار حیاتیاتی خطرات سمجھے جانے والے افراد کو دہشت زدہ کر رہے تھے یا ختم کر رہے تھے۔ کچھ حوالہ جات ایسے بھی ملتے ہیں کہ نسلی صفائی کے نتیجے میں یورپ، سوویت یونین میں لاکھوں یہودیوں کو گولی مارکر ہلاک کیا لیکن مردوں عورتوں اور بچوں کو آمنے سامنے گولی ماردینے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے ہائن رش ہملر نے قتل کرنے کے ''زیادہ صاف'' اور ''زیادہ موثر'' طریقے تلاش کرنے شروع کردیے۔
بتایا جاتا ہے کہ تقریباً بیس لاکھ افراد جن کی اکثریت پولش یہودیوں پر مشتمل تھی، قتل کے لیے چیلمنو، سوبی بور، ٹریبلنکا اور بیلز یک جو کہ مقبوضہ پولینڈ کے الگ تھگ کیمپ تھے، جہاں متعین کیا گیا، T-4 کا عملہ گیس کی تنصیبات اور لاشیں جلانے کے لیے بھٹیوں کو چلاتا تھا۔ آش وٹز اور برکینائو میں جرمنی کے مقبوضہ علاقوں سے جلاوطن ہونے والے دس لاکھ سے زائد یہودی ختم کیے گئے۔
بچائو کی صرف ایک صورت رکھی گئی تھی کہ وہ صحت مند ہو کر مشقت کرتے تھے اور عارضی موت سے بچ جایا کرتے، جنگ ختم ہونے کے بعد نازیوں کی نسلی صفائی کی پالیسیوں کو مخلتف طریقوں سے برتنے اور انھیں قانونی قرار دینے میں مدد دینے والے بائیو میڈیکل ماہرین میں سے کسی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی ان سے اپنے اعمال کی وجہ سے کسی بھی قسم کا جواب دہی طلب کی گئی، زیادہ تر اپنے پیشوں پر قائم رہے۔
حالیہ دنیا میں جس طرح جنگیں کی جا رہی ہے اور فرقہ واریت، نسلی عصبیت اور لسانی و نسلی بنیادوں پر انسانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے اس سے بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے ''رحمانہ قتل'' کا مفروضہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
مملکت شام میں حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال، عراق میں فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر امریکی جارحیت کے بعد خانہ جنگی، فلسطین میں یہودیوں کا عیسائیوں سے انتقام لینے کے بجائے معصوم مسلمانوں کا قتل عام اور جبری علاقوں پر قبضہ، افغانستان میں مذہب کے نام پر لاکھوں انسانوں کا قتل، پاکستان میں فرقہ وارانہ، صوبائیت اور لسانی بنیادوں پر انتہا پسندوں کی کارروائیاں، کراچی میں مخصوص مفادات کے لیے غریب معصوم محنت کش انسانوں کی نسل کشی اور متشدد سیاست تو یہی ثابت کر رہی ہے کہ ملک کے حکمرانوں، سیاستدانوں، سیاسی اور کالعدم مذہبی جماعتوں کے کارکنان اور قوم پرست یا لسانی جماعتوں کے عسکری ونگ کے رہنما ہوں یا کارکنان، سب اعصابی امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اپنی اسی بیماری کی وجہ سے وہ رحمانہ قتل کی پالیسی پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔
انھیں اس بات سے سروکار نہیں ہے کہ ان کے اعمال ظاہرہ سے مستقبل کے معماروں پر کیا اثرات رونما ہو رہے ہیں، عدم برداشت کی سیاست اور دشنامی نے عوام میں ایک ہیجان خیزی پیدا کردی ہے، قانون کے موثر انداز میں اثر پذیر نہ ہونے کے سبب پکڑے جانے ملزموں کو عوام موقع پر ہی اتنا تشدد کرکے قتل کردیتے ہیں کہ بعض اوقات تشدد کرنے والے کو بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا معالج یا قانون دان یا مذہبی شخصیت، اسی ذہنی خلفشار کا شکار ہو کر رحمانہ قتل کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر آپ کے بچوں کو لمبے عرصے تک ڈرائونے خواب آتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ وہ زندگی میں دماغی امراض کا باعث بن سکتا ہے۔ رات کے وقت دہشت ناک خواب یا خیالات کے دوران بچوں کو تھوڑی دیر کے لیے جگانے سے اس سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے، لیکن رحمانہ قتل کا علاج تو ان ارباب اختیار کے پاس ہے جنھیں خود ضرورت ہے؟