پاکستان ایک نظر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی قدر کیجیے

لیڈی ہیلتھ ورکرزکی سہولیات اورتنخوائیں اس حد تک رکھی جانی چاہیے جس سے ہر کسی کی خواہش ہوکہ وہ بھی اس پیشے سے منسلک ہو۔

میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر حکومت لیڈی ہیلتھ ورکرز کی سیکورٹی پر بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات کرے تو وہ اچھے دن بھی دور نہیں جب ہم پولیو سے پاک ہوجائیں۔ فوٹو: فائل

ویسے تو ہمارے ملک میں لاکھوں مسائل ہیں جن کی جانب حکمرانوں نے کبھی توجہ نہیں دی۔اس وقت تو حکمران عوامی مسائل سے ہٹ کر اپنے سیاسی کھیل میں خوب مصروف دکھائی دیتے ہیں۔کچھ عوامی مسائل اس نوعیت کے ہوتے ہیں جن پر عوام کبھی کبھار صبر کر کہ انتظار کرتی ہےلیکن دوسری جانب کچھ ایسے طبقے بھی ہوتے ہیں جن کے مسائل بروقت نہ سنے جائے تو پھر وہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔

میں ذاتی طور پر خود جب ان مسائل کی جانب دیکھتا ہوں تو مجھے وہ طبقہ یاد آ جاتا ہےجو کم وسائل،کم تنخواہ پر زیادہ محنت کرنے پر مجبور ہیں۔ میں آج حکمرانوں اورپوری قوم کی توجہ ایک ایسے پیشےاور اس سے منسلک افراد کی جانب کروا رہا ہوں جن کے بارے میں ہم کم ہی سوچتے ہیں۔ یہ پیشہ ایسا ہے جو ہمیں ہمارے خاندان کو گھر کے دروازے پر صحت کی ہدایات اور علاج فراہم کرتا ہے۔جی ہاں،یہ کوئی اور نہیں بلکہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا مسئلہ ہے۔جو جان ہتھیلی میں رکھتے ہوئے مشکل حالات،وسائل کی عدم موجودگی اور کم تنخواہ کے باوجود ملک اور قوم کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔

میرا سوال تو یہ ہے کہ جہاں جس ملک میں ایک ایم پی اے،ایم این اے کی حفاظت کے لئے گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہو سکتی ہیں تو پھر ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کو سیکورٹی سے مناسب سہولت کیوں نہیں فراہم کی جاسکتی؟۔اگرچہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو سیکورٹی کی فراہمی اول دن سے ہی ضروری ہے مگر اب اِس کی ضرورت گزشتہ دنوں ہونے والے افسوسناک واقعہ کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہے کہ جب کوئٹہ میں 4 لیڈی ہیلتھ ورکرز موت کے منہ میں چلی گئیں اور متعدد زخمی ہوئیں۔ یہ قوم کی بیٹیاں ہیں جنہوں نے قوم کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جانیں پیش کیں۔


افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہاں بات محض سکیورٹی کی فراہمی پر ختم نہیں ہوتی کہ حکمرانوں کی لاپروائی اور عدم دلچسپی کی یہ انتہاہ ہے کہ ملک میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو نہ تو مستقل کیا گیا اور نہ ہی ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا۔اس کا مطلب تو یہ ہی ہوا کہ حکمران ان کی خدمات سے نہ صرف بے خبر ہیں بلکہ ملک سے پولیو جیسے وائرس سمیت دوسری بیماریوں کے خاتمے کے لئے بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ یہ کسی ایک صوبے کی بات نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام صوبوں میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ یہہی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔

میرے مطابق ہونا تو یہ چائیےتھا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرزکی سہولیات اورتنخوائیں اس حد تک رکھی جانی چاہیے جس سے ہر کسی کی خواہش ہوکہ وہ بھی اس پیشے سے منسلک ہو۔ لیکن افسوس کہ سکیورٹی کے فقدان، سہولیات کی عدم موجودگی نے اس پیشے سے منسلک ہونے والی خواتین کو ایک خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔حکمرانوں سے میرا سوال یہ بھی ہے کہ اگر لیڈی ہیلتھ ورکرز جو پولیو کے خاتمے جیسی بڑی مہم میں سرگرم ہیں اگر ان کو تحفظ نہیں فراہم کیا جائے گاتو پھر ہم یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ وہ مستقبل میں اِس مقدس پیشے سے منسلک رہیں گی اور اگر خدانخواستہ اِس ملک کے لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ اُٹھا لیا تو پھر ہم کس طرح اِس قدر چیلنجز سے نبردآزما ہوسکیں گے؟ اور پاکستان جس پر دنیا میں پولیو کے پھیلاو کا الزام عائد کیا جاچکا ہے ،کیا اِس قدر ناقص انتظامات اور قدامات کی موجودگی میں ملک میں سے پولیو ختم ہو سکے گا؟۔

یہ سب وہ سوالات ہیں جو پاکستانی قوم اپنے حکمرانوں سے پوچھ رہی ہے۔یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے بنیادی حقوق کا سوال ہے۔میری حکومت سے گزارش ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی سیکورٹی سمیت ان کو تمام سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ بغیرکسی خوف کہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر سکیں۔ اگر خدمت کرنے والوں کو اپنے ہی ملک میں تحفظ نہ فراہم کیا گیا تو یہ ہمارے لئے عالمی سطح پر بھی بدنامی کا باعث بن سکتا ہے۔میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر حکومت لیڈی ہیلتھ ورکرز کی سیکورٹی پر بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات کرے تو وہ اچھے دن بھی دور نہیں جب ہم پولیو سے پاک ملک قرار پائیں ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story